working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

بنیاد پرستی کا چیلنج اور ہمارا ردّ عمل
قاضی جاوید
قاضی جاوید پاکستانی دانشوروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو صورت حال کا تجزیہ نہایت دیانت دارانہ طور پر اور حقیقت پسندی کے ساتھ کرتی ہے … وہ انگریزی، اردو اور پنجابی زبانوں میں بیک وقت تصوّف، فلسفہ، سیاسی اور سماجی پہلوئوں پر لکھتے رہتے ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے پاکستانی قوم کو درپیش بنیاد پرستی کے چیلنج کو موضوع بنایا ہے اور اس کا تاریخی تناظرمیں ترتیب وار جائزہ لیتے ہوئے دور موجود کے مشکل پڑائو تک پہنچے ہیں۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ آج ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ جانتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی کے اوائل کی دنیا کے سب سے خطرناک سماج میں رہتے ہیں اور یہ وہ سماج ہے جس میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو اور اسفند یار ولی جیسے مقبول سیاسی رہنماہوں یا بے چہرہ مزدور اور کسان۔ (مدیر)

یہ 2002ء کا قصہ ہے کہ جب واشنگٹن پوسٹ کے ادارتی صفحات پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان اس زمانے میں دنیا کا سب سے خطرناک ملک بن گیا ہے۔ یہ مضمون جم ہاگ لینڈ نے لکھا تھا جو اس با اثر امریکی اخبار میں بین الاقوامی امور پر عموماً لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ''پاکستان وہ ملک ہے جہاں وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ،مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور زندگی کو فنا کرنے والی ہیروئن پوری دنیا میں پھیلائی جارہی ہے''۔

یہ الفاظ سات سال پہلے لکھے گئے تھے۔ ہم پاکستانی جب پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں تو تکلیف دِہ آج کے مقابلے میں وہ زمانہ ہم کو کہیں زیادہ خوشگوار دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ گزشتہ چھ سات برسوں میں ہمارے ملک اور سماج کی حالت پہلے سے کہیں ابتر ہوچکی ہے۔ جم ہاگ لینڈ غالباً یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان عالمی امن و استحکام کے لئے خطرناک ملک ہے۔ لیکن آج ہم اپنے تجربے کی بناء پر یہ جانتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی کے اوائل کی دنیا کے سب سے خطرناک سماج میںرہتے ہیں اور یہ وہ سماج ہے کہ جس میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ بینظیر بھٹو اور اسفند یار ولی جیسے مقبول سیاسی رہنماہوں یا بے چہرہ مزدور اور کسان، ان میں سے کوئی بھی کسی وقت انجانے اور کبھی قابو میں نہ آنے والے دشمنوں کی زد میں آسکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں سے عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ملک کے درجنوں شہروں اور سینکڑوں قصبوں میںکوئی مسجد نہیںجہاں مسلح پہرے داروں کی موجودگی کے بغیر نماز ادا کی جاتی ہو۔ مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہیں اس سے بھی زیادہ غیر محفوظ بنا دی گئی ہیں۔

کیا چھ یا آٹھ دس سال بعد حالات بہتر ہو جائیں گے؟ کیا مستقبل قریب میں ہم امن، اعتماد اور وقار کے ساتھ زندگی کے دن گزار سکیں گے؟
ہم سب چاہتے تو یہی ہیں لیکن ہم میں سے کسی کے پاس اس خواہش کی تکمیل کی امید نہیںہے۔

یہ آگ کہاں سے آئی ہے جو تہذیب و تمدن شائستگی اور انسانیت کو راکھ کر دینے کے در پے ہے؟ یہ لوگ کون ہیں جو ہنستے کھیلتے بچوں کو معصوم عورتوں اور بے گناہ مردوں کو موت کی نیند سلا دینا چاہتے ہیں؟ وہ کیوں ہر اس شے کو روند دینا چاہتے ہیں جو قابل قدر ہے؟ وہ کہاں سے آئے ہیں جن کو دوسروں کی جان لینے کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں؟ موت ان کو زندگی سے زیادہ عزیز کیوں ہے؟ وہ زندگی کے دشمن کیوں ہیں؟

یہ ہمارے عہد کے بنیادی سوال ہیں۔ ہم چاہیں تو بھی ان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سب نے ان سوالات پر غور کیا ہوگا۔ بہت کچھ سوچا اور پڑھا ہوگا اور جواب تلاش کیے ہوں گے مجھ کو یہ دعویٰ نہیں کہ میں ان موضوعات پر آپ سے زیادہ جانتا ہوں یا یہ کہ میں نے آپ سے بہتر جواب تلاش کررکھے ہیں، نہیں یہ بات نہیں۔ البتہ میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ان موضوعات سے متعلقہ مواد آپ کی خدمت میں پیش کروں اور مکالمے کے لئے بنیاد بناؤں۔

یہ بات شاید طے شدہ ہے کہ دہشت گردی کے جس عفریت کا ہم مقابلہ کررہے ہیں وہ مذہبی انتہا پسندی سے پیدا ہوا ہے۔ آج کے میڈیا اور علمی زبان میں اس کو بنیاد پرستی کا عنوان بھی دیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ مین میخ نکالنے کی محیرالعقول اہلیت رکھنے والا کوئی تجزیہ کار ان دونوں میں فرق ڈھونڈ لائے۔تاہم ابھی تک یہ دونوں اصطلاحیں ایک ہی نظیر کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ تاہم آج کی گفتگو کے دوران میں ان میں سے بنیاد پرستی کی اصطلاح کو ترجیح دوں گا کہ اس کا رواج زیادہ ہے۔

خیر یہ اصطلاح ہم کو فوراً ہی ایک چکرا دینے والے کنفیوژن سے دو چار کردیتی ہے۔یعنی فطری طورپر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بنیاد پرستوں سے مراد وہ نیک، پارسا اور عبادت گزار لوگ ہیں جو اپنے اپنے مذہب میں ایمان کامل رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی اصولوں اور تقاضوں پر دل و جان سے کار بند رہتے ہیں اور جن کے نزدیک مذہب زندگی کی سب سے حسین نعمت ہے؟

جی ہاں! آپ بنیاد پرستی کے لفظی معنی لیں تو اس سے مراد یہی لوگ ہوں گے مگر تہذیب و تمدّن کی تاریخ پر نظر رکھنے اور گرد و پیش کی دنیا کا بغور مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ چاہے ان کا تعلق کسی مذہب یا نظام عقائدسے ہو وہ دھرتی کا حسن ہیں اور ان خوبیوں اور قدروں کی تجسیم ہیں جو ہم سب کو عزیز ہیں۔ لہٰذا تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے نیک خصلت اور انسانیت سے محبت کرنے والے افراد بھی اپنا شمار بنیاد پرستوں میں کرتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ اپنے مذہب کے بنیادی عقیدوں اور تقاضوں سے وابستگی اگر بنیاد پرستی ہے تو وہ سب سے پہلے بنیاد پرست ہیں۔

یہ ایک سنگین مغالطہ ہے یہ مغالطہ ایک اصطلاح کو لفظی معنوں میں استعمال کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی کے لفظی معنی تو یہی ہیں یعنی اپنے عقیدوں سے مکمل لگاؤ۔ لیکن آج کی دنیا میں اس اصطلاح سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے مذہبی عزائم میں معقولیت کی حد سے آگے نکل جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے عقائد دنیا میں سب سے زیادہ معقول اور سچےّ ہیں ۔لہٰذا انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر دنیا پر ان عقائدکی بالادستی قائم کرنا لازم ہے۔ یہاں سے وہ ایک قدم اور آگے جاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ صرف وہ حق پر ہیں لہٰذا دوسروں کو ان کی پیروی کرنا ہوگی اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ان کو بے راہ روی کی سزا بھگتنی ہوگی۔ ان کوطاقت کے استعمال کے ذریعے سیدھی راہ پر لایا جائے گاگویا، اصطلاحی حوالے سے بنیاد پرستی سے مراد اپنے عقائد و اقدار کو جارحانہ انداز میں دوسروں پر ٹھونسنا ہے۔

بنیاد پرستی کی ضد ، اعتدال پسندی یا میانہ روی ہے۔ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں ہمیشہ استادِ اوّل کا مقام رکھنے والے یونانی فلسفی ارسطو نے اڑھائی ہزار سال پہلے اس کوسنہری راستہ، کا نام دیا تھا۔ وہ وثوق کے ساتھ کہتا تھا کہ درمیانی راہ بہترین ہوتی ہے اور اعتدال کا دامن تھام کر چلنے والے لوگ بہترین لوگ ہوتے ہیں۔

خوش قسمتی سے اعتدال پسندی کو مذاہب عالم کی تائید حاصل رہی ہے۔ وہ اس کی تعلیم دیتے ہیں۔یہاں اسلام کی مثال دوں گا جس نے بین المذاہبی معاملات میں بنیادی اور رہنما اصول،قرآن حکیم کے الفاظ میں، یہ دیا ہے کہ دین میں کوئی جبرنہیں یہ بھی ایک آیت کا لفظی ترجمہ ہے ''ہم کو ہمارا اور دوسروں کو ان کا دین مبارک ہو''۔

یہ گویا بین المذاہبی امور میں تشدّد اور جارحیت سے دست برداری کا اعلان ہے۔ اس لیے اسلامی روایات مسلمانوں کو دوسروں کی مقدس شخصیات اور دیوی دیوتاؤں کی توہین کی اجازت نہیںدیتیں۔ میںآپ سے گزارش کروں گا کہ یہ اعتدال پسندی محض دینی معاملات تک محدود نہیں بلکہ اس کو زندگی کے بنیادی اصول کا درجہ دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کو تیز رفتاری سے چلنے اور اونچی آواز میںبولنے سے منع کیا گیا ہے۔ خوشی کے موقع پر زور سے قہقہے لگانے اور غمی پر چیخنے چلّانے اور واویلا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کھانے پینے میں اعتدال کی تلقین کی گئی ہے اور یہاں تک کہ عبادت گزاری میں بھی حد سے آگے نکلنے کو پسند نہیں کیا گیا۔

اعتدال پسندی کی ان واضح تعلیمات کے باوجود آج کی دنیا میں جارحانہ بنیاد پرستی سے مراد اصل میںمسلم بنیاد پرستی ہی ہے، تو پوچھنا ہوگا کہ اس کے اسباب کیا ہیں۔

میں مسلم بنیاد پرستی کے اسباب کی تلاش کا آغاز اس بات سے کرنا چاہتا ہوں جس پر اکثر تجزیہ کاروں کو اتفاق ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ یہ بنیاد پرستی ایک پیچیدہ مظہر ہے اور اس کے پس پردہ بہت سے سیاسی، سماجی، تاریخی، مذہبی معاشی اور تہذیبی عوامل کار فرما ہیں۔ تاہم آج کی گفتگو کے لئے میں ان میںسے بنیادی اسباب کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔ ایک طرف وہ اسباب ہیں جو مسلم بنیاد پرستی سے ہمدردی رکھنے والوں کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں جب کہ دوسری فہرست میں وہ اسباب شامل ہیں جن کی نشاندہی اس کے مخالفین کی طرف سے کی جاتی ہے۔ تاہم میںیہ بات واضح کروں کہ اصل میں ان دونوں قسم کے اسباب کے بیان میں معقول حد سے زیادہ مبالغہ آرائی شامل ہوتی ہے اور مغالطہ آمیزی بھی۔ دونوں فریقوں سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار غیر جانب داری کا عموماً وہ معیار قائم نہیں رکھ سکتے جو کسی سماجی مظہر کا بے لاگ فہم حاصل کرنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔

آگے چلنے سے پہلے آئیے میں آپ کی خدمت میں ایک مثال پیش کرتا چلوں۔ ایلن بی کروگر صاحب کو لیجئے۔ وہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے امور کے ماہر مانے جاتے ہیں اور علمی دنیا میں ایک خاص مقام رکھنے والی امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ ابھی چندماہ پہلے ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے کتاب کا عنوان"WHAT Makes a Terrorist: Economics and the roots to Terrorism" ہے۔ اس دقیع تصنیف میں کروگر صاحب نے ایک بنیادی دعویٰ یہ کیا ہے کہ نوّے فیصد خود کش حملوں میں حملہ آور اور اس کا نشانہ بننے والے افراد کا تعلق مختلف مذاہب سے ہوتا ہے۔

اب آپ اس دعویٰ کی روشنی میں گزشتہ دو سال تین یا پانچ سال کے واقعات ذہن میں لائیں تو اور ہی صورت حال آپ کے سامنے آئے گی اور آپ دیکھیں گے کہ حقیقت اس پروفیسر صاحب کے دعویٰ کے قطعی برعکس ہے یعنی لگ بھگ پچانوے فیصد خود کش حملہ آوروں کی زد میں ان کے ہم مذہب ہی آئے ہیں۔ گویا قاتل بھی مسلمان ہیں اور مقتول بھی۔

میں یہ نہ کہوں گا کہ پرنسٹن یونیورسٹی کے اس معزّز استاد نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا ہے۔ ایسا واقعی نہیں ہے۔بات ادراک اور نقطہ نظر کی ہے جب کوئی پہلے سے طے شدہ نظریات کی عینک سے حقائق کو دیکھتا ہے تو اس کو وہی کچھ دکھائی دیتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے اردو کے شاعروں کے متعلق میری رائے کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ لیکن اٹھارھویں صدی کے شاعر میر تقی میر نے اس حقیقت کو کیا خوب بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں:

یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یہاں وہی ہے جو اعتبار کیا

آیئے ہم ایلن بی کروگر صاحب سے رخصت لیتے ہیں اور دو چار منٹ ان سیانوں کی مجلس میں رکتے ہیں۔ جو مسلم بنیاد پرستی سے ہمدردی رکھتے ہیں۔یہ صاحبان دہشت گردی کی کھلی تائید تک تو نہیںجاتے البتہ یہ خیال کرتے ہیںکہ اس انتہا پسند روےّے کا جواز موجود ہے۔

ہمدردانہ استدلال کی اساس چند افسوس ناک حقائق پر ہے۔ معاصر دنیا پر نگاہ ڈالیے۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں جہاں کہیں غربت، جہالت، بیماری اور تہذیبی پسماندگی ہے جہاں کہیں سماجی اور سیاسی بے چینی ہے اور جہاں کہیں خون بہہ رہا ہے وہ مسلم دنیا کا حصہ ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے وہ عالمی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں اور اس کرّۂ ارض کے لگ بھگ پانچویں حصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مسلم اکثریت کے ملکوں کی تعداد دس پندرہ یا بیس پچیس نہیں بلکہ ٥٧ ہے۔ ان میں سے کئی ممالک کا ماضی شانداررہا ہے اور انہوں نے تہذیب و تمدن کے ارتقا میں کچھ نہ کچھ حصہ لیا ہے۔ ان ملکوں کے پاس جن کو بنیاد پرست ایک ہی قوم یا امت کے علاقے خیال کرتے ہیں توانائی کے عالمی ذخائر کا تین چوتھائی حصہ ہے اور خام مال کا تناسب بھی خاصا اونچا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق خام مال کا چالیس فی صد حصہ مسلم دنیا میں پایا جاتا ہے۔

ان حقائق کے باوجودمسلم دنیا کی ایسی اکائی ، ایسا ملک، تلاش کرنا دشوار ہے جو خوشگوار اور امید افزاء صورت حال پیش کرتا ہو ان تمام ملکوں کی مجموعی سالانہ پیداوار عالمی پیداوار کا صرف بیسواں حصہ ہے۔ ان میںخواندگی کی شرح دنیامیں سب سے کم ہے اور غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہ سب ملک دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کے مہرے ہیں ان کی جنگیں لڑتے ہیں، اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں دوسروں کے مفادات کو سامنے رکھ کر بناتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جدید دنیا میں مسلم آبادی بد حالی اور پسماندگی اور انسانی بد قسمتی کا درد ناک نمونہ ہے۔ فلسطین، کشمیر، بوسنیا، عراق اور افغانستان ان کی بے بسی کی تصویریں ہیں۔ اب ان کے عقائد اور مقدس شخصیات کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ہر آفت کا الزام ان کو دیا جاتا ہے۔

یہ صورت حال مسلمانوں میں غم و غصہ کا باعث بنی ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ وہ دنیا میں باعزت مقام چاہتے ہیں اور بہت آگے نکل جانے والی دنیاکا مقابلہ کرنے کی سکت سے محرومی کا احساس ان کو اپنا سر ٹکرانے کی حد تک لے جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ کھلے تصادم پر آمادہ ہو گئے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو طیش آمیز بے بسی کے عالم میں اپنے سمیت سب کچھ برباد کر دینا چاہتے ہیں۔

کیا اس بدبختی کے لیے مسلمان خود ذمہ دار نہیں ہیں؟
جی ہاں! وہ پیچھے رہ گئے ہیں تو اس کے اسباب ان کی گزشتہ پانچ چھ سو سال کی تاریخ میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ وہ خود ہی اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں لیکن پچھلی تین صدیوں کے دوران عالمی تاریخ میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی نئی قوتوں کے کردار کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ دشواری نہیں آتی کہ مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے میں ان قوتوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کی مثال بہت واضح ہے۔ اس کی تخلیق اس کی ساٹھ سالہ جارحانہ پالیسیاں اور ان پالیسیوں کو حاصل رہنے والی مغربی تائید مسلمانوں میں جارحانہ روےّوں کی نشوونما میں بنیادی فیکٹر ہے۔ مگر اہل مغرب اس کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ اس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں یہاں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امریکی کانگریس نے 11 ستمبر کے واقعات کی چھان بین اور آئندہ اس قسم کے سانحات سے بچنے کے طریقوں کا تعین کرنے کے لیے جو کمیشن بنایا تھا اس نے 43 تجاویز/ سفارشات کا نگریس کو پیش کی تھیں۔ ان میں کہیں بھی فلسطین کے مسئلے کے منصفانہ حل میں مدد دینے کا اشارہ موجود نہیں۔

خیر، صدیوں سے مسلم دانشوروں کی روش یہ رہی ہے کہ وہ اپنی صورت حال کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور دوسروں کی سازشوں اور ارادوں کا ذکر زیادہ کرتے ہیں۔ یوں انہوں نے بے کسی کی ثقافت کو فروغ دے رکھا ہے۔ ان کے لاشعور میں ایک ایسا جہانی تصور موجود ہے جس کے مطابق غیر مسلم قوتیں ہمیشہ ان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی ہیں اور ان میں سے بعض کو ساتھ ملا کر اپنی سازشوں میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔

مسلم تاریخ میں کوئی قابل ذکر واقعہ ایسا نہیں جس کی تعبیر اس حوالے سے نہ کی گئی ہو۔ مگر یہ رویہ منفی ہے اور نقصان دہ بھی ہے۔ کیونکہ اپنی ناکامیوں اور خامیوں کی ذمہ داری دوسروں کے کندھوں پر ڈال کر وہ اپنے فرائض سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اپنی بدنصیبیوں کے لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے ان کے دل و دماغ میں دوسروں کے لیے غصہ اور خوف بڑھتا رہتا ہے۔ یوں کشیدگی کی ایک فضا مسلسل قائم رہتی ہے اگر مسلم دانشور، رہنما اور عام لوگ بھی یہ سوال اٹھانے کی بجائے کہ ''ہم کو موجودہ حالت تک کس نے پہنچایا ہے؟'' یہ پوچھنے لگیں کہ ''ہم سے کہاں اور کون کون سی غلطیاں ہوئی ہیں'' تو پھر وہ اصلاح احوال پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔

اصلاح احوال کا تصور مسلم ذہن میں ہمیشہ احیا پسندی سے منسلک رہا ہے۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مادی، تہذیبی، سیاسی، معاشی اور دیگر مسائل کا حل ابتدائی زمانے کے مسلم سماج کی تشکیل نو میں مضمر ہے۔ اس زاویہ نظر کی ترجمانی مولانا شبلی نے بہت موثر انداز میں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دیگر اقوام کے لیے ترقی کا مطلب پیش قدمی کرنا اور آگے ہی آگے بڑھتے جانا ہے۔ مگر مسلمانوں کے لیے ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے چلنے لگیں اور اس وقت تک پیچھے ہٹتے جائیں جب تک وہ اپنی تاریخ کے ابتدائی زمانوں تک نہیں پہنچ جاتے۔

پیچھے ہٹنے کی اس روش کے نتیجے میں اٹھارھویں صدی کے بعد سے مسلم دنیا میں احیائی تحریکیں زیادہ مضبوط ہونے لگی ہیں۔ اقبال جعفر صاحب نے اس کا سبب تلاش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ احیا پسندوں کو یہ یقین رہا ہے کہ وہ جس زمانے کو سنہری ماضی سمجھتے ہیں، اس کی طرف رجعت سے مسلمانوں کے ماضی کی شان و شوکت بھی لوٹ آئے گی۔ اس شان و شوکت سے ان کی مراد دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی بالادستی، فوجی برتری اور اقتصادی خوش حالی تھی جو مغل زوال تک حاصل رہی تھی۔ ماضی کے ان سنہرے ایام کے پلٹ آنے کی توقع نے احیائی تحریکوں اورنظریوں کی کشش بہت زیادہ بڑھا دی۔

یہ خیالات انیسویں صدی میں خاص طور پر مقبول ہوئے۔ اس زمانے میں مسلم اقوام سیاسی اقتدار سے محروم ہو چکی تھیں اور پورپی نو آبادیاتی طاقتیں دنیا پر تسلط پا چکی تھیں۔ یورپ کے ساتھ مسلمانوں کی رقابت صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔ اس بات نے یورپی غلبہ کے خلاف غم و غصہ میں غیر معمولی اضافہ کر دیا تھا۔ علمائے دین نے مسلم زبوں حالی کو مذہبی تعلیمات سے روگردانی کا نتیجہ قرار دیا اور عام طور پر اس خیال کو قبول کر لیا گیا کہ مذہبی تعلیمات کی طرف واپسی سے مسلمانوں کو نہ صرف مسیحی یورپ کی غلامی سے نجات مل جائے گی بلکہ وہ خود دنیا کی بڑی قوت بن جائیں گے۔

آج کے بنیاد پرست بھی یہی یقین رکھتے ہیں اور یہ یقین ان کو متحرک رہنے میں مدد دیتا ہے۔ خیر، بات یہ ہے کہ صدیوں کی پس ماندگی نے مسلم اکثریت کو محض خواب دیکھنے والے بنا دیا ہے اور عمل اور جدوجہد کی دنیا سے دورکر دیا ہے۔ جیسا کہ اقبال جعفر کہتے ہیں 'حقیقی ایمان کی طرف واپسی کی راہ سہل ہے۔ کیونکہ اس کا تقاضا محض یہ ہے کہ اہل ایمان نیک نےّت ہوجائیں اورمذہب کے بنیادی تقاضے پورے کریں۔ اس کے برخلاف قوت اور شان و شوکت کی طرف لے جانے والی مادی راہ بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے کئی نسلوں کو دن رات محنت کرنی پڑتی ہے۔ جدید سائنسی اور فنی علوم حاصل کرنے پڑتے ہیں، ادارے بنائے جاتے ہیں، نئے نئے خیالات قبول کیے جاتے ہیں، بزرگوں کی راہ سے ہٹنا پڑتا ہے اور سینکڑوں جتن کرنے پڑتے ہیں۔

افلاس اور محرومی کے شکارسماج میں ترقی اور قوت کے حصول کے کئی ماورائی نسخے مقبول ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب مطلوبہ نتائج ہاتھ نہیں آتے تو پھر مایوسی اور غصے کی کیفیت میں تشدّد کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ بنیاد پرست جماعتیں اسی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ وہ سب کچھ تباہ کرنے کے لیے خود کو تباہ کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

مندرجہ بالا عوامل نے بنیاد پرستی کے فروغ کی عمومی فضا بنائی تھی۔ لیکن تشدّد کی طرف اس کا رخ موڑنے میں امریکہ اور دوسری مغربی قوّتوں نے حصہ لیا ہے۔ بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں جب امریکیوں کو دن رات کیمونزم کی عالمی فتح کے ڈرائونے خواب آتے تھے تو انہوں نے سوویت یونین کو مضبوط محاصرے میں لینے کے لیے مراکش سے پاکستان تک مسلم انتہا پسندی کا محاذ قائم کرنا چاہا تھا۔ تب وہ اسلامی تحریکوں اور سیاسی جماعتوں کے مہربان سرپرست تھے۔ وہ ہر طرح سے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی تائید و حمایت کرتے تھے۔ کیا ہم وہ دن بھول گئے ہیں جب ہمارے ہاں جماعت اسلامی اور امریکہ شیر و شکر تھے۔ دائیں بازو کے پریس اور دانشوروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ جو کوئی یہاں جمہوریت، سماجی انصاف، انسانی حقوق اورافلاس کے خاتمے کی بات کرتا تھا تو اس کو کیمونسٹ قرار دیا جاتا تھا۔ فوجی آمریتوں کی ہرممکن طریقے سے حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اور ان کو تحفظ دیا جاتا تھا۔ انگریزوں کے زمانے سے ہمارے ہاں جو سیکولر لبرل کلچر نشوونما پا رہا تھا۔ امریکیوں نے اس کو کیمونزم کی آڑ میں اس قسم کے لوگوں کے ذریعے روند ڈالا تھا۔

سرد جنگ کی دنیا دو حصوں میں منقسم تھی۔ ایک طرف اشتراکی دنیا تھی اور دوسرے حصے کو آزاد دنیا کا عنوان دیا جاتا تھا۔ صدر ریگن نے ان دنیائوں کو نئے نام دیے۔ انہوں نے اشتراکی خطے کو 'بدی کی سلطنت' Evil Empire کہا۔ دوسری جانب، ظاہر ہے کہ نیکی کی دنیا تھی۔ ان دونوں میں کشمکش 1979ء میں اس وقت بڑھ گئی جب سوویت افواج کابل میں داخل ہوئیں۔

فطری طور پر مغربی دنیا نے اس مداخلت کو اس ڈرائونے خواب کی تعبیر سمجھا جو اس کے مدبّر ڈیڑھ صدی سے دیکھتے چلے آئے تھے۔ اس خواب میں روس ان کو گرم پانیوں کی طرف پیش قدمی کرتا دکھائی دیتا تھا۔ امریکیوں کا کہنا تھا کہ افغانستان پر سوویت حملہ دنیا پر تسلط جمانے کی اشتراکی سٹریٹجی کا حصّہ ہے لہٰذا ہر ممکن طریقے سے اس کی مدافعت لازم ہے۔ انہی ایام میں ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ گیا۔ وہ اس پورے خطے میں مضبوط ترین امریکی مُہرہ تھا۔ ملائوں نے ایران پر قبضہ کر کے رہی سہی کسر پوری کر دی۔

اس کے بعد افغانستان میں کشمکش زیادہ تیز ہو گئی اور امریکہ نے بدی کے دیوتائوں کو سبق سکھانے کا تہیہ کر لیا۔ اس مہم میں کامیابی کے لیے ان کو پاکستانی حکمرانوں کا تعاون درکار تھا اور وہ پہلے ہی کمر باندھے ہوئے تھے۔ افغان فساد میں شمولیت کو جواز دینے کی خاطر انہوں نے اس فساد کو مذہبی رنگ دیا۔ اسلام آباد میں جنرل ضیاء الحق اوران کی حکومت کو خود بھی بہانہ چاہیے تھا جس کے ذریعے وہ عالمی سطح پر خود کو منوا سکے۔ جنرل صاحب نے عوام کویقین دلایا کہ کیمونسٹوں نے اسلام کو مٹانے کی خاطر کابل پر قبضہ کیا ہے۔ چنانچہ ان کے حملے سے اسلام خطرے میں آ گیا ہے اور جہاد فرض ہو گیا ہے۔

یہ ایک طویل قصہ ہے۔ ہم سب اس کی تفصیلات سے آگاہ ہیں۔ لہٰذا اس بیان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ گفتگو کو آگے بڑھانے کی غرض سے میں اس کے صرف ایک پہلو کی نشاندہی کرتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جب جہاد فرض ہوا تو جہادی بھی درکار تھے۔ اس سلسلے میں وسطی ایشیا اور کئی مسلم ملکوں سے مجاہدین اکٹھے کیے گئے۔ قبائیلیوں کو مسلح کیا گیا، تربیت دی گئی اور ضروری وسائل مہیا کیے گئے۔ جہاد کا تسلسل قائم رکھنے کی خاطر جہادی بنانے والے کارخانے یعنی جا بجا مدرسے قائم ہونے لگے۔ ان کے لیے وسائل امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے علاوہ، وسیع پیمانے پر سعودی عرب نے بھی مہیّا کیے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامررانا نے جہادی کلچر پر تحقیق کی ہے۔ ان کے فراہم کردہ اعداد و شمار حیرت انگیز حقائق سامنے لاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 1979ء میں، یعنی افغانستان میں سوویت مداخلت کے وقت، پاکستان میں مجموعی طور پر 563 مذہبی مدرسے تھے۔ جلد ہی یہ تعداد تیزی سے بڑھنے لگی اور دس ہزار سے تجاوز کر گئی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے طارق رحمان کے نزدیک اب ان مدرسوں کی تعداد تیرہ ہزار ہے جب کہ بعض دوسرے ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں پندرہ ہزار سے زیادہ مدرسے ہیں۔ یہ ماننے والی بات ہے کہ یہ تمام مدرسے جہادی تیار نہیں کرتے، لیکن ان کی اکثریت اس مشن میں مصروف ہے۔ ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ باقی مدرسے بھی جہادی ثقافت کو پھیلانے اور اس کی حفاظت کرنے والے کارکن تیار کر رہے ہیں۔

یہ لوگ اب افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مصروف پیکار ہیں۔ ان کے دشمن وقت کے ساتھ بدل گئے ہیں۔ پہلے ان کا نشانہ کیمونسٹ تھے۔ اب امریکی اوران کے حواری ہیں۔ دشمنوں کی تبدیلی کے دوران ایک اور مرحلہ بھی آیا تھا۔ اصل میں افغان جہاد نے 1989ء میں اس وقت اپنے فوری مقاصد حاصل کر لیے تھے جب سوویت یونین نے کابل سے اپنی فوج واپس بلالی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اسلام اور جہاد میں امریکیوں کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ انہوں نے منہ موڑ لیا۔ جلد ہی وہ 'سیکورٹی کے مسائل' کے سبب کابل میں اپنا سفارت خانہ بھی بند کرنے والے تھے۔ سات سمندر پار رہنے والے امریکیوں کے لیے قطع تعلق مشکل نہ تھا۔ اسلام آباد کے دانائوں کے پاس بھی جہادیوں کو مصروف رکھنے کا وسیلہ موجود تھا۔ انہوں نے مجاہدین کو کشمیر کی راہ دکھائی جہاں نئی دہلی کے خلاف شورش کا ٹمپریچر بہت بڑھ گیا۔ جب یہ تحریک تیز ہوئی تو اسلام آباد کے فوجی حاکموں کی باچھیں کھل اٹھیں۔ وہ کھلے عام کہنے لگے تھے کہ اگر جہادی سوویت یونین جیسی سپرپاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو پھر بھارت کس کھیت کی مولی ہے۔ چند مہینوں میں اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے اور وہ کشمیر سے دم دبا کر بھاگ جائے گا۔

خیر وقت گزرنے کے بعد اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماسکو والوں کے مقابلے میں بھارتی زیادہ دبائو برداشت کرنے والے ثابت ہوئے اور انہوں نے نوّے کی دہائی کی تحریک پر قابو پا لیا۔

یہی وہ دن تھے جب عالمی فضا یکدم بدل گئی۔ سوویت یونین جس کو سالہا سال سے مغربی دنیا اپنے لیے سب سے مہیب خطرہ تسلیم کیے ہوئے تھی، پلک جھپکتے ہی دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔ مشرقی یورپ کی اشتراکی حکومتیں بھی ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ چین پہلے ہی اشتراکی راہ سے منحرف ہوچکا تھا۔ گویا کیمونزم کا جو بھوت ایک صدی سے مغرب کے سر پر منڈلا رہا تھا وہ خود ہی بوتل میں بند ہو گیا۔ سرمایہ داری نظام کو مکمل فوقیت حاصل ہو گئی۔ امریکی دانشور فو کویا مانے اس فتح کو تاریخ کے خاتمے سے تعبیر کیا اور ہم سب کو یقین دلایا کہ تہذیبی ارتقا کے عمل سے آئیڈیالوجی کا عنصر خارج ہو گیا ہے۔ سرمایہ داری جمہوریت کو ہمیشہ رہنے والی جیت مل گئی ہے۔ یوں تاریخ کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ وہ اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔

اچانک اور غیرمتوقع طورپر مل جانے والی عظیم الشان کامیابیاں کئی مسائل ساتھ لایا کرتی ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام سے اصولی طور پر سرد جنگ ختم ہو گئی تھی۔ یوں ان مہیب اداروں کی موجودگی کا جواز بھی نہ رہا تھا جو سرد جنگ کے زمانے میں اشتراکیت سے نمٹنے، بلکہ یوں کہیے کہ اشتراکی دنیا کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ ان میں تھنک ٹینکس سے لے کر فوجی تنظیموں جیسے ادارے موجود تھے۔ بجٹ، نفری اور مقاصد کے اعتبار سے نیٹو سرد جنگ کے تقاضوں کا پیدا کیا ہوا سب سے بڑا ادارہ تھا۔ اربوں ڈالر کا سالانہ بجٹ رکھنے والے اس ادارے کی اپنی شان و شوکت تھی، اپنا صدر مقام تھا اور اپنی وسیع و عریض اور پرکشش مراعات رکھنے والی افسر شاہی تھی۔

ان اداروں کا وجود ایک دشمن کا مرہون منت تھا۔ اس دشمن نے بے وفائی کی تھی اور چپکے سے اپنے سینے میں خنجر گھونپ لیا تھا۔ اس کی خود کشی سے ان اداروں کی موت کا راستہ کھل گیا تھا۔

یہ ادارے موت کے منہ سے بچ سکتے تھے۔ ان کی شان و شوکت اور ہیبت قائم رہ سکتی تھی اگر وہ کوئی نیا دشمن تلاش کر لیتے لیکن بیسویں صدی کی آخری دہائی میں کوئی ایسا دشمن موجود نہ تھا جس سے مغربی دنیا کو ڈرایا جا سکے لہٰذا ایک دشمن تخلیق کرنا لازم ہو گیا یہ دشمن اسلام کے روپ میں بنایا گیا۔ شاید آپ کو میری اس بات پر ہمدردانہ غور کرنے کی ترغیب ملے گی اگر میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں کہ یہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل تھے جنہوں نے سوویت یونین کے انہدام کے فوراً بعد سب سے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ کیمونزم کے خاتمے سے مغربی تہذیب و تمدن کو لاحق خطرات ختم نہیں ہوئے کیونکہ اسلام کی صورت میں ایک اوردشمن موجود ہے جو مغرب کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے۔

یہ عہد ساز اعلان نامہ تھا۔ نیٹو کے سردار نے نیا دشمن دریافت کر کے اپنے ادارے اور اس جیسے کئی اور اداروں کو نئی زندگی عطا کر دی تھی۔ مغربی دنیا میں اور خاص طور پر امریکہ میں اس 'دریافت' کوقبول کرنے کے لیے موزوں نفسیاتی فضا پہلے سے موجود تھی۔ وجہ یہ ہے کہ تین چار نسلوں سے امریکی عوام کی ذہنی اور جذباتی نشوونما، دشمن کے خطرناک عزائم سے محفوظ رہنے کی جدوجہد' کے اصول پر ہوئی تھی۔ ان کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی دائروں سے لے کرعلم و ادب اور مذہب تک کے شعبوں میں ہونے والی کاوشیں کیمونزم کی خرابیاں تلاش کرنے اور 'آزاد دنیا کی نفیس اقدار' کی حفاظت کو پیش نظر رکھتی تھیں۔ اس لیے دشمن کی موجودگی امریکی نفسیات کا لازمی جزو بن گئی تھی۔ کیمونزم کی موت سے امریکی اپنی ذہنی اور جذباتی زندگی میں ایک اذیت ناک خلا محسوس کرنے لگے تھے۔ ان کو فوری طور پر 'حقیقی یا وہمی' دشمن چاہیے تھا جو ان کے تین نسلوں سے بنے ہوئے جہانی نظریے، ورلڈ ویو، کو مسمار ہونے سے بچا سکے۔ لہٰذا جب اسلام کو متبادل دشمن کی حیثیت سے پیش کیا گیا تو انہوں نے کسی ذہنی تحفظ کے بغیراس کو قبول کر لیا۔

بلاشبہ اس عوامی قبولیت کے چند اور اسباب بھی تھے ان میں نمایاں تاریخی سبب ہے۔ مسلم اور مسیحی دنیا کی تاریخ میں تعاون و اشتراک کے زمانے آئے تھے اور تضاد و تصادم کے عہد بھی۔ بعض لوگوں کو اب تک ان کی تلخ یادیں ستاتی رہتی ہیں لیکن سوویت انہدام کے زمانے میں دنیا میں کوئی ایسی مسلم قوت موجود نہ تھی جو مغرب کے مقابلے میں ڈٹ سکتی۔ اس لیے جب رقیب مغرب کے طور پر علم دنیا کو پیش کیا گیا تو اول اول یہ تصور خاصا مضحکہ خیز دکھائی دیتا تھا تاہم، جیسا کہ میں نے عرض کیا کئی زبردست عالمی اداروں کی زندگی اور موت کا مسئلہ اس سے منسلک تھا اس لیے جلد ہی اس تصور کو متاثر کن اصطلاحوں میں پیش کرنے والے بھی منظر عام پر آ گئے۔

فوکویاما نے اپنے خیالات The End of History کے عنوان سے سولہ صفحے کے ایک مضمون میں پیش کئے تھے جو امریکہ کے ایک قدامت پسند جریدہ The National Interest کے 1989ء کی آخری سہ ماہی کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ان دنوں سوویت یونین آخری ہچکیاں لے رہی تھی، صورت حال مبہم تھی اور نئے دشمن کی ضرورت اجاگرنہ ہوئی تھی۔ اس لیے فوکویاما نے کسی نئے عالمی تضاد کی طرف اشارہ نہ کیا تھا۔

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ سوویت یونین کی وفات کے صرف دو سال بعد 1993ء میں جب دشمن کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی پروفیسر سیموئیل ہٹنگٹن صاحب منظر پر آ گئے۔ انہوں نے پندرہ بیس صفحات کا ایک مضمون لکھا جو امریکی جریدہ 'فارن افیئرز' کے ستمبر 1993ء کے شمارے میں "The Clash of Civilizations" کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون میں ہارورڈ یونیورسٹی کے جان ایم اولن انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر نے یہ پیغام دیا تھا کہ اشتراکی نظام کے خاتمے کے بعد دنیا میں مختلف تہذیبوں کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ دنیا تصادم کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے اس نئے تصادم کا سبب سیاسی یا معاشی نہ ہو گا اس کے بجائے تصادم کی حقیقی بنیاد مذہبی ہو گی۔ ہٹنگٹن نے دنیا کو چھے یعنی مغربی، مسلم، ہندو، جاپانی، افریقی اور لاطینی امریکی تہذیبی دائروں میں تقسیم کیا اور زور دے کر کہا کہ ان تہذیبوں میں سب سے زیادہ اور حقیقی خطرہ مسلم اور مغربی تہذیبوں کے درمیان تصادم کا ہے۔

یوں گویا مسلم دنیا کو مغرب کے دشمن کے روپ میں پیش کرنے کا نظریاتی ڈھانچہ بنا لیا گیا۔ طاقتور امریکی میڈیا نے پروفیسر ہٹنگٹن کے اس نظریے کا اس قدر غلغلہ مچایا کہ وہ دنیا بھر میں موضوع سخن بن گیا۔ مغربی دنیا میں اس کو کمیونزم کے بعد کی دنیا میں بائبل کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یونیورسٹیوں سے چائے خانوں تک اس کا چرچا ہونے لگا۔ اخباری کالم، مضامین اور کتابیں اس موضوع پر لکھی جانے لگیں۔ سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد ہونے لگیں۔ چند ہی ہفتوں میں دنیا کو یقین دلایا گیا کہ سرد جنگ ختم نہیں ہوئی۔ دشمن بدل گئے ہیں لیکن جنگ جاری ہے۔

مذہبی ذہن چاہے وہ مسلم ہوں یا مسیحی وہ تہذیبوں کے تصادم کو قبول کرنے کے لیے آمادہ تھے وجہ یہ ہے کہ مذہبی ذہن کے نزدیک تاریخی عمل نیکی اور بدی کے مابین کشمکش سے عبارت ہے اس لیے دو قوتوں کے درمیان کشمکش موجود رہنی چاہیے۔

اسلام اور مغرب کے درمیان کشمکش کو تہذیبی جنگ کا عنوان دے کر امریکی دانشوروں اور رہنمائوں نے افغانستان اور پاکستان کے مقامی اہمیت رکھنے والے انتہا پسندوں کو عظیم عالمی قوت کا درجہ دے دیا ہے جو نہ صرف آج کی دنیا کو چیلنج کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ چیلنج کر بھی رہی ہے۔ دوسرے مسلمانوں کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان کو دشمن کے طور پر چن لیا ہے لہٰذا ان کا مذہب، ان کی تہذیب اور سماج خطرے کی زد میں ہیںیہ احساس ان کے دل و دماغ میں انتہا پسندوں کے لیے نرم گوشتہ پیدا کرنے لگا ہے۔

امریکہ دشمن رویے کے سبب کئی مارکسی اور سیکولر دانشور بھی انتہا پسندوں سے ہمدردی رکھنے لگے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کے اور بھی کئی گروہ یہاں تک کہ کئی مغربی شہری بھی انتہا پسندوں کے رویے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیںکہ امریکہ اور یورپ میں ایسے دانشوروں اور شہریوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو اپنی تہذیب و تمدن سے بے زار ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا میں بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو قدیم قبائلی نظام کے احیا کے خواہاں ہیں کہ ان کے نزدیک تہذیب و تمدن کے ارتقا نے انسانی مسائل حل نہیں کیے بلکہ اوربھی زیادہ گنجلگ اور مشکل بنا دیے ہیں۔ گویا یہ سب وہ لوگ ہیں جو اپنی موجودہ دنیا اور سماج کو روند کرایک نیا جہان بسانے کے آرزو مند ہیں۔ ان کے لیے اس قدیم اور سادہ طرز زندگی میں کشش موجود ہے جس کی وکالت انتہا پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان اور فاٹا کے علاقوں میں برسرپیکار شدّت پسندوں میں عرب اور وسطی ایشیا کے جنگجوئوں کے ساتھ ساتھ کئی سفید فام افراد بھی شامل ہیں۔

یہ ہے انتہا پسندی کا چیلنج جو کلاک کو پیچھے لے جانے کے در پے ہے اور راہ میں آنے والی ہر شے کو فنا کر دینے پر تلا ہوا ہے۔ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ یہ اس زمانے کا سب سے اہم سوال ہے۔ ہم یہاں اس کا جواب دینے کی مقدور بھر کوشش کریں گے۔ لیکن ٹھہریے ہم پہلے یہ طے کر لیں کہ اس طوفان کا مقابلہ کس نے کرنا ہے۔ کیا یہ جنگ جس کا محاذ مالا کنڈ، فاٹا اور افغانستان میں کھل چکا ہے اور جس کے اثرات دور تک پھیلے ہوئے ہیں وہ امریکہ کی جنگ ہے؟ کیا یہ یورپ کی تمام مغربی دنیا کی اورنیٹو کی جنگ ہے؟ کیا یہ پاکستان کی جنگ ہے؟

ہمارے ہاں ابھی اس بارے میں زیادہ وضاحت نہیں پائی جاتی۔ عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے جس میں اسلام آباد کے حکمرانوں نے بزدلی، لالچ یا اپنا اقدار بچانے کے لیے اپنے ملک کو گھسیٹ رکھا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے قائدین، دائیں بازو کے دانش ور اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سابق اہل کار دن رات یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیںیہ ہم پر ٹھونسی گئی ہے۔ اس کا مقصد بنیاد پرستی کے نام پر خود ہم کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ابھی چند ماہ پہلے جنرل پرویز مشرف کے خلاف عام نفرت اسی الزام کے حوالے سے پھیلی تھی۔ مجھے جنرل صاحب سے کوئی دلی لگائو نہیں اورنہ ہی ان کو میری طرف سے کسی وکالت کی حاجت ہو گی تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ بنیاد پرستوں کے خلاف انہوں نے جو پالیسی اپنائی تھی وہ غلط نہ تھی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ کسی اور سے پہلے ہماری جنگ ہے کیونکہ یہ ہم ہیں جو مذہبی جنون کا نشانہ بن رہے ہیں۔ وہ لوگ ہمارے شہروں اور قصبوں میں ہمارے لوگوں کو معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کو نہایت بے دردی سے ہلاک کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہماری زندگی نہ صرف وبال کر دی ہے وہ ہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے وسائل اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری روایات کو ہمارے اسلوب حیات کو اور ہماری امنگوں کو کچلنے پر تلے ہوئے ہیں۔

میں آپ کو یاد دلا دوں کہ اس ملک یا اس کے کسی حصے پر قبضہ کر کے انتہا پسندوں کے ولولے سرد نہ ہوں گے۔ وہ اور بھی بھڑک اٹھیں گے۔ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ افغانستان سے غیر ملکیوں کو نکالنے یا افغانستان ، مالا کنڈ اور فاٹا میں اقتدار حاصل کر کے وہ مطمئن ہو جائیں گے۔ نہیں۔ ان کے عزائم اتنے محدود نہیں۔ وہ تمام دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور سب کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے امریکی مداخلت سے پہلے افغانستان کے ساتھ کیا تھا۔

بات یہ ہے کہ یہ علاقائی یا قومی جنگ نہیںیہ نظریاتی جنگ ہے یہ اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کے درمیان تہذیب اور تشدد کے درمیان جنگ ہے اور انتہا پسندوں کے عزائم کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام دنیا کے خلاف جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقی معنوں میں عالمی جنگ ہے۔ کسی قوم یا ملک کو اس سے بے نیاز نہیں رہنا چاہیے۔ اگر اقوام عالم نے بے اعتنائی سے کام لیا اور اس جنگ میں حصہ نہ لیا تو ان کو الگ تھلگ رہنے کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔ لیکن یہ صرف توپ اور تلوار کی جنگ نہیں اس کے کئی محاذ ہیں اور ہرمحاذ پر جیتنا ضروری ہے۔

نظریاتی محاذ سب سے اہم ہے۔ ہم کو اس محاذ پر کیا کرنا ہے؟
جہادیوں نے مذہب کی توجیہہ یوں کر رکھی ہے کہ وہ ایک یک رنگ Monolithic تہذیب کو جنم دیتا ہے جس میں مختلف ثقافتوں کے لیے گنجائش نہیں وہ اختلاف کو برداشت نہیں کرتا اور تہذیبی رنگارنگی کا دشمن ہے۔ لہٰذا ہروہ شے جو مختلف ہے، جو الگ تھلگ شناخت کی حامل ہے اس کو ملیامیٹ کرنا ضروری ہے۔ اس عمل کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ جنوبی ایشیا میں اس نظریے کی اساس سترھویں صدی میں حضرت مجدد الف ثانی نے رکھی تھی۔ جب انہوں نے نہ صرف ہر قسم کے غیرمسلم مظاہر کو مسترد کر دیا تھا بلکہ مسلمانوں میں سے بھی اپنے فرقے کے سوا دوسرے فرقوں کو برداشت کرنے کی گنجائش نہ رہنے دی تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی کے اس نقطہ نظر کو گزشتہ صدی کے ابتدائی عشروں میں علامہ اقبال نے نئی توجیہات کے ساتھ پیش کیا تھا اور ایسی نظریاتی اساس فراہم کی تھی جس پر مسلم بنیاد پرستی کی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔

ہمارے زمانے میں مدرسے ذہنی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی کثرت کو ختم کرنے کی تعلیم کا مرکز ہیں۔ ان میں اختلاف کو برداشت نہ کرنے کے رویوں کی تربیت دی جاتی ہے اورہر اس شے سے نفرت سکھائی جاتی ہے جس کی گنجائش ان کے اپنے نظام فکر میں نہیں ہے۔ مختلف مذہبی عقائد ا ور اخلاقی معیار رکھنے والوں کو بدی کے نمائندے مانا جاتا ہے جن کو ختم کرنا مذہبی فرض بن جاتا ہے۔

بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ ثقافتی، اخلاقی اور مذہبی کثرت کی تائید کی جنگ ہے۔ ہم کو مذہب کی ایسی تعبیر کو رائج کرنا ہو گا جو کثرت کا احترام کرتی ہو۔ مسلمانوں کے ہاں اس قسم کی تعبیر کوئی نئی بات نہ ہو گی۔ اسلامی تعلیمات میں کثرت پسندی کی تائید موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ وحدت الوجود کا نظریہ جو صدیوں تک مسلم صوفیوں، شاعروں اور دانشوروں میں مقبول رہا ہے اور جس کی نفی کر کے بنیاد پرستی کی فلسفیانہ اساس مرتب کی گئی ہے۔ اس کی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ یہ ہر قسم کے اختلافات کو جذب کرنے والا نظریہ ہے اورکثرت کو دبانے کے بجائے اس میں وحدت ڈھونڈتا ہے۔

گویا مذہب کی کثرت پسند تعبیر کی تشکیلِ نو اس زمانے کی پہلی ضرورت ہے۔ اس سلسلے کی ایک اور ضرورت یہ ہے کہ ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط بنایا جائے اور مذہبی اقلیتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

اب جہاں تک ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کا تعلق ہے، خوش قسمتی سے اس کے متعلق ہمارے ہاں دو آرا ء نہیں ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت جمہوری نظام کے حق میں ہے لیکن فوج کی مسلسل مداخلت، کمزور سیاسی جماعتوں، درمیانے طبقے میں سیاسی شعور کی بے حد کمی اور دبائو کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھنے والی عدلیہ کے باعث جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہو سکے۔ ہم کوجان لینا چاہیے کہ جمہوریت محض سیاسی نظام نہیں ہے بلکہ ایک طرز زندگی بھی ہے۔ اس کے استحکام کا تقاضا صرف یہ نہیں کہ میڈیا آزاد ہو، سیاسی گروہ بندی کے لیے ماحول ساز گار ہو اور طے شدہ وقتوں کے بعد ملک میں منصفانہ انتخابات کروائے جائیں بلکہ اس کے لیے جمہوری خاندانی نظام اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے والا تعلیمی نظام بھی وجود میں لانا ہو گا۔ درمیانے طبقے کی موقع پرستی اور تنگ نظری نے اس نظام تعلیم کو تباہ کر دیا ہے جو ہم کو انگریزوں سے ورثے میں ملا تھا اور جس میں زمانے کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کرتے ہوئے ہم اس کو جدید سانچے میں ڈھال سکتے تھے۔ اجڈ ماہرین اور جدید زندگی کے تقاضوں سے بے خبر حکمرانوں کی ملی بھگت سے ہم نے تعلیم کو قدامت پسندی کے فروغ کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ ہمارے جدید تعلیمی ادارے جدید شعور رکھنے والے نوجوانوں کے بجائے مجاہدین تیار کرنے والے کارخانے بن گئے ہیں۔

آپ کو کبھی کسی پاکستانی یونیورسٹی کے اساتذہ کا گروپ فوٹو دیکھنے کا اتفاق ہو تو لگے گا جیسے آپ باجوڑ کے قبائلی عمائدین کی تصویر دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ گزشتہ آدھی صدی میں یونیورسٹیوں نے بنیاد پرست تو ہم تو عطا کئے ہیں لیکن جدید طرز احساس کی حامل شاید ایک بھی قابل قدر شخصیت پیدا نہیں کی۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا ہے کہ مدرسوں سے کہیں زیادہ بنیاد پرست یونیورسٹیوں نے تیار کیے ہیں۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ یونیورسٹیوں کے معاملات پر توجہ دی جائے اور یاد رکھا جائے کہ سیکولر تعلیم کثرت پسند سماج کی تشکیل میں اہم حصہ لیتی ہے۔

ایسا ہی اہم حصہ اقلیتیں بھی لے سکتی ہیں۔ لیکن کیا ہماری اقلیتی برادریوں نے پاکستانی سماج کی لبرلائزیشن میں کوئی رول ادا کیا ہے؟ مجھے خدشہ ہے کہ اس سوال کا مثبت جواب دینا محال ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کا ہمارے ملک میں چرچا ہوتا رہتا ہے اور بلاشبہ ان کے حقوق پامال ہوتے رہے ہیں۔ یہاں ایسے قوانین بھی موجود ہیں جن کو آسانی سے اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہاں میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اقلیتیں اپنی مخصوص ثقافت اور طرز حیات کو قائم رکھ کر ثقافتی diversity اور openness کا باعث بنتی ہیں۔ گویا وہ یک رخ سماج کی تشکیل میں رکاوٹ بن جاتی ہیں اور اس کی diversity کو قائم رکھتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ کچھ تو اکثریت کے غیر معمولی دبائو کے باعث اور زیادہ تر اس لیے کہ پس ماندہ معاشروں میں اکثریت میں ضم ہوجانے کی خواہش بہت شدید ہوتی ہے۔ یہاں ہوا یہ ہے کہ اقلیتی گروہوں نے اپنے جداگانہ ثقافتی تشخص کی حفاظت نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ ثقافتی اعتبار سے اکثریت کا حصہ بن گئی ہیں۔

مجھے اجازت دیجیے کہ اس نکتے کی وضاحت کے لیے میں ایک دو مثالیں دے دوں۔ پنجاب میں مسیحی سب سے نمایاں مذہبی اقلیت ہیں۔ پچاس سال پہلے تک ان کے رہن سہن، نام، لباس، طرز گفتگو، میل ملاپ، ان کی دلچسپیوں اور یہاں تک کہ ان کی گلیوں اور عمارتوں میں ایک جداگانہ جھلک نظر آتی تھی۔ یہ جداگانہ جھلک ہی پنجابی مسیحی ثقافت تھی۔ کیا اب یہ کہیں وجود رکھتی ہے؟ آپ کو اس کی جھلکیاں کہیں دکھائی دیتی ہیں؟ مشتاق رضا، نعیم سلیم، جاوید صدیق بھٹی، نسرین انجم بھٹی، پرویز پارس اور کنول فیروز میرے چند عزیز دوستوں کے نام ہیں۔ یہ سب مسیحی ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ اچھے بھلے مسیحی ہیں لیکن کیا ان کے ناموں سے آپ کو ان کے مسیحی ہونے کا گمان ہوتا ہے؟

یہ بھی دیکھیے کہ پاکستان کی ذہنی، علمی اور فنون لطیفہ کی دنیا میں مسیحیوں کے حاصلات کیا ہیں۔ گزشتہ ساٹھ سال میں مسیحی کیمونٹی نے سائنس، تاریخ، فلسفہ، معاشیات، نفسیات، سماجیات، قانون یا دوسرے علوم میں کتنے افراد پیدا کیے ہیں جو بین الاقوامی نہ سہی، قومی سطح پر پہچانے جاتے ہوں۔ ہم ان صاحبان کو گننا چاہیں تو شاید ہی ایک دو سے آگے جا سکیں گے۔ ہاں اس کیمونٹی نے شاعر ضرور پیدا کیے ہیں۔ ان کے شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے نسرین انجم بھٹی کا میں خاص طورپر مداح ہوں۔ تاہم مسیحی شاعروں کے عمومی معیار کے متعلق میں زبان بند رکھوں گا۔ وجہ یہ ہے کہ میں آپ کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنے کے لیے آیا ہوں اور شاعروں سے مستقل فساد کی بنیاد رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہوں۔

فنون لطیفہ میں سے موسیقی کو لیجیے۔ تیس چالیس سال پہلے تک مسیحی مڈل کلاس گھرانوں سے، جن کی تعداد آج کے مقابلے میں ان دنوں بہت کم تھی، موسیقی کی تانیں بلند ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ موسیقی، رقص، مصوری اور دوسرے فنون لطیفہ کو غالباً مسیحی کیمونٹی نے بھی ناپسندیدہ سمجھ لیا ہے اور ان سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ پاکستانی اقلیتیں ثقافتی رنگارنگی diversity کو قائم رکھ کر بنیاد پرستی کی یک رخی میں رکاوٹ بن سکتی تھیں۔ آپ اجازت دیں تو یہاں ایک اور بات بھی کہہ دوں۔ وہ یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں اقلیتیں لبرل خیالات کی اشاعت اور لبرل سماج کے قیام کے لیے ماحول سازگار بناتی رہی ہیں۔ مجھ کومعلوم ہے کہ یورپ کی ثقافتی تاریخ سے آپ مجھ سے کہیں زیادہ آگاہ ہیں۔ لہٰذا آپ کو یہ پتہ ہے کہ مسلم اور یہودی اقلیتوں نے اس براعظم کو تاریک صدیوں کے زمانے سے نکالنے میں فیصلہ کن حصہ لیا تھا۔ بدقسمتی دیکھیے کہ اس معاملے میں بھی ہم محروم رہ گئے ہیں۔

یہ قصہ طویل ہوتا جا رہا ہے۔ میں اس کو مختصر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اب تک میں نے جو کہا ہے، اس کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ بنیاد پرستی موت کی بالادستی پر ایمان رکھتی ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ زندگی کی قوت میں یقین رکھتے ہوں۔ زندگی کو ہاں کہیں اور اس کا بول بالا کریں۔ اس کے مختلف طریقے ہیں اور ان میں سے ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ سماج میں فنون لطیفہ کو فروغ دیا جائے۔ ہمارے ملک میں رقص و موسیقی، ڈرامہ، تھیٹر، تفریح اور کھیل کود کے وسائل اورمواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ صورت حال بدلنی چاہیے۔ لوگوں کو ہنسنے کھیلنے کے مواقع دیے جائیں۔ ان کو زندگی سے لطف اندوز ہونے کی تربیت دی جائے۔ تعلیمی اداروں میں، دیہاتوں اور قصبوں میں کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ بات کسی فطری قانون جیسی یقینی ہے کہ اگر کوئی قوم اولمپک گیمز میں پانچ طلائی تمغے جیت سکتی ہے تو اس میں بنیاد پرستی کی بنیادیں کبھی مضبوط نہیں ہوسکتیں۔
عورتوں کی آزادی نیز سماجی اور معاشی زندگی میں ان کو مساوی مواقع کی فراہمی بنیاد پرستی کاایک اور موثر تریاق ہے۔ آپ نے اب تک کے تجربے میں دیکھا ہو گا کہ جہاں کہیں بنیاد پرستوں کو اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے وہاں صنفِ نازک کی بدبختی کے دن شروع ہو جاتے ہیں۔ پہلا وار ہمیشہ ان پر ہوتا ہے۔ انہی کو سب سے زیادہ روندا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے لیے ابتدائی تعلیم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سماجی، معاشی عمل سے ان کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ جاننامشکل نہیں کہ خواتین کی empowerment بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کا مہلک ہتھیار ہے۔

بنیاد پرستی نے اس غیر حقیقی اور خود شناسی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھایا ہے جو گزشتہ ایک صدی سے ہمارے نام نہاد مورخین لکھتے رہے ہیں۔ تاریخ نگاری کے ا صولوں سے بے خبر ان نیم تعلیم یافتہ اور تنگ نظر مورخین نے ماضی کی جذبات انگیز خیالی رنگین تصویر کشی کے ذریعے عام پڑھے لکھے لوگوں کو ماضی کا اسیر بنا دیا ہے۔ یہ تاریخ انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر مبنی ہے۔ ایک طرف ہم ہیں جو دنیا کی نیکیوں اور خوبیوں کے مالک ہیں دوسری طرف غیرمسلم ہیں جو بزدل، جھوٹے، مکار، سازشی اور شیطان کے چیلے ہیں۔ لہٰذا تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اس قسم کی تاریخ کے قارئین دنیا کو تعصب اور نفرت کی عینک سے دیکھتے ہیں اور ہر اس شے کو مٹا دینا چاہتے ہیں جو ان کے ذہنی سانچے میں سمانے سے منکر ہے۔ آج کی دنیا میں ہم کومعروضی اور غیر جانب داری سے لکھی جانے والی تاریخ کی ضرورت ہے جو دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرنے کے بجائے ان کے ساتھ امن و اشتراک سے رہنے اور ان کا احترام کرنے کا درس دیتی ہو۔

یہ تمام تجاویز بے معنی ہیں جس وقت تک ان دیرینہ مسائل کا منصفانہ حل تلاش نہ کیا جائے گا جو مسلم دنیا کو بے انصافی کا نشانہ بننے کا تکلیف دہ احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ان میں فلسطین اورکشمیر کے مسائل سرفہرست ہیں۔ ان دونوں مسائل اور مسلم دنیا میں جارحانہ روےّوں کی افزائش میں ان کے کردار سے متعلق اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ یہاں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آخری بات کے طور پر البتہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسے وسائل مہیا کر دیئے ہیں جن کے ذریعے سے تمام انسانوں کواچھی زندگی کے مواقع مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود انسانوں کی اکثریت بدقسمتی کی شکار ہے تو اس کی وجہ ہمارے منفی ذہنی روےّے ہیں۔ یہ روےّے ہماری موجودہ بدحال دنیا اور ارضی جنت کے درمیان حائل ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر ان روےّوں کے خلاف جدوجہد کریں۔