working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

کشمیری تارکینِ وطن کو درپیش مسائل
ایک مذاکرہ
''ماہنامہ تجزیات'' جس طرح وطن عزیز میں بسنے والے پاکستانیوں کے سیاسی، سماجی، تہذیبی، فکری اور معاشرتی مسائل کو زیر بحث لا رہا ہے۔ اسی طرح دیارِغیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو درپیش مسائل سے بھی با خبر رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تارکین وطن کے مسائل سے ممکنہ آگاہی اور ان کے حل کے لئے تجاویز و سفارشات مرتب کرنے کے لئے ماہنامہ ''تجزیات'' نے 19جنوری کو اسلام آباد میں ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں برطانوی تارکین وطن کے آبائی علاقے میر پور، ڈڈیال کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں کے رہنے والے تارکین وطن سمیت سیاسی اور سماجی تنظیموںکے نمائندگان، وکلا اور صحافی حضرات نے شرکت کی۔ مجلس مذاکرہ کے دوران نہ صرف تارکین وطن کے مسائل سامنے آئے بلکہ ان کے حل کے لیے مختلف تجاویز و سفارشات بھی پیش کی گئیں۔

تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے ماہنامہ ''تجزیات''کے مدیر اعلیٰ محمد عامر رانا نے مجلس مذاکرہ منعقد کروانے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پاکستان کے موجودہ حالات میں یہاں کی عوام انتہائی گھمبیر صورتحال سے دو چار ہے۔ اسی طرح ملک کے اندرونی حالات سے تارکین وطن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔تارکین وطن کو جہاں پر بیرون ممالک مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں وہ اپنے ملک کے اندر بھی کئی مسائل کا شکار ہیں جس سے ممکنہ آگاہی کے لئے اس مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا ہے۔

تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ ذوالفقار چیئرمین پیپلزیوتھ آرگنائزیشن، آزاد کشمیر نے کہا کہ جس طرح ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ نوجوانوں کو اسی سیاست کی طرف لے کر آئیں، جو انہیں کسی ذات کی مخالفت سے نکال کر ایک مثبت سوچ کی طرف لائے اور وہ کشمیر اور پاکستان میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں۔ اسی طرح اس تقریب میں شریک ہونے والا ہر فرد اس تقریب کے حاصل کلام کو اپنے اپنے حلقوں تک پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ اس حوالے سے ماہنامہ ''تجزیات''کی یہ کاوش قابل ستائش ہے۔ یہاں پر اس مجلس مذاکرہ میں تین موضوعات پر بحث کی گئی ہے ان میں سے پہلا موضوع جس کی بنیاد پر پاکستان اور مسلمان بیرون ممالک میں نفرت کا نشانہ بنے ہیں وہ دہشت گردی ہے۔ اور دہشت گردی کی بنیاد آج وہ لوگ بن رہے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی وہ آج غیر ملکی ایجنٹ بن کر جہاد کے نام پر پیسے لے کر کبھی افغانستان میں اور کبھی کشمیر کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ اسلام اور پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں۔ دوسرا تارکین وطن کا اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے وہ زر مبادلہ کی صورت میں پاکستان کے بنکوں میں کثیر رقم بھجوا رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف علاقے بلکہ اپنے رشتہ داروں کو بھی فائدہ پہنچایا۔ لیکن بد قسمتی سے جب وہ واپس آتے ہیں تو ائیر پورٹ سے ان کااستحصال شروع ہو جاتا ہے۔ عملہ اس تاک میں بیٹھا ہوتا ہے کہ چھوٹی موٹی غلطی نکال کر پیسے بٹوریں۔ راستے میں ڈکیتیاں ہوتی ہیں اور بعض اوقات گھر پہنچنے سے پہلے ہی ان کو لوٹ لیا جاتا ہے اور جب گھر پہنچتے ہیں توان کو زمینوں کے جھگڑے، رشتہ داروں کے مسائل، قبضہ گروپس، سہولیات کی عدم فراہمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے وہ آہستہ آہستہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ لوگ شادیوں کے لئے بھی یہاں آتے تھے، قافلوں کی صورت میں اور پھر اپنے فوت شدگان کو بھی یہاں لے کر آتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے شادیاں بھی وہاں کرنا شروع کر دیں اور اپنے وفات شدگان کو بھی وہاں دفنانا شروع کر دیاہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف خلوص و محبت ختم ہوا بلکہ یہاں کے کاروبار بھی بند ہو گئے اس کی پہلی وجہ تو تعلیم کی کمی تھی کیونکہ جو نوجوان یہاں سے جاتے تھے وہ اَن پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ہوتے تھے جس کی وجہ سے انہیں وہاں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ تارکین وطن برطانیہ میں چونکہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ سیاست میں بھی حصہ لے رہے ہیں اور انہیں برطانیہ میں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے مذہب کی آزادی حاصل ہے آپ وہاں کی مساجد میں بیٹھ کر ان کے خلاف بول سکتے ہیں انہیں برا بھلا کہہ سکتے ہیں۔ وہ آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ یہاں سے کماتے ہیں اور ہمیں ہی برا بھلا کہتے ہیں۔ کرکٹ کے میچ ہوتے ہیں۔ یہاں اس ملک کا شہری ہونے کے باوجود تالیاں اپنے ملک کے لئے بجاتے ہیں مگر برطانوی حکومت نے کبھی اس چیز کا برا نہیں منایا لیکن جب ہم نے ان کی تہذیب کو لمحہ بہ لمحہ چیلنج کرنا شروع کیا اور وہی لوگ جو یہاں پر دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں یہی عناصر وہاں استعمال ہو رہے ہیں وہ باقاعدہ طور پر وہاں کی مساجد میں پمفلٹ تقسیم کر رہے ہیں اور تبلیغ کر رہے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کو آگ لگا دو، ہم ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ 7/7کا واقعہ ہوا تو وہ لوگ مجبور ہوئے کہ ان پر پابندیاں لگائی جائیں۔ آج انھی لوگوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف وہاں پر نفرت پیدا ہونا شروع ہوئی اور ان لوگوں کے اندر سے بھی شدت پسندپیدا ہونا شروع ہوئے میری اس بات کا نتیجہ یہی ہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ کریں اور جب ہم اپنے آپ کو ٹھیک کریں گے تو یقیناً بہتری آنا شروع ہو جائے گی ہمیں تارکین وطن کے لئے اپنے کردار اور اخلاق کو بدلنا ہو گا۔ انہیں ہر قسم کے مسائل سے چھٹکارہ دلانے کے لئے ہمیں مل کر ان کی مدد کرنا ہو گی تا کہ وہ اپنے ملک سے اپنا رابطہ بحال کر سکیں۔

برطانوی نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ ذوالفقار نے کہا کہ جس طرح پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے والے لوگوں کو موقع دیا گیا اور انہیں رقم کے علاوہ اسلحہ کے ساتھ ساتھ درس و تبلیغ کی بھی اجازت دی گئی۔ اسی طرح ان کے پڑھے لکھے افراد نے وہاں پر بھی انتہا پسندی کو پھیلانا شروع کیا اور نوجوانوں میں اس سوچ کو پروان چڑھایا لیکن اب بھی وہاں کی اکثریت خصوصاً نوجوان نسل دہشت گردی کے خلاف ہیں اور ان لوگو ں کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔

تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسحق صدر پریس کلب، ڈڈیال نے کہا میڈیا کے ذریعے تارکین وطن کے مسائل جب ہم تک پہنچتے ہیں تو ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ اور ان میں سے اکثر مسائل ان کے خود پیدا کردہ ہیں۔ مگر جب انہیں وہاں پر کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ انہیں یہاں مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔ ان میں سے متاثرین منگلا ڈیم قابل غور ہیں جن کے آباؤ اجداد کی قبریں بھی ڈیم کی نظر ہو چکی ہیں۔ لیکن ہمارے مسائل ہمیں خود ہی درست کرنا ہیں سب سے پہلے اپنے بچو ں کو تعلیم دینا ہو گی۔ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیںاور یہ لوگ اسلام کا نام لے کر مذہب کو بدنام کر رہے ہیں اور یہ سازش کا حصہ ہیں اوراس کی بنیادی وجہ مذہبی تعلیم کی کمی ہے اور جو لوگ وہاں کی مساجد میں گئے ہیں وہ بھی مذہب کو صیح طور پر پیش نہیں کر رہے۔

ہمیں عالمی سطح پر کوئی ایسی پالیسی ابھی تک حکمرانوں نے نہیں دی جس کی بناء پر ہم اپنا دفاع کر سکیں۔ ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کے نام پر بڑی سیاست کی اور رقم بٹوری لیکن آج دن تک اس کا کوئی حل نہیں ہو سکا۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ چاہیے کہ وہ کشمیر پر مشرف پالیسی ترک کر کے انڈیا سے تعلقات ختم کریں اور کشمیر کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اس سے نجات کے لئے انڈیا کے ساتھ اعلان جنگ کریں۔

تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی بشارت رٹوی ''ڈڈیال'' نے کہا تارکین وطن کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ وہ اپنے بچوںکی تعلیم نہیں دلواتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لوگوں کا جن کے رشتہ دار برطانیہ میں مقیم ہیں، ان کے ویزہ کا مسئلہ سب سے اہم ہے جبکہ ویزہ آفس دوبئی میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ جہاں بھارتی سٹاف تعینات ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری تین ہفتوں میں سات ہزار درخواستیں اپیل میں چلی گئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کا جو مسئلہ ہے وہ منگلا ڈیم اَپ ریزنگ کے متاثرین ہیں ان کامعاوضہ انہیں ادا نہیں کیا گیا وہ تین چار ہفتے کی چھٹی لے کر آتے ہیں ہماری بیورو کریسی انہیںتنگ کرتی ہے اور وہ متنفر ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔

ہماری وزارت خارجہ کو برٹش ہائی کمیشنز کو یہ کہنا چاہئے کہ جن لوگوں نے ویزہ کی درخواستیں دی ہیں ان پر جلد سے جلد کارروائی مکمل کریں۔ خالد گردیزی ڈپٹی ایڈیٹر روزنامہ ''جموں و کشمیر'' نے کہا کہ تارکین وطن کے لئے ون ونڈو سسٹم ہونا چاہیے جہاں ان کے تمام مسائل ایک ہی وقت میں حل ہوں، وہ یہاں اگر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں یا صرف سفر کرتے آتے ہیں ان کے لئے ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ ان لوگوں کے اندر احساس پیدا ہو ان کی ذہنی آسودگی ہونی چاہیے۔ عارف چودھری، میر پور نے مجلس مذاکرہ میں گفتگو کرتے ہوے کہا کہ تارکین وطن کو بیرون ممالک پراتنے مسائل نہیں وہ وہاںپر آسودہ ہیں مگر یہاں پر آج تک ان کے لئے کوئی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی۔ ہمارے ہاں پالیسی ساز اداروں کی کمی ہے جبکہ حکومت کو ان چیزوں کا احساس نہیں۔ ماہنامہ ''تجزیات''کو اپنے پلیٹ فارم سے ایسی پالیسیاں اور تجاویزدینی چاہئیں جو ان کے مسائل کے حل کا سبب بن سکیں۔

جناب راجہ منیر ایڈووکیٹ '' میر پور '' نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ترتیب دے کر دہشت گردی کا شور اٹھایا گیا ہے مگر اس کے مقابلہ کے لئے ہمیں یہ بات واضح کرنا ہو گی کہ ہم مثالی مسلمان ہیں، امن پسند ہیں کیونکہ اسلام نے غیر مسلموں کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ آج کیا بات ہے کہ ہمیں دہشت گرد ثابت کیا جا رہا ہے۔ ہمیں خودتعارفی سکیم کا آغاز کرنا چاہیے ان کے عزائم اپنی جگہ ہوں مگر ہمیں ان کا اس طرح مقابلہ نہیں کرنا چاہئے۔ آپ ماہنامہ ''تجزیات''کے ذریعے لوگوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ وہ اپنی ذات کے اندراعتماد پیدا کریں اور جس طرح وہ باہر کے ملک میں قانون کی پیروی کرتے ہیں یہاں بھی کریں۔ اگرچہ اب تعلیم کا معیار پہلے سے بہتر ہو چکا ہے مگر تربیت کا معیار ختم کر دیا گیا۔ بچوں کو تربیت کے لئے ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے جن کا پیغام بچوں تک پہنچ سکے اور نوجوانوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے۔ تارکین وطن کے حقوق کے تحفظ کے لئے وہ لوگ جو بیرون ممالک سے کثیر زرمبادلہ بینکوں کے ذریعے اپنے ملک بھیجتے ہیں۔ ان کو خصوصی اہمیت دی جائے اور ان کے لئے خصوصی کارڈ کا اجراء کیا جائے۔ اور ایک حکمنامے کے ذریعے تمام دفاتر اور تھانوں میں اطلاع دی جائے کہ ایسے لوگوں کو معاشرے میں احترام دیا جائے پھر جن لوگوں نے اپنی جائیدادیں یہاں پر بنائیں ان کی غیر موجودگی میں یہاںپر قبضے ہوتے ہیں ان کی روک تھام کے لئے ایک مشاورتی بورڈ بنایا جائے۔ جن کے پاس تارکین وطن کی جائیداد کا ریکارڈ ہو اور وہ اس کی ذمہ داری لیں۔ مجلس مذاکرہ سے ظہور احمد مغل (ڈڈیال)، ساجد نذیر (ڈڈیال)، خلیل طاہر (کوٹلی)، محمد فرید (باغ)، راجہ عبدالجبار(میر پور)، محمد عثمان طاہر( کوٹلی) نے خطاب کیا اور موضوع پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے ہی سیمینار میر پور اور ڈڈیال میں بھی منعقد کروائے جائیں تا کہ اس موضوع پر مزید تجاویز سامنے آسکیں۔ تقریب میں میزبانی کے فرائض مجتبیٰ محمد راٹھور نے ادا کئے۔