working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ماہنامہ'' تجزیات'' کے سالانہ نمبر کی تقریب رونمائی
(ادارہ) ماہنامہ ''تجزیات'' نے اپنا ایک سال مکمل ہونے پر جنوری 2010 ء میں اپنا خصوصی شمارہ پیش کیا ، اس مناسبت سے اسلام آباد کے ادبی حلقوں کے لیے ایک تعارفی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کی صدارت معروف اہل علم و دانشور جناب اشفاق سلیم مرزا نے کی۔ جب کہ ادیب و دانشور جناب منشا یاد تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ تقریب رونمائی میں معروف ادیبوں اور شعراء نے شرکت کی جن میں محمد حمید شاہد، ڈاکٹر کوثر محمود، عاصم بٹ، انوار فطرت، منظر نقوی، احمد سلیم، زاہد مسعود، حضرت شام، زاہد امروز، عرفان احمد عرفی، اختر رضا سلیمی، علی اکبر ناطق، صفدر شہاب، قاسم یعقوب اور خالد فتح محمد شامل تھے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مدیر اعلیٰ محمد عامر رانا نے تجزیات کے سفر، ارتقا اور مقاصد پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ تجزیات کو شروع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے چیلنجز جو ہمیں اس وقت درپیش ہیں خاص طور پر فکری محاذ پر ، سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر، اور ہمارا جو ان معاملات کے بارے میں نکتہ نظر ہے وہ نہ تو علمی ہے اور نہ ہی عقلی و منطقی، ہم ان مسائل کو اس طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، جس طرح کا یہ تقاضا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے یہ کوشش کی کہ ان تمام تنازعات کو جن میں اس وقت پاکستان گھرا ہوا ہے، علمی انداز میں اور عقلی و منطقی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ جن موضوعات پر ہم کام کررہے ہیں، ان پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے لیکن اس کا قاری صرف سیاسی اور سماجی اعلیٰ طبقے تک محدود رہتا ہے ، ان کی رسائی عوام تک نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم نے اردو زبان میں اس سلسلہ کو شروع کیا تاکہ عام آدمی تک بھی اس بحث کو پہنچایا جائے۔

ایسے موضوعات پر ایسی تحریریں جو آپ کے ذہن کے بنے بنائے سانچے اور بنی بنائی رائے کو توڑنے کی کوشش کریں اور آپ کو سوچنے کی تحریک دیں، اس کے بارے میں عمومی رد عمل ان کو مسترد کر دیتا ہے۔ موجودہ دور میں عوام کا زیادہ تر رجحان طلسماتی اور چمکتی اشیاء کی جانب ہے، وہ خواہ روز مرہ کی ضروریات ہوں یا خیال ہوں یا چیزوں کو دیکھنے یا انداز ہو یا مذہب ہو، لوگ اس میں چمک تلاش کرتے ہیں۔ ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم معاشرے میں کوئی واضح فرق ڈال سکتے ہیں یا ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چونکہ ہم تمام چیزوں کو مغربی انداز سے دیکھتے ہیں اور مغربی انداز سے رد کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہمارا کوئی رویہ نہیں۔ ہمارا جو قاری ہے وہ صرف پڑھے لکھے لوگ ہیں جو غور و فکر اور تحقیق کرتے ہیں۔ اگر ہم وہاں کوئی فرق ڈالنے میں کامیاب ہوگئے اور تجزیات ایسے افراد کی رائے چاہے مثبت ہو یا منفی بنانے میں کامیاب ہوجائے تو ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم اپنے مقصد کو حاصل کر رہے ہیں۔ ہم تنازعات خواہ وہ فکری ہیں یا عقلی و سیاسی یا معاشی ہیں ان کو ان کے تناظر کے اندر رکھ کر سمجھنے کے رویے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور پھر ان تنازعات سے تعلق رکھنے والوں کی رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر محفل معروف اہل علم و دانشور اشفاق سلیم مرزا نے کہا کہ کسی معاشرے میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی جب تک اس کے مادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ ہم 62 سال سے رجائیت پسندی کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بھیانک منظر کو دکھانے کی ضرورت ہے جس سے ہم آج کل دوچار ہیں۔ آپ ''تجزیات'' میں اس بات پر زور دیں کہ فرسودہ نظام کو ختم کیا جائے۔ دوسرا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے اور پہلے کس کو ختم کرنا چاہئے۔ موجودہ سماج اس وقت 1960 ء سے زیادہ مذہبی ہو گیا ہے اور اب چھوٹی سے چھوٹی بات پر کفر اور شرک کے فتوے لگنے لگتے ہیں۔ ''تجزیات''کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس رسالے کو مستقل برقرار رکھنا ضروری ہے اور کوئی بھی موضوع ہو اس میں جانبداری تو ضرور ہوتی ہے۔ کوئی شخص بھی غیر جانبدار نہیں ہوسکتا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشہور ادیب و دانشور منشایاد نے کہا کہ ''تجزیات''کے کسی مضمون سے اختلاف رائے تو ممکن ہے۔ لیکن پرچے کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ مجھے اس کے تمام مضامین پسند آئے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی میں صرف مسلمان یا پاکستان کا نام کیوں آتا ہے۔ یہ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ جہاد کے مقدس نام کو برباد کر رہے ہیں ان کا مقصد کیا ہے۔

معروف دانشور احمد سلیم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''تجزیات''کی صور ت میں ہمیں ایک راستہ دکھائی دیا ہے ورنہ اس سے پہلے مختلف سماجی تنظیموں نے اپنے ہم خیال لوگوں تک صرف ان کی زبان میں لکھا ہے جبکہ تجزیات اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے ہم تک پہنچ پایا ہے۔ اگر ہم دیانت داری اور غیر جانب داری سے بھی کوئی کام کریں تو اس صورت میں بھی ہمیں یا ظالم کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا یا مظلوم کے ساتھ۔.

معروف افسانہ نگار حمید شاہد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دانشور ایک جہت سے اشیاء کو دیکھنا شروع ہو چکے ہیں یہ ایک نئے عہد کا المیہ ہے۔ جو کچھ ہمیں بتایا جارہا ہوتا ہے ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ انسانیت کے دشمن ہیں خواہ وہ افراد ہوں، تنظیمیں ہوں یا ریاستیں ان کو بے نقاب کیا جانا ضروری ہے اور ماہنامہ تجزیات نے دوسری طرف بھی جاکر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جو قابل ستائش ہے۔

اس موقع پر جناب زاہد امروز ، زاہد مسعود، اختر رضا سلیمی اور قاسم یعقوب نے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنا اپنا کلام پیش کیا۔