Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
پاکستان سیکورٹی رپورٹ 2009 ء |
مجتبیٰ محمد راٹھور
بعض اوقات ہم صورت حال کا جائزہ بعض ایسی مبالغہ آمیز رپورٹس سے مرتب کرتے ہیں، جو ہمیں شک و شبے کی دنیا میں لاکھڑا کرتی ہیں اور بعض اوقات سرکاری اور انتظامی اداروں کی جانب سے ''سب اچھا ہے '' کی نوید دینے والی خبریں ایسی دلدل میں جا پھنساتی ہیں، جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ تاہم دانش کا تقاضا یہی ہے کہ ہم حال کا جائزہ حقیقت پسندانہ طور پر کریں تاکہ ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکیں۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز(PIPS) کی جاری کردہ 2009 ء کی سیکورٹی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دہشت گردی کی وارداتوں میں 2001 ء سے اب تک شہری جانوں کا سب سے زیادہ زیاں ہوا جو کہ ہم سب کے لیے اور خصوصاً حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس رپورٹ میں داخلی سطح پر کارفرما تشویش ناک صورتِ حال کو تحقیقی تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے چند حصوں کی تلخیص نذرِ قارئین ہے۔ (مدیر)
|
پاک انسٹیٹیوٹ فارپیس سٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ'' پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2009 ء '' کے مطابق گذشتہ سال ملک دہشت گردی کے ساتھ ساتھ مختلف بحرانوں کی زد میں رہا۔ انسانی جانوں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھی۔ امن وامان کی مخدوش صورتحال کے ساتھ ساتھ،معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فریقین کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد سال 2009ء میں پاکستان کی مجموعی صورتحال کا خلاصہ رہے۔ سوات اور جنوبی وزیر ستان میں کامیاب فوجی آپریشن کے باوجود علاقائی اور تزویراتی مفادات کا تحفظ پالیسی ساز اداروں کے لئے انتہائی گھمبیر چیلنج رہا۔
پاکستانی پالیسی ساز اداروں اور انتظامیہ کے مابین غیر ریاستی تنظیموں کے ''اچھا'' یا''برا'' ہونے کے بارے میں رائے میں مغالطہ بدستور باقی رہا جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام کو 2009 ء میں بھی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکورٹی رپورٹ 2009ء کے مطابق پاکستان بھر میں 2586دہشت گردی ، شورش اور فرقہ ورانہ تصادم کے واقعات رونما ہوئے، جن میں 3021افراد جاں بحق اور 7334زخمی ہوئے۔ پاکستان کی مختلف سیکیورٹی فورسز کے 1211جوان اور افسران بھی دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنے۔
حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد پاکستان کی 62سالہ تاریخ میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچی۔ دہشت گردوں نے پورا سال اپنی کارروائیاں اور حملے جاری رکھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انتہائی خطرناک اور جدید طریقے اختیار کئے۔
پاکستانی فورسز کے کامیاب آپریشنز کے باوجود عسکریت پسند خود کش دھماکوں کے ذریعے ملک کے امن و امان پر اثر انداز ہوتے رہے۔ سال 2009 میں 87 خود کش حملوں میں 1299 افراد جاں بحق اور 3633 زخمی ہوئے، جبکہ سال 2008 ء میں 63 خودکش حملوں میں 967 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
PIPS کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سرحد سب سے زیادہ دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنا، جہاں 1137 حملوں میں 1439 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جب کہ بلوچستان میں 792 اور قبائلی علاقہ جات میں 559 حملے ریکارڈ کیے گئے۔ پنجاب نے 46، سندھ نے 36 ، اسلام آباد نے 12 ، جب کہ گلگت ، بلتِستان اور آزاد کشمیر نے 5,5 دہشت گرد حملوں کا سامنا کیا۔
سال بھر دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ ساتھ اگر سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں ، فرقہ وارانہ حملوں اور فسادات، سیاسی ٹارگٹ کلنگ اور ڈرون حملوں میں مارے جانے والے افراد کا شمار کریں تو مجموعی طور پر 12,632 افراد ہلاک اور 12,815 زخمی ہوئے۔ جن میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی تعداد 7945 ہے۔ دیکھیں جدول نمبر I
گذشتہ سال سے موازنہ:
سال 2008 ء کی نسبت سال 2009 ء میں دہشت گرد کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس اضافے کی ایک وجہ دہشت گردوں کے خلاف سوات اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن تھے جن کے رد عمل میں دہشت گردوں نے پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کردیں۔
ہلاکتوں میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ دہشت گردوں نے خودکش حملوں کا ہتھیار بڑی کامیابی سے استعمال کیا اور خصوصی طور پر شہریوں کو نشانہ بنایا، جبکہ سال 2008 ء میں خود کش حملوں کا زیادہ ٹارگٹ سیکورٹی فورسز تھیں۔ اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، مون مارکیٹ، لاہور اور مینا بازار، پشاور میں شہریوں کی بڑی تعداد دہشت گردی کا نشانہ بنی۔
سال 2008 ء کی نسبت سال 2009 ء میں ہلاکتوں کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ جس کی بنیادی وجہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب فوجی کارروائیاں تھیں۔ جن میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی۔
نظامِ عدل قانون کے نفاذ کے بعد جب طالبان نے مالا کنڈ ڈویژن میں حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو پامال کیا تو حکومت نے جنگجوئوں کے ساتھ مفاہمتی پالیسی کو یکسر ترک کرتے ہوئے سخت کارروائیوں کا فیصلہ کیا۔ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردوں کے خلاف 5 بڑے آپریشن کیے گئے۔ سال 2008 ء میں 313 آپریشن کارروائیاں کی گئی تھیں۔ جبکہ سال 2005 ء میں 596 کارروائیاں کی گئیں جن میں 6329 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ 12,866 عسکریت پسندوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا جن میں 9739 پاکستانی طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے 75 دہشت گرد بھی شامل تھے۔
سال 2009 ء کے دوران طالبان جنگجوئوں کی حکمت عملی میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ طالبان نے کالعدم تنظیموں کے ساتھ مل کر خودکش حملہ آوروں کو استعمال کرنے کی بجائے گروپ کی صورت میں ایک ہدف کو ٹارگٹ بنانے کی حکمت عملی استعمال کی۔ آرمی ہیڈ کوارٹر، راولپنڈی، مناواں پولیس اسٹیشن، اور پریڈ لین مسجد، راولپنڈی اس کی مثالیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں آرمی آفیسرز کی ٹارگٹ کلنگ بھی ان کی حکمت عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔
دہشت گردوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف طریقے اور ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ رپورٹ کے مطابق حملوں کی تقسیم جدول 2 میں ملاحظہ کریں۔
پاکستان میں سال 2009کے دوران سیکورٹی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل چیلنجز سامنے آئے ہیں۔
عسکریت پسندوں کے بدلتے ہوئے ٹارگٹ اور طریقے
یوں تو سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف بہت سے اقدامات کئے اور کئی کامیابیاں بھی حاصل کیں مگر عسکریت پسندوں نے بھی بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق اپنی حکمت عملی اور طریقہ ہائے کار (Tactics)میں تبدیلیاں کیں۔ 2008ء میں دیکھا گیا تھا کہ پاکستان میں سر گرم عمل القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے گروہوں نے عراقی عسکریت پسندوں کے طرز پر جدید ٹیکنالوجی اور طریقوں کا استعمال شروع کیا۔ اس طرح کی مہارتوں کا مظاہرہ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں دیکھنے کو ملا، جن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA)کے لاہور آفس پر ہونے والا حملہ اور اسلام آباد میں ڈنمارک کے سفارت خانے پر ہونے والے خود کش حملے شامل ہیں۔سال 2009ء کے دوران دہشت گردوں نے اپنے آپریشنز کے دوران ان طریقہ ہائے کار کو مزید بہتر بنا کر نئے ٹارگٹس کو نشانہ بنایا۔
گذشتہ سال کے دوران ایک رجحان یہ دیکھنے میںآیا کہ دہشت گردوں نے تو اتر کے ساتھ ایک مخصوص شہر کو نشانہ بنایا تا کہ شہریوں کو زیادہ سے زیادہ خوفزدہ کیا جا سکے۔ اس ضمن میں صوبہ سرحد کے دارلحکومت پشاور کی مثال لی جا سکتی ہے جسے 170مرتبہ دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں 445افراد مارے گئے جن میں ایک بڑی تعداد نہتے شہریوں کی تھی۔ پاکستان اور افغانستان کے امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی عسکریت پسندوں کی جانب سے پشاور کو نشانہ بنانے کی چار وجوہات بیان کرتے ہیں ؛اوّل یہ کہ پشاور طالبان کے اثرورسوخ والے قبائلی علاقوں کے بہت قریب واقع ہے۔ دوئم، پشاور ایک بہت بڑا لیکن غیر منظم شہر ہے جس کی وجہ سے عسکریت پسندوں کی حرکت پر نظر رکھنا بہت مشکل ہے۔ سوئم، صوبہ سرحد کا دارالحکومت ہونے کے باعث یہ شہر بہت سی سیاسی جماعتوں کا ہیڈ کوارٹر ہے جو طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ چہارم، یہ صوبے کا معاشی مرکز ہے جس پر حملے کر کے شدت پسند ریاست کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
آئندہ سال پشاور کے علاوہ ان خصوصیات کا حامل کوئی بھی شہر عسکریت پسندوں کی طرف سے کئے جانے والے حملوں کی زد میں ہو گا یا مستقل خطرے میں رہے گا۔
دوسرا نیا رجحان یہ دیکھنے میں آیا کہ شدت پسندوں نے ممبئی حملوں کی طرز پر پاکستان میں بھی کئی حملے کئے۔ مثال کے طور پر لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم اور راولپنڈی میں فوج کے مرکز GHQپر ہونے والے حملوں میں ہو بہو''ممبئی سٹائل'' اپنایا گیا۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ شدت پسندوں نے جھوٹی شناختوں اور حلیوں کے ذریعے کئی موقعوں پر سیکورٹی فورسز کو جھانسہ دے کر حملے کئے۔ مثال کے طور پر GHQحملے میں دہشت گردوں نے فوجی یونیفارم پہن رکھی تھیں اور وہ فوج کے زیراستعمال ایک گاڑی پر سوار تھے۔ اسی طرح کے طریقے اسلحے کی ترسیل میں بھی اپنائے گئے۔ سال 2009کے دوران حکومتی اداروں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج یہ بھی ابھرا کہ گذشتہ سالوں کے برعکس دہشت گردوں نے تو اتر کے ساتھ عوامی مقامات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ مینا بازار پشاور، مون مارکیٹ، لاہور اور کھوسہ مارکیٹ، ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے دھماکے اس نئے رجحان کی بہت بڑی مثال ہیں۔ عسکریت پسندی پر ماہر، خالد احمد کا کہنا ہے کہ شہریوں پر ہونے والے حملے در حقیقت حکومت کی طالبان کے خلاف نئی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔حکومت پاکستان بڑے واضح انداز میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر چکی ہے اور کامیاب ملٹری آپریشنز کے ذریعے شدت پسندوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب بھی ہوئی ہے۔ پاکستانی طالبان شہریوں پر حملوں کے ذریعے حکومت پاکستان کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبو ر کرنا چاہتے ہوں گے۔ خالد احمد کے مطابق مستقبل قریب میں بھی اس نوعیت کے حملے ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
فرقہ واریت کے واقعات میں بھی واضح اضافہ دیکھنے میں آیا اور تحریک طالبان، پاکستان اور اس سے منسلک دوسرے گروہوں نے کئی واقعات کی ذمہ داری قبول کی۔ اس سے قبل تحریک طالبان پاکستان کھلم کھلا فرقہ واریت میں ملوّث نہیں ہوتی تھی۔ یہ تبدیلی پاکستانی طالبان اور پاکستان کے دیگر فرقہ وارانہ گروہوں میں مضبوط ہوتے تعلقات کی نشاندہی کرتی ہے جس کے باعث ریاستی اداروں کو ملک کے مختلف اقلیتی فرقوں کے تحفظ میں نئے چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔
1980اور90کی دہائی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات عروج پر تھے۔ محسوس ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے ایک مرتبہ پھر اس طریقہ واردات کی افادیت جان کر اسے دوہرانا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ میں اس قسم کے لا تعداد واقعات دیکھنے میں آئے۔ فوجی ہائی کمان کے کئی افسران اور سیاسی رہنما ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ اسلام آباد میں تین حاضر سروس بریگیڈیئرز کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میں القاعدہ نیٹ ورک
گذشتہ کچھ سالوں میں القاعدہ، طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے مابین تعلق بہت مضبوط رہے اور سال 2009ء کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں اس قسم کے تعاون کے عملی نمونے دیکھنے میں آئے۔ القاعدہ اور پاکستانی گروپوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات بین الاقوامی سطح پر شدت پسندوں کو پاکستان کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ سال 2009 ء میں بہت سے غیر پاکستانی دہشت گردوں نے جن میں امریکی، جرمن، سویڈش اور ڈینش بھی شامل تھے، اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس رجحان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان آج بھی بین الاقوامی انتہا پسندوں کے لئے ایک پر کشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈرون حملے
امریکی ڈرون حملے سال 2009میں بھی ایک متنازعہ معاملہ رہا۔ اگرچہ ڈرون حملوں میں پاکستانی طالبان کا رہنما بیت اللہ محسود بھی مارا گیا لیکن ان حملوں کے نتیجے میں امریکہ کے خلاف عوامی ردعمل منفی ہوتا چلا گیا۔ ڈرون حملوں کے خلاف عوامی ردعمل کا سامنا حکومت پاکستان کو بھی کرنا پڑا کیونکہ اکثریت کے خیال میں حکومت نے ان حملوں کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں ممکنہ اضافے کے بعد طالبان کی بڑی تعداد ایک مرتبہ پھر پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رخ کرے گی جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں ڈرون حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ ممکن ہے۔ مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس تنازعے کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مزید ہوا دے سکتی ہیں۔ تا ہم معروف تجزیہ کار طلعت مسعود کے مطابق ڈرون حملے tacticalسطح پر مفید ہیں، کیونکہ ان کے خوف سے قبائلی علاقوں میں موجود عسکریت پسند دباؤ میں رہتے ہیں، بڑی تعداد میں ظاہر ہونے سے گھبراتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت میں بھی کمی ہوتی ہے۔ کئی ہائی پروفائل عسکریت پسند رہنما ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ تا حال پاکستان کے پاس اتنی مہارت سے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی اہلیت نہیں ہے۔ لیکن ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں اور اس سے پیدا ہونے والے عوامی رد عمل کو یکسر نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ ڈرون حملوں کے اس متنازعہ مگر اہم مسئلہ پر امریکہ اور پاکستان کو مل بیٹھ کر ایک جامع حل نکالنے کی ضرورت ہے۔
جنوبی پنجاب
گذشتہ سال کے دوران جنوبی پنجاب کا علاقہ عسکریت پسندی کے ایک نئے گڑھ کے طور پر قومی و بین الاقوامی خبروں میں نمایاں رہا۔ حتیٰ کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو بھی اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کہ جنوبی پنجاب ایک نیا سوات بننے کی طرف گامزن ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں سرگرم مختلف دہشت گردوں کے 50فیصد سے زائد ارکان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ اگرچہ مختلف عسکریت پسند گروپ پاکستان بھر میں اپنا نیٹ ورک اور تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ، جنوبی پنجاب نئی بھرتیوں کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔خطے میں غربت کی اونچی سطح اور مدارس کے ایک منظم نیٹ ورک کی بدولت عسکریت پسند تنظیمیں بآسانی نئی بھرتیاں کر سکتی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن بھی عسکریت پسندوں کو جنوبی پنجاب کا رخ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں موجود 5,500کلو میٹر طویل قبائلی پٹی فاٹا سے مفرور ہونے والے دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود حکومت جنوبی پنجاب میں بڑھتے ہوئے خطرے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ حکومت کا یہ موقف دو وجوہات کی بناء پر ہے: اگر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عسکریت پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے عالمی برادری جنوبی پنجاب میں بھی آپریشن کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ حکومت کی سبکی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر جنوبی پنجاب میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا جاتا ہے تو ایسے جہادی گروپ جو ابھی تک حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں سے اجتناب کر رہے ہیں، بپھر جائیںگے اور حکومتی اداروں کے لئے کئی اور محاذ کھول دیں گے۔
دہشت گردوں کے مالی ذرائع
تا حال حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے مالی ذرائع کے خلاف کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ Anti-Money Laundering Ordinanceکی میعاد 28نومبر 2009ء کو ختم ہو چکی ہے اور ملک میں دہشت گردوں کے مالی وسائل کی ترسیل پر نظر رکھنے کا ایک یہی قانون تھا۔ حکومت کو فوری بنیادوں پر ایک مؤثر قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ مالی وسائل کی دستیابی کے لئے پاکستانی طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کا جرائم پر انحصار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان مختلف قسم کے ٹیکس اور جرمانے نافذ کر کے بھی بہت مال بناتے ہیں۔ اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ طالبان کا ایک اور بڑا ذریعہ آمدن ثابت ہوئی ہے۔
پولیس کا موثر کردار
جوں جوںدہشت گردی ملک کے قبائلی علاقوں سے شہری علاقوں میں پھیل رہی ہے، توں توں ملک میں ایک پیشہ ورانہ، بہتر تربیت یافتہ اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے لیس پولیس فورس کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ بہت سے ممالک میں پولیس امن و امان قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں پولیس کے مقابلے میں عسکریت پسند زیادہ تربیت یافتہ اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے لیس نظر آتے ہیں۔ پولیس اور انٹیلی جینس اداروںمیں موثر رابطوں اور باہمی تعاون کا فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستان میں پولیس کے ایک موثر کردار کی ضرورت کے باوجود اس ادارے کے تربیتی معیارات تنزلی کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر وسائل کی کمی کے باعث پولیس کانسٹیبل کی تربیت کا عرصہ 9ماہ سے کم کر کے 6ماہ کر دیا گیا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے کئی وعدوں کے باوجود، طالبان کے خلاف برسر پیکار صوبہ سرحد کی پولیس کو بھی جدید ہتھیاروں کی فراہمی نہیں کی گئی ہے۔ پولیس کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے (NACTA) کے چیئر مین طارق پرویز نے کہا کہ وسائل کی کمی یا عدم موجودگی میں بھی پاکستان پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پولیس کو اپنا انٹیلی جنس نظام بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے پولیس کو موثر ٹریننگ اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی سے بھی پولیس کی کار کردگی کو بہتر بنانے میں کامیابی ہو گی۔
(بشکریہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز)
|
|
|
|
|