پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے 2008-09 میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہرین، جن کا تعلق سیاسیات، عالمی امور، مذہب، سائنس، ذرائع ابلاغ اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے ساتھ تھا، سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا تھا اور ان ماہرین سے تفصیلی نشستوں کے علاوہ ایک سروے کے ذریعے بھی انتہا پسندی پر ان کی آراء کو اکٹھا کیا گیا تھا اور ان میں سے سولہ ماہرین کی آراء کا تجزیہ کیا گیاتھا۔(1) ان میں سے گیارہ ماہرین کا اتفاق تھا کہ انتہا پسندی ایک سیاسی مظہر ہے
|
|
|
|
پاکستان اور یمن کے قبائلی علاقوں میں جاری دہشت گردی اور اس کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کا موازنہ کیا جائے تو بہت سی مما ثلتیں نظر آتی ہیں
|
بش انتظامیہ کی ناکام پالیسی اور جامع و مربوط منصوبہ سازی کے فقدان نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کو تصادم سے دوچار کر دیا ہے۔
|
|
|
|
حسن ابدال کے جنت نظیر خطے کو پھولوں، پھلوں، قدرتی چشموںاور امن و محبت کے آفاقی درس دینے والے صوفیوں، سادھوئوں اور بھگتوں کی سرزمین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
|
ستم ظریفی یہ ہے کہ زرعی پالیسی ساز یہ تو مانتے ہیں کہ زراعت پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن خواتین کے کردار کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
|
|
|
|
طالبان اور ان جنگجوئوں کی حمایت میں سیاست کے بازار سے اٹھنے والی وہ بولیاں قوم پسند نہیں کرتی جو وحشت، درندگی، قتل و غارت کے بازار اور قتل گاہ میں لاشوں پر بیٹھ کر مذاکرات کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک طرف یہ سیاسی بذرجمہر جن کی پارٹیوں کا وجود صرف اخبارات اور ٹی وی تک محدود ہے وہ بالواسطہ طور پر طالبان اور ان جنگجوئوں کی حمایت بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف ان حملوں کی مذمت بھی کرتے ہیں۔
|
|
|
|
ادیب خواہ اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کا لکھا ہوا ہر لفظ سماج پر کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی سطح پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے جلدیابہ دیر نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔
|
|
|
|
''مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم'' ڈاکٹر سید عزیزالرحمن کی مرتب کردہ کتاب ہے، جس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی مختلف تقاریب میں کی جانے والی تقاریر اور خطبات شامل ہیں ۔ مذکورہ کتاب میں موجودہ دور میں دینی مدارس کے حوالے سے پائے جانے والے مفروضوں، حقائق اور اس کے لائحہ عمل سمیت قدیم اور جدید تعلیم میں ہم آہنگی کے بارے میں تفصیلاً بات کی گئی ہے ۔ کتاب میںایک طرف اکیسویں صدی میں پاکستان کے تعلیمی تقاضوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے
|
|
|
|