working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

افغان جنگ کو پاکستان منتقل کرنے کی امریکی حکمت عملی
وقار احمد
 
مضمون نگار کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نیٹو افواج گذشتہ آٹھ سال سے افغانستان میںموجود ہیں اور نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ''دہشت گردی''کر رہی ہیں۔ نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اگر مناسب امداد نہ ملی تو اس سال کے آخر تک افغانستان میں لڑی جانے والی امریکی جنگ ناکامی کی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی۔ یہاں یہ نکتہ ذہن میں ابھرتا ہے کہ کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیے سامانِ حرب و ضرب کا میسر ہونا اور فوج کا زیادہ تعداد میں ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ وہ جوکہا جاتا ہے کہ جنگ میں سپاہی کی تلوار نہیں اس کا جذبہ لڑتا ہے، زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہمیں افغان جنگ میں بھی نظر آتی ہے لیکن مصنف اس مضمون میں کچھ اور خدشات کا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں جن کا ادراک آپ کو مضمون کے مطالعہ کے بعد ہو گا۔(مدیر)
افغانستان میں تقریباًایک لاکھ امریکی اور نیٹوافواج کے کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے افغانستان سے متعلق اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے ''محض سازوسامان اور افرادی قوت سے یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی البتہ سازوسامان اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے یہ جنگ ہاری ضرور جا سکتی ہے۔ وسائل فراہم نہ کرنے سے یہ جنگ لمبی ہو سکتی ہے،جانی نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے، جنگ پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں افغانستان میں سیاسی شکست سے بھی دوچار ہونا پڑ سکتاہے اور مندرجہ بالا کسی بھی وجہ سے امریکہ کی افغانستان میں فوج کشی کا مقصد فوت ہو سکتا ہے''۔

جنرل میک کرسٹل کی فوج گزشتہ آٹھ سال سے افغانستان میں موجودہے اور سانحہ 9/11 کے بعد''دہشتگردی کے خلاف جنگ''کے نام پر ''دہشتگردی ''کر رہی ہے۔ جنرل میک کرسٹل نے پیشین گوئی کی ہے کہ اگر مناسب کمک نہ پہنچائی گئی تو اس سال کے آخر تک افغانستان میں لڑی جانے والی امریکی جنگ ناکامی کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔جنرل میک کرسٹل افغان جنگ کی حکمت عملی پر غور و خوض کے لیے امریکہ کے چیئر مین جائینٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک ملن سے جرمنی میں خفیہ ملاقات بھی کر چکے ہیں جس کے بعد انہوں نے امریکہ کے ڈیفنس سیکریٹری رابرٹ گیٹس کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں جنگ کو افغانستان سے پاکستان منتقل کرنے کی سفارش کی ہے۔جنرل میک کرسٹل کو صدر اوبامہ نے یہ کام سونپا تھا کہ وہ Af-Pak Policy کا ازسرِنو جائزہ لیں اور اس میں تبدیلی کے لیے اپنی سفارشات پیش کریں۔جنرل میک کرسٹل نے تجویز دی ہے کہ دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے افغانستان کی بجائے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا جائے۔ جنرل میک کرسٹل نے جون2009 ء میں امریکی اور نیٹو افواج کی کمان سنبھالی تھی اور تب سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانی لوگوں کو دونوں طرف سے مار پڑی ہے۔بین الاقوامی فوج نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور افغانستان کی اپنی سیاسی لیڈر شپ نے بھی افغانیوں کو مایوس کیا ہے۔دراصل افغان لیڈر شپ اپنی بدعنوانیوں اورکرپشن کی وجہ سے نہ تو امریکہ میں پسند کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کو افغانی عوام کا اعتماد حاصل ہے۔

جنرل میک کرسٹل نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کو افغانستان کے کلچر اور سوسائٹی کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مزید برآں مختلف ممالک کی افواج امریکی جھنڈے کے نیچے وہ کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیںجو ایک ہی ملک کی فوج دکھا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جنرل میک کرسٹل کی نظر میں افغانستان کے کمزور ادارے، بدعنوان افسران اور نیٹو کے افسروں کی ذاتی کمزوریاں بھی افغانستان میں ناکامی کا باعث بن رہی ہیں۔جنرل میک کرسٹل کو صدر اوبامہ نے بذات خود امریکی افواج کا سربراہ نامزد کیا تھا تاکہ وہ ان کی بدنام زمانہAf-Pak پالیسی کو عملی جامہ پہنا سکیں اور ان کے لیے انہیںجنرل ڈیوڈ میکرنن کو برطرف کرنا پڑا تھا۔

جنرل میک کرسٹل کی رپورٹ شائع ہونے کے بعدصدراوبامہ مشکل میں گرفتار ہیں۔ ان کی اپنی ڈیموکریٹ پارٹی میں افغانستان میں مزید فوج بھیجنے پر سخت اختلافات موجود ہیں۔ دوسری طرف اگر وہ فوج نہیں بھیجتے تو انہیں ریپبلکن پارٹی کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ایک طرف اوبامہ کے وہ وعدے ہیں جو انہوں نے اپنے الیکشن کے دوران کئے تھے کہ وہ سمندر پار بھیجی گئی افواج میں کمی کریںگے اور دوسری طرف پینٹاگون اور حزب مخالف جو ہر قیمت پر افغانستان کے آپریشن کو کسی منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔صدر اوبامہ نائب صدر جو بائیڈن کی اس تجویز کو بھی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کی بجائے القاعدہ کے ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے جو پاکستان میں ہیں۔قیاس کیا جا رہاہے کہ صدر اوبامہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے موجودہ حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دینا چاہتے ہیں جیسا کہ انہوں نے ''اے بی سی'' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں اس وقت تک افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کا حامی نہیں جب تک کوئی حتمی حکمت عملی سامنے نہیں آجاتی''۔ صدر اوبامہ کا یہ بیان جنرل میک کرسٹل کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

دراصل صدر اوبامہ آٹھ سال لمبی جنگ میں امریکہ کی فتح کے متعلق پُریقین نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس جنگ پر اٹھنے والے اخراجات سے بھی پریشان ہیں۔ہر طرح کے اختلافات کے باوجود صرف ایک نکتے پر امریکی حکومت، اپوزیشن ،پینٹاگون اور صدر اوبامہ متفق دکھائی دیتے ہیں کہ افغانستان میں لڑنے والے تمام گروہوں کی جڑیں اور ان کے رہنما پاکستان میں ہیں اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان گروہوں کی مدد کر رہی ہیں۔ اوبامہ حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان میں مقیم یہ لوگ افغانستان میں طالبان قسم کی انتہا پسند حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔دراصل اوبامہ ایڈمنسٹریشن اس طرح کے الزامات لگا کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ افغانستان میں لڑنے والوں کی امداد پاکستان سے کی جاتی ہے اور یہ کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں امریکہ کو کامیابی حاصل نہ ہونے کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ ہے۔اس طرح کے الزامات سے وہ Af-Pak پالیسی کے لیے جواز ڈھونڈنا چاہتے ہیں تاکہ افغانستان کی جنگ کو پاکستان میں منتقل کیا جا سکے۔

ہنری کسنجر کے یہ الفاظ اب ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ امریکہ کی دشمنی خطرناک لیکن امریکہ کی دوستی اس سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔صدر اوبامہ کو چاہیے کہ امریکہ کے امیج پر اس طرح کی چھاپ نہ لگنے دیں اور اپنے دیرینہ دوستوں کو اس طرح دھوکا نہ دیں کہ آنے والی نسلیں واقعی امریکہ کی دوستی اور دشمنی دونوں پر یقین کرنا بند کر دیں۔افغانستان کی جنگ کو پاکستان منتقل کرنے کی حکمت عملی اس وقت سامنے آرہی ہے جب وزیرستان آپریشن شروع ہو چکا ہے۔جنوبی پنجاب میں انتہا پسندوں کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ ایران نے بھی اپنے بم دھماکے کے تانے بانے پاکستان سے ملانے شروع کر دیئے ہیں اور بھارت تو ویسے ہی چاہتا ہے کہ پاکستان کا وجود اس دنیا میں نہ رہے۔صدر اوبامہ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ اس جنگ کو زبردستی پاکستان میںگھسیٹنے سے پاکستانی عوام کے دلوں میں ان کے لیے نفرت مزید بڑھ جائے گی۔ امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں میں اضافے کی وجہ سے پہلے ہی امریکہ کے خلاف عوام کے جذبات کچھ زیادہ اچھے نہیںرہے۔ امریکہ کی طرف سے کوئٹہ اور مریدکے پر حملوں کی دھمکی نے بھی انٹی امریکہ جذبات کو ہوا دے رکھی ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں جنرل میک کرسٹل کی رپورٹ کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے اور جنگ کو افغانستان سے پاکستان منتقل کرنے کے فیصلے کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا جارہاہے۔ ناانصافی نہ تو مخلوق خدا کو پسند ہے اور نہ ہی خالقِ کائنات کو۔ امریکہ آج طاقت کے نشے میں مست ہاتھی بنا ہوا ہے لیکن یاد رہے کہ آج تک ہر عروج کو زوال آیا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کل آنے والے اس زوال کا آغاز آج ہی سے ہو جائے۔