working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

انتہا پسندی اور دانشوروں کا ردِعمل: موضوعی مطالعہ
محمد عامر رانا
 
پاکستان میں انتہا پسندی پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ مختلف طبقات اپنے مخصوص مذہبی، سماجی اور معاشی پس منظر میں اس مظہر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی کی کسی ایک تعریف پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ لیکن پاک انسٹی ٹیوٹ فارپیس سٹڈیز کے ایک مطالعے میں حیران کن نتائج سامنے آئے کہ ادیب اور شاعر نہ صرف انتہا پسندی کے مظہر اور اس کے پھیلاؤ سے کماحقہ آگاہ ہیں بلکہ اس کے خاتمے کے لیے زیادہ موزوں اور جامع تجاویز کے بھی حامل ہیں۔ ہمارے معاشرے کو جس ایک متبادل فکری دھارے کی ضرورت ہے وہ ان کی فکر سے نمو پا سکتا ہے بشرطیکہ اسے ایک منضبط رجحان میں تبدیل کر دیا جائے۔ زیرِنظر مطالعہ اسی رجحان کے کھوج کی کاوش ہے۔ (مدیر)

انتہا پسندی کیا ہے؟ پاکستان کے ماہرین اس کی کیا تعریف (Definition)کرتے ہیں، اس کی وجوہات پر ان کا رد عمل کیا ہے اور اگر یہ مسئلہ ہے تو اس کا کیا حل تجویز کرتے ہیں، اس موضوع پر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (PIPS) نے ایک مطالعے کا اہتمام کیا۔ مطالعے کا مقصد دانشوروں کے نقطۂ نظر کو جامع انداز میں دیکھنا تھا کہ اس مسئلے پر ان کی آراء کی کیا جہتیں ہیں اور ان کی رائے معاشرے کے دیگر مکتبہ ہائے فکر اور عوام کی رائے سے کتنی مماثلت رکھتی ہے اور اگر مختلف ہے تو کتنی اور کیوں؟ اور سب سے اہم ، وہ اس کے حل میں اپنے کردار کو کہاں دیکھتے ہیں۔

بظاہر اس تناظر میں دانشوروں کی رائے کی پیمائش مشکل نظر نہیں آتی، لیکن جب اس مطالعے کا آغاز کیا گیا تو جن بنیادی سوالات نے سر اٹھایا، وہ یہ تھے:
١۔ دانشور کی تعریف کیا ہے؟
٢۔ کیا سماجی، سیاسی، معاشی اور مذہبی مفکرین اور ماہرین کو بھی اسی زمرے میں رکھا جائے؟ اگر ہاں تو موضوع کی تنگ دامنی، متنوع آراء کو کیسے سہار پائے گی؟ اور تجزیے کے لیے کیا پیمانہ اختیار کرنا پڑے گا؟
٣۔ اگر ادب ، فلسفہ سے وابستہ دانشوروں کی آراء کا ہی مطالعہ کیا جائے تو کیا اسے مجموعی دانشور طبقے کی آراء کا اظہار قرار دیا جاسکے گا؟

جب یہ مطالعہ ترتیب دیا گیا تو ادب و فلسفہ سے وابستہ دانشوروں کو ہی ذہن میں رکھا گیا۔ ایک اعتبار سے گویا یہ ادیب اور شاعروں کی آراء کا مطالعہ ہے اور اسے مجموعی دانش کا اظہار قرار دینے میں کئی عوامل درپیش ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا گیا۔ لیکن فنون لطیفہ سے وابستہ کئی افراد کا خیال ہے کہ چونکہ وہ تخلیقی اظہار سے وابستہ ہیں اور صحیح معنوں میں معاشرے کے شعور اور لاشعور اور ان کے درمیان برپا کش مکش کو ادراک کی سطح پر منعکس کرتے ہیں، اس لیے دانشور کی اصطلاح ان سے مخصوص ہے، جب کہ سیاست، معاشرت اور معیشت سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ وہ جدید طرز فکر اور سائنسی انداز میں موضوعات کا تجزیہ کرنے کی اہلیت کے حامل ہیں، اس لیے دانش وری کے زیادہ مستحق ہیں۔ مذہبی رہنما اور مفکر دونوں کے برعکس آسمانی علوم کے وارث ہیں اور ان علوم پر عبور ہونا دانش وری کی ارفع مثال سمجھا جاتا ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے PIPS نے سروے کا محور تو ادب و فلسفہ کے افراد تک محدود رکھا، لیکن سروے کے نتائج کا باقی دو طبقات سے تقابل بھی کیا۔ تاکہ دانشور اور مفکرین کی آراء کا احاطہ ہو سکے لیکن یہ تقابل تینوں طبقات کا مکمل اظہاریہ نہیں، محض تقابل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب و فلسفہ سے وابستہ افراد کی رائے اکٹھی کرنے کے لیے جو مربوط طریقہ اختیار کیا گیا، وہ باقی دو طبقات کے لیے نہیں کیا گیا۔ بلکہ PIPS نے اس کے لیے اپنے پہلے سے کیے گئے مطالعوں اور ثانوی ذرائع پر انحصار کیا۔ چونکہ یہ مطالعے اور ذرائع وسیع تھے لہٰذا ان کے متعلقہ حصوں سے ہی استفادہ کیا گیا ہے۔
PIPS نے انتہا پسندی پر ادب و فلسفہ سے وابستہ افراد سے رائے کے لیے ایک کھلے انداز کے (Open ended) سوالنامے کا استعمال کیا اور پانچ سوالات پوچھے:
١۔ انتہاپسندی کیا ہے؟
٢۔ اس کی وجوہات کیاہیں؟
٣۔ ادب و فلسفہ سے وابستہ افراد کا اس پر رد عمل کیا رہا ہے؟
٤۔ اگر رد عمل مناسب نہیں تھا تو اس کی وجہ؟
٥۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں؟

یہ سروے پاکستان بھر سے شاعروں، ادیبوں سے کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ پاکستان کی تین نسلوں کے شاعروں اور ادیبوں کی رائے اکٹھی کی جائے تاکہ یہ جاننے میں بھی آسانی ہو کہ تینوں نسلوں کے اس مسئلے کو دیکھنے میں کیا فرق ہے؟ لیکن یہ سروے محض پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل کا اظہار یہ ہے۔ پہلی نسل سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں نے اس سے احتراز برتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ادارے نے کوشش کی کہ مکمل اور صحیح مواد (Data) کے لیے سوالنامہ جواب دہندہ (Respondant) کو دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی آسانی اور سہولت سے جواب، اپنے ہاتھ سے لکھ کر دے اور اس کے لیے بیشتر جواب دہندگان کو ایک ماہ سے زیادہ کا وقت دیا گیا۔ ادارے کو جتنا مواد (Data) حاصل ہوا ، اس اعتبار سے اسے مستند کہا جاسکتا ہے۔ لیکن زاہد حسن*، جنہوں نے ادیبوں اور شاعروں سے یہ تمام آراء اکٹھی کیں، کو یہ تجربہ بھی ہوا، کہ پہلی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کے نزدیک اس مطالعے کی اہمیت و افادیت زیادہ نہیں تھی اور یہ دلیل بھی سامنے آئی کہ اس مطالعے کا فائدہ کیا ہوگا؟ پہلی نسل کی یہ رائے بھی مطالعے میں اہمیت سے خالی نہیں کہ وہ انتہاپسندی جیسے موضوعات سے خود کو الگ تھلگ رکھنا چاہتی ہے۔

سروے میں دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے سولہ (16) اور تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے چونتیس (34) نمائندہ ادیبوں اور شاعروں سے رائے لی گئی۔ تمام جواب دہندگان کی ایک یا ایک سے زائد کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔

اس سروے میں جو اہم بات سامنے آئی، وہ ''انتہا پسندی کے بطور مسئلہ'' پر سب کا اتفاق ہے۔ یہ اتفاق اس لیے بھی اہم ہے کہ جواب دہندگان صرف شعر و ادب سے ہی وابستہ نہیں ہیں، بلکہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں درس و تدریس (خصوصاً ادب، نفسیات، فلسفہ اور سماجی سائنسی علوم)، صحافت، اہم سرکاری اداروں اور کاروبار سے وابستہ ہیں۔

کیا رائے کے اس اتفاق کو ان کے پیشہ ورانہ اداروں کی نمائندہ رائے سمجھا جاسکتا ہے؟ شاید یہ رائے قائم کرنا مشکل ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوامی رائے اکٹھے کرنے والے اداروں کے اعداد و شمار قدرے مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ جس پر بحث آئندہ صفحات میں کی جائے گی اور یہ کہ پاکستان میں اداراتی فکر میں خاصا تنوع ہے، مثلاً مذہبی اور سیاسی خصوصاً دائیں طرز فکر کے اداروں کی رائے اس کے قطعی برعکس ہوسکتی ہے اور ان کی بڑی تعداد بھی مذکورہ پیشوں سے وابستہ ہے۔
______________________________________________________
* پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز اس مطالعے کے لیے زاہد حسن کی کاوش پر ان کا ممنون ہے کہ انھوں نے مختصر عرصے میں اس سروے کو مکمل کیا۔ زاہد حسن خود بھی صاحبِ طرز ناول نگار شاعر اور کالم نگار ہیں۔

اب سروے کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہیں۔
١۔ انتہا پسندی کیا ہے؟
انتہا پسندی کی تعریف کی پانچ سطحیں سامنے آئیں ۔جو کہ دو بنیادی محرکات کے گرد گھومتی ہیں۔ پانچ سطحیں یہ ہیں:
١۔ انتہا پسندی عقائد و نظریات میں عدم توازن کا نام ہے جو عدم برداشت کو جنم دیتا ہے ۔
٢۔ ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں ایک فرد یا گروہ خود کو بالا تر اور محتسب سمجھتا ہے۔
٣۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی تفاوت کے نتیجے میں رویوں میں عدم توازن پیداہونا اور تشدد کی طرف مائل ہونا۔
٤۔ ریاست کی طرف سے مخصوص عقیدے کی ترویج اور مقبول عوامی عقائد کے درمیان کش مکش سے جنم لینے والے رویے۔
٥۔ عالمی اور بڑی طاقتوں کا اپنے مفادات کے لیے ٹکرائو اور تشدد کا سہارا لینے کی پالیسی سے جنم لینے والا ایک مصنوعی مظہر۔
انتہا پسندی کی یہ پانچوں تعریفیں دو محرکات ''ذہنی اور بیرونی'' کے گرد گھومتی ہیں اور بیشتر ادیبوں نے ان میں علت و معلول کے رشتے (Cause and Effect Relation) پر بھی بات کی ہے۔ ذہنی محرک میں عقائد اور نظریات کو اہمیت دی ہے، جب کہ بیرونی محرک میں سیاسی، سماجی، معاشی عدم تفاوت اور بیرونی قوتوں کے مفادات اور دبائو اہم ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تیسری نسل کے ہاں اس موضوع پر تنوع ہے اور پانچ قسم کی آراء سامنے آئیں، جب کہ دوسری نسل تین آراء تک محدود رہی۔ (دیکھیے چارٹ نمبر1)

1

عقائد اور نظریات میں عدم توازن کو 48% نے انتہا پسندی قرار دیا، جب کہ 26% کے مطابق یہ ذہنی کیفیت ہے، اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی فرد یا گروہ خود کو خدا کی جانب سے یا مخصوص نظریے کے تابع ہو کر خود کو محتسب سمجھ لیتا ہے۔ دوسری نسل کے ہاں 37% جواب دہندگان اس تعریف پر متفق ہیں، جب کہ تیسری نسل کے صرف 20% ۔ یہ امر اہم ہے کہ تیسری نسل کے 20% جواب دہندگان سیاسی، معاشی اور سماجی تفاوت سے رویوں میں پیدا ہونے والے عدم توازن کو انتہا پسندی سمجھتے ہیں، جب کہ دوسری نسل کے صرف6% ادیب ایسا سمجھتے ہیں۔

انتہا پسندی کی وجوہات پر زیادہ متنوع آراء سامنے آئیں اور بیشتر ادیبوں نے دوسے زائد وجوہات کے دائرہ کار کو پیشِ نظر رکھا۔ وجوہات کے دس بڑے دائرہ کار سامنے آئے اور آراء منقسم نظر آئیں۔ (دیکھئے چارٹ نمبر 2) دس وجوہات کو ان کے نزدیک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ سب سے زیادہ آراء فرقہ واریت اور مذہب کی غلط تشریح کے حق میں آئیں۔ یہاں دوسری نسل کے 38% جواب دہندگان کی رائے زیادہ مستحکم ہے، جب کہ تیسری نسل کے صرف 14% جواب دہندگان ایسا سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد وجوہات کے دو دائرہ کار، سیاسی جبر، طبقاتی نظام، جہالت (رائے نمبر1) اور فرقہ واریت (رائے نمبر2) کو انتہا پسندی کی بڑی وجہ سمجھا گیا ہے۔ جب کہ رائے نمبر ایک کو الگ کر کے دیکھا جائے تو صرف 12% ایسا سمجھتے ہیں۔ انتہا پسندی کا تیسرا بڑا سبب عقلی و منطقی رویے کے فقدان کو سمجھا گیا، جب کہ دوسری نسل کے 13% ادیب صرف ریاست کے نظریاتی شناخت اختیار کرنے کو بھی ایک اہم وجہ سمجھتے ہیں جب کہ مزید 19% فی صد اسے جہالت اور طبقاتی نظام کے ساتھ بھی ملا کر دیکھتے ہیں۔ وجوہات کے مسئلے پر تیسری نسل کی آراء انتہائی متنوع ہیں لیکن زیادہ کا اتفاق سیاسی جبر، جہالت، فرقہ واریت اور عقلی رویوّں کا فقدان پر ہے۔

2

جب بات انتہا پسندی پر ادیبوں کے رد عمل پر آئی تو اکثریتی رائے یہ تھی کہ کردار زیادہ اہم نہیں رہا اور ان میں سے 18% کے خیال میں ریاست سے وابستہ ادیبوں نے انتہا پسندی کے فروغ میں بھی کردار ادا کیا۔ جب کہ 32% کا خیال ہے کہ ادیبوں نے اپنے قلم کے ذریعے آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی ۔(دیکھئے چارٹ نمبر 3) ان 32% اور 8% میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس معاملے پر رائے نہیں دی، اس کے علاوہ ادیبوں نے رد عمل بھرپور نہ ہونے کی تین بنیادی وجوہات کی طرف اشارہ کیا، ریاستی دبائو، عقلی علوم اور مسئلے کی حساسیت سے لاعلمی اور انتہا پسندوں کی جانب سے خوف، زیادہ تر رائے نمبر2 پر متفق تھے۔ (دیکھیے چارٹ نمبر 4 )لیکن دوسری نسل کے 13% ادیبوں کی رائے میں انتہا پسندوں سے خوف کا عنصر غالب نظر آیا۔

انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تجاویز میں بھی تنوع نظر آیا اور آراء کے 13 دائرے مقرر ہوئے۔ لیکن زیادہ اتفاق روشن خیالی، اجتہاد ، عقلی رویوں کے فروغ (رائے نمبر 1 )، سماجی ، معاشی تفاوت کے خاتمہ (رائے نمبر 2 )، تعلیم اور مطالعے کے فروغ (رائے نمبر 3 ) ، میڈیا کے متوازن کردار (رائے نمبر 5) اور پاکستان کو سیکولر سٹیٹ قرار دینے (رائے نمبر6 )پر نظر آیا اور یہ اتفاق 80% سے زیادہ بنتا ہے (دیکھیے چارٹ نمبر 5 )۔ دوسری نسل کے ادیب ریاست کی نظریاتی شناخت کے حوالے سے زیادہ حساس نظر آتے ہیں اور 13% پاکستان کو سیکولر سٹیٹ قرار دینے کے حق میں ہیں جب کہ تیسری نسل کے صرف 6% اس حق میں ہیں۔ تیسری نسل پہلی تین آراء کو انتہا پسندی کے خاتمے میں زیادہ معاون سمجھتی ہے ۔

3

بنیادی حاصلات
انتہا پسندی پر ادیبوں کی آراء سے درج ذیل نکات سامنے آئے :
1۔ اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ انتہا پسندی ایک اہم مسئلہ ہے۔
2۔ انتہا پسندی کی وجوہات پر متنوع آراء کو تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
- مذہب کی غلط تشریح
- موجودہ نظام میں سیاسی، معاشی اور سماجی خرابیاں
- عقلی ، منطقی رویوں کا فقدان
یہ تینوں عوامل بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی تفہیم نہ صرف علمی اور فکری سطح پر بلکہ پالیسی سازی کی سطح پر بھی اہم ہوسکتی ہے۔
3۔ انتہا پسندی کے خلاف رد عمل پر ادیبوں کے ہا ں ملا جلا رجحان سامنے آیا، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے بارے میں اپنے کردار پر ادیب گو مگو کا شکار ہیں۔ ایک بڑا طبقہ اسے ایک تخلیقی تجربے کی سطح تک محدود رکھنا چاہتا ہے، جب کہ ایک بڑا طبقہ بحیثیت شہری کردار ادا کرنے کے حق میں بھی ہے، لیکن سروے سے یہ واضح نہیں ہوا کہ اس کردار کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے۔
4 ۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے جو تجاویز سامنے آئیں، ان میں علمی و فکری پہلو نمایاں ہے۔ سیاسی اور عملی اقدامات کو زیادہ اہمیت حاصل نظر نہیں آتی، جیسا کہ صرف 6% تحریک چلانے کے حق میں ہیں اور اتنے ہی غیر ملکی تسلط سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ 14% اس کا حل جمہوریت کے فروغ میں دیکھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ سماجی و معاشی تفاوت کو دور کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔

دیگر طبقات کی آراء سے موازنہ
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے 2008-09 میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہرین، جن کا تعلق سیاسیات، عالمی امور، مذہب، سائنس، ذرائع ابلاغ اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے ساتھ تھا، سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا تھا اور ان ماہرین سے تفصیلی نشستوں کے علاوہ ایک سروے کے ذریعے بھی انتہا پسندی پر ان کی آراء کو اکٹھا کیا گیا تھا اور ان میں سے سولہ ماہرین کی آراء کا تجزیہ کیا گیاتھا۔(1) ان میں سے گیارہ ماہرین کا اتفاق تھا کہ انتہا پسندی ایک سیاسی مظہر ہے جب کہ صرف تین نے اسے نظریاتی تناظر میں دیکھا اور دو نے اسے مذہب کی غلط تشریح سے منسوب کیا۔ جب کہ ہم نے دیکھا کہ ادیبوں کی ایک واضح اکثریت نے اسے عقائد و نظریات میں عدم توازن کے طور پر دیکھا ہے۔ رائے کا یہ تفاوت مسئلے کو نظری اور سیاسی تناظر میں دیکھنے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ فرق وجوہات کی سطح پر بھی نظر آیا۔ دیگر ماہرین اس کی بڑی وجہ سیاسی، سماجی اور معاشی ناہمواری قرار دیتے ہیں۔ یہاں بھی ادیبوں کی سوچ اور فکر کا تناظر زیادہ وسیع نظر آتا ہے۔ (دیکھیے چارٹ نمبر 2 )

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے ایک ایسا ہی سروے دینی مدارس کے اساتذہ سے بھی کیا تھا۔ اس سروے سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ علماء کی اکثریت بھی انتہا پسندی کو ایک سیاسی مظہر کے طور پر دیکھتی ہے، لیکن ان کے سیاسی تناظر (Political Vision) میں علاقائی اور عالمی سیاسی امور زیادہ اہمیت کے حامل تھے اور اکثریتی رائے کا خیال تھا کہ اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے الگ ہو جائے تو پاکستان سے انتہا پسندی ختم ہوسکتی ہے۔ بہت کم علماء نے انتہا پسندی کے مذہبی اور نظری پہلو پر بات کی۔

عوامی رائے عموماً میڈیا، علماء اور سیاسی رہنمائوں سے زیادہ اثر قبول کرتی ہے اور جب ایک عوامی رائے بن جائے تو وہ سیاسی رجحانات پر اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر کے خلاف ہے، جیسا کہ رائے اکٹھی کرنے والے اداروں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔ ''گیلپ پاکستان'' کے اکتوبر 2009ء میں جاری ہونے والے سروے کے مطابق 51% قبائلی علاقوں میں عسکری آپریشن کے حق میں ہیں، جبکہ 36% ابہام کا شکار ہیں اور 13% اس کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ 35% اس صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو جبکہ 31% پاکستانی حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ عوامی آراء میں یہ تفاوت میڈیا اور مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اثرات کا سبب ہو سکتا ہے۔ لیکن عوامی رائے شدت پسند گروہوں اور جماعتوں کے بارے میں بھی واضح نہیں ہے، جس کا اظہار پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ایک حالیہ سروے میں ہوا ہے۔ لوگوں کی واضح اکثریت (56%) علماء کی دین کے لیے خدمات کی معترف تو ہے، لیکن 53% سیاست میں ان کے کردار کے حامی نہیں۔ عوامی رائے انصاف اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اہم سمجھتی ہے۔

چاروں طبقات کی آراء میں تفاوت کو چارٹ نمبر 6 میں ظاہر کیا گیا ہے:
 
4

اس موازنے سے معاشرے میں متنوع آراء کی صراحت ہو جاتی ہے۔ خصوصاً حل کے معاملے پر تفاوت اتنا زیادہ ہے کہ کوئی قلیل مدتی لائحہ عمل مکمل نظرنہیں آتا۔ لیکن سب سے اہم امر یہ ہے کہ صرف ادیبوں کے ہاں مسئلے پر یکسوئی ہے ا ور دیگر طبقات کے ہاں گومگو کی کیفیت کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔ ادیب انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے فکری کاوشوں کو اہم سمجھتے ہیں، لیکن دیگر دانشور ماہرین اور علماء کرام اس سے متفق نظر نہیں آتے۔ کیا یہ تشویش ناک صورتحال ہے؟ اس کے لیے گہرے تجزیے کی ضرورت ہے۔ بطور ادیب، ان کے لیے کوئی راہنما کردار ممکن نہیں۔ آصف فرّخی نے اپنے مضمون ''چراغِ راہ گزار باد، ادب اور مفادِ عامہ'' میں الجزائر کی ناول نگار آسیہ جبّار کا ایک حوالہ دیا ہے۔(4)

''ادیب اکیلا ہے، ادیب بے آواز ہے، دھیرے دھیرے چلتا ہے اور بہت غور سے اس مصیبت کی تباہ کاری کا مشاہدہ کرتا ہے جواس کے ساتھ زندہ بچ جانے والے باقی لوگوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پھر اس کے بعد ادیب خاموشی پر عمل پیرا ہوتا ہے کہ اندر کی آواز سمٹے اور دوہری ہو جائے، پھر پیچھے ہٹے اور سمجھ میں آنے لگے!''

حواشی
1 تفصیل کے لیے دیکھیے:
PIPS Research Journal "Conflict & Peace Studies" Islamabad, no. 2, Issue 1, 2009.
2 ایضاً، اس مضمون کا ترجمہ ''تجزیات'' کے شمارہ 2009ء میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
3 یہ سروے رپورٹ "Conflict & Peace Studies" کے شمارہ 2، 2010ء میں شائع ہو گی۔
4 آصف فرّخی، نگاہِ آئینہ ساز میں، شہر زاد کراچی، 2009ء