working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

یمن: دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اور محاذ
خرّم اقبال
9/11کے بعد یمن میںالقاعدہ کے خلاف کارروائیاں کی گئیں،جن کی بدولت یمن کے عسکریت زدہ علاقوں میں القاعدہ کا نیٹ ورک وقتی طور پر غیر فعال ہو گیا۔ان علاقوں میں مستقل اور پائیدار بنیادوں پر کام نہ ہونے کی وجہ سے آنے والے چند سالوں میں القاعدہ یہاں دوبارہ منظم ہوئی ۔ جنوری 2009میں یمن اور سعودی عرب میں سرگرم عمل ''القاعدہ'' کے مختلف دھڑوں میں انضمام سے یمن میں AQAP یعنیAl Qaeda in the Arabian Peninsula" "وجود میں آئی، جس کے بعد یمنی حکومت نے ان کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔زیر نظر مضمون میں مصنف نے یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی ،ان کے خلاف کئے جانے والے اقدامات اور ان میں پائی جانے والی مماثلتوں کا جائزہ لیا ہے۔(مدیر)
24دسمبر 2009۔۔۔ 23سالہ عمر فاروق عبد المطلب نا ئیجیریا کے دارالحکومت لاگوس سے امریکی شہر ڈیٹر ائٹ جانے والی فلائٹ پر سوار ہوا ۔ اپنے کندھے پر ایک دستی بیگ رکھے ہوئے اس نوجوان نے لاگوس ائیر پورٹ پر سیکورٹی کے تمام مراحل کلئیر کئے اور طیارے میں سوار ہو گیا ۔ شاید ہی کسی کو گمان ہوا ہو کہ بظاہر بے ضرر نظر آنے والا یہ نوجوان اپنے زیر جامے (Underwear) میں ایک دھماکہ خیز کیمیکل چھپائے ہوئے ہے اور اس کا مقصد طیارے کو سواریوں سمیت امریکی سر زمین پر تباہ کرنا ہے۔ جس وقت نارتھ ویسٹ ائیر لائنز کا یہ طیارہ ڈیٹرائٹ لینڈ کرنے والا تھا ، عبدالمطلب نے اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے دھماکہ خیز مواد کو اڑانے کی کوشش کی،دھماکہ ناکا م رہا ۔ آتش خیز مادہ بھڑک اٹھا اور عبدالمطلب کی ٹانگ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اسی اثناء میں پچھلی نشست پر براجمان ایک نوجوان مسافر عبدالمطلب پر لپکا اور اسے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ کچھ ہی دیر میں طیارہ ڈیٹرائٹ لینڈ کیا اور ائیر پورٹ پر موجود سیکورٹی اہلکاروں نے عبد المطلب کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔

ابتدائی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ عمر فاروق عبدالمطلب نائیجیریا کا شہری ہے ۔ دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ اس نے یمن میں اپنے قیام کے دوران القاعدہ کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور دہشت گردی کی تربیت حاصل کی ۔ عبد المطلب نے اعتراف کیا کہ القاعدہ کی یمنی شاخ کے ساتھ اس کا رابطہ استوار کروانے میں ایک یمنی مُلا نے اہم کردار ادا کیا ۔ 28دسمبر 2009کو جزائر عرب میں سرگرم عمل القاعدہ نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اس نا کام حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ یہ یمن میں امریکی میزائل حملوں کا رد عمل ہے۔ اور یوں یمن میں موجود القاعدہ کی ذیلی شاخ اور اس کا مضبوط و منظم نیٹ ورک ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی میڈیا کی نظر میں آ گیا ۔
 
یمن میں القاعدہ کا وجود : حقیقت یا فسانہ؟
یمن میں القاعدہ کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم یہاں 9/11کے حملوں سے بھی پہلے قائم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہونے کے بعد یمنی حکومت نے بھی اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے القاعدہ کے خلاف فیصلہ کن آپریشنز کئے ۔ 2003ء کے اختتا م تک یمنی حکومت القا عدہ کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کر چکی تھی۔ نتیجتاً القاعدہ کا نیٹ ورک وقتی طور پر غیر فعال ہو گیا ۔ اس وقتی کامیابی کے بعد یمنی حکومت اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے یمن کے دور افتادہ اور عسکریت زدہ علاقوں میں پائیدار بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت تھی ۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور آنے والے کچھ ہی سالوں میں القاعدہ نے اپنے آپ کو پھر منظم کر لیا ۔ سال 2006میں القاعدہ کے چند سرکردہ راہنما یمن کے دارا لحکومت ثناء کی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔ ان مفرور قیدیوں میں اسامہ بن لادن کا قریبی ساتھی اور القاعدہ کا ایک اہم کمانڈر ناصر الواہیاشی اور AQAPکا موجودہ سرغنہ قاسم الرائمی بھی شامل تھا۔ دونوں افراد نے القاعدہ کو منظم کیا۔ آنے والے دنوں میں یمنی حکومت اور مغربی اہداف پر شدید حملے کئے گئے ۔ سال 2008ء کے آغاز میں بلجیم کے سیاحوں کو یمنی شہر ہدراموت میں نشانہ بنایاگیا ۔ اس کے بعد دارلحکومت ثناء میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا ۔یمنی القاعدہ نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

اپنی طاقت کابھر پور مظاہرہ کرنے کے بعد انور العلاقی ، ناصر الواہیاشی ، قاسمی الرائمی اور دیگر سرکردہ عسکریت پسندوں نے سر زمین عرب میں القاعدہ کے مختلف دھڑوںکو یکجا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور یوں جنوری 2009میں یمن اور سعودی عرب میں سرگرم عمل القاعدہ کے مختلف دھڑوں کے انضمام سے Al Qaeda in the Arabian Peninsula (AQAP)و جود میں آئی ۔انور العلاقی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ یمن کے وزیر اعظم کا رشتہ دار ہے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق بن لادن کی طرح العلاقی کا تعلق ایک اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان سے ہے ۔ اس کا باپ نصرالعلاقی وزارت یمن سے منسلک رہنے کے علا وہ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا سربراہ بھی رہ چکا ہے۔ العلاقی نے اپنی نصف سے زیادہ زندگی مغرب میں گزاری ہے اور وہ روانی کے ساتھ انگریزی بول سکتا ہے ۔ امریکی انٹیلی جینس کے مطا بق امریکہ میں قیام کے دوران وہ ایک دوہری زندگی گزا رتا رہا ۔ بظاہر ایک متین، غیر متشدد اور مودّب نظر آنے والا انور العلاقی درحقیقت 9/11جیسے دہشت گردی کے بڑے حملوں میں بھی ملوث پا یا گیا ہے ۔ اس نے امریکی ائرلائن کی پرواز 77کو ہا ئی جیک کرنے والے اور اسے پینٹا گون کی طرف لے جانے والے پانچ میں سے دو حملہ آوروں سے بھی ملاقات کی تھی ۔ لیکن حیران کن طور پر اس نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد ایک مقامی ٹی وی چینل پر ان حملہ آوروں کی مذمت کی تھی ۔صدر اوبامہ کے اعلیٰ کاونٹر ٹیررزم ایڈوائزر جان برینان کا کہنا ہے کہ العلاقی کوئی مذہبی پیشوا نہیں بلکہ وہ دہشت گردوں کو اکسانے اور عملی کارروائیاں کروانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ العلاقی فورٹ ہڈسن میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 13افراد کو ہلاک کرنے والے میجر ندال حسن سے بھی رابطے میں تھا ۔ ندال حسن کے ای میل اکاؤنٹ سے العلاقی کی طرف سے بھیجی جانے والی ای میلز بھی ملی ہیں ۔ عمر فاروق عبد المطلب نے بھی تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ العلا قی سے ملا تھا ۔ العلاقی کے خطبے اور تقریریں 2005ء میں لندن میں بمباروں اور 2006ء میں ٹورنٹو میں حملہ کرنے والوں کے کمپیوٹر ز میں بھی ملے تھے ۔ ان تمام شواہد اور خطرات کے پیش نظر امریکی حکام اسے قتل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ یمن میں امریکی ڈرون حملوں کا ایک بڑا ہدف العلاقی بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یمن کے قبائلی شابو ا صوبے کے قبائل کے درمیان موجود ہے اور وہیں سے AQAPکی کمان کر رہا ہے۔

ناصر الواہیاشی اسامہ بن لادن کا سیکرٹری رہ چکا ہے۔القاعدہ کی موجودہ لیڈرشپ کے ساتھ وہ آج بھی مضبوط تعلقات بنائے ہوئے ہے۔ مرکزی القاعدہ کے دوسرے اہم لیڈر ایمن الظواہری نے ایک ویڈیو ٹیپ کے ذریعے AQAPکے مرکزی راہنما کی حیثیت سے الواہیاشی کے کردار کو سراہا ہے ۔ سعودی اور یمنی حکومتوں نے الواہیا شی کو مطلوب افراد میں سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔

قاسم الرائمی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ AQAPکا ملٹری کمانڈر ہے اور القاعدہ کی مرکزی تنظیم کا اہم رکن بھی ہے ۔ کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق الرائمی 4جنوری 2010کو یمنی سیکورٹی فورسز کے ایک حملے میں مارا گیا تھا۔ تاہم یمنی القاعدہ نے ان اطلا عات کی تردید کی اور کہا کہ الرائمی تا حال زندہ ہے اور ملٹری کما نڈر کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

انور العلاقی، ناصر الواہیاشی اور قاسم الرائمی جیسے بین الا قوامی اہمیت کے عسکریت پسند راہنمائوں کی موجودگی یمن میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سال 2009کے دوران AQAPنے یمن کے مختلف علا قوں میں متواتر حملے کئے ۔ مارچ 2009میں اس گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک خود کش حملہ آور نے جنوبی کوریا کے سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ حملے کی تحقیقات کے لئے یمن پہنچنے والی جنوبی کوریا کی ایک ٹیم کو دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا۔ جنوری 2010میں AQAPکی طرف سے کئے جانے والے ممکنہ حملوں کی پیش نظر امریکہ اور برطانیہ یمن میں اپنے سفارت خا نے عارضی طور پر بند کر چکے تھے ۔

یمنی اور سعودی دھڑوں کے انضمام کے بعد القاعدہ نے اپنے آپریشنز کا دا ئرہ کار سعودی عرب تک وسیع کر لیا ہے ۔ اگست 2009میں اس گروپ نے اپنی نوعیت کے ایک انوکھے خودکش حملے میں سعودی وزارت داخلہ کے نائب وزیر انسداد دہشت گردی کے سربراہ محمد بن نائف کو ہدف بنایا ۔ اخباری اطلا عات اور حساس اداروں کی رپورٹوں کے مطابق خود کش حملہ آور نے (جس کا نام عبداللہ اسیری بتایا جاتا ہے) دھماکہ خیز مواد اپنے مقعد میں چھپا رکھا تھا۔حملے میں محمد بن نائف شدید زخمی ہوئے جبکہ حملہ آور مارا گیا۔ غالباً اسی طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے عمر فاروق عبد المطلب نے 24دسمبر2009کو اپنے زیر جامے میں دھماکہ خیز مواد چھپا کر امریکی طیارے کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اکتوبر 2009میں سعودی حکام نے AQAPکی طرف سے دہشت گردی کے ایک اور حملے کو ناکام بنا دیا۔ یمن سے سعودی عرب میں داخل ہونے والے القاعدہ کے تین ارکان کو، جن میں دو خودکش حملہ آور بھی شامل تھے ، تلاشی کے لئے روکا گیا تو برقعہ پہنے ہوئے دونوں خودکش بمبار پچھلی نشست پر براجمان تھے ۔ تلاشی کے لئے خاتون پولیس اہلکار کو طلب کیا گیا۔ جب خاتون افسر تلاشی کے لئے پہنچی تو برقعے میں ملبوس حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کر دی ۔ جوابی فائرنگ کے نتیجے میں دونوں خودکش بمبار مارے گئے جبکہ تیسرا دہشت گرد بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ اس معاملے کی تصدیق دسمبر 2009میں AQAP کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو سے بھی کی جا سکتی ہے۔ ویڈیو میں دونوں خودکش حملہ آوروں کے سعودی عرب روانگی سے پہلے آخری پیغا مات ریکا رڈ کئے گئے تھے۔ ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ یمن میں القاعدہ کا وجود کوئی من گھڑت کہانی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔ AQAPکے نام سے سرگرم عمل یہ گروپ صرف یمنی حکومت کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عرب خطے کے لئے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے ۔
 
یمن کے قبائلی علاقوں اور فاٹا (پاکستان ) میں مما ثلتیں
پاکستان اور یمن کے قبائلی علاقوں میں جاری دہشت گردی اور اس کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کا موازنہ کیا جائے تو بہت سی مما ثلتیں نظر آتی ہیں ۔ کئی موقعوں پر تو گمان ہوتا ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے ہزاروں میل دور واقع ان خطوں میں جاری متشد دتحریکوں کے پیچھے ایک ہی منصوبہ ساز تنظیم کا ر فرما ہے ۔مثال کے طور پر افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب القاعدہ کے جنگجوؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رخ کیا تو انہوں نے ان علاقوں میں اثر رسوخ اور تحفظ حاصل کرنے کے لئے مقامی قبائل میں شادیاں رچائیں ۔ کچھ رپورٹس کے مطابق القاعدہ کے نمبر دو راہنما ایمن الظواہری نے باجوڑ کے با اثر قبیلے ماموند سے تعلق رکھنے والے مولانا فقیر محمد (نائب لیڈر تحریک طا لبان پاکستان) کی ایک قریبی عزیزہ سے نکا ح کیا ۔ اسی طرح القا عدہ کے ارکان نے یمنی قبائل کی حمائت حا صل کرنے کے لئے مقامی خواتین سے شادیاں کیں ۔ مثال کے طور پر AQAPکے زیر اہتمام شائع ہونے والے جریدے "صدا الملاہم"کے ایک شمارے میں تنظیم کے ایک رکن محمد العمدہ کو یمن کی ایک قبائلی لڑکی سے شادی پر مبارک باد پیش کی گئی ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ العمدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے القاعدہ کے مزید ارکان تیزی سے مقامی قبائل میں شادیاں رچا رہے ہیں ۔القاعدہ کے مقامی راہنما اور ارکان قبائلی رسومات اور اقدار کا بہت احترام کرتے ہیں ۔

یمن کے معاشی اور معاشرتی حالات بھی فاٹا سے زیادہ مختلف نہیں۔ فاٹا کی مانند یہ علاقے بھی صدیوں سے غربت ، بدحالی اور سیاسی استحصال کا شکار ہیں ۔ ان علاقوں میں بسنے والے قبائل مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے قدامت پسند ہیں ۔ سالہا سال سے معرب، الجوف اور شباوٰی کے علاقے ،جو القاعدہ کا مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں ، ان پر حکومتی رِٹ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کی مانند القاعدہ کو یمن اور سعودی عرب کے درمیان کھلی سرحدوں ( Porous Borders) کا فائدہ حاصل ہے۔ سرحدوں پر منشیات اور دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل روکنے کے لئے دونوں ممالک کو بہت سے مسائل درپیش ہیں ۔ القاعدہ نے ان تمام معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور جغرافیائی خامیوں یا پہلووں کا فائدہ اٹھاے ہوئے کچھ ہی عرصہ میں اپنی پوزیشن بہت مستحکم کر لی ہے ۔ بعض رپورٹس کے مطابق قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور اس سے منسلک دہشت گرد گروہوں کے خلاف پاکستانی افواج کی طرف سے کئے جانے والے آپریشنز کے نتیجے میں القاعدہ کے بہت سے ارکان صومالیہ اور یمن کا رخ کر رہے ہیں ۔ قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں یہ مفرور ارکان یمنی القاعدہ اور پاکستانی دہشت گرد گروپوں کے درمیان تعلقات کا ایک مضبوط ذریعہ بن جائیں ۔

یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی مہمات میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی دہشت گردوں کے خلاف فوجی قوت استعمال کی جارہی ہے جبکہ یہی طریقہ یمنی حکومت نے بھی اختیار کر رکھا ہے ۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون طیارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جبکہ یمن میں بھی اسی فلسفے کو دہرایا جا رہا ہے ، اور پاکستان ہی کی طرح یہاں بھی ڈرون حملوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا تا ہے۔ یمن تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر القاعدہ اس علاقے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ سعودی عرب سمیت پورے خطے کے لئے تباہ کن ہو گا۔