working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

صوفی ازم کا فروغ
مجتبیٰ محمد راٹھور
قاضی عبدالوہاب بغدادی بہت ہی ذہین اور حاضر جواب علماء کبار میں سے تھے۔ ایک مرتبہ کسی یہودی نے آپ کے سامنے دینِ اسلام کے قانون پر اعتراض کرتے ہوئے نہایت طنز کے ساتھ یہ شعر پڑھا:
ید بخمس مٔین عسجد ودیت مابالھا قطعت بربع دینار
یعنی اگر کوئی کسی کا ہاتھ کاٹ لے تو اس کی دیت (عضو کا بدلہ) پانچ سو اشرفیاں دینار پڑتی ہیں لیکن اگر یہی شخص چوری کر لے تو صرف ایک چوتھائی دینار پر اس کاہاتھ کاٹ لیا جاتا ہے۔ تو کیا معاملہ ہے کہ قانون اسلام میں یہی ہاتھ کبھی اتنا مہنگا سمجھا گیا کہ پانچ سو اشرفی اس کی قیمت ٹھہری اور کبھی اتنا سستا ہوگیا کہ صرف ایک چوتھائی دینار اس کی قیمت رہ گئی۔ یہودی کا یہ طنز آمیز شعر سنتے ہی قاضی عبدالوہاب نے جواب میں فی البدیہہ یہ شعر پڑھ دیا کہ
عزالامانتہ اَغلاھا وار خصہا ذل الخیانتہ فافھم حکمتہ الباری
یعنی ہاتھ جب تک امانت دار تھا تو عزتِ امانت نے اس کو بیش قیمت بنا رکھا تھالیکن جب چوری کرکے یہ ہاتھ خائن بن گیا تو خیانت کی ذلت نے اس کی اس قدر قیمت گھٹادی کہ صرف چوتھائی دینار اس کی قیمت رہ گئی، یہ ہاتھ کبھی اتنا گراں اور کبھی اتنا ارزاں کیوں ہوجاتا ہے؟ اس میں باری تعالیٰ کی یہی حکمت ہے۔ اس کو خوب ذہن نشین کر لیں (صادی ج ٢ ص ٢٨٣)
مذکورہ حکایت سے ہم جس حکمت الٰہی سے منکشف ہوتے ہیں، اس کا اطلاق آج کے مسلمانوں کی حالتِ زار پر صادق آتا ہے۔ آج مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ فلسطین سے لے کر وطنِ عزیز پاکستان تک صرف مسلمان ہی ظلم و بربریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور پھر اس سے زیادہ ستم ظریفی یہ کہ بجائے ان حالات پر غور و فکر کرنے اور اپنے آپ کو درست کرنے کے، اغیار کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ اسلام اور مسلمان اس وقت تک قابلِ احترام اور قابلِ فخر ٹھہریں گے جب تک وہ حقیقی معنوں میں اپنے مذہب کی تعلیمات کی پیروی کریں گے ۔ جب وہ اپنے مذہب سے ہٹ کر خودغرضی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کریں گے تو لامحالہ انہیں ذلت اور خواری کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کی، اور انہوں نے اس کے دین کو لوگوں کے سامنے صحیح طور پر پیش نہیں کیا۔ اس وقت بھی اگر کچھ لوگوں کا یہ گمان ہے کہ مغربی قوتیں مسلمانوں اور عالمِ اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے اپنا زور صرف کر رہی ہیں تو اس دعویٰ کو باطل کرنے کے لئے ان کے پاس کیا دلائل ہیں؟ ابھی بھی ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک گروہ نہ صرف ان کے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے دہشتگردی اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آ رہا بلکہ جو مسلمان صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات کی تشریح اور اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو رد کرنے کی سعی کر رہے ہیں، ان کے خلاف بھی فتاویٰ جاری کئے جا رہے ہیں۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کے اندر سے شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے بعض حلقے 'صوفی ازم' کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق صوفی ازم کا فروغ نہ صرف مسلمانوں کے اندر رواداری اور برداشت کو فروغ دے گا بلکہ اسے دیگر مذاہب کے قریب لے جانے کے لئے بھی کار آمد ثابت ہو سکتا ہے جس سے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام کے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بلاشبہ صوفی ازم کو فروغ دینے کا خیال آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن مسلمان جب صوفی ازم کی بات کرتے ہیں تو انہیں صوفیاء تلاش کرنے کے لئے دیگر مذاہب کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ دین اسلام میں اولیاء اور صوفیاء کے مقام و مرتبہ سے کون واقف نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس تصور اور خیال کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں تو درحقیقت وہ اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں۔ انہوں نے کبھی اس محبت و عشق کے سمندر میں جھانکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ان کے دل پتھر بن چکے ہیں اور ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مہریں لگ چکی ہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے ہمیں اپنے مقصد کو جاری رکھنا چاہئے۔

دوسری بات جو صوفی ازم کی اصطلاح سے پیدا ہوئی ہے، وہ یہ کہ بعض لوگ یہ الزام دیتے ہیں کہ جو لوگ صوفی ازم کی بات کرتے ہیں، ان میں ہمیں صوفی والی کوئی بات نظر نہیں آتی۔اس کا جواب دینے کے لئے ہمیں 'صوفی ازم'کی اصطلاح کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ بھی اس تحریک کو فروغ دینے کی کوشش کرر ہے ہیں ۔ وہ درحقیقت صوفیاء کی تعلیمات اور ان کے سیرت و کردار کو عوام کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیںتاکہ لوگ ان کی خصلتوں اور خوبیوں سے واقف ہو سکیں اور پھر ان کی بتائی ہوئی تعلیمات کو اپنا سکیں جو معاشرے میں امن و سلامتی کے قیام کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اس 'اصطلاح' کے استعمال سے یہ بات نہیں لینی چاہئے کہ لوگوں کو صوفی بنانے کی تحریک ہو رہی ہے جس کے لئے سب سے پہلے خود صوفی بننا پڑتا ہے اور اس زمانے میں صوفی تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ اس لئے صوفی ازم کے فروغ سے مراد صوفیاء کی تعلیمات کا فروغ ہے۔ اور اس کے لئے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذہب اسلام کے دائرے میں رہ کر صوفی ازم کے فروغ کی تبلیغ کرے تاکہ مسلمان اپنے ہی لوگوں کے گمراہ کن عقائد سے اپنے دامن کو بچا کر رکھیں جو ہمیشہ سے صوفیاء اور اولیاء اور ان کے پیروکاروں پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے چلے آ رہے ہیں۔

آنے والے 'تجزیات' کے شمارے میں 'راہِ حق' کے عنوان کے تحت مذہب اسلام کی روشنی میں 'اسلام اور تصوف' پر بحث کا آغاز کیا جا رہا ہے۔