Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس: حقائق کی تلاش میں |
یاسر پیرزادہ
مشرف دورِ آمریت میں سینکڑوں افراد لاپتہ ہوئے، جن میں سے بہت سے تاحال اپنے پیاروں سے دور ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت جاری ہے۔ عافیہ صدیقی 2003ء میں لاپتہ ہوئیں اور تقریباً پانچ برس بعد یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ وہ امریکی تحویل میں ہیں۔ عافیہ کے اہل خانہ کا مؤ قف ہے کہ وہ اس عرصہ کے دوران افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں زیرِحراست تھیں۔ تاہم امریکی حکام اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔ عافیہ صدیقی کیس کے حقائق گنجلگ اور پیچیدہ ہیں۔ پاکستانی عوام نے تاحال ایمل کانسی کیس کو فراموش نہیں کیا جب ایک امریکی عدالت نے پاکستانی شہری کو سزا سنائی تھی۔ اب عافیہ صدیقی انسانیت سوز مظالم سہنے کے بعد امریکی عدالتوں سے سزا پا چکی ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں مضمون نگار نے عافیہ صدیقی کیس کی اُلجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔(مدیر)
|
ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تصویر کا ایک ہی رخ دکھایا جاتا ہے اور لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اسی کو سچ مانیں ، خواہ وہ رخ کتنا ہی بھیانک اور مسخ شدہ کیوں نہ ہو۔ایسا ہی کچھ عافیہ صدیقی کیس میں بھی ہوا ہے ۔یہ کیس بیک وقت خوفناک بھی ہے اور المناک بھی!
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی کے ایک نسبتاً متموّل مذہبی گھرانے سے ہے۔باپ کا نام محمد اور ماں کانام عصمت ہے۔عافیہ کے والد چونکہ ڈاکٹر تھے چنانچہ انہوں نے بیٹی کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی ۔بعدازاں 90ء کی دہائی میںعافیہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ امریکہ چلی گئی جہاں سے اس نے Cognitive Neuroscienceکی ڈگری حاصل کی۔تاہم ایک بات جو عافیہ کی شخصیت کا خاصہ تھی ، وہ شروع ہی سے اپنے نظریات میں شدید مذہبی واقع ہوئی تھی۔اگرچہ یہ ایسی معیو ب بات نہیں ہے لیکن اصل خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب اس نے بوسٹن میںرہتے ہوئے افغانستان،بوسنیا اور چیچنیا کی مظلوم حاملہ عورتوں کی امداد کے لئے چندہ مہم چلانا شروع کی۔ خیر،اس میں بھی کچھ غلط نہیں تھا تاہم چندہ اکٹھا کرنے والی جن تنظیموں کے ساتھ مل کرعافیہ نے یہ کام کیا ،ان میں سے ایک کی شاخ نیروبی میں تھی جس کا نام ''مرسی انٹرنیشنل ریلیف ایجنسی'' تھا اور اس کا تعلق مبینہ طور پر 1998ء میں مشرقی افریقہ میں امریکی سفارت خانے میں ہونے والی بمباری سے جوڑا جاتا تھا۔بعدازاں ایسی ہی تین اور چندہ اکٹھا کرنے والی تنظیموں پر امریکہ نے القاعدہ سے تعلق کے الزام میں پابندی لگا دی تھی۔
1995میں عافیہ صدیقی کی شادی کراچی کے ایک ڈاکٹر امجد خان سے ہوگئی اورشادی کے ایک سال بعد ان کا پہلا بیٹا احمد پیدا ہوا۔عافیہ کی طرح ڈاکٹر امجد بھی مذہب سے لگائو رکھتے تھے لیکن شادی کے تھوڑے ہی عرصے بعد ڈاکٹر امجد کو احساس ہوا کہ ان کی بیوی ان کی امید سے کہیں زیادہ مذہبی رجحانات کی حامل ہیں۔ڈاکٹر امجد کے بقول عافیہ نے کئی مرتبہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان دونوں کوبوسنیا یا افغانستان جا کرجہادکرنا چاہئے لیکن وہ راضی نہیں ہوا ۔اس بات پردونوں کی کئی ایک مرتبہ لڑائی ہوئی اور ایسی ہی ایک لڑائی کے دوران امجد نے عافیہ کو دودھ کی ایک بوتل دے ماری جس سے عافیہ کا ہونٹ کٹ گیا۔
پھر 9 / 11کا سانحہ ہوا اور دنیا پر دہشت کے سائے لہرانے لگے، عافیہ صدیقی کی دنیا تو بالکل ہی بدل گئی۔مئی 2002ء میں عافیہ اور ان کے خاوندسے FBIنے پہلی مرتبہ پوچھ گچھ کی کیونکہ اس جوڑے نے انٹرنیٹ کے ذریعے کچھ ''غیر معمولی''چیزیں خریدیںتھی جیسے رات کے اندھیرے میں دیکھنے کی عینک ،بلٹ پروف جیکٹ اور لگ بھگ 45کے قریب عسکری موضوعات پر مبنی کتابیں… واضح رہے کہ دس ہزار ڈالر کی یہ خریداری آج کے تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ روپوں کے برابر ہے۔ انہوںنے FBIکو یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ یہ چیزیں انہوںنے شکار اور کیمپنگ وغیرہ کے لئے خریدی ہیں ۔یہ عافیہ کی زندگی کا دوسرا غیر معمولی واقعہ تھا اوراس کے بعد ان کی خانگی زندگی میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں ۔چند ماہ بعد دونوں میاں بیوی پاکستان آ گئے اور پھر اسی برس اگست میں ڈاکٹر امجد نے عافیہ کو طلاق دے دی ۔طلاق کے دو ہفتے بعد ان کا تیسرا بیٹا سلیمان پیدا ہوا۔25دسمبر 2002ء کو عافیہ صدیقی نے اپنے تینوں بچوں (بشمول تین ماہ کے سلیمان)کو اپنی ماں کے پاس چھوڑا اور دوبارہ امریکہ چلی گئی۔10روز پر مشتمل اس دورے کے دوران عافیہ نے ایک اور مشکوک کام کیا جو تا حال ان پر ثابت تونہیں کیا جا سکا ،تاہم بعدازاںاس الزام کی وجہ سے انہیں شدید ذہنی و جسمانی اذےّت کا سامنا کرنا پڑا۔ عافیہ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے امریکہ میں ماجد خان (القاعدہ کا مبینہ کارکن جس کے بارے میں فرض کیا گیا تھا کہ اس نے بالٹی مور میں پٹرول پمپ اڑانے کا منصوبہ بنایا تھا)کے نام کا ایک پوسٹ بکس کھولا تھا تاکہ ماجد خان کا امریکہ میں داخلہ آسان بنایا جا سکے ۔
اس سنسنی خیز کہانی میں ایک اور موڑ اس وقت آیا جب عافیہ نے اپنی طلاق کے چھ ماہ بعد خالد شیخ محمد کے بھتیجے عمّار ال بلوچی سے شادی کر لی ۔واضح رہے کہ خالدشیخ مبینہ طور پر 9/11کا ماسٹر مائینڈ ہے تاہم عافیہ کے اہلخانہ اس شادی کی تردید کرتے رہے ہیں ۔اس کے برعکس FBIنے اس ضمن میں جو رپورٹ نیو یارک کی عدالت میں داخل کی، اس کے مطابق عافیہ نے اس شادی کو تسلیم کیا ہے۔ بہرحال وہ دونوں زیادہ عرصہ تک ایک ساتھ نہیں رہ سکے کیونکہ مارچ 2003ء میں FBIنے ایک عالمی تنبیہہ جاری کی جس میں یہ کہا گیا کہ عافیہ اور ان کا سابقہ خاوند امجد خان انہیں مطلوب ہیں ۔اس کے چند ہفتوں بعد عافیہ اپنے تینوں بچوں،چھ سالہ احمد،چار سالہ مریم اور چھ ماہ کے سلیمان کے ساتھ غائب ہو گئیں ۔ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر اسلام آباد جانے کے لئے کراچی ائرپورٹ گئی تھیں لیکن کبھی وہاں نہیں پہنچیں۔دوسری طرف FBI نے ان کے سابقہ خاوند امجد خان سے ایک مرتبہ پھر پوچھ گچھ کی لیکن بعدازاں انہیں چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر عافیہ منظرنامے سے غائب ہوچکی تھیں،یہ اس کہانی کا ایک اور پر اسرار پہلو ہے۔ امریکی حکومت نے اپنے اٹارنی جنرل جان ایشکرافٹ کے ذریعے عافیہ صدیقی کو القاعدہ کی خطرناک مفرور ملزم قرار دے دیا جبکہ دوسری طرف عافیہ کے اہلخانہ نے کہا کہ عافیہ2003ء سے 2008ء تک، پانچ برس افغانستان میں واقع امریکی بگرام جیل میںزیرِحراست رہی ہیں جہاں انہیں انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے برعکس امریکی سفیر این پیٹرسن کا کہنا ہے کہ ''عافیہ جولائی 2008ء سے پہلے کبھی امریکی تحویل میں نہیں رہی۔''اس ضمن میں سب سے زیادہ غیر واضح اور مبہم رویہ خود عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کا ہے ۔گزشتہ دنوں جب ایک ٹی وی پروگرام میں ان سے پوچھا گیا کہ عافیہ 2003ء میں کہاں غائب ہو گئی تھیں تو ان کا جواب تھا ''میں آگاہ نہیں ہوں۔''اسی طرح جب ایک برطانوی صحافی نے ان سے یہی سوال کیا تو ان کا جواب تھا ''ایسا نہیں ہے کہ ہم جانتے نہیں ہیں ،اصل میں ہم جاننا چاہتے ہی نہیں ہیں ۔''یہ اَمر باعث حیرت ہے کہ اس سارے معمے کو حل کرنے میں عافیہ کا گیارہ برس کا بیٹا احمد کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے جو اسی گھر میںاپنی خالہ فوزیہ کے ساتھ رہ رہا ہے لیکن اسے میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔اس بارے میں فوزیہ کا کہنا ہے کہ ''درحقیقت یہ اس ڈیل کا حصہ ہے جس کے تحت انہوں نے احمد کو ہمارے حوالے کیا تھا۔'' جب اسی برطانوی صحافی نے پوچھا کہ ''انہوں'' کون ہیں ؟ فوزیہ نے ایک بار پھر مبہم جواب دیا ''وہ نیٹ ورک،جنہوںنے اسے یہاں پہنچایا ۔''
یہ کہانی تاحال ختم نہیں ہوئی ۔اس کیس میں مزید دو کردار ایسے ہیں جن کے بیانات نہ صرف ناقابلِ یقین ہیں بلکہ حیرت انگیز حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔عافیہ کے سابقہ خاوند امجد خان کا بیان چونکا دینے والا ہے۔اُس کے مطابق عافیہ بگرام جیل میں کبھی زیرِ حراست نہیں رہی بلکہ وہ پانچ برس تک پاکستان میںہی اپنے تینوں بچوں کے ساتھ خفیہ طور پر رہتی رہی۔امجد کا کہنا ہے کہ اپریل 2003ء میں اس نے عافیہ کو اسلام آباد کی ایک فلائٹ سے اترتے ہوئے دیکھا تھااور اس کے دو برس بعد اس نے عافیہ کو کراچی میںدیکھا جب وہ ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی تھی۔وہ اس لئے خاموش رہا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ اس کے بولنے سے اس کے بچوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے جو عافیہ کی تحویل میں تھے۔اس کہانی کے ایک اور اہم کردار عافیہ صدیقی کے چچا شمس الحسن فاروقی ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ماہرِ ارضیات ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ان کی اپنی بھتیجی عافیہ سے جنوری 2008ء میں ملاقات ہوئی تھی ،یعنی یہ ملاقات افغانستان میں عافیہ کی گرفتاری سے فقط چھ ماہ قبل ہوئی تھی۔عافیہ اس وقت برقعہ پہنے ہوئے تھی اور اس نے انہیں بتایا تھا کہ وہ 2003ء سے امریکی اور پاکستانی ایجنسیوں کی تحویل میں تھی، اگرچہ اب انہوں نے اسے چھوڑ دیا ہے لیکن وہ تاحال اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اُن کی یہ خواہش ہے کہ وہ القاعدہ میں داخل ہو کر ان کے لئے کام کرے ۔ فاروقی صاحب کے مطابق عافیہ خوفزدہ تھی اور اس نے اپنے چچا کی منتیں کیں کہ کسی طرح اسے افغانستان میں طالبان کے پاس بھیج دیا جائے ، دراصل عافیہ کا خیال تھا کہ '' وہ طالبان کے پاس زیادہ محفوظ رہے گی۔''
بعدازاںعافیہ افغانستان کیسے پہنچی ،وہ وہاںخود گئی اور اسے وہیں سے گرفتار کیا گیا ؟یا خفیہ ادارے اُسے افغانستان لے کر گئے،یہ اور ایسے ان گنت سوالات کا جواب شائد کبھی سامنے نہ آ سکے کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں سب سے نایاب چیز انفارمیشن خودہے ۔عافیہ صدیقی کیس کے بہت سے پہلو تاحال پوشیدہ ہیں ۔ تاہم یہ امرِواقعہ ہے کہ عافیہ دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کے انسانیت سوز مظالم کے سامنے ڈٹی رہی ہے۔ شاید کبھی فریب کے دھندلکے سے حقائق کی بازیافت ہوسکے۔
|
|
|
|
|