Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
''سڑک کے بچے'' از فوزیہ سعید |
زاہد حسن
اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ نہایت منفرد کتاب ان بچوں کے بارے میں ہے جنھیں حالات و واقعات سڑکوں پر لے آتے ہیں اور پھر یہ سڑکوں ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ گذشتہ چار پانچ برس کا عرصہ کتاب کی مصنفہ فوزیہ سعید نے ان بچّوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے گزارا۔ اس دوران انھیں قریباً پانچ چھ ہزاربچّوں سے ملنے، گفتگو کرنے اور ان کے حالات جاننے کا موقع ملا اور وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ ''معاشرے کی کثیر تعداد اس مسئلے سے بالکل ہی غافل ہے۔'' انھوں نے ہمارے ذہنوں سے غفلت کا پردہ اٹھانے کی سعی کی ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتی ہیں۔(مدیر)
|
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں گذشتہ کئی عشروں سے بچوں کی صورت حال تشویش ناک ہے اور کسی بھی حکومت کی طرف سے اس ضمن میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ پچھلی ایک حکومت نے اس حوالے سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کے بنیادی مقاصد میں اغوا کیے جانے والے، گھر سے مار کے ڈر اور خوف سے بھاگ جانے والے، گداگر، منشیات اور جنسی طور پر ہراساں ہونے والے، زلزلے، جنگ یا دیگر کسی ایمرجنسی کی صورت میں اپنے والدین سے بچھڑ جانے والے بچوں کی ذہنی، جسمانی، معاشی اور تعلیمی حوالے سے کفالت اور بحالی جیسے مقاصد شامل تھے۔ تاہم یہ عجیب بات ہے کہ بعض بچوں کی سمگلنگ اور خریدوفروخت کے حوالے سے ایسی دل ہلا دینے والی کہانیاں سامنے آئیں اور اس مکروہ دھندے میں ملوث بچوں کی بحالی سے متعلق قائم کچھ ایسے ہی اداروں کی کرتادھرتا شخصیات کے نام سامنے آئے۔ حکومت اور انتظامی اداروں کی بروقت کارروائی سے اس صورت حال پر تو قابو پا لیا گیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ ایسے کئی اداروں کی موجودگی، قوانین کے وجود میں آنے اور سخت انتظامات کے باوجود بچوں کے اغواء برائے تاوان، سمگلنگ اور خریدوفروخت کے حوالے سے ابھی تک شرمناک کارروائیاں جاری ہیں جن کا تدارک کرنا ہمارے بنیادی اقدامات میں شامل ہونا چاہیے۔
زیرِ مطالعہ کتاب بھی بچوں سے متعلق ایسے عوامل کی نشان دہی کرتی ہے۔ ''سڑک کے بچے'' دراصل علامت ہے ان بچوں کی جن کا کوئی گھرگھاٹ، کوئی جگہ، کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ فوزیہ سعید اپنی ایک اور سینیئر ہم نام کی طرح گذشتہ کئی برس سے سوشل ویلفیئر کے اداروں سے وابستہ ہیں۔ آجکل وہ گوجرانوالا میں ایک ایسے ادارے کے ساتھ منسلک ہیں جو بچوں کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے۔ 288 صفحات پر محیط یہ کتاب بے شمار ایسے مسائل و معاملات کا احاطہ کرتی ہے جو کسی نہ کسی طور بچوں کی زندگیوں سے متعلق ہیں۔ فوزیہ سعید نے پاکستان میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی ان بچوں کی بے گھری کی ایک بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کتاب کو اکتیس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ہر باب ایک مکمل کہانی لیے ہے۔ پہلے ہی باب کو دیکھیے جس کا عنوان انھوں نے رکھا ہے ''سڑک کو بچے کیسے ملتے ہیں''۔ اس میں انھوں نے بیس کے قریب وجوہات بیان کی ہیں جن میں بڑی وجہیں غربت، تشدّد، بچوں کی فروخت، بھکاری برادری، جنگ اور ہجرت، یتیمی، ناخواندگی، خاندانی دشمنی، والدین کے جرائم کی سزا، ناجائز اولاد، حسین خواب، آوارہ گردی کی خواہش، سوتیلے والدین اور معذور اولاد وغیرہ کو قرار دیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے اکیس کے قریب ایسی تجاویز بھی لکھی ہیں جن کو اپنا کر بچوں کو اس دائمی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ جن میں بچے کی بات کو غور سے سننا، اسے اس کی اہمیت کا احساس دلانا، اس کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا، منفی ردِعمل سے گریز کرنا، بے جا بحث سے پرہیز، دورانِ گفتگو ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا، اس کے سبھی سوالات کا جواب دینا، دوسرے بچوں کے بارے میں موجود تعصبات کو ختم کرنا، اس سے دوستانہ تعلقات بڑھانا، اس کے سامنے مطالعہ کرنا، اس کے لیے تعریفی کلمات کہنا وغیرہ۔
اگر یہ کہا جائے کہ اپنی تصنیف میں فوزیہ سعید نے ایک ماہرِ نفسیات کی طرح سے تمام چیزوں کو زیرِبحث لایا ہے، تودرست ہو گا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ بچوں کو اوائل عمری میں ہی درپیش پیچیدگیوں کو بآسانی سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بلکہ بے شمار راہیں بھی سوجھتی ہیں جن پر چل کر اپنی آنے والی نسل کو گمراہیوں اور دلدلوں بھرے راستے پر چلنے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
یہ کتاب پچھلے برس سامنے آنے والی چند اہم اور چنیدہ کتابوں میں شمار کی جا سکتی ہے جو نہ صرف حسبِ حال ہے بلکہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں ہر سال اتنے نئے بچے پیدا ہوتے ہیں جو اوسطاً ایک یورپی ملک کی آبادی کے قریب ہوتے ہیں، معاشی، سماجی اور اخلاقی حوالے سے صحت اور تعلیم کے حوالے سے ہمیں یہ کتاب ایک نئی راہ سجھاتی ہے۔ سو دل میں یہ احساس ابھرتا ہے کہ کہ یہ کتاب نہ صرف یہ کہ ہر گھر میں موجود ہونا چاہیے بلکہ صاحبِ اولاد حضرات کو اس کا بنظرِ عمیق مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔
|
|
|
|
|