working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

عشقِ الٰہی کے جذبے سے سرشار، مادھو لال حسین
زاہد حسن
شاہ حسین تصوف کے فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے، وہ اُس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ اُس کے نورتنوں میں فیضی، نظیری، عرفی اور خان خاناں جیسے نابغہ شامل تھے جنہیں اُس وقت فن و ثقافت کے زعما کا درجہ حاصل تھا۔ تاہم شاہ حسین نے مرکز حکومت سے دور رہ کر اپنا قلندرانہ وصف نبھایا۔ انہوں نے راگ کو دربار سے نکال کر عوامی موسیقی کا درجہ دیا۔ شاہ حسین پنجابی زبان و ادب میں کافی کی صنف کے موجد ہیں۔ وہ پنجابی کے اولین شاعر تھے جنہوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لئے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔ شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ اُن کی شاعری میں عشق حقیقی کا اظہار ہوتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں شاہ حسین اور مادھو کی محبت کا بیان بھی ہے اور ان کے شعری خصائل اور درویشانہ اوصاف کا اظہار بھی۔ یہ اُن کے فنی سفر کا تحقیقی جائزہ بھی ہے اور سفر زیست کا احوال بھی۔(مدیر)

سارتر نے کہا تھا:
''شعری عمل روح کے ایک ناچ کا نام ہے۔ جبھی شاعر کسی درویش کی طرح ناچتا ہے یہاں تک کہ مدہوش ہو جاتا ہے۔ تو وہ اپنے اندر وہ مقدس وقت داخل کر لیتا ہے جو اس کے بزرگوں کا وقت ہے ۔۔۔ پھر وہ اس وقت کو شدید جھٹکوں کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔ اور بڑا شاعر اپنی ذات کو انہی جھٹکوں میں تلاش کرنے کی سعی کر رہا ہوتا ہے۔''
سارتر کا یہ قول ہمیں شاہ حسین کی شاعری اور شخصیت پرپوری طرح منطبق ہوتا دکھائی دیتاہے۔

یہ اُس عہد کی داستان ہے جب ایک طرف اکبر زمینوں کا بادشاہ تھا تو دوسری طرف سخن کی سلطنت پر شاہ حسین کی حکمرانی تھی۔ تان سین اکبر کا درباری گوےّا تھا تو شاہ حسین نے راگ پر کمال حاصل کیا اور اسے دربار سے نکال کے پہلی بار پنجابی کافی کی صورت میں عام لوگوں کی چیز بنا دیا۔ یہی کافیاں وہ لاہور کے گلی کوچوں میں گاتے اور لوگوں کے دلوں میں اللہ کی بڑائی اجاگر کرتے رہے۔

2

شیخ بہلول نے لاہور میں کم سِن شاہ حسین کو دیکھا تو مبہوت رہ گئے۔ انہوں نے حسین کو اپنے حلقے میں شامل کر لیا۔ خصوصی توجہ سے تربیت کرنے لگے،تاہم یہ دل لگی اس جہاں گرد کے قدموں کی زنجیر نہ بن سکی۔ کچھ عرصے بعد کوچ کرنے لگے تو حسین کو سید علی ہجویری کے دربار میں باقاعدہ حاضری کی تاکید کی۔ وہ روانہ ہوئے تو حسین نے شب و روز عبادتوں اور ریاضتوں کے لیے وقف کر دیئے۔ بہت سی روایتوں اور حکایتوں میں ان کی طلب صادق اور جستجو کے چرچے ملتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ پورے چھتیس برس تک جاری رہا۔

اس دوران شیخ سعد اللہ نامی ایک ملامتی درویش لاہور آ نکلا۔ اس نے زمانے کی نرمی گرمی کا ذائقہ چکھا تھا۔ جہاندیدہ تھا، باغی تھا، خودسر تھا،بے نیاز و بے پرواہ تھا۔ گویا کہ کامل ملامتی تھا۔ حسین بھی اپنے خاندانی پس منظر، طبقاتی صورت حال اور شیخ بہلول کے اثرات کی بنا پر بغاوت کی جانب مائل تھے۔ بغاوت کو مجسم دیکھا تو گرویدہ ہو گئے۔ حقیقت اعلیٰ کا علم عطا کرنے کی التجا کی۔ تصوف کے رموز جاننا چاہے۔ ملامتی بزرگ بھی مردم شناس تھا، زمین زرخیز دیکھی تو بیج ڈالنے کو بے تاب ہو گیا۔ تفسیر مدارک اٹھائی اور درس دینے لگا۔'' و ماالحیوٰة الدنیاالالہو ولعب''تک بات پہنچی تو کرامت کا ظہور ہوا اور پتھر ہیرا بن گیا۔

اس لمحے شاہ حسین نے نیا جنم لیا۔ پرانے سانچے ٹوٹے۔ نیا انسان پیدا ہوا۔ اس نے منادی کی کہ دنیا کھیل تماشہ ہے۔ برتری اور سنجیدگی کے قدیم معیار لایعنی ہیں۔ نصب العین فریب ہیں۔ زندگی لمحاتی ہے۔ یہ کہا اور تفسیر مدارک کنوئیں کے گہرے پانی میں پھینک دی۔ شرع و ظاہر کو خیر باد کہا۔ رقص کناں خدا کے گھر سے نکلے کہ دنیا کے کھیل تماشے میں اپنا کردار ادا کریں۔

آپ مولانا ابوبکر سے قرآن شریف کا ساتواں پارہ حفظ کر رہے تھے۔ حضرت بہلول جب مکتب میں آئے تو حضرت شاہ حسین کی روشن پیشانی اور ذہین آنکھیں دیکھ کرمولانا ابوبکر سے پوچھا کہ اس لڑکے کا کیا نام ہے اوریہ کیا پڑھتا ہے۔ انہوں نے عرض کی کہ اس کا نام شاہ حسین ہے اور ساتواں پارہ حفظ کر رہا ہے۔ حضرت بہلول نے انہیں روحانیت سے نوازا۔ جب حضرت بہلول کا فریضہ سرانجام ہوا تو شاہ حسین سے وقت رخصت کہا کہ اے حسین! یہاں لاہور میں جناب حضرت عثمان بن علی ہجویری گنج بخش کا مزار پر انوار ہے۔ جب ہم چلے جائیں تو غم نہ کرنا ہم نے تم کو حضرت عثمان بن علی ہجویری گنج بخش کے سپرد کر دیا ہے،۔اب ہمارے بعد ان کے آستانے پر حاضری دینا، وہی تمہارے رہنما اور راہبر ہوں گے اور تمہیں منزل تک پہنچائیں گے۔ شاہ حسین نے عبادت و ریاضت کو زندگی کا اولین مقصد بنا لیا۔ بارہ سال متواتر حضرت عثمان بن علی ہجویری گنج بخش کے مزار پر حاضری دیتے رہے۔ شاہ حسین کویہ انفرادیت حاصل ہے کہ ان کے مرشد کامل خود چل کر ان کے شہر میں آئے۔ ان کو راہ ہدایت دکھائی۔ اس وقت آپ کی عمر چھتیس برس تھی۔ آپ ناچتے کودتے مسجد سے باہر نکلے اور تفسیر مدارک کی کتاب مدرسہ کے باہر واقع کنویں میں پھینک دی۔ آپ کے ساتھی طالب علم اس بات پر بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے لعن طعن کی۔ آپ نے فرمایا کہ میں اب اس کتاب سے گزرا ،اگر تم لوگوںکو مطلوب ہے تو لو۔ یہ کہتے ہی پانی کی طرف مخاطب ہو کر حکم دیا ''اے پانی ہمارے دوست کتاب کے پھینکنے پر خفا ہو گئے ہیں، ہماری کتاب واپس دے دے۔'' قدرتِ الٰہی دیکھئے کہ کتاب کنوئیں سے خود ہی باہر آ گئی اور اس کے اوراق بھی خشک تھے۔ آپ کے ساتھی یہ کرامت دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور تمام شہر میں اس کا چرچا ہوا۔ اس روز سے آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا۔ دارا شکوہ نے شاہ حسین کو ''ملامیتوں کے گروہ کا سردار'' لکھا ہے۔

برصغیر کی عظیم روحانی شخصیت حضرت شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین کا خاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا ۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات ہے۔ آپ کے جد اعلیٰ کلس رائے کا تعلق لاہور سے ہی تھا جو فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کے والد شیخ عثمان بافندگی یعنی کپڑے بننے (جولاہا)کے پیشے سے منسلک تھے۔ چنانچہ آپ محلے میں ''حسین جولاہا'' کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شاہ حسین کا سال پیدائش 1538ء (945ھ) ہے۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے والد شیخ عثمان ٹکسالی دروازے کے باہر راوی کے کنارے آباد ایک محلے میں رہائش پذیر تھے جو تل بگھ کہلاتا تھا ۔

تحقیقاتِ چشتی میں لکھا ہے:
''حضرت مادھولال ایک حسین لڑکا، ذات کا برہمن تھا۔ اتفاقاً ایک روز بصد آرائش سوار ہوا چلا جا رہا تھا کہ حضرت حسین مقتدا میں کونین کی نظر فیض اثر اس پر جا پڑی۔ وہ دیکھتے ہی عاشق زار ہو گئے اور دوستوں سے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ برہمن پسر ساکن قصبہ شاہدرہ ہے۔ حضرت اسی وقت بسواری کشتی وہاں تشریف لے گئے اور یہ نوبت ان کی ہو گئی کہ بغیر دیکھے ان کے جان بے جان قالب میں نہ رہتی تھی۔ پھر تو حضرت کا یہ معمول ہوا کہ شب کو اس کے گھر کے گرد طواف کیا کرتے اور جان بوجھ کر وہ کافر بچہ آپ کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا اور وقت طواف جو جو باتیں وہ مخفی اپنی زوجہ سے کیا کرتا حضرت علی الاعلان وہ باتیں باہر بیان کرتے۔''

الغرض اسی طرح سولہ برس گزر گئے کہ حضرت اس کے عشق میں بدنام اور زبان زد خاص و عام ہو گئے اور بے قراری کا یہ حال تھا کہ آپ صرف بتصوّر اس کے مدام بے خود و بے خواب رہا کرتے تھے۔

بعد اس قدر تکلیف کشی کے حضرت کے عشق نے اس کے دل میں اثر کیا۔ پھر تو وہ ہمیشہ شب و روز حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا بلکہ جب تک کہ حضرت کی زیارت نہ کر لیتا تو صبر و قرار اس کو نہ آتا تھا۔

بعد دو سال کے اس کے لواحقین کو خبر ہوئی کہ مادھورام حسین ہو گیا تو ان کو یہ خوف پیدا ہوا کہ مبادامادھو مسلمان ہو جائے اور ہماری عزت اور آبرو کو بٹہ لگا دے۔ اس پر انہوں نے متفق ہو کر اس بات پر کمر باندھی کہ جب حسین مادھو اکٹھے نظر آئیں تو حسین کو شہید کر ڈالیں۔ جب وہ با ارادہ قتل آتے تو دروازہ مکان نہ پاتے اور شرمسار ہو کر چلے جاتے۔''

حسین کا معرکہ عشق کامیابی پر ختم ہوا۔ مادھو نے اپنا دین، ایمان دوست پر نچھاور کیا۔ زندگی اس کی دلجوئی کے لیے وقف کر دی لیکن میدان جنگ اور بھی تھے۔ علمائے ظاہر اور مذہبی قانون کے محافظوں کو حسین کے اقوال و افعال اور داستان عشق ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ پرانے تذکروں میں لکھا ہے:

 ''کہتے ہیں کہ بوقت حضرت حسین کے لاہور میں مخدوم الملک قاضی ا لقضاة تھے، اس نے ارادہ کیا کہ حضرت کو تعزیر کرے۔ ایک دن جناب حسین نے اس کے گھوڑے کو پکڑ کر کھڑا کر لیا اور کہا کہ قاضی صاحب ارکان اسلام کتنے ہیں؟ اس نے کہا کہ پانچ۔ یعنی توحید، حج، زکوٰة، نماز، روزہ۔ آپ نے فرمایا کہ توحید خدائے تعالیٰ عزاسمہ جو ہے،اس میں تو اور ہم دونوں شریک ہیں بلکہ خدا کی وحدانیت پر تمام مخلوق قائل ہے اور دوسرے حج اور زکوٰة سو ان دو نوں کو تم نے ترک کیا۔ اور بقیہ جو دو یعنی نماز روزہ تھے، ان کو میں نے ترک کیا۔ پس اس کا کیا باعث ہے کہ دو ارکان اسلام کے ترک میں حسین لائق تعزیر ہو اور آپ محفوظ رہیں۔ یہ سن کر قاضی خاموش ہوئے اور اس کے دل پر کچھ ایسی تاثیر ہوئی کہ اس کے بعد کبھی بھی وہ حضرت کے لیے باعث تکلیف نہ بنا۔''

پیر محمد نے ''حقیقت الفقرائ'' میں روایات درج کی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حسین کی ''انقلاب آفرینی'' کے چرچے شاہی دربار تک جا پہنچے تھے۔ یہ اکبری عہد کا واقعہ ہے۔ اگر یہ روایات درست ہیں تو ہمارے درویش اور شہنشاہ اکبر کے مابین مڈبھیڑ کا واقعہ اکبری عہد کے ابتدائی دور میں رونما ہوا ہو گا جبکہ اکبر سیدھا سادہ مسلمان تھا۔ مولوی نور احمد چشتی نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
''اکبر بادشاہ کے دربار میں لوگوں نے اکبر سے کہا کہ لاہور میں ایک فقیر حسین نامی ایسا ہے کہ داڑھی منڈا کر لباس ہائے سرخ پہنتا ہے اور شراب پی کر رقص کناں پھرتا ہے اور دعویٰ ولایت کرتا ہے۔ اکبر نے یہ سن کر بنام ملک علی کوتوال تک شہر لاہور فرمان تاکیدی بھیجا کہ بالفور پہنچے، فرمان ہذا کے حضرت حسین کو قید کر کے ہمارے پاس لا وے۔ وہ چند مدت آپ کے درصد تلاش رہا مگر آپ اس کو نہ ملتے تھے۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ حسب الحکم بادشاہ کے دُلّا بھٹی جو بڑا مغرور باغی تھا، گرفتار ہو کر لاہور میں آیا اور حکم شاہی تھا کہ اس کو بمقام ''نخاس'' پھانسی دیویں۔ ملک علی کوتوال اس کے پھانسی دینے کے واسطے گیا ہوا تھا، اس وقت اس کے پاس اس کا بیٹا جو حسین و جمیل تھا بیٹھا ہوا تھا۔ اتفاقاً وہاں حضرت حسین آ پہنچے اور اس حسین لڑکے کو دیکھنے لگے۔ لوگوں نے دیکھ کر کوتوال کو خبر دی کہ حضرت حسین وہ کھڑے ہیں۔ اس نے اس وقت آپ کو گرفتار کیا۔ آپ نے کہا مجھ کو کیوں گرفتار کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ باوجود مے نوشی و افعال غیر شرعی کے باعث۔ بعد ازاں بحکم ملک علی، حضرت کے پائوں میں زنجیر ڈالی گئی۔ قدرت الٰہی سے وہ زنجیر اسی وقت ٹوٹ گئی۔ پھر پہنائی پھر ٹوٹ گئی۔ وہ حیران ہوا۔ حضرت نے اس سے کہا کہ مجھ کو چھوڑ دے۔ اس نے کہا کہ تو جادوگر ہے۔ میں تجھے اب ایسی میخ ماروں گا کہ جاں برنہ ہو گا۔

اسی اثنا میں فرمان اکبر بنام اس کے پہنچا کہ دُلّا بھٹی کو پھانسی جلد تر دے اور بوقت دار کھینچے جانے کے وقت وہ جو گفتگو کرے، ہم کو اس کی رپورٹ کرو۔ اس نے اسی وقت اس کو دار پر چڑھایا اور دُلّا بھٹی نے بوقت دار اکبر کو ہزارہا گالیاں دیں۔ بعد دینے پھانسی کے ملک کوتوال نے عرضی بحضور اکبر بدیں مضمون لکھی کہ بوقت دار دلابھٹی نے فلاں فلاں گالیاں آپ کو دیں اور تمام حال حضرت حسین کا بھی لکھا کہ اس طرح اتنی دفعہ زنجیر اس کے پائوں سے ٹوٹ گئی تھی۔ جب وہ عرضی اکبر نے سنی تو کہنے لگا اس پاجی ملک نے کچھ خیال ادب نہ کیا اور تفصیل وار گالیاں درج عریضہ کریں۔ الغرض اسی وقت حکم دیا کہ ملک علی کے سفر میں میخ ٹھونکیں اور اس سے اس کو ماریں۔ الغرض وہ اسی طرح سے مارا گیا اور تمام شہر میں یہ کرامت حضرت حسین کی مشہور ہوئی اور تابہ اکبر پہنچی۔ وہ سن کر حیران ہوا۔''

شاہ حسین بدستور اپنے طرز معمولات پر قائم مست الست گلیوں اور بازاروں میں پھرتے رہے۔ ان کا معمول تھا کہ مست الست ہو کر اکثر چنگ ورباب کی صدا پر رقصاں رہا کرتے تھے مگر یہ امور محض واسطے اخفائے حال اپنے کے فرماتے تھے۔ شاہ حسین رات پچھلے پہر ہر شب کو ختم قرآن کیا کرتے۔ قاضی محمد زمان خان عباسی نے شاہ حسین اور مادھو کے حوالے سے کچھ مختلف بات کی ہے۔ مادھو شاہدرہ کا ایک برہمن زادہ تھا جو بقول تحقیقات چشتی 982ھ میں پیدا ہوا۔ اس وقت شاہ حسین کی عمر 38 سال تھی۔ بقول مصنف تحقیقات چشتی مادھو کی عمر تین برس کی تھی کہ جب وہ شاہ حسین کے منظور نظر ہوئے۔

''نقوش'' لاہور نمبر میں لکھا ہے کہ'' اس بات کا امکان بہت مشکل ہے کہ مادھو تین سال ہی کی عمر میں جب کہ وہ اپنی ماں کی گود میں تھا اور لاہور سے دور رہتا تھا ،شاہ حسین کو فریفتہ کر لیا ہو۔ بہرحال اس زمانے میں شیخ حسین قلندرانہ وضع اختیار کر چکے تھے اور ملامتیہ طریقہ رکھتے تھے تاہم حضرت شاہ حسین برہمن زادے کا نام و نسب دریافت کر کے خود ہی شاہدرہ جا پہنچے۔''

قاضی جاوید لکھتے ہیں:
''اپنی بہت سی کافیوں میں حضرت حسین نے اس خیال کو بار بار دہرایا ہے کہ انسان فانی ہے۔ خدا لافانی ہے۔ کوئی انسانی جدوجہد یا کامرانی انسانی زندگی کو ابدیت سے ہم کنار نہیں کر سکتی۔ وحدت پرستوں کا نقطہ نظر اس کے برعکس تھا۔ فرد اور خدا کے درمیان بنیادی وحدت میں یقین رکھتے ہوئے وہ انسانی ذات کو بھی ابدی سمجھتے تھے۔ شاہ حسین، مابعدالطبیعیات، فلسفہ وحدت الوجود سے مختلف اور فلسفہ وحدت الشہود سے قریب تر ہے۔ الٰہیاتی روپ میں اس فلسفے کو شاہ کے عظیم معاصر شیخ احمد سرہندی نے پیش کیا تھا۔ شاہ حسین کے اس خیال کی جڑیں قرآن حکیم میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں جو واضح طور پر خدا کی ماورائیت کا درس دیتا ہے۔بھگتی تحریک کے علمبرداروں کے ہاں بھی ماورائی خدا کا تصور ملتا ہے۔ پنجاب میں حضرت شاہ حسین سے قبل گورو نانک اس تصور کا پرچار کر چکے تھے۔

فرد اور خدا کی باہمی اضافت کے اس تصور پر حضرت شاہ حسین کا نظام فکر مبنی ہے۔ مطلق وحدت محال سہی۔ لیکن ناپسندیدہ نہیں۔ اصل میں یہ حضرت شاہ حسین کے نزدیک محال نصب العین ہے۔ ظاہر ہے اس سے دکھ درد، سوزو گداز، محرومی، ادھورا پن اور جدائی کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے۔ حضرت شاہ حسین کے کلام میں اسی لیے جابجا اس احساس کی ترجمانی ملتی ہے۔ ان کے ہاں محبوب کی تلاش کا جذبہ دوسرے تمام جذبوں پر حاوی ہے۔ یہ تلاش اور جستجو ''جس کا انجام ناکامی ہے، ان کی مابعد الطبیعات سے پیدا ہوتی ہے۔''

 نی سیو! مینوں ڈھول ملے تاں جا پے!
برہوں بلائے گھتی تن اندر میں آپے ہوئی آپے
بال پن میں کھیڈ گوایا جوبن مان بیاپے
شوہ راون دی ریت نہ جانی اس سنجے نرتاپے
عشق وچھوڑے دی بال داد نہ جانی اس سنجے نرتاپے
عشق وچھوڑے دی بال ڈھانڈی ہر دم مینوں تاپے
ہکس کہیں نال داد نہ دتی اس سنجے نرتاپے
ہکس دُور نہ تھیوے دل توں ویکھن نوں من تاپے
کہے حسین سہاگن سوای جاں شوہ آپ سنجاپے

مقبول الٰہی نے اپنی تصنیف ''کہے حسین فقیر'' میں بہت سی باتوں کو واضح کیا ہے جو قابل غور بھی ہیں اور قابل ستائش بھی۔

اب تک حضرت شاہ حسین کے کلام کے حوالے سے جو بھی متن میسر ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

3

 ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلا نسخہ جو ان کے ہاتھ لگا وہ گورمکھی حروف میں 1804ء کا لکھا ہوا ہے۔ ''تحقیقات چشتی'' کا سن تصنیف 1874ء ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم سے پہلے ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے ایک ''مجہول الاسم سندھی پشتک'' پر انحصار کرتے ہوئے ''مکمل کلام شاہ حسین لاہور 1942ئٔ'' استاد گرامی ڈاکٹر محمد شفیع پرنسپل اورینٹل کالج، لاہور کے مقدمے کے ساتھ مرتب کیا تو گویا شاہ حسین کی زندگی یعنی 1538ء تا 1599ء سے لے کر 1901ء تک جب ''شبد شلوک بھگتاں دے''میں پہلی بار کافیوں کی تعداد 138 ہوئی۔ شاہ حسین کی کافیاں قرطاس و قلم سے بے نیاز سینہ بہ سینہ منتقل ہوئیں، جن کو ان کے درمیانی عرصے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ بھی 1772ء یعنی بیاض نوشاہی سے قبل کی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی تعداد پیارا سنگھ پدم (1901ئ)، دیوانہ(1942ء ) کی تالیف کردہ کافیوں کے برابر ہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب مرحوم و مغفور نے رسالہ ''بہاریہ'' کے متعلق اظہار خیال فرمایا ہے کہ:
''ظاہر ہے کہ اس قسم کے روز نامچے سے شاہ حسین کے اقوال وغیرہ کو حذف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ضرور اس میں کافیاں بھی درج ہوئی ہوں گی۔ لیکن افسوس ہے کہ یہ روزنامچہ جس کا نام ''بہاریہ'' بتایا جاتا ہے، اب ناپید ہے۔''

سوچنا ہو گا کہ چشتی صاحب کو انگریز حاکموں نے بالخصوص ''بہاریہ'' کا نسخہ مہیا کیا تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ چشتی صاحب نے جنہوں نے پورے 101 صفحے شاہ حسین کے لیے وقف کیے، ایک بھی کافی کا ذکر تک نہیں کیا؟ اور یہ اَمربھی قابلِ ذکر ہے کہ: شاہ حسین کا کلام فارسی رسم الخط میں ہونا چاہیے تھا، وہ گورمکھی میں ہے جبکہ یہ رسم الخط بعد کی ایجاد ہے۔

1772ء میں کافیوں کی تعداد 5 تھی۔ 1599ء یعنی سال انتقال شاہ حسین سے تقریباً پونے دو سو سال بعد تک، سب سے پہلے 1901ء میں مطبوعہ کافیوں کی تعداد 138 تک پہنچی۔

یہ کافیاں ایک ایسے نسخے سے چن کر نکالی گئی ہیں جو صرف پروفیسر پیارا سنگھ پدم پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے پاس ہے۔ یہ کس نے، کب اور کہاں ترتیب دیا؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔

1942ء میں کافیوں کی تعداد 163 ہو گئی۔ 138 کافیاں سندھی کے ایک ایسے گمنام گورمکھی مجموعے سے لی گئی ہیں جس میں بہت سے اور صوفیوں، سنّتوں اور بھگتوں کا کلام موجود ہے۔ ان میں 25 کافیاں پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے گورمکھی نمبر 374 کی شامل کر کے پہلی بارکافیوں کی تعداد 163 ہو گئی۔یہی کتاب بعدازاں گورمکھی کے نسخوں کے ترجموں یا پھر اس کے سرقے کی بنیاد بنی۔1772ء میں سب سے پہلے اردو رسم الخط میں اور ایک مسلمان خاندان کی بیاض میں سے کافیاں ملیں۔ لیکن ان کی تعداد 5 ہے۔

اردو رسم الخط کا دوسرا نسخہ کم و بیش ڈیڑھ سو سال بعد کا ہے اور وہ بھی دیا سنگھ کا ہے۔ اور تیسرا نسخہ 1942ء کا ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کا ہے۔

ڈاکٹر سید نذیر احمد صاحب مرحوم و مغفور نے اتنی جانکاہی کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں ،ان کے علاوہ اس بات کی گنجائش بھی ہے کہ شاہ حسین سے منسوب کافیوں میں اسلامی عقائد سے ہٹ کر آواگون وغیرہ کے جو تصورات و خیالات پائے جاتے ہیں، وہ بھی ان کے اپنے نہ ہوں بلکہ ان کے ملامتیہ فرقے سے منسلک ہونے کے پس منظر میں وقت کے ساتھ ساتھ کافیوں میں حسب توفیق داخل کر لیے گئے ہوں۔ اس بنیاد پر ڈاکٹر لاجونتی رام کرشن نے اس خیال کا اظہار کیا کہ شاہ حسین اسلامی عقائد کے علاوہ اپنے پرانے آبائی مذہب کے عقائد کے پریو بھی تھے لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعی طور پر مشکل نہیں ہے کہ شاہ حسین کا اصلی کلام ہم تک نہیں پہنچا، بہت سا الحاقی ہے۔ بعد ازاں موجودہ صدی میں میسر تحریری مواد کی تحقیق کے بعد جو نسخہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ہر پہلو سے جائزہ لے کر پیکیجز لمیٹڈ، لاہور کے گراں قدر تعاون سے بہتر متن کے ساتھ طبع کروایا ہے، اُس نے اپنا مقام تسلیم کروایا ہے ۔ جہاں تک ان شکوک کا تعلق ہے کہ ان کافیوں کا وجود ہی نہیں تھا تو اس کا ازالہ کافیوں کے اندرونی اور معروضی مطالعے سے ہوتا ہے،ان کی ہیئت، موضوع اور مزاج سے ہوتا ہے۔ شاہ حسین کی مانند تکرار اور بندش سے ہوتا ہے، ہر کافی کے اختتام پر مخصوص تلقین سے ہوتا ہے۔ کسی اور فقیر یا صوفی منش شاعر کے ہاں اس طرح مکرر تلقین نہیں ملتی۔اس ضمن میں یہ اَمر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ہندی شاعری کی طرح پنجابی شاعری میں بھی ''محبوب'' مرد ہوتا ہے اور عاشق یا محبوبہ، عورت ہوتی ہے اور اظہار عشق یا خیالات و احساسات کا بیان،عورت کی مخصوص زبان و طرز کلام میں ہوتا ہے۔ ماسوائے معدودے چند کافیوں کے شاہ حسین کی کافیوں میں ہمیں عورت کے جذبات و احساسات اور ان کا مخصوص طرز اظہار ملتا ہے مگر قریب قریب ہر کافی کے اختتام پر 'کہے حسین فقیر سائیں دا'' کے الفاظ موجود ہیں۔

یہ تبدیلی شاہ حسین کے ناصحانہ کردار ادا کرنے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے علم و تجربے کی بنا پر فریاد کرتی ہوئی خام کار اور غافل روحوں کو اس دنیا میں عمل کی راہیں متعین کرنے کی تلقین و نصیحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ گویا ان کی کافیوں میں دو کردار واضح ہیں۔ ایک روایتی مہجور و کم کوش عورت یا روح جس کا عمل، معیار سے کم تر رہا یا جس نے اپنے فرض یعنی عشق خدا سے غفلت برتی اور اسے اپنی اخروی زندگی میں محرومیوں کے اندیشوں نے بے چین کیا اور دوسرا ایک پیر ناصح کاکردار ہے جو خود کو معیاری نہ سمجھتے ہوئے بھی، اپنی اندرونی کیفیات اور اندیشوں کو بیان کرنے والوں کے لیے راہ عمل کی طرف اشارہ کر کے امید نجات دلاتا ہے۔

مقبول الٰہی لکھتے ہیں:
''ادب کے میدان میں اکبر اعظم کا دور بڑے بڑے نابغوں کے لیے مشہور ہے ،چنانچہ حسین کے ہمعصر ایک طرف فیضی، نظیری، عرفی اور خان خاناں تھے تو دوسری طرف اغلباً داستان ہیر رانجھا کے پہلے پنجابی شاعر دمودر بھی تھے۔ ہندی اور بھگتی ادب میں بھی محرم نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ذہن نشین کر لینے کی بات یہ ہے کہ شاہ حسین نے مرکز حکومت سے دور رہ کر بھی ادب کے میدان میں اپنا ممتاز مقام پیدا کر لیا۔ چنانچہ مختصراً یہاں ان کی اوّلیات درج کی جاتی ہیں:
٭ پنجابی میں وہ کافی کی صنف کے موجد تھے۔
٭ پنجابی کے وہ پہلے شاعر تھے، جنہوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لیے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔
٭ سب سے پہلے داستان ہیر رانجھا کو بطور عشق حقیقی کی تمثیل اپنے شعری کلام میں سمویا۔
٭ اپنے پیشے بافندگی کے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء و آلات کو مثلاً چرخہ، سوت، تانا، بانا وغیرہ کو صوفیانہ اور روحانی معنی پہنائے۔ ان کے بعد یہ پنجابی کا ایک جزولاینفک بن گئے۔
٭ پنجابی کو ایسے مصرعے، تشبیہات اور موضوعات دیے کہ ان کے بعد آنے والوں نے یا تو ان کو اپنی طرف منسوب کر لیا یا ان پر طبع آزمائی کی۔ مثلاً رانجھا رانجھا کردی نی۔ میں آپے رانجھا ہوئی۔''

شاہ حسین کے عشق مجازی اور عشق حقیقی کی حقیقت کے بارے میں ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ یوں رقم طراز ہیں'' اس نے (ڈاکٹر لاجونتی) بڑا ظلم کیا ہے کہ شیخ شاہ حسین کا نام ہی مادھولال حسین لکھ دیا ہے اور ادھر ادھر کی کرامتوں اور گپوں میں شاہ حسین کوملوث کر دیا ہے اور دارا شکوہ کی کتاب ''حسنات العارفین'' نہیں دیکھی ۔''نقوش لاہور نمبر میں شاہ حسین اور مادھو کے باہمی تعلق کے حوالے سے مصنف رقم طراز ہے ''پیر و مرشد کے تعلق میں مولانا روم اور ان کے مرشد شمس تبریز، امیر خسرو اور ان کے مرشد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور اسی طرح بعض دیگر صاحبان سلوک کے درمیان جو محبت، عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی ،اس کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس قسم کی محبت سے نہ تصوف کبھی بدنام ہوا ہے ،نہ ہو سکتا ہے۔'' جہاں تک شاہ حسین کے دن رات شراب نوشی میں مست الست رہنے کی بات ہے ،اس پر بھی ڈاکٹر موہن سنگھ نے تحقیق کی ہے اور اس بات کو جھٹلایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
''کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شیخ شاہ حسین کو اکبر سے رو برو مواخذہ میں لیا گیا تھا۔ کیونکہ داڑھی منڈھواتا اور کھلم کھلا شراب خوری کرتا تھا مگر یہ محض افسانہ ہے۔ اس بارے میں کوئی مصدقہ شہادت بہم نہیں دی گئی۔ حاجی یعقوب نامی ایک شخص مدینے کا رہنے والا تھا، وہ حضرت شاہ حسین کو مدینہ منورہ میں برروضہ اطہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روز و شب معتکف دیکھا کرتا تھا۔ اسی باعث وہ آپ کا بے حد شناسا تھا، اتفاقاً وہ سیر کرتا ہوا لاہور آ پہنچا اور یہاں اس نے حضرت شاہ حسین کو محو نغمہ و رقص کناں دیکھا اور اس امر پر حیران ہوا۔ حاجی یعقوب سے رہا نہ گیا اور وہ حضرت کے پاس پہنچ کر پوچھنے لگا کہ اے مرد خدا! تم لاہور میں کب سے آ رہے ہو، میں نے تم کو مدینہ منورہ میں چھوڑا تھا۔ حضرت نے کہا کہ آنکھیں بند کرو اور دیکھو کیا معاملہ ہے جب اس نے آنکھیں بند کیں تو حضرت کو بہ لباس عارفانہ بروضہ مطہرہ نبویہۖ معتکف دیکھا۔ جب حاجی یعقوب یہ کرامت دیکھ چکا تو حضرت شاہ حسین نے فرمایا کہ اے شخص اب تو یہاں سے جلد جا اور میرا راز کسی سے فاش نہ کر۔ میں تو ہمیشہ لاہور میں رہتا ہوں ،کبھی مکہ مدینہ نہیں گیا۔ مگر اس شخص نے نہ مانا اور باآواز بلند کہا کہ اے ساکنان لاہور یہ ولی ٔ کامل ہے میں اس کو طواف کعبہ میں چھوڑ کر روانہ ہوا تھا جب حضرت نے دیکھا کہ راز فاش ہو گیا ہے تو آپ اس شخص کی آنکھوں میں گم ہو گئے ۔بعد ازاں اس شخص نے آپ کو ہر جگہ تلاش کیا مگر ناکام رہا۔ تلاش سے مایوس ہو کر جب واپس مکہ پہنچا تو دیکھا کہ آپ بدستور طواف کعبہ میں محو سجدہ ہیں، وہاں جاتے ہی حضرت کے قدموں میں گر پڑا اور نادم ہوا۔ ''حقیقت الفقرائ'' میں تحریر ہے کہ بروز شنبہ آپ سیر کے لیے دریائے راوی کے پاس جاتے تھے ایک مرتبہ جب آپ گئے تو وہاں آپ کو ایک ریگستان نظر آیا۔ آپ نے کشتی بان سے فرمایا کہ مجھے یہیں اتار دو جب اس نے آپ کو اتارا تو آپ نے چاہا کہ تیر و کمان سے طبع کو بہلاویں، چنانچہ آپ نے ایک نشانہ رکھ کر چند تیر چلائے اور بعدازاں مرید ان ہمراہی سے فرمایا کہ اے دوستاں! جب کوئی دوست حقیقی اپنے دوست کو اپنی طرف بلاوے تو کیا کرنا چاہیے، دوستوں نے کہا کہ اگر دوست باارادہ وصل بلاوے تو بجان منت اٹھ کر جانا چاہیے۔اس وقت آپ کی عمر 63 سال تھی۔ الغرض دوستوں نے تجہیز و تکفین وہیں کی اور نماز جنازہ پر تمام اولیاء کرام تشریف لائے اور پھر پار دریا کے لاش لے جا کر دفن کر دی جو جگہ آپ نے پسند فرمائی تھی۔ حضرت شاہ حسین کی وفات کو ایک سال ہی بمشکل گزرا تھا کہ مادھو کو الہام ہوا کہ حضرت فرماتے ہیں کہ تو اب لاہور سے ہندوستان جلد جا اور راجہ مان سنگھ کی دوبارہ نوکری کر اور بارہ برس سفر کرکے پھریہاں آ۔ مادھو راجہ مان سنگھ کے پاس بغرض نوکری چلا گیااور راجہ کو بتایاکہ وہ حسب الحکم حضرت پیرو مرشد کے یہاں آیا اور بارہ برس کے بعد پھر لوٹ جانے کا حکم ہے۔ تدفین کو بارہ برس گزرے تو راجہ مان سنگھ مر گیا اور مادھو نے بھی واپسی کا ارادہ کیا۔ اس اثناء میں دریائے راوی میں سیلاب آیا اور پانی حضرت شاہ حسین کے مزار تک چڑھ آیا۔ دوستوں نے قبر کو کھولا تو قبر درمیان سے خالی نکلی اور اس حیرت و پریشانی میں واپس ہوئے، چند قدم لوٹے تھے کہ قبر سے آواز آئی اور قبر سے ایک نور تابہ آسماں نظر آیا۔ اس وقت اس مرید کو حضرت شاہ حسین کی آواز سنائی دی کہ اللہ کی مہربانی سے میرا جسم صورت گل دستہ بن گیا ہے اور یہ گل دستہ ہماری لاش ہے۔ اس کو کوئی نہ سونگھے اور یہ راز کسی سے ظاہر نہ ہو، اس کو یہاں سے جلد لے جائو اور بابو پورہ (موجودہ باغبانپورہ) میں دفن کر دو اور جس کسی کو مجھے دیکھنے کی خواہش ہو تووہ مادھو کو دیکھے ۔مجھ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں۔ جب حضرت کو فوت ہوئے تیرہ سال گزر گئے تو مادھو حضرت کے مزار پر سجادہ نشین ہوا ۔قدرت الٰہی سے اس وقت تک مادھو ہم شکل حضرت شاہ حسین تھے کہ جو قدیمی دوست تھے، سب ہی کہتے تھے کہ حضرت شاہ حسین نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ 1646ء میں مادھو کی وفات ہوئی اور حسب الحکم حضرت شاہ حسین مادھوکو آپ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ خانقاہ کی یہ تفصیل قدیمی ہے۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام مارچ کے آخری ہفتے میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ پہلے یہ عرس میلہ چراغاں کے نام سے شالامار باغ کے اندر بھی منایا جاتا تھا لیکن آثار قدیمہ کی طرف سے پابندی عائد ہونے کے باعث اب عرس مباک کے ایام میں بیرونی اطراف میں ہی دکانیں وغیرہ سجائی جاتی ہیں۔

یہ تمام روایات سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی ہم تک پہنچی ہیں۔ شاہ حسین کے کلام اور ان کی ذات کی کرامات آج پنجابی ادب کا اہم جزو ہیں۔