working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

از طرف مدیر

سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

کراچی میں صفورا گوٹھ قتل عام کے مبینہ ذمہ داروں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کا نام سامنے آنے سے تعلیم یافتہ اور اچھی آمدنی والے طبقات میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کے حوالے سے بحث ایک مرتبہ پھر تیز ہو گئی ہے۔حسب توقع میڈیا نے اس بحث کو مہمیز دی اور مبصرین انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات سمیت اس کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے دکھائی دیے۔ بعض لوگوں نے اس مسئلے کی وجوہات مذہب میں تلاش کرنے کی کوشش کی تو بعض نے اسے سیاسی اور تعلیمی نقطہ نگاہ سے دیکھا۔

بحیثیت مجموعی ان مباحث سے یہ سامنے آیا کہ ہم تاحال اس مسئلے کو سمجھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مبصرین سمیت کوئی اس موضوع پر دستیاب تحقیق سے استفادے کی زحمت نہیں کرتا۔ لہٰذا ہمیں درپیش حقیقی چیلنج یہ ہے کہ ایسے تصورات اور فرضی باتوں کا توڑ کیا جائے جن میں کہا جاتا ہے کہ صرف غربت، عدم مساوات اور معاشی محرومی ہی انتہاپسندی کو جنم دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی و معاشی حیثیت سے قطع نظر معاشرے کے تمام طبقات میں انتہاپسندانہ رحجانات عام ہیں۔

ایسے تصورات سلامتی کے حوالے سے سنگین مضمرات کے حامل ہیں۔ پہلی بات یہ کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے تمام وسائل روایتی خطرات سے نمٹنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ ایسے میں چند اہم پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جن سے دہشت گرد نہایت چالاکی سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

انتہاپسندی کے بیشتر مفاہیم دیکھے جائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انتہا پسندی ایک ایسا عمل ہے جس میں کوئی فرد یا گروہ اپنے نظریات اور مقاصد کو دوسروں سے اعلیٰ و ارفع سمجھتا ہے۔ ایسے مقاصد کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کی خواہش نیز ان نظریات اور مقاصد کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے تشدد کا راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی کے پیچھے مختلف وجوہات کارفرما ہیں اور اس کی تین سطحیں ہیں۔ پہلے درجے میں کم آمدنی والے گروہ شامل ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے اور خیبرپختونخوا کے قریبی اضلاع سمیت ملک کے ایسے حصوں میں آباد ہیں جہاں مؤثر حکومتی عملداری نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں ایسے طبقات جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی بستے ہیں جہاں غربت، عدم مساوات اور ڈھیلا ڈھالا انتظامی ڈھانچا انتہاپسندی اور دہشت گردی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

متوسط آمدنی والے طبقات میں انتہاپسندی کے درجے اور رحجانات مختلف ہوتے ہیں۔ شہری و نیم شہری علاقوں بشمول وسطی اور شمالی پنجاب، سندھ میں کراچی اور حیدرآباد نیز خیبرپختونخوا اور کشمیر کے بڑی آبادی والے اضلاع میں انتہاپسندی کے محرکات زیادہ تر سیاسی ہیں۔ اندرونی اور بیرونی سیاسی تبدیلیاں نیز مختلف گروہوں اور میڈیا کی جانب سے انتہاپسندانہ بیانیے کی تائید بھی ان رحجانات پر اثر انداز ہوتی ہے۔

لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب اسلامی اور القاعدہ سے ملحق دہشت گرد اکائیوں جیسی عسکری تنظیمیں اپنی صفوں میں بھرتیوں کے لیے عموماً انتہاپسندانہ رحجانات پر ہی انحصار کرتی ہیں۔ اگرچہ مدارس کے طلبہ اور مذہبی جھکاؤ رکھنے والے گروہوں میں متشدد رحجانات کے حوالے سے اثرپذیری زیادہ ہوتی ہے، مگر عموماً ان علاقوں میں انتہاپسندی کسی ایک گروہ سے مخصوص نہیں ہے۔ کشمیر اور افغانستان میں کام کرنے والی عسکری تنظیموں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں ایسے نوجوان دکھائی دیں گے جو رسمی تعلیمی اداروں میں پڑھ چکے تھے۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کے طلبہ ونگ نیز فرقہ وارانہ، خیراتی، کٹر اور عسکری تنظیمیں بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں متحرک ہیں۔ ایسی تنظیموں کے دوسرے بازو معاشرے کے مخصوص حصوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

کم و بیش ہر سیاسی جماعت (خواہ اس کے مقاصد سیاسی ہوں، فرقہ وارانہ یا عسکری) خواتین، تاجر، وکلا، ڈاکٹر، اساتذہ اور بہت سے دوسرے ونگ قائم کرتی ہے۔ یہ ونگ متوسط آمدنی والے گروہوں میں انتہاپسندی کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے پاس اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تسلسل سے بنیاد پرستانہ لٹریچر اور مطبوعات پر انحصار کرتے ہیں اور ناصرف مطبوعہ مواد بلکہ سی ڈی، ڈی وی ڈی اور انٹرنیٹ کے ذریعے بھی اپنا پیغام پھیلاتے ہیں۔

پاکستان میں عسکری تنظیمیں انتہاپسندی کے فروغ اور بھرتیوں میں اضافے کے لیے انٹرنیٹ کو سب سے بڑے ذریعے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ یہ تنظٰیمیں بھرتیوں کے سلسلے میں متوسط آمدنی والے گروہوں پر خاص توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ القاعدہ اور دولت اسلامیہ جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں نے بھی انتہاپسندی کے اس درجے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مالی اور انسانی وسائل جمع کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے بعض حصوں میں اپنے حق میں رائے ہموار کی ہے۔

اس حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ سماج سے بیگانگی میں اضافہ بھی بالائی متوسط طبقے اور ملک کی اشرافیہ میں انتہاپسندی کے فروغ کا اہم محرک ہے۔ حزب التحریر اور الہدیٰ جیسے کٹر مذہبی گروہ آبادی کے اسی حصے میں اپنے خیالات و نظریات کی ترویج میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں خود کو تبدیلی کا نمائندہ قرار دیتی ہیں تاہم ان دونوں کے اہداف مختلف ہیں۔ الہدیٰ کی زیادہ توجہ خواتین پر ہے اور اس حوالے سے ان کا مقصد 'خواتین کو ان کی مذہبی بنیادوں کی طرف واپس لانا' ہے۔

حزب التحریر بااثر اشرافیہ کے ساتھ تعلق بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ پہلے بالائی اور پھر زیریں طبقات کو ساتھ ملا کر خلافت کے قیام کا اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔

پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی باہم مربوط ہیں۔ اس رشتے کو کمزور کیے بغیر دہشت گردی کے چیلنج پر قابو پانا ممکن نہیں۔ مفروضات سے آگے بڑھنا اور دہشت گردی کے مسئلے کی عملی سمجھ بوجھ اس سلسلے میں پہلا قدم ہونا چاہیے۔

بہت سے عملی جائزوں سے سامنے آیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمی دو انداز میں مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس سے نوجوانوں کی جذباتی توانائیاں جذب کرنے اور انہیں مثبت سمت مہیا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے تعلیمی اداروں میں انتہاپسندوں اور عسکری تنظیموں کو قدم جمانے سے روکا جا سکے گا۔

حکومت کو اس بات کا سنجیدگی سے ازسرنوجائزہ لینا ہو گا کہ نجی اور سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کو کام سے روکنا کس قدر مفید یا نقصان دہ ہے۔ طلبہ تنظیموں کو بڑے مدرسوں تک پھیلانا زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی ادارہ سازی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے جس سے موجودہ سیاسی اظہار کو بھرپور فائدہ پہنچے گا۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور طلبہ گروپ تعلیمی اداروں کا ماحول خراب کریں گے جبکہ یہ تصور محض دوراندیشی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔

اس موضوع پر کیے گئے بیشتر جائزوں سے یہ سامنے آیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں یونین کی سرگرمیاں طلبہ پر مثبت اور دوررس اثرات مرتب کریں گی۔ ان فوائد کو مختصر مدتی تناؤ کے خدشے کے بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کو اپنے بے بنیاد خدشات کی بنا پر ملک میں سماجی و سیاسی اظہار کمزور کرنے کے بجائے شہریوں کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنانی چاہیے۔