مسلمانوں نے 711ء سے 1492ء کے دوران سپین پر حکومت کی۔ یہ 781سال بنتے ہیں۔ اس دور کی سب سے خاص بات بین المذاہب ہم آہنگی تھی جسے تاریخ میں مسلمانوں ، عیسائیوں
اور یہودیوں کے درمیان مذہبی و نسلی برداشت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون نامور محقق اور تاریخ دان اکبر ایس احمد کی کاوش
ہے جو درحقیقت سعودی شاہی خاندان کے انتہائی اہم فرد شہزادہ ترکی الفیصل کے انٹرویو سے اخذ کی گئی ہے ۔ سقوطِ اندلس ،بلاشبہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اندوہناک
باب ہے جس کے زخم اتنے گہرے تھے کہ اس نے مسلمانوں کے مابین فکری سطح پر ایک لکیر کھینچ دی ۔ ایک طرف شدت پسند اور دوسری طرف اعتدال پسند ، ایک طرف سخت گیر اور
دوسری جانب روحانیت میں مست الست رہنے والے، یہ تقسیم آج بھی واضح ہے۔ شہزادہ ترکی الفیصل کا ایمان ہے کہ مسلمان تہذیب اندلس ماڈل پر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی
ہو سکتی ہے۔ اکبر ایس احمد کا یہ مضمون آن لائن اخبار ہفنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے شکریے کے ساتھ اردو میں قارئینِ تجزیات کے لیے پیش کیا جارہا ہے ۔
شہزادہ ترکی الفیصل گویا ہوئے:
’’اندلس میرے بدن کاحصہ تھا جسے کاٹ دیا گیا ‘‘۔
میں نے کہا کہ اس سے وہ کیا مراد لیتے ہیں ؟
شہزادہ ترکی الفیصل جسے اسلامی دنیا میں اہم مقام و مرتبہ حاصل ہے، وہ شاہ فیصل کے فرزند ہیں ، ریاض کے ایک اہم تھنک ٹینک شاہ فیصل سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک
سٹڈیز کے سربراہ ہیں ۔وہ امریکہ اور برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر بھی رہ چکے ہیں ۔میرے سوال پر کم گو شہزادہ پرجوش ہو گیا ،انھوں نے شاہی و سفارتی آداب کا
لبادہ اتاراپھینکا اور دردناک لہجے میں کہا ’’سقوطِ اندلس نے ہمیں جھنجوڑ کر رکھ دیا یہ خلا آج تک پرُ نہیں ہو سکا ‘‘۔جب میں نے مزید استفسار کیا تو وہ کہنے لگے
’’اندلس میرا جنون ہے کیونکہ اس نے صرف مسلمانوں کو ہی فیض یاب نہیں کیا بلکہ عیسائی اور یہودی بھی اس سے یکساں طور پر مستفید ہوئے ۔ اس نے انسان اور انسانیت کا
رتبہ بڑھایا ۔ ایسا معاشرتی تصور دیا جو سماجی ہم آہنگی سے عبارت تھا۔ جس کا آج کل فقدان ہے ۔اس وقت اندلس کا طوطی بولتا تھا اور اس کے مقابلے پر یورپ غلامی ،
باہمی چپقلش اور نفرت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق تھا ۔
اپنے عروج کے دور میں اندلس نے مسلم تہذیب و تمدن کو چار چاند لگا دیے ۔جہاں مذہبی برداشت تھی، شاعری اور موسیقی کا چرچا تھا ۔ ابن رشد جیسے سائنسدان اور
فلاسفرتھے ۔قرطبہ کی لائبریری میں چار لاکھ سے زائد کتب تھیں ۔جگہ جگہ عوامی حمام تھے ،شہر میں الحمرا اور مسجد قرطبہ جیسی پرشکوہ عمارات ، طرز تعمیر کا شاندار
اظہار تھیں ۔ یہ سب کچھ مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے باہمی تعاون کا عملی نمونہ تھا ۔یہودی راہب موسیٰ بن میمون کی تخلیقات عربی میں شائع ہوئیں۔حکمران
مسلمان تھا مگر اس کا وزیر اعلیٰ یہودی اور عیسائیوں کا بڑا پادری وزیر خارجہ تھا ۔یہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی تھی ۔
مسلمانانِ اندلس کی تہذیب و تمدن ،علم و حکمت کی کھوج سے عبارت تھی ۔اندلس نے کئی میدانوں میں نئے رجحانات متعارف کروائے ۔ مثلاً پہلا انسان ،ابن فرنس جس نے
اڑنا سیکھا جس کے نام پر بعدازاں چاند کے ایک گڑھے اورآج کے قرطبہ کے ایک پل کا نام رکھا گیا ہے ۔اسی دور میں پہلا فلسفیانہ ناول ابن طفیل نے لکھا ۔سپین سے ہی
یورپ کواپنی یونیورسٹیوں آکسفورڈ اورکیمبرج کا تصور ملا ۔فلسفے اور ادب میں تھامس اکیناس ، طب میں ابن سینا اور ابو القیس یہ سب وہ نام تھے جن سے یورپ نے
استفادہ کرتے ہوئے اپنے علم کو آگے بڑھایا ۔
شہزادہ ترکی نے اندلس کو اسلام کے ابتدائی ایام سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ میثاقِ مدینہ کی عملی شکل تھی جو ریاست اور معاشرے کے درمیان ضابطوں پر مبنی پہلا
لکھا ہوا معاہدہ تھا ۔ انھوں نے تعلیم اور علم کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ۔شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ علم سے مراد قرآن ، فقہ، اسلامی قوانین اور حدیث کا علم
ہے اور وہ سب کچھ جو نبی کریم ؐ کی زبانِ مبارک سے ادا ہوا جبکہ غیر مذہبی علوم ریاضی اور سائنس بھی علم کے زمرے میں ہی آتے ہیں ۔شہزادہ پرجوش ہو کر بولا
’’اندلس ،عہدِ کمال تھا ‘‘۔
انھوں نے کہا کہ یہ میری آرزو ہے کہ میں مسجد قرطبہ کے گنبدوں کے سائے میں نماز ادا کروں۔ لیکن سپین کے حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ عمارت کیتھڈرل ہے اور یہاں
بالخصوص مسلمانوں کی عبادت ممنوع ہے ۔مگر مسلمان یہاں دیوانہ وار عقیدت رکھتے ہیں ۔برطانوی دور میں علامہ اقبال بھی یہاں سجدہ ریز ہوچکے ہیں ۔ان کی وہ تصویر جس
میں وہ مسجد قرطبہ میں نماز پڑھ رہے ہیں پوری دنیا کے مسلمانوں میں مشہور ہوئی ۔اقبال کی مشہور نظم ’’مسجد قرطبہ ‘‘ جوانھوں نے وہاں سے واپسی پر لکھی آج بھی
قرطبہ کے میئر کے دفتر میں آویزاں ہے ۔
1960کے اوائل میں جب میں پڑھ رہا تھا تو میں نے بھی اقبال سے متاثر ہو کر عین اسی جگہ نماز ادا کی ۔تب وہاں سکیورٹی گارڈ چند ایک تھے جن کی سیاحوں پر اتنی نظر
نہیں تھی ۔نہ ہی وہ دیکھتے تھے کہ کون کیا کر رہا ہے ۔جب میری عمر صرف اکیس برس تھی تو میرے ذہن پر یہاں مسلمانوں کے عروج و زوال کی گہری چھاپ تھی۔
داستانِ اندلس میرے لیے بہت پر جوش ہے۔ یہ میری تاریخ کا ایسا حصہ ہے جس سے یورپ آج بھی صحیح طور پر آشنا نہیں ہے ۔شہزادے نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ
جب وہ 1980میں وہاں گئے تو حکام نے انھیں وہاں نماز پڑھنے کی خصوصی اجازت دی ۔انھوں نے واضح کیا کہ آپ اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتے جب تک کوئی آپ کی انگلی نہ
پکڑے ۔
1990میں جب میں TV BBC کے لیے فلم Living Islam کی عکس بندی کر رہا تھا تب بھی سکیورٹی بہت زیادہ سخت تھی ۔وہاں میں نے دیکھا کہ محراب کے اردگرد ایک ریشمی رسی
لگائی گئی تھی تاکہ لوگ یہاں نماز نہ ادا کر سکیں ۔تاہم ہمارا پروڈیوسر سکیورٹی حکام کو باور کرانے میں کامیاب رہا ،اگرچہ وہ برصغیر کے افراد سے تحقیر آمیز لہجے
سے پیش آتے تھے ۔اس طرح مجھے موقع مل گیا کہ میں اس تاریخی جگہ پر نماز ادا کر سکوں ۔اس کی ریکارڈنگ بی بی سی کی متعلقہ فلم میں بھی موجود ہے ۔مگر جب ہم 2014 کے
موسم گرما میں دوبارہ وہاں ’’یورپ میں اسلام ‘‘کے سلسلے میں گئے تو ہم وہاں نماز کی ادائیگی میں ناکام ہوگئے۔صرف یہ نہیں کہ حکام نے لوگوں کو نماز کی ادائیگی سے
روکنے کے لیے محرابوں کے گرد سٹیل کے بنے ہوئے جنگلے لگا دیے ہیں بلکہ سیکورٹی گارڈز اور چرچ سے وابستہ حضرات مسجد میں ہر بندے کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے
ہوئے ہیں۔کیونکہ وہاں ان افواہوں کے بعد بہت زیادہ سختی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ مسلمان مسجد کی واپسی کے آرزو مند ہیں۔جب بھی ہم محراب کے نزدیک پہنچتے گارڈ
آگے آتے اور ہمیں پیچھے ہٹنے کی تاکید کرتے۔
ہماری تحقیقاتی ٹیم کی ممبر ڈاکٹر آمنہ جو مسجد کے بلمقابل ہوٹل میں ہی مقیم تھیں، انھوں نے مسجد میں بار بار جانے کو اپنا معمول بنا لیا تھا۔وہ بالکونی میں
کھڑی ہو تیں اور اندلس کے سحر میں گم ہوجاتیں۔ بحیثیت ایک باپ کے مجھے یہ فکر بھی لاحق تھی کہ کہیں اگر اس نے نماز ادا کرنے کی کوشش کی تو اس کی سکیورٹی حکام کے
ساتھ مڈبھیڑ ہوسکتی ہے اور کوئی مسئلہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے ۔مگر شکر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔
اس دوران آمنہ نے ایک پڑھی لکھی شادی شدہ شامی خاتون کا انٹرویو کیا اور اس سے پوچھا کہ سقوط اندلس سے وہ کیا مراد لیتی ہیں۔ جس پر عرب خاتون اپنے جذبات پر قابو
نہیں رکھ سکی۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤ ں کی لڑی بہہ نکلی جس پر آمنہ بھی رو پڑی اور دونوں خواتین ایک دوسرے سے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگیں ۔وہاں پر موجود سیاح
حضرات کے لیے یہ ایک مختلف منظر نامہ تھا اور انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دونوں کو کیا ہو گیا ہے ۔بعد ازاں جب ہم میئر آفس گئے تو آمنہ نے جاتے ہوئے نہایت
جذباتی انداز میں وہاں لگی اقبال کی نظم کی طرف اشارہ کیا ۔اس نے لاہور میں اپنے طلباء کو بھی اندلس کے بارے میں بہت کچھ بتایا، بالخصوص یہ کہ مختلف مذاہب اور
ثقافتوں کے لوگ ایک ساتھ کیسے مل جل کر رہ سکتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اسلاف کی یہ روایات کیوں ترک کر دیں ؟جب میں نے یہ سوال شہزادے سے کیا کہ معاملہ کہاں سے خراب ہوا ۔۔۔کیوں سقوط اندلس کے بعد
اسلام بھی شکست و ریخت کا شکار ہو گیا ؟تو انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ اندلس کا ہم سے چھن جانا اور مغرب میں ہمارے خلاف صلیبی جنگیں اور مشرق میں منگولوں کے حملے
تھے ۔
پرنس نے زور دے کر کہا کہ ’’یورپ نے اندلس کو برباد کر دیا ‘‘۔یہ صرف اندلس کی روح کا نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح کا بھی انہدام تھا ۔اور یہ سب کچھ یورپ کے تعصب
اور نسل پرستی کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے مسلمان اور یہودی دونوں کو جزیرہ نما آئبیریا سے جبراً بے دخل کر دیا گیا تھا ۔کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ عیسائیوں کو
اب اس کا جواب دینا چاہیے ۔سپین کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی تاریخ کو مٹانے یا اسے بدلنے کی کوشش کی ۔چارلس پنجم بھی اس وقت حیران رہ گیا کہ کیسے اس کے حکام نے
مسجدقرطبہ کو کیتھڈرل میں تبدیل کرنے کے لیے اس کی صورت ہی بگاڑنے کی کوشش کی ۔اس نے اپنے لازوال الفاظ دہرائے اور کہا کہ میرے افسروں نے دنیا سے ایک گوہر نایاب
چھین لیا ہے اور اس کو ایک ایسی چیز میں بدل ڈالا ہے جو پہلے بھی ہر کہیں موجود ہے۔چارلس نے از خود بھی یہ مشق الحمرا کے محلات میں دہرائی مگر شکر ہے کہ الحمرا
میں یہ صورتحال نہیں ہوئی کیونکہ اس کی کوئی مذہبی شناخت نہیں ہے ۔
جب مسلمان سپین سے پسپا ہو رہے تھے تو منگول مشرق سے ابھر کر مسلمانوں کے مرکز میں حملے کر رہے تھے ۔انھوں نے کہا کہ جب منگولوں نے 1258میں بغداد فتح کیا تو
انھوں نے لائبریریوں اور کتابوں کو برباد کر دیا ۔صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کے نقش مٹا دیے ۔تاریخ نے دیکھا کہ 13ویں صدی میں سقوط بغداد سے عربوں کو بڑا دھچکا
لگا ۔اور اس کے بعد مسلمانوں کی عظیم سلطنتیں عثمانیوں ، صفویوں اور مغلوں کی صورت میں وجود میں آئیں ۔لیکن وہ عرب نہیں تھے ۔وہ ترک ، ایرانی اور انڈین تھے
۔جبکہ اندلس کی تہذیب جسے یورپ پہنچایا گیا، اس کا سہرا عربوں کو جاتا ہے ۔عربی ان کی زبان تھی اور اسلام ان کا مذہب تھا۔قرطبہ کے عظیم تخت پر عبد الرحمٰن
براجمان تھا جو قریش کے باز کے طور پر بھی پہچانا جاتا تھا۔ جس کا شجرہ نسب پیغمبر اسلام نبی کریم ؐ سے جا کر ملتا تھا ۔
جب مشرق و مغرب میں مسلمانوں کے زوال کا آغاز ہوا تو پھر یہ سلسلہ رکا نہیں ۔اندلس میں جس چیز کا تعلق بھی مسلمانوں سے تھا، چاہے وہ لائبریریاں ہوں ،مساجد یا
پھر حمام، سب کو برباد کر دیا گیا۔ مشرق میں بھی ایسا ہی ہوا۔ منگولوں نے صرف بغداد کی تباہی پر ہی اکتفا نہیں کیا ۔ شہزادہ ترکی نے اس بات پر افسوس کا اظہار
کیا کہ سمارا جو کہ اندلس میں مدینۃ الزہرہ کی طرز پر بنایا گیا تھا، اسے بھی برباد کر دیا گیا۔ سپین سے واپس آنے والے مسلمانوں نے جب اس حیرت انگیز شہر کی
تباہی پر بغداد کے خلیفہ کے سامنے آہ و بکا کی تو اس نے بغداد کے نواح میں سمارا کی طرز پر ایک نیا شہر بنانے کا حکم دیا لیکن سمارا کی طرح اسے بھی برباد کر دیا
گیا۔یہ منگولوں کے ہاتھوں ہو اجو مشرق میں تباہی پھیلاتے ہوئے وارد ہوئے تھے ۔ لیکن اندلس کے مدینتہ الزہرہ کی تباہی کے ذمہ دار وہ مسلمان قبائل تھے جو شمالی
افریقہ سے آئے تھے۔ انھوں نے قرطبہ کا تخت الٹ دیا کیونکہ وہ اندلس کے طرز زندگی کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔
اس زمانے میں دو مسلمان ابھر کر سامنے آئے جنھوں نے اس پر آشوب دور میں مسلمانوں کی اشک شوئی کی اور انھیں نیا راستہ دکھایا ۔ جلال الدین رومی اور ابن تیمیہ اس
وقت آئے جب عربوں پر زوال کا دور تھا ۔رومی اس وقت زندہ تھے جب بغداد میں قتل عام ہو رہا تھا۔ابن تیمیہ سقوطِ بغداد کے پانچ سال بعد پیدا ہوئے۔ چنانچہ ان کی
تحریروں سے اس دور کی جھلک ملتی ہے۔ رومی نے انسانوں کے درمیان تفریق کو رد کر دیا۔ انھوں نے مساوات اور محبت کا درس دیا ۔جبکہ ابن تیمیہ نے اس کے بالکل الگ
مؤقف اختیار کیا۔ انھوں نے اسلام کے خلاف سازشوں کا پردہ چاک کیا اور ایمان کو مضبوط کرنے کی تعلیم دی ۔ انھوں نے منگول حکمرانوں کے خلاف مشہور فتویٰ بھی دیا ۔
وہ جو اسلام قبول کر چکے تھے مگر شریعت کی پابندی نہیں کرتے تھے ۔انھوں نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا جو تمام مسلمانوں پر فرض تھا ۔ابن تیمیہ کے بقول اسلام
خطرے میں تھا ۔ان دونوں حضرات کے فکرو فلسفہ نے ہمارے دور پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں ۔پوری دنیا کے صوفیاء رومی سے متاثر ہیں جبکہ وہابی اور سلفی ابنِ تیمیہ کی
پیروی کرتے ہیں ۔
شہزادہ ترکی آج کی مسلم دنیا کی حالت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ کیا آج کے مسلمانوں میں جو تقسیم موجود ہے وہ اتنی سادہ ہے کہ اسے ان دونوں یعنی رومی اور ابن
تیمیہ کی تقسیم کہا جا سکتا ہے ۔میرے سوال پر شہزادے نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو مجتمع کرتے ہوئے کہاکہ آج کی فکری تحریکیں بھی اسی طرح ہیں مگر ان کے رخ جدا
جدا ہیں ۔
اندلس سے عشق صرف شہزادہ ترکی تک محدود نہیں اور نہ ہی یہ صرف ان کی نسل تک محدود ہے۔ انھوں نے مجھے اپنے باپ کا قصہ بھی سنایا جو جنرل فرانکو کے مہمان کی حیثیت
سے سپین گئے۔ جنرل نے پوچھا کہ وہ اپنے شاہی مہمان کے لیے کیا کر سکتے ہیں تو شاہ فیصل نے جواب دیا کہ وہ یورپ کا سب سے بڑاکیتھڈرل بنانے کے لیے تیار ہیں اگر اس
کے بدلے میں انھیں مسجدِ قرطبہ دے دی جائے ۔جس پر جنرل نے کہا کہ انھیں اس عمارت سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انھیں اس تجویز پر اعتراض ہے ۔وہ اگلی صبح ہی اس
کو آپ کو حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں ۔لیکن اگر اس نے ایسا کر دیا تو سپین کے لوگ اسے الٹا لٹکا دیں گے ۔اس کے بدلے میں اس نے شاہ فیصل کو میڈرڈ کی پہاڑی پر سب
سے اونچے مقام پر جگہ دینے کی پیشکش کی ۔شاہ فیصل نے یہ پیشکش قبول کر لی اور آج وہاں اسلامک سینٹر ہے ۔
میں نے شہزادے کا انٹرویو مارچ 2015 میں ڈچلے کانفرنس کے دوران کیا تھا ۔ہم نے اس تاریخی جگہ پر کئی روز ایک ساتھ گزارے جہاں چرچل کو دوسری جنگ عظیم میں پسپائی
اختیار کرنا پڑی تھی اور یہ جگہ اس کے آبائی محل بیلنہیم کے ساتھ تھی ۔میں نے شہزادے سے اپنی کتاب ’’یورپ میں اسلام‘‘ کے لیے شہزادے سے روبرو انٹرویو کی درخواست
کی ۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ جب میں یہ لکھ لوں تو میں ان کے سینٹر میں آکر اس پر بات بھی کروں ۔انٹرویو کے دوران وہ مطمئن ،فکر انگیز اور خوش اخلاق
رہے کیونکہ ہم دونوں یہ جانتے تھے کہ میرے سوالوں کے جوابات کا مسلمانوں اور غیر مسلموں پر براہِ راست اور فوری اثر ہو گا۔اندلس سے مسلمان اور غیر مسلمان کون سا
سبق حاصل کر سکتے ہیں ؟
انھوں نے نہایت عاجزی سے جواب دیا ۔’’یہ مت سمجھو کے میرے پا س ہر سوال کا جواب ہو گا‘‘۔ پرنس نے یہ بات زور دے کر کہی کہ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں کو ہی
جاننا ہو گا کہ ان میں سے کسی کو حق پر اجارہ داری کا اختیار نہیں ہے ۔انھوں نے اس کے لیے علم کے تصور کواجاگر کیا کہ ماں کی گو دسے گور تک علم حاصل کرو ۔علم کی
جستجو کو ترک نہ کرو ۔یہی اندلس کا سبق ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ سب سے مقدم جو چیز ہوتی ہے وہ انسانیت ہے ۔
سپین سے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ کیسے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے حامل افراد ایک دوسرے کے ساتھ باہم مل جل کر رہتے تھے ۔یہ ہمیں برداشت کا سبق دیتا ہے کہ کیسے
مسلمان اور غیر مسلمان دونوں اندلس میں ایک دوسرے سے باہم پیوستہ تھے ۔آج جو لوگ ISISکو اسلام سے جوڑتے ہیں اور اس کے سربراہ کو خلیفہ کہتے ہیں، کیا وہ بھول
جاتے ہیں کہ اسلام کیا کہتا ہے اور اس کا خلیفہ کیسا ہوتا ہے ۔اندلس کا اس سے بڑا کوئی سبق نہیں کہ وہ ایک ایسادور تھا جہاں مسلمان اور غیر مسلمان نہ صرف اکٹھے
رہتے تھے، ایک ساتھ کام کرتے تھے اور مل کر خوشحالی کی جانب گامزن تھے ۔