working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

قومی منظر نامہ

نیشنل ایکشن پلان ۔۔۔ ایک جائزہ

یاسر پیرزادہ

بلاشبہ دہشت گردی ،پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،اس مسئلے سے قوم گزشتہ دس سالوں سے نبرد آزما ہے مگر یہ جن قابو میں نہیں آرہا ۔سانحہ پشاور کے بعد قوم ایک بار پھر یک سو ہوئی اور ایک بھرپور پلان کا آغاز کیا گیا ۔یہ پلان بہت بڑے اہداف لئے ہوئے تھا۔حکومت نے اس پلان کے چھ ماہ مکمل ہونے پر اپنی کارکردگی رپورٹ جاری کی جس پرکافی تنقید بھی کی گئی ہے ۔یاسر پیرزادہ نے نیشنل ایکشن پلان کی کارکردگی کا شق وار جائزہ لیا ہے اور قارئینِ تجزیات کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس شق پر عمل درآمد کتنے فیصد ہوا ،کہاں کامیابی ہوئی اور کہاں ناکامی ؟مسئلہ کہاں ہے اور کس نوعیت کا ہے۔ان سب سوالوں کے جوابات اس مضمون میں دیئے گئے ہیں۔(مدیر)

پاکستان ایک طویل عرصے سے مذہبی شدت پسندی اوردہشت گردی کا شکار ہے‘یہاں پانچ سالوں کے دوران 235 خود کش حملے‘9257 راکٹ حملے اور 4256 بم بلاسٹ ہوچکے ہیں۔انٹرنیشنل انٹرنل سیکورٹی پالیسی کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے اس طوفان میں نومبر2013 ء تک 48994 لوگ مارے جاچکے ہیں جن کی اکثریت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تھی۔ بنیادی طور پر دہشت گردی کی وجہ مذہبی شدت پسندی ہے کیونکہ دہشت گرد گروہ مذہب کے نام پر سب کو اپنی سوچ کے ہمنوا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان گروہوں کا کفار کے ساتھ جنگ پر اپنی طرز کا ایمان ہے لہٰذایہ ریاست پاکستان کے ہر اس شخص کو کفار کے زمرے میں شمار کرتے ہیں جو ان جیسا نہیں۔ان کے ہاں نرمی اور شگفتگی گناہ کبیرہ شمار ہوتے ہیں ۔ آج تک ان کی جتنی بھی وڈیوز سامنے آئی ہیں وہ محض ان کی بربریت ظاہر کرتی نظر آتی ہیں۔ان گروہو ں میں زیادہ تر شدت پسند رجحانات کے حامل نوجوانوں کو شامل کیا جاتا ہے کیونکہ ایسے نوجوانوں کے انتہا پسندانہ خیالات کواستعمال میں لا کر انہیں با آسانی دہشت گردی کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے ‘یہ لوگ ان گروہوں میں شامل ہوجاتے ہیں جہاں انہیں روپیہ بھی ملتا ہے اور اپنے باغیانہ جذبات کے اندھا دھند اظہار کا موقع بھی۔ان گروہوں نے ایک طویل عرصے تک پاکستان میں اپنی من مانی کی لیکن 16 دسمبرکو آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کے بعد اچانک حکومت کو احساس ہوا کہ پانی سر سے گذر چکا ہے ۔پہلی بار باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا پلان بنایا گیا جسے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔نیشنل ایکشن پلان میں طے کیے جانے والے نکات یہ تھے!

1 ۔ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی جاری رہے گی۔
2 ۔ دو سال کی مدت کے لیے اسپیشل ٹرائل کورٹس(فوجی عدالتیں) بنیں گی اور مشکوک افراد کے خلاف کاروائی میں تیزی لائی جائے گی۔
3 ۔ ملک میں کوئی نجی متوازی مسلح فورس متحرک نہیں ہوگی۔
4 NACTA کو مضبوط اور فعال بنا یا جائے گا۔
5 ۔ نفرت انگیز مواد کو روکا جائے گا۔
6 ۔ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث اداروں میں مالی معاونت کے عمل کو روکا جائے گا۔
7 ۔ کالعدم تنظیموں کو دوبارہ کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔
8 ۔ دہشت گردوں کے خلاف ایک متوازی فورس قائم کی جائے گی۔
9 ۔ مذہبی تفرقہ بازی کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔
10۔ تمام مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔
11 ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے اداروں کی تشہیر پر مکمل پابندی ہوگی۔
12 ۔ فاٹا میں ایڈمنسٹریٹو اور ترقیاتی بحالی اور آئی ڈی پیز کی واپسی پر توجہ دی جائے گی۔
13 ۔ دہشت گردی کے اداروں کے رابطے کے نیٹ ورک کو ختم کیا جائے گا۔
14 ۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر دہشت گردی کے خلاف سوچ کو ابھارا جائے گا۔
15۔ پنجاب میں مسلح گروہوں کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔
16 ۔ کراچی میں جاری آپریشن کا منطقی طور پر خاتمہ کیا جائے گا۔
17 ۔ بلوچستان گورنمنٹ کے اختیارات بڑھائے جائیں گے۔
18 ۔ دہشت گردوں کے سرخیلوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
19 ۔ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کی جائے گی۔
20 ۔ کریمنل جسٹس سسٹم کی بہتری کے لیے اقدامات اور صوبوں کی CID's کو مضبوط بنایا جائے گا تاکہ دہشت گردوں کے مابین ہونے والی ہر حرکت اور گفتگو پر دھیان رکھا جاسکے۔
21 ۔ وزیر اعظم کی جانب سے 15 سب کمیٹیاں اناؤنس کی گئی ہیں جو دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے مسلح گروپوں‘نفرت انگیز مواد‘ دہشت گردوں کو فنانس‘ کالعدم تنظیموں‘ دہشت گردی کے خلاف فورس‘ مذہبی تفرقہ بازی‘ مدرسوں کی رجسٹریشن اور میڈیا پر دہشت گردوں کے پیغامات روکنے کے حوالے اپنا کام کریں گی۔

اس پلان کی منظوری کے لگ بھگ تین ماہ بعد یعنی 27مارچ کو اس پلان پر عمل درآمد کی رپورٹ میڈیا کو جاری کی گئی ۔۔۔ایک منٹ کے لئے فرض کرلیں کہ سرکار کے تمام اعداد و شمار درست ہیں اورہر محکمے نے اپنی کارگذاری کی جو رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔۔۔یہ ناقابل یقین مفروضہ قائم کرنے کے بعد اگر ہم ان اہداف کودیکھیں جن کا تعین اس پلان میں کیا گیاتھا اور ساتھ ہی اس رپورٹ کو پڑھیں جو سرکاری خبر رساں ایجنسی نے جاری کی ہے تو نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے :

پہلا ہدف: فوجی عدالتوں کا قیام ۔قطع نظر اس بحث سے کہ یہ فیصلہ درست تھا یا نہیں ‘فوجی عدالتوں کے قیام کا ہدف بہترین انداز میں حاصل ہوا ہے ‘ ان عدالتوں کے قیام کے لئے نہ صرف آئین میں ترمیم منظور کی گئی بلکہ اس تحت ذیلی قوانین بنائے گئے ‘فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان عدالتوں نے چھ مجرمان کو پھانسی کی سزا بھی سنا دی ہے جس کے خلاف

انہیں اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے ۔گو کہ فوجی عدالت نے ان مجرمان کے نام جاری کئے ہیں مگر اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ یہ ملزم دہشت گردی کی کن وارداتوں میں ملوث تھے ‘ان پر کیا الزام تھا اور کیسے ان پر یہ الزام ثابت ہوا‘حالانکہ اگر یہ باتیں ظاہر کر دی جاتیں تو اس سے فوجی عدالتوں کے قیام کو نہ صرف بہتر جواز مل جاتا بلکہ عوام کو بھی پتہ چلتا کہ فلاں واقعے کے مجرمان کیفر کردار تک پہنچ گئے اور اس سے نظام میں ان کا اعتماد بحال ہوتا ‘یہ باتیں خفیہ رکھنے کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی ‘بہرحال ہدف حاصل ہو گیا اس لئے دس میں سے دس نمبر بنتے ہیں۔

دوسرا ہدف: ملک میں مسلح جتھوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا ‘ سرکار کی ناک کے نیچے مسلح گروہ مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں ‘اب بھی جلسے منعقد کرتے ہیں ‘ ریلیاں نکالتے ہیں ‘ بیان بازی کرتے ہیں ‘ مگر فی الحال ہم ان کے معاملے میں یوں پوز کر رہے ہیں جیسے کوئی بچہ صبح سکول جانے کے لئے بیدار تو ہو جاتاہے مگر جان بوجھ کر آنکھیں نہیں کھولتا ۔یہ درست ہے کہ مسلح جتھے پہلے کی طرح دندناتے نہیں پھر رہے مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہدف حاصل ہوگیاکیونکہ سرکار کی اپنی رپورٹ میں بھی ایسے کسی مسلح گروہ کا ذکر نہیں جو پہلے تو سرگرم عمل تھا مگر نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں اسے ختم کر دیا گیا ۔ہدف حاصل نہ ہو سکا ‘دس میں سے صفر نمبر۔

تیسرا ہدف: قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی(نیکٹا) کو فعال اور موثر بنایا جائے گا۔اس ضمن میں بھی سرکار کی رپورٹ خاموش ہے‘ ظاہر ہے کہ نیکٹا کے لئے کوئی رقم جاری کی گئی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی خبر ہے کہ یہ بحالی کی طرف گامزن ہے ‘ ہم چودہ سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ متعلقہ ادارہ سوائے ایک تھکی ہوئی ویب سائٹ بنانے کے اور کچھ نہیں کر سکا‘کیا ہی اچھا ہو اگر نیکٹا کا نام تبدیل کرکے ’’میٹر وبرائے انسداد دہشت گردی‘‘ رکھ دیا جائے ‘پھر یقیناًاسے فنڈز جاری مل جائیں گے ۔ہدف حاصل کرنے کی طرف کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ‘ دس میں سے صفر۔

چوتھا ہدف: نفرت پر مبنی تقاریر اور مواد شائع کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی ۔یہاں کچھ پیش رفت ہے ‘ سرکاری رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں نفرت انگیز مواد پھیلانے کے الزام میں تقریباً 887مقدمات درج کئے گئے جبکہ 3,938لوگوں کو لاؤڈ سپیکر کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا ‘ پنجاب حکومت نے دہشت گردوں کی حمایت کرنے کی پاداش میں سزا کا آرڈیننس بھی جاری کیا (اس کا ذکر سرکاری رپورٹ میں نہیں حالانکہ یہ اہم اقدام ہے)۔تین ماہ کے لحاظ سے یہ کارکردگی قابل قبول ہے ‘ دس میں سے دس نمبر۔

پانچواں ہدف: دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے ذرائع بند کئے جائیں گے ۔سرکاری رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بنک نے اس ہدف کے تحت دس ارب روپوں کے اثاثے منجمد کئے جبکہ ایف آئی اے نے غیر قانونی رقم منتقلی کے 64مقدمے درج کئے ‘ 83افراد گرفتار کئے اور دس کروڑ روپے وصول کئے ۔اسے بھی تسلی بخش کہہ لیں تو دس میں سے دس نمبر۔

اب ذرا فاسٹ فارورڈ کا بٹن دباتے ہیں اور ان اہداف پر نظر ڈالتے ہیں جنہیں حاصل کرنے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی : مدرسوں کا ضابطہ کار طے کر کے ان میں اصلاحات کی جائیں گی ‘ اس ضمن میں سرکار کی رپورٹ خاموش ہے ‘کوئی اقدام نہیں کیا گیا ‘دس میں سے صفر۔اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی انتہا کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے ‘ان تین ماہ کے دوران امام بارگاہوں اور لاہور میں گرجا گھروں میں حملے ہوئے سو اگر کوئی اقدام کیا بھی گیا تھا تو ان واقعات نے اس کا اثر زائل کر دیا‘ دس میں سے صفر۔کالعدم تنظیموں کوکسی اور نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی‘ اس ضمن میں بھی رپورٹ خاموش ہے کہ کون سی کالعدم تنظیمیں تھیں جو نام بدل کر کام کر رہی تھیں مگر ان تین ماہ میں انہیں بند کر دیا گیالہذادس میں سے صفر۔فوجداری عدالتی نظام میں اصلاحات کی غرض سے آئین میں ترمیم کے بعد ضروری قوانین نافذ کئے جائیں گے ‘اس ضمن میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی‘ رپورٹ خاموش ہے ‘ دس میں سے صفر۔آئی ڈی پیز کی بحالی کے حولے سے ترقیاتی اور انتظامی اصلاحات کا عمل تیز کیا جائے گا‘رپورٹ خاموش ہے ‘ دس میں سے صفر۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردں کا پروپیگنڈا بند کیا جائے گا‘رپورٹ خاموش ہے ‘وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی دھنیا پی کے سوئی ہے ‘دس میں سے صفر۔

اب جلدی سے باقی اہداف پر نظر ڈالتے ہیں ۔خصوصی فورس برائے انسداد دہشت گردی کھڑی کی جائے گی ‘یہ ہدف بہت حد تک پنجاب اور بلوچستان میں حاصل کر لیا گیا‘لہذادس میں سے دس نمبر بنتے ہیں۔میڈیا میں دہشت گردوں کے بیانئے کو جگہ نہیں دی جائے گی ‘یہ ہدف بھی حاصل ہوا ہے گو کہ اس میں میڈیا نے خود ذمہ داری دکھائی ہے ‘بہر کیف دس میں سے دس بنتے ہیں۔کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا‘اس ضمن میں شائد بدترین ناقد بھی مانیں کہ کارکردگی قابل تعریف ہے ‘دس میں سے دس۔پلان میں تھا کہ افغا ن مہاجرین کے اندراج کی جامع پالیسی وضع کی جائے گی ‘رپورٹ کے مطابق 18,855مہاجرین کو ملک بدر کیا گیا جبکہ اس ضمن میں 350,000مقدمے درج کئے گئے ‘کارکردگی اطمینان بخش ہے ‘دس میں سے دس۔اس کے علاوہ پلان میں فرقہ واریت کو کچلنے کا عزم ‘دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام تباہ کرنا اور پنجاب اور بلوچستان کے حوالے سے اقدامات کا ذکر ہے ۔رپورٹ کے مطابق تین ماہ میں 14,791آپریشن کئے گئے‘32,347گرفتاریاں ہوئیں‘ 37دہشت گرد مارے گئے جبکہ 727پکڑے گئے اور61مجرمان کو پھانسیاں دی گئیں ۔یہاں دس میں سے نمبر دینا مشکل ہے کیونکہ بتیس ہزار افراد کو گرفتار کرنے کے اعداد و شمار ایسے ہیں جن کے لئے کچھ نہ کچھ ثبوت درکار ہے ‘حیرت ہے کہ ملک میں اتنے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں مگر ان افراد کے لواحقین سڑکوں پر آئے ‘احتجاج ہوا اور نہ ہائی کورٹس میں رٹ ہوئیں!

بظاہر اس نیشنل ایکشن پلان میں بہت حوصلہ افزا اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا گیا تھا لہٰذاا ان پر فوری عمل درآمد کے لیے آئین میں بھی تبدیلی کی گئی اور مشترکہ حمایت کے ساتھ21 ویں ترمیم متعارف کرائی گئی جس کے تحت کوئی بھی ایسا شخص جس کا تعلق دہشت گردی کے کسی گروہ سے ہو یا کوئی کمپنی جو مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے اپنی مسلح فورس تشکیل دے یا پاکستان کے خلاف جنگ میں لوگوں کو پیسہ دے یا پاکستان کی افوج ‘ قانونی اداروں اور کسی سول یا ملٹری نظام پر حملہ کرے وہ ملٹری کورٹس کے آرمی ایکٹ 2015 ء پر پورا اترے گا۔اس آئینی ترمیم کے بعد ملک بھر میں 9 ملٹری کورٹس بنائی گئیں جن میں تین ملٹری کورٹس خیبرپختونخواہ میں‘ تین پنجاب میں ‘ دو سندھ میں اور ایک ملٹری کورٹ بلوچستان میں قائم کی گئی۔ اس دوران 39 مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں اور ایف آئی اے نے 18 ایسے کیس درج کیے جن میں غیر قانونی طور پر بھاری رقوم مشکوک افراد کو پاکستان منتقل کی گئیں۔ ان میں دہشت گردوں کومالی معاونت دینے کے 26 کیسز پر ملزموں کو حراست میں لیا گیا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے 67 ملین موبائل سمز کو تصدیق کے عمل سے گذارا البتہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم کام یعنی مدرسوں کی رجسٹریشن ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا ‘ وجہ یہ بنی کہ ITM اتحاد تنظیم المدارس نے جو کاغذات مانگے ان پر اعتراض کیا گیا کہ ان میں آمدنی کے ذرائع اور تفصیلات کیوں مانگی گئیں۔مدارس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم تب دیں گے اگر انہیں ڈگری دینے کے اختیارات بھی تفویض کیے جائیں۔اتحاد تنظیم المدارس نے غیر ملکی طلباء کے داخلے روکنے کی شرط بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر دوسری یونیورسٹیاں غیر ملکی طالبعلموں کو داخلہ دے سکتی ہیں تو مدارس کیوں نہیں؟

میڈیا کے حوالے سے PEMRA کے لائنس یافتہ چینلز کو ایک ہی سیٹلائٹ پر لانے کی کوشش کی گئی تاکہ ان پر موثر کنٹرول رکھا جاسکے تاہم اس پر بعض میڈیا مالکان نے اسے آزادی اظہار کے خلاف قرار دیا۔صوبوں میں دہشت گردی کے حوالے فوری ردعمل کے لیے سپیشل فورس’’نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی‘‘ بنائی گئی جن میں 5000 افراد پنجاب سے‘ 3000 خیبرپختونخواہ سے‘ ٰ1000 بلوچستان سے اور 800 سندھ سے شامل کیے گئے۔اس نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی کو ہر قسم کی خفیہ معلومات فراہم کی گئیں تاکہ یہ اپنے طور پر ان کا تجزیہ کرکے دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کر سکیں۔نیشنل ایکشن پلان میں NACTA کا کردار بھی واضح کیا گیا لیکن افسوس کہ تاحال NACTA کے بورڈ کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی‘ جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ ابھی تک نہیں بن پایا اور یوں NACTA کا کوئی عملی کردار سامنے نہیں آسکا۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی تین نسلیں آباد ہیں جن میں سے 1.7 ملین رجسٹرڈ ہیں اور1.4 ملین غیر رجسٹرڈ۔ عمومی طور پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور جرائم کے ڈانڈے انہی افغان مہاجرین سے جاملتے ہیں لہٰذا گورنمنٹ آف پاکستان نے افغان گورنمنٹ اور UNHCR سے رابطے کے بعد ان افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ اپنے ملک جاسکیں اور پاکستان میں ان کی دوبارہ واپسی ممکن نہ ہوسکے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزیر اعظم پاکستان نے جو 15 کمیٹیاں اناؤنس کی تھیں ان کی کارکردگی پر بھی ابھی تک سوالیہ نشان نمایاں ہے۔نیشنل ایکشن پلان تحریری طور پر تو مکمل ہے لیکن اس پر مکمل عمل درآمد کرانے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ مضبوط سیاست گورنمنٹ کا حصہ ہے اور سیاسی جماعتوں کو یہ نظام بہتر بنانے کے لیے بھرپور عمل درآمد کرنا چاہیے تاہم شروع کے چند دن چھوڑ کر نیشنل ایکشن پلان سستی کا شکار نظر آتاہے۔

بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت کچھ سوچا لیکن عمل درآمد پر آکر ہمیشہ کی طرح تھک گئی۔ان مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں اور پاکستان کے لوگوں کا متحد ہونا بہت ضروری ہے۔ ملٹری کورٹش اور نیشنل ایکشن پلان اچھی چیزیں ہیں لیکن یہ لمبے عرصے تک امن کی ضمانت نہیں۔ دہشت گردی کے پیچھے مذہبی انتہا پسندی کی وجوہات کو دیکھنا بہت ضروری ہے‘ ان عوامل کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے جو ایک دہشت گرد پیدا کرتے ہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس کاکردار کلیدی ہے کیونکہ دہشت گردی کی مختلف وارداتوں کا سراغ لگاتے ہوئے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ قتل‘ ڈکیتی ‘اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کا دہشت گردی سے گہرا تعلق ہے ‘لہذا پولیس کو اس ضمن میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اپنی محدود وسائل کے باوجود دہشت گردی کی اس جنگ میں پولیس نے بے شمار دہشت گردی کے واقعات میں ملوث مجرمان کو گرفتار کیا جو قابل ستائش ہے ‘حال ہی میں صفورا گوٹھ واقع میں ملوث مجرمان کی گرفتاری اس کی ایک مثال ہے ۔

ہمیں شدت پسند ذہنوں اور مسلح گروپوں میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک وسیع اور جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے ریسرچ کے اداروں سے مسلسل رابطے رکھنا ہوں گے۔NACTA کو جو ریسرچ کا کام سونپا گیا ہے وہ نہایت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے اگر اس پر روزانہ کی بنیاد پر عمل کیا جائے۔یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف فوج کا استعمال اس کا کل وقتی حل نہیں‘ بظاہر یہ حل بڑا آسان نظر آتا ہے لیکن ہمیں سوچ تبدیل کرنی ہے اور اس کے لیے عوام کے سیاسی ‘ معاشرتی ‘ نفسیاتی اور معاشی حالات کی طرف توجہ دینا ہوگی۔دہشت گردی کا جن اسی وقت بوتل سے باہر آتا ہے جب اسے اپنی سوچ جیسی وافر افرادی قوت دستیاب ہوتی ہے‘ یہ افرادی قوت وہی افراد بنتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ اگرمذہبی انتہا پسندی جیسے مسائل پر قابو پالیا جائے تو کسی کو ان دہشت گردوں کا آلہ کار بننے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ایک انتظامی قدم ضرور ہے مگر اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ضروری ہے کہ اس بیانئے کو رد کیا جائے جو معاشرے میں دہشت گردوں کو جنم دیتا ہے۔ہر حال پلان پر عملدرآمد کی رفتار بری نہیں ‘بس افسوس یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں ایک سو تینتیس بچوں کی لاشوں کو پھلانگنا پڑا!