پاکستان میں دینی مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے بحث نائن الیون کے حملوں کے نتیجے میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز سے ہی چل رہی ہے۔ گزشتہ
حکومتوں نے مذہبی درس گاہوں کے نظام کو باقاعدہ بنانے کے لیے مختلف اقدامات کییتاہم کوئی بھی حکومت مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکی۔ مدارس میں اصلاحات کے حوالے
سے حکومت کی ناموافق اور متناقض حکمت عملی نے اس عمل کو مزید پیچیدہ اور مشکوک بنا دیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلانNational Action Plan)) کی تشکیل نے مدارس میں
اصلاحات کی بحث کو از سر نو تازہ کر دیا ہے۔ زیر نظر مطالعہ میں ان خدشات کا بغور جائزہ لیا گیا ہے جو مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے درپیش ہیں اور اس مسئلہ کی
جملہ حرکیات اور موجودہ تناظر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ (مدیر)
تعارف:
پاکستان میں دینی مدارس تعلیمی نظام کااہم حصہ ہیں، تاہم یہ ادارے شدت پسندانہ مذہبی، فرقہ بندی، سماجی اور سیاسی نظریات کا منبع بھی گرد انے جاتے ہیں جو عسکریت
پسندی اور دہشت گردی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ملک میں جاری پرتشدد واقعات کے تناظر میں حکومت پاکستان کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی حالیہ پالیسی جو نیشنل ایکشن
پلان(دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے اکیسویںآئینی ترمیم کے تحت حکومت نے ایک ایکشن پلان کی منظوری دی ہے جس کی رو سے دہشت گردی کے جرائم کے لیے فوجی
عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے) کی صورت میں سامنے آئی ہے اس میں مدارس اصلاحات کے ایجنڈے کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن اور
ریگولیشن کے حوالے سے ایک شق اس پلان کے 20نکاتی ایجنڈاکا حصہ ہے۔
سابقہ ادوار کی طرح موجودہ حکومت نے بھی مدارس کو شدت پسندی کے چنگل سے آزاد کرنے کے لیے مدارس کی رجسٹریشن، نصاب میں اصلاحات، اور مدارس کو دی جانے والی بیرونی
امداد کی چھان بین کرنے کے لیے نظام وضع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ درحقیقت مدارس اصلاحات اس طویل مدتی حکمت عملی کا اہم جزو ہے جس میں پاکستان میں قیام امن کے لیے
ایسے متبادل بیانیہ کا سامنے لانا ہے جو نہ صرف عسکریت پسندی اور تشدد کے اس سلسلہ کو روک سکے بلکہ ا س شدت پسندانہ ذہنی کیفیت کو بھی تبدیل کر سکے جو اس کی طرف
مائل کرتی ہے۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور مدارس کے ذمہ داران اس حوالے سے کسی ایک لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے۔ مدارس کے عہدیداران جو حکومت کے ساتھ
مذاکرت میں مصروف عمل ہیں، ان کے مطابق حکومت کے پاس مدرسہ اصلاحات کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان روابط کے فقدان اور معاملات سے
عدم آگاہی نے اس معاملہ کو اور گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس مضمون میں مدرسہ اصلاحات کے متعلق جاری حالیہ مباحثہ کے اہم نکات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور اس کی جملہ
حرکیات اور تناظر کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
حرکیات اور تناظر:
دینی مدرسہ کے حوالے سے اس وقت تین اہم امور اہمیت کے حامل ہیں۔
* پاکستان میں دینی مدارس کا عنصر کس حد تک تشدد اور عدم تحفظ کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور حکومت اس پریشان کن سبب سے کیسے نبٹ سکتی ہے؟
* مدارس کے تعلیمی نظام کو قومی دھارے میں لانے کے لیے مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن ضروری ہے۔ کیا اس کے لیے حکومت اور مدارس کے ذمہ داران کوئی متفقہ طریقہ
کار تلاش کرنے میں کامیاب ہوں گے؟
* معاشرہ میں مثبت سماجی و مذہبی تبدیلی کے لیے مدارس کے ماحول اور نصاب میں تجدید کی ضرورت ہے تاکہ وہ امن، رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ مذکورہ تین امور کی روشنی میں اس مسئلہ کی مختلف حرکیات اور پہلوؤں کو دیکھا جائے۔ اس مطالعہ میں مدارس کی حالیہ بحث کے حوالہ سے مقدم اور
اہم کی ترتیب سے تین جہات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
تحفظ اور سلامتی کا بیانیہ
پاکستان میں جب بھی تحفظ یا سلامتی کے متعلق کوئی گفتگو یا بحث ہوتی ہے، مدارس کو بھی اس بحث میں شامل کیا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ اس تعلیمی نظام سے وابستہ
خطرات ہیں۔
شدت پسند نظریات سے لے کر عسکریت پسندی، فرقہ واریت اورانتہا پسندی جیسے مسائل مدارس کے نظام سے جنم لے رہے ہیں۔ (انٹرنیشنل کرائسس گروپ رپورٹ 2005) تاہم اس قسم
کے خدشات مزید وضاحت اور ثبوت کے متقاضی ہیں کیونکہ مدارس کے ذمہ داران اس بات کے حق میں ہیں کہ حکومت ایسے مدارس کے خلاف کارروائی کرے جو فساد اور دہشت گردی
میں ملوث ہیں۔
1۔عسکریت پسندی اور مدارس:
قطع نظر اس بات کے کہ مدارس عسکریت پسندی میں ملوث ہیں یا نہیں، تاریخ اور اس موضوع پر کی گئی تحقیق واضح کرتی ہے کہ مدارس کا ایک حصہ یا کچھ مدارس جنگ جوئی میں
ملوث رہے ہیں۔ افغان جہاد اور ایرانی انقلاب کے نتیجے میں سعودی عرب کی جانب سے دفاعی حکمت عملی کے تحت سنی مدارس کودی جانے والی امداد اور تعاون نے پاکستان میں
مدارس کے اندر عسکریت اور جنگ جوئی کو فروغ دیا۔ محققین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عسکریت (militancy) نے مدارس کے تعلیمی نظام یا روایت سے جنم نہیں لیا بلکہ
بیرونی عوامل نے اسے مدرسے میں داخل کیا، خاص کر 1980 کی دہائی میں جہاد افغانستان ۔ اس جنگ کے دوران مدارس جہادی مواد کی تیاری، عوامی رائے عامہ ہموار کرنے،
افراد کی بھرتی اور ان کی تربیت کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔ افغان جہاد کے بعد طالبان کے قیام، کشمیر جہاد اور فرقہ وارانہ فساد میں مدارس کے کردار کو
زیر بحث لایا جاتا ہے۔
اس تناظر میں محمد عامررانا((A to Z of Jihadi Organizations in Pakistan, 2004) نے ایسے مدارس کی نشاندہی کی ہے جو اس وقت جہادی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کے
ساتھ منسلک تھے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ ۔2002’’مدارس، شدت پسندی اور عسکریت‘‘ اور ’’پاکستان میں فرقہ واریت۔2005‘‘ جہاد افغانستان اور ملک میں فرقہ
وارانہ فسادات میں مدارس کے کردار کو نمایاں طور پر بیان کرتی ہیں۔ سلیم علی (2005) نے جنوبی پنجاب کے 363مدارس میں تحقیق کی اور انکشاف کیا کہ ان مدارس کی
اکثریت فرقہ واریت میں ملوث ہے۔ دوسری جانب چند ایسی تحریریں بھی موجود ہیں جوتمام مدارس کے عسکریت میں ملوث ہونے کو ردکرتی ہیں۔ کرسٹین فئیر (2008) لکھتی ہیں
کہ 1991کے بعد مدارس کا کرداراس حوالے سے محدود ہو گیاہے، انھوں نے مختلف مطالعات کے حوالے پیش کیے ہیں جن میں مدرسے اور عسکریت پسندی کے کسی بھی براہ راست ربط
کی نفی کی گئی ہے۔ تاہم انھوں نے کہا ہے کہ اگرچہ بہت کم لوگ مدارس سے اس جانب رخ کرتے ہیں مگر یہ بات بھی تشویش ناک ہے کیونکہ مدارس کے طلباء یا استاد دیگر
تعلیمی ادارے کے طلباء کی نسبت زیادہ مؤثر طور پر دوسرے طلباء کو اس جانب لا سکتے ہیں۔ (The Madrassa Challange: Militancy and Religious Education in Pakistan
)
مزید برآں ماہرین سکیورٹی اور اہلکار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چند مدارس اب بھی مختلف طریقوں سے تشدد کو ابھارنے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کچھ براہ راست فرقہ پرست
تنظیموں یا دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد ان کے حمایتی اور مددگار ہیں جو دہشتگردی کی کارروائیوں کے دوران ان کو
پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں۔ (منور عظیم ۔ڈان نیوز پیپر، 19جنوری2015) دہشت گردی کے خلاف متفقہ قومی ایکشن پلان میں مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے جو بات کی گئی
ہے وہ اسی تناظر میں ہے کہ مدارس کا رابطہ ان دہشت گرد عناصر سے کیسے ختم کیا جائے۔ ایکشن پلان کی روشنی میں حکومت نے مدارس کے ذمہ داران سے رابطہ کیا ہے اور
وفاقی وزیر داخلہ کی اس مسئلے پر ان سے بات چیت ہو چکی ہے۔ تاہم اتحاد تنظیمات مدارس (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ اور جماعت اسلامی کے مدرسہ بورڈز کا
اتحاد) نے مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر اعتراض کیا ہے ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کو مذہب یا فرقہ سے جوڑنا مزید تباہی کا سبب بنے
گا۔
مفتی منیب الرحمان، صدر اتحاد تنظیمات مدارس ، نے کہا کہ یہ پلان مذہبی دہشتگردی کے خلاف بنایا گیا ہے مگر نسلی، لسانی ، سیاسی اور دیگر دہشت گردی کی اقسام کو
نظر انداز کرتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کی دہشت گردی کو اس پلان کا حصہ بنایا جائے۔ مگر اس کے باوجود اتحاد تنظیمات مدارس اس بات پر متفق ہے کہ حکومت
بلا تفریق اور مذہبی وابستگی کو دیکھے بغیر ایسے مدارس کے خلاف کارروائی کرے جو ان واقعات میں ملوث ہیں۔ قاری محمد حنیف جالندھری، سیکرٹری جنرل وفاق المدارس
العربیہ نے کہا کہ ریاستی اداروں کو الزام برائے الزام کی پالیسی ترک کرنی ہو گی اور مبہم ومشکوک پالیسی اختیار کرنے سے اجتناب کرنا ہو گا۔ حکومت ایسے مدارس کی
فی الفور نشاندہی کرے اور پھر قانون کے مطابق کارروائی کرے۔ (مضمون نگار سے ٹیلی فونک گفتگو، 14اپریل،2015)
مولانا قاری ےٰسین ظفر، سیکرٹری جنرل وفاق المدارس السلفیہ ، کے مطابق مدارس کو قومی تعلیمی نظام کے دھارے میں لانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ مدارس
کے متعلق حکومت جس قسم کی معلومات چاہے حاصل کر سکے،مگر بدقسمتی سے حکومت اپنی پالیسی میں ثابت قدم نہیں ہے۔ مولانا یٰسین ظفر کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی ہنگامی
حالات ہوتے ہیںیا کوئی کارروائی ہوتی ہے مدارس کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جاتا ہے مگر حالت امن میںیا عام دنوں میں حکومت اس مسئلہ کو پس پشت ڈال دیتی
ہے۔ مدارس کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں بیانات و خیالات متضاد نوعیت کے ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے ایسے بیانات درست نہیں ۔ہم کئی بار حکومت کو یقین
دلا چکے ہیں کہ حکومت ایسے مدارس کے خلاف کارروائی کرے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ ایسے نام نہاد لوگ ہیں جو کسی مدرسہ سے فارغ نہیں
پر وہ علماء کا روپ دھار کر ایسے کاموں میں ملوث ہیں۔ حکومت کو ایسے لوگوں پر نظر رکھنا ہو گی اور ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نبٹنا ہو گا۔ علامہ نیاز حسین نقوی
، نائب صدر وفاق المدارس الشیعہ کا موقف ہے حکومت کو تمام مدارس کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر ایسے مدارس کی نشاندہی کرنا ہو گی جو دہشت گردی میں ملوث ہیں اور اس
مسئلہ میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔(مضمون نگار سیٹیلی فونک گفتگو، 13اپریل،2015)
مذکورہ بحث اس دلیل کو مضبوط بناتی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی پالیسی سکیورٹی کے حوالے سے صرف ایسے مدارس تک محدود ہونی چاہیے جو فسادانہ واقعات میں ملوث ہیں
جبکہ مدارس کے ذمہ داران ایسے مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں حکومت کے ساتھ متفق ہیں۔ تاہم حکومت اور مدرسہ انتظامیہ کے مابین اس بات میں اختلاف سامنے
آیا ہے کہ ایسے مدارس جو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کیسے کی جائے۔ کیونکہ جب بھی حکومت کوئی کارروائی کرتی ہے مدارس اسے اپنی خود مختاری
اور آزادی میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ اتحاد تنظیمات مدارس اس بات پر متفق ہے کہ اگر کوئی ایسا مدرسہ ہے توکارروائی سے پہلے حکومت کو سب سے پہلے متعلقہ وفاق کو
اعتماد میں لینا چاہیے۔ تاہم اس اتحاد کے مابین اس بات پر اختلاف ہے کہ اگر دینی مدارس میں پناہ لیے ہوئے کسی مشتبہ شخص یا دہشت گرد کو گرفتار کرنا مقصود ہو
توکیسے کیا جائے۔ وفاق المدارس العربیہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس قسم کے کسی مدرسہ کی حمایت نہیں کرتے جو اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہے مگر کسی بھی
مدرسہ انتظامیہ کے لیے دہشت گردکی شناخت ناممکن ہے۔ اگر ایک شخص ایک مدرسہ میں بحیثیت طالب علم آتا ہے یا کسی طالبعلم کے پاس بطور مہمان ٹھہرتا ہے جو ایک روز
مرہ کا معمول ہے، مدرسہ انتظامیہ کے لیے ان کی شناخت کرنا مشکل ہے۔ ان حالات میں ایک فرد واحد کے عمل پر مدرسہ کو الزام دینا درست نہیں۔ اگرحکومت کے پاس کسی
مشتبہ شخص کی مدرسہ میں موجودگی کے یقینی ثبوت ہوں تو حکومت ضرور کارروائی کرے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے مدرسہ انتظامیہ سے رابطہ کریں اور اس شخص کے بارے
میں ان کو مطلع کریں اور مدرسہ کی عزت و حرمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مدرسہ میں پوری فورسز کے ساتھ یلغار کرنے کی بجائے چند اہلکاروں کے ذریعے اسے گرفتار کیا
جا سکتا ہے اور مدرسہ انتظامیہ بھرپور تعاون کرے گی۔
تنظیم المدارس اس بارے میں ایک الگ موقف رکھتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے مدرسہ انتظامیہ کو بتائے بغیر کسی بھی ایسے مشتبہ شخص کو کسی بھی مدرسہ سے
گرفتار کر نے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں تاہم انہیں دینی مدرسہ کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے سے بچنا ہو گا۔ ’’تنظیم المدارس نفرت اور فساد کی تعلیم نہیں دیتی
اور اگر کوئی ایسا مدرسہ ہے جو اس قسم کی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے تو یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اسے فی الفور بند کیا
جائے‘‘ (انٹرویو مفتی منیب الرحمان)
2۔مدارس اور فرقہ واریت
پاکستانی معاشرے میں موجود مذہبی فرقہ وارانہ تقسیم میں مدارس کا بنیادی کردار ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس مسلکی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں۔اگرچہ تمام
مدرسہ بورڈز کا بنیادی نصاب تقریباً ملتا جلتا ہے مگر ان میں تعلیم اپنے اپنے مسلک کے نظریات کے مطابق دی جاتی ہے۔ مسلکی بنیادوں پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا
قیام اور مدارس کے طلباء کا ایسی جماعتوں سے منسلک ہونا انہیں تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔ اگرچہ بہت سارے مدارس اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی مسلکی مذہبی
جماعت سے وابستہ ہیں مگر دیوبندی مدارس کی اکثریت فرقہ وارانہ مذہبی گروہوں جیسے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتی ہے جبکہ کچھ شیعہ مدارس
شیعہ کی جماعت سپاہ محمدسے گہرے روابط میں ہیں۔ (انٹرنیشنل کرائسس گروپ رپورٹ۔نمبر 95) کرسٹین فیئر (2012) اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلکی تقسیم بظاہر پرتشدد
رجحان کی طرف ترغیب نہیں دیتی مگر خارجی عناصر بیرونی مفادات اور مقاصد کے لیے مذہبی گروہوں کے درمیان فساد میں عمل انگیز کا کردار ادا کرتے ہیں۔
فرقہ واریت مدارس کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ ان کی تعلیم اور تعلیمی نظام کے اصل مقصد کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ تمام مسالک کے علماء اس مقولہ پر
متفق ہیں کہ ’’ اپنے مسلک کو نہ چھوڑو اور دوسرے کے مسلک کو نہ چھیڑو ۔‘‘قاری محمد حنیف جالندھری ، پرنسپل جامعہ خیرالمدارس ملتان، کہتے ہیں کہ میری دِلی خواہش
ہے کہ مدارس کا تعلیمی نظام مسلکی بنیادوں پر نہ ہو لیکن مذہبی فرقوں کی ایک طویل تاریخ ہے جسے موجودہ دور میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اختلاف رائے کا ہونا نئے
مباحث کو جنم دیتا ہے مگر پھر بھی مدارس کو پرتشدد مسلکی تعلیم سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہم تمام مسالک و مدارس کو اتحاد تنظیمات مدارس کے بینر تلے جمع کر رہے ہیں
تاکہ مشترکات کو فروغ دیا جائے اورمشترکہ نظام اور نصاب اختیار کیا جائے۔ (انٹرویو ، قاری محمد حنیف جالندھری)
پرنسپل جامعہ سلفیہ فیصل آباد مولانا یٰسین ظفرکا موقف ہے کہ ’’ مسلکی بنیادوں پر مذہبی سیاسی جماعتوں کا قیام درست نہیں اور مدارس کی اکثریت فرقہ وارانہ تشدد
کے خلاف ہے‘‘۔فرقہ واریت اور شدت پسندی پھیلانے میں مدارس کی نسبت علماء کا کردار زیادہ اہم ہے۔ اس لیے ضروری ہے ایسے علماء پر پابندی لگائی جائے جو معاشرے میں
نفرت اور تقسیم پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ (انٹرویو۔ علامہ قاضی نیاز حسین نقوی)
3۔مدارس اور انتہا پسندی
دو وجوہات کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ مدارس شدت پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسے مدارس میں جہاد کامضمون اس طرز
پر پڑھایا جا رہا ہے جو طلباء کو جہادی تنظیموں میں شمولیت کی طرف راغب کرتا ہے۔ دوسرا پختہ سیاسی نظریات مدارس کے طلباء میں عدم برداشت کے رویوں کو پروان
چڑھاتے ہیں۔ مدارس کی اکثریت جہادی تنظیموں سے اپنے روابط کی نفی کرتی ہے مگر اس کے ساتھ وہ اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ بعض مدارس جہادی تنظیموں کے ساتھ
منسلک ہیں۔ جہاد کے موضوع کے حوالے سے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام میں جہاد کی تعلیم دینا فرض ہے لیکن وہ مدارس کے طلباء کو جہاد پر بھیجنے کے مخالف
ہیں۔وفاق المدارس السلفیہ کے مولانا یٰسین ظفر کہتے ہیں ’’ریاست اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے، کسی بھی جہادی تنظیم کو سیاسی مقاصد کے لیے مدارس
کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اگر ہر کوئی اپنے مرضی سے جہاد کرتا پھرے تو پھر ریاست بدامنی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر راغب نعیمی،
پرنسپل جامعہ نعیمیہ لاہور کا موقف ہے کہ ’’ریاست کی فوج واحد ادارہ ہے جو ریاست کے حکم پر جہاد کر سکتا ہے۔ ایسے طلباء جن کو ماضی میں جہاد کی تربیت دی گئی ہے
یا اب دی جا رہی ہے وہ ایک طاقتور قوت بن چکے ہیں اور ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔ ‘‘ مولانا عبدالمالک، صدر رابطۃ المدارس پاکستان اس بات پر متفق
ہیں کہ ملکی دفاع اور امن وامان کے قیام کے لیے ریاست کے مضبوط ادارے کافی ہیں اس کے لیے غیرریاستی عناصر کی کوئی ضرورت نہیں۔اس ضمن میں مولانا قاری حنیف
جالندھری تجویز دیتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اسلامی نظریاتی کونسل کو جہاد کی تعلیمات کے بارے میں عوام کی رہنمائی کرنی چاہیے۔
دوسری جانب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں جواپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب اور ان مدارس کی افرادی قوت کو استعمال کررہے ہیں وہ بھی مدارس میں انتہا
پسندی کو فروغ دینے کا اہم سبب ہیں۔ مدارس کے طلباء کی ان تنظیموں اور جماعتوں کے ساتھ وابستگی ان کے اندر عدم برداشت کے رویوں کو پیدا کرتی ہے۔ متعصبانہ سیاسی
نظریات اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے کا رویہ طلباء میں شدت پسندانہ خیالات کی ترویج کرتا ہے۔ اسلام آباد میں قائم تحقیقی ادارہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس
سٹڈیز کی ایک تحقیق کے مطابق مدارس کے سیاسی رویے بھی ملک کے مرکزی سیاسی رویوں کے ساتھ منسلک ہیں، اس لیے مدارس کی اکثریت کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک
ہے۔ مدارس کے طلباء جو ایسی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہیں وہ اپنی جماعت کے علاوہ کسی اور جماعت کے نظریات کو برداشت نہیں کرتے اور بعض سیاسی مقاصد کے لیے پرتشدد
فرقہ وارانہ گروہوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور مفاہمت بہت حد تک اس انتہا پسندی کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
4۔ مدارس اور بیرونی امداد
نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کی بیرونی فنڈنگ اور امداد کو بھی زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کار اور حکومتی ادارے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ چند بیرونی ممالک
اپنے ایجنڈے کی تکمیل اور پاکستان میں اپنے ہمنوا فرقہ کی ترویج اور پھیلاؤ کے لیے دینی مدارس کی مالی معاونت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں فرقہ واریت کو
ہوا ملتی ہے۔ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ 2013-14کے درمیان کئی ممالک سے 300ملین روپے پاکستان میں قائم80 مدارس میں بھیجے گئے ہیں۔ وزارت داخلہ نے ایک بیان میں
کہا ہے کہ مذہبی یا مسلکی بنیاد پر بیرونی مالی معاونت کی حوصلہ شکنی کی جائے گی کیونکہ یہ ملک میں بدامنی پھیلانے اور مسلکی ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے لیے
استعمال کی جاتی ہے۔ (زاہد گشکوری۔روزنامہ ڈان 29جنوری2015) اسی طرح دفتر خارجہ نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ بیرونی امداد کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور
انسداد دہشت گردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں نہ صرف بیرون ممالک سے کی گئی انفرادی مالی معاونت بلکہ تنظیمی سطح پر کی گئی فنڈنگ کی بھی سخت نگرانی کی
جائے گی تاکہ دہشت گرد کاروائیوں کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے چینل کو بلاک کیا جا سکے۔ (عامر وسیم اور سجاد سید، روزنامہ ڈان 29جنوری2015)
باوجودا ن خدشات کے، مدرسہ کی انتظامیہ اپنے مالی معاملات میں خود مختار رہنا چاہتی ہے اور وہ اپنے عطیات کے ذرائع کو محدود کرنے کے لیے حکومتی مداخلت مسترد
کرتے ہیں۔ تاہم مختلف وفاق کے ذمہ داران بیرون ملک سے چندہ اکٹھا کرنے کے مسئلہ پر اختلاف کرتے ہیں۔ صدر تنظیم المدارس مفتی منیب الرحمان کا موقف تھا کہ اگر
حکومت مدارس کی بیرونی امداد کو روکنے کا ارادہ رکھتی ہے تو انہیں ضرور ایسا کرنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں کر سکتی تو حکومت کوبیرونی فنڈز کے لیے ایسا طریقہ کار
وضع کرنا ہو گا جس سے سارے مدارس مستفید ہو سکیں۔ قاری محمد حنیف جالندھری اس دعویٰ کو ہی مسترد کرتے ہیں کہ مدارس بیرونی امداد حاصل کرتے ہیں۔’’پاکستان کے مخیر
حضرات مدارس کی مالی معاونت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، تاہم اگر بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی مدارس کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ اگر حکومت
مدارس کے فنڈز پر نظر رکھنا چاہتی ہے تو یہی طریقہ کار ملک کی این جی اوز پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ NGOsبیرونی فنڈز سے سب سے زیادہ مستفید ہوتی ہیں مگر ان کے
مالی معاملات دیکھنے کے لئے کوئی آڈٹ کا نظام نہیں جبکہ حکومت تو خود اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ صرف 23مدارس ایک محدود بیرونی مالی معاونت حاصل کر رہے ہیں۔
تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ مدارس کو ملنے والی بیرونی امداد کی نگرانی کرے مگر ایک خاص پروپیگنڈا کے تحت مدارس کو بدنام کیا جا رہا
ہے۔ ‘‘
قاری یٰسین ظفر کا موقف ہے کہ حکومت مدارس کو ملنے والی بیرونی فنڈنگ اور مالی معاونت کے بارے میں بخوبی آگاہ ہے۔تاہم اگر کوئی دوست ملک مالی معاونت کرنا چاہتا
ہے تو یہ امداد پاکستانی حکومت کے ذریعے مدارس کو ملنی چاہیے۔ جو فنڈنگ یا امداد بینک کے ذریعے آتی ہے حکومت آسانی کے ساتھ فنڈز بھیجنے والے کو بھی اور جس ادارے
کو دی جا رہی ہے، شناخت اور معلومات حاصل کر سکتی ہے۔ کسی بھی مدرسہ کی آمدن اور اخراجات جانچنے کے لیے سالانہ آڈٹ رپورٹ کی مدد سے بھی معلومات حاصل کی جا سکتی
ہیں جو اکثر مدارس باقاعدگی کے ساتھ جمع کرواتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوست اسلامی ملک اسلامی بھائی چارے کی بناء پر صحت، تعلیم اور خوراک کے لیے فلاحی تنظیموں
کے ساتھ قانونی ذرائع سے مالی تعاون کرتے ہیں جوقابل ستائش ہے۔ اسی طرح اگر شفاف اور قانونی طریقہ اختیار کیا جائے تو مدارس بھی غیر ملکی فنڈز حاصل کر سکتے ہیں
۔ ڈاکٹر سید محمد نجفی، پرنسپل جامعہ مدینۃ العلم اسلام آباد نے اس بارے میں کہا کہ شیعہ فقہ کے مطابق شیعہ کمیونٹی سے تمام مال و دولت پر خمس ( ۵ فیصد) لیا
جاتا ہے جو کہ شیعہ مدارس اور ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے مجتہد کو جمع کروایا جاتاہے اور پاکستان میں بھی شیعہ مدارس کو مجتہد کے ذریعے ہی فنڈ ملتا
ہے۔
مدارس کی رجسٹریشن اورقاعدہ و قانون
مدارس کے بارے میں جاری حالیہ بحث میں مدارس کو شدت پسندی اور تشدد سے پاک کرنے کے لیے مذکورہ بالا سلامتی اور تحفظ کی جہات کے علاوہ انہیں باقاعدہ کسی قاعدہ و
قانون کے تحت بھی لانے پر غور کیا جا رہاہے تاکہ انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ مدراس کی رجسٹریشن کا طریقہ کار،مساجد اور مدارس کی غیر
قانونی تعمیر اور غیر ملکی طلباء کے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے مسائل کو اس ضمن میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
۱۔مدارس کی رجسٹریشن کا طریقہ کار
مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے کسی واضح طریقہ کارکی عدم موجودگی مدارس کے اہم مسائل میں سے ایک ہے جسے موجودہ صورتحال میں حل کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں غیر
رجسٹر شدہ مدارس کی بڑی تعداد کی وجہ سے مدارس کی صحیح تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے۔ مدارس کے پانچوں وفاق یا بورڈز اپنے اپنے وفاق سے ملحق مدارس کی تفصیلات اور
تعداد سے آگاہ کرتے ہیں تاہم مدارس کی ایک بڑی تعداد بغیر رجسٹریشن یا الحاق کے کام کر رہی ہے جو ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو رہے
ہیں۔ ماضی میں دینی مدارس سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860کے تحت اندراج کرواتے تھے لیکن ان کے اندراج کے اس طریقہ کار کو 1990میں ختم کر دیا گیا۔ مدارس کی رجسٹریشن
کا مسئلہ ایک بار پھر مشرف دور میں سامنے آیا۔ اس وقت مدارس کے ذمہ داران اور حکومت مدارس کی رجسٹریشن کا ایک طریقہ کار وضع کرنے پر متفق ہو گئے تھے جبکہ مدارس
اس بات پر بھی متفق تھے کہ وہ سالانہ بنیاد پرکسی بھی آزاد آڈیٹر کمپنی سے اپنے مالی حساب وکتاب کی جانچ پڑتال کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن حکومت کی کوتاہی اور
لاپرواہی کی وجہ سے معاملات آگے نہیں بڑھ سکے۔
نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں نواز شریف حکومت نے مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ایک نیا فارم متعارف کروایا ہے مگر مدارس کے منتظمین نے غیر مناسب اور ناشائستہ
سوالات کی بدولت اس نئے فارم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ حکومت کو ہمارے ساتھ بیٹھ کر مدارس کی رجسٹریشن کا متفقہ طریقہ
کاروضع کرنا چاہیے۔ جبکہ قاری حنیف جالندھری کہتے ہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ حکومت کا پیدا کردہ ہے کیونکہ مدارس نے تو رجسٹریشن سے آج تک انکار نہیں
کیا۔ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے مدارس کی رجسٹریشن کی شق کو شامل کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو سرے سے ہی اس معاملہ کی سمجھ
بوجھ نہیں ہے۔ 2005میں مدرسہ اتھارٹیزاور حکومت مدارس کی رجسٹریشن کے ایک طریقہ کار پر متفق تھے اور ہم اسی طریقہ کار کو اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ اور اگر یہ
حکومت اس طریقہ کار میں کسی نئی چیز یا شق کا اضافہ چاہتی ہے تو مدارس حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے مدارس کے ذمہ داران اس بات پر زور
دیتے ہیں کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح مدارس کی رجسٹریشن کے معاملات بھی شعبہ تعلیم کے حوالے کرنے چاہیے۔
2۔ زمین کا قبضہ اور غیر قانونی مدارس
بلا اجازت کسی دوسرے کی زمین یا سرکاری زمین پر مدارس اور مساجد کی غیر قانونی تعمیر مدارس کومنظم اور باقاعدہ بنانے کے حوالے سے نہایت اہم ہے جسے مدارس اور
حکومت کو حل کرنا ہو گا۔ مدارس اور زمینوں کے قبضہ مافیا کے مابین اتحاد نے ملک کے بڑے شہروں اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں حکومت کی عملداری پر کاری ضرب
لگائی ہے جہاں اس وقت کچھ مذہبی رہنما بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ کراچی میں بعض مساجد اور مدارس کی انتظامیہ نے مقامی کمیونٹی کے اندر اپنے پاؤں
جماتے ہوئے اپنے آپ کو اتنا طاقتور بنا لیا ہے کہ وہ ان قبضہ مافیا گروہوں کی سرپرستی کرنے لگے ہیں۔ ان مذہبی لوگوں کے لئے قانونی، غیر قانونی ہر ذریعہ سے مدرسہ
اور مسجد کی تعمیر کے لیے زمین پر قبضہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ (علی ارقم، روزنامہ ڈان 8مارچ 2015) اسلام آباد کے دارلخلافہ میں مختلف سیکٹرز میں سی ڈی اے کی زمین
پر تقریبا 305غیر قانونی مساجد اور مدارس تعمیر کیے گئے ہیں اور 69مدارس یا مساجد نے اپنے ساتھ ملحقہ زمین پر بھی تقریبا 100گز سے لے کر 200گز تک قبضہ کر لیا
ہے۔ (ملک اسد، روزنامہ ڈان 29جنوری2015)
جب بھی حکومت یا کوئی ادارہ اس زمین کو بازیاب کروانے کی کوشش کرتا ہے جس پرمدرسہ یا مسجد کے نام پر کسی مولوی نے قبضہ کیا ہوتا ہے تو اس مسجد یا مدرسہ کے
حمایتی حلقے اس حکومتی کارروائی کو اسلام مخالف قرار دیتے ہوئے مزاحمت پر اتر آتے ہیں۔ قطع نظر اس کے، علماء کی اکثریت مسجد یا مدرسہ کی تعمیر کے لیے زمین پر
قبضہ کو ناجائز قرار دیتی ہے، مفتیان کرام کے اس بات پر فتاویٰ موجود ہیں کہ اختلافی زمین پر مسجد یا مدرسہ کی تعمیر اسلام میں ممنوع قرار دی گئی ہے اور یہ
حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملہ کو حل کرے۔
3۔ مدارس میں غیر ملکی طلباء کی تعلیم
پاکستانی مدارس میں غیر ملکی طلباء کی تعلیم بھی اہم مسائل میں سے ہے جسے حکومت کو ایک باقاعدہ نظام کے تحت لانا ہو گا۔ پاکستانی مدارس میں غیر ملکی طلباء کئی
سالوں سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آ رہے تھے مگرملکی سلامتی کو درپیش خطرات نے حکومت کو ان طلباء کو واپس اپنے ممالک میں بھیجنے پر مجبور کر دیا۔ دنیا کے
65ممالک جن میں امریکہ، انگلینڈ، بھارت، چین، روس، افغانستان، اور افریقی ممالک شامل ہیں کے طلباء پاکستانی مدارس میں زیر تعلیم تھے مگر 9/11کے بعد آہستہ آہستہ
ان کی تعداد میں کمی آتی گئی۔پاکستانی مدارس میں تعلیم اور داخلہ کے لیے پاکستانی وزارت خارجہ سے این او سی درکار ہوتا ہے لیکن اب اس کے ساتھ غیر ملکی طلباء کو
دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے اپنے ممالک سے این او سی بھی لانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اب بیرونی ممالک اپنے
طلباء کو پاکستانی مدارس میں تعلیم کے لیے اجازت نامہ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس ضمن میں مدارس انتظامیہ کا موقف ہے کہ غیر ملکی طلباء کے داخلہ کے طریقہ کار کے
بارے میں حکومت کو مدارس اور جدید تعلیمی اداروں کے لیے ایک ہی طرح کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ حکومت دینی مدارس میں غیر ملکی طلباء کے داخلہ اور تعلیم کے
بارے میں ابھی تک کسی قسم کی پالیسی وضع کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ غیر ملکی طلباء کے پاکستانی مدارس میں تعلیم کو فخر سمجھتے ہیں ان
کا کہنا ہے کہ ’’ یہ ہمارے ملک کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہم غیر ملکی طلباء کی میزبانی کا شرف حاصل کر رہے ہیں کیونکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہ طلباء اپنے
اپنے ممالک میں پاکستان کے سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نئے غیر ملکی طلباء کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے مسئلہ کو واضح طریقہ کار اور چند شرائط کے نفاذ
کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ اگر بیرونی ممالک اپنے طلباء کو پاکستان بھیجنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں تو حکومت کو اس ضمن میں ان سے بات کرنا ہو گی۔ تاہم مدارس
بورڈز اس حوالے سے بیرون ممالک کی حکومتوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ‘‘ ڈکٹر راغب نعیمی، پرنسپل جامعہ نعیمیہ لاہور نے کہا کہ پاکستان میں پابندی
کے باعث غیرملکی طلباء دینی تعلیم کے لیے اب بھارت کا رخ کر رہے ہیں جس کے لیے حکومت اور ریاست کو غور کرنا ہو گا۔
مدارس کے نصاب میں اصلاحات
پاکستان میں جاری مدرسہ بحث میں مدارس کے نصاب کو اس وقت کافی زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ مدارس کے نصاب کے حوالے سے بحث دو دائروں میں گھومتی ہے۔ اول یہ تبصرہ کیا
جاتا ہے کہ نفرت پر مبنی مواد مدارس کے نصاب کا حصہ ہے جو معاشرے میں فرقہ واریت اور شدت پسندانہ رجحانات کو پروان چڑھاتا ہے۔ دوم یہ کہ مدارس کا نصاب قدیم ہے
جو موجودہ دور کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اسے درس نظامی کہا جاتا ہے جو برصغیر کی ایک طویل تاریخ کا حصہ ہے۔ اس نصاب کے
اہم مضامین میں قرآن و تفسیر قرآن، حدیث، فقہ، عربی زبان و ادب، منطق اور فلسفہ شامل ہیں۔ اگرچہ مدارس میں یہ مضامین اپنے اپنے مسلک کی تشریحات کے مطابق پڑھائے
جاتے ہیں مگر اس بات کا مشاہدہ کیا گیاہے کہ نصاب میں کوئی ایسا مواد یا مضمون شامل نہیں جومدارس کے طلباء میں تشدد یا شدت پسندی کو ابھارے یا انہیں اس کی تعلیم
دے۔
مدارس کا اندرونی ماحول، گہری فرقہ وارانہ تقسیم اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے جذبات ، مختلف مسالک کے درمیان عدم روابط، طلباء میں شدت پسندانہ نظریات کو فروغ
دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اہم بنیادی عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب کی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ حکومت اور مدارس کے ذمہ داران اس حوالے سے باہمی مشاورت
کے ذریعے مدارس میں موجود اس قسم کے مسائل پر قابو پانے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دے سکتے ہیں جبکہ تمام مسالک کے طلباء کے درمیان روابط کا فروغ اس ضمن میں اہم
کردار ادا کر سکتا ہے۔ تمام مدارس کے بورڈزیا وفاق اس بات پر آمادہ ہیں کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید مضامین کو مدارس کے نصاب میں ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔
تاہم انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان کے تمام وفاق کو خود مختار تعلیمی بورڈز کا درجہ دے جو تعلیمی اسناد بھی جاری کرنے کے مجاز ہوں۔ علاوہ ازیں تمام
وفاق باہمی مشاورت کے ساتھ امن کی تعلیم کے عنوان سے ایک کتاب بھی مرتب کر رہے ہیں جو مدارس کے نصاب کا حصہ ہو گی۔
1۔مدارس سماجی تبدیلی کے محرک
پاکستان میں دینی مدارس کے ادارے دینی اساتذہ، علماء، خطیب، امام مسجد اور مذہبی سیاسی رہنماؤں کی تربیت گاہ ہیں جو مساجد اور عوامی اجتماعات کے ذریعے معاشرے
میں سماجی تبدیلی لانے میں اہم محرک ہیں۔ یہ مدارس منظم ادارتی نظام کے حامل ہیں جو مذہبی تعلیم کے مختلف تعلیمی درجات پیش کرتا ہے اور ان کا تعلق مسجد کے ساتھ
براہ راست ہے۔
مسجد نہ صرف عبادت کی جگہ ہے بلکہ اسے اسلامی معاشرے میں ایک سماجی اور کمیونٹی مرکزکی حیثیت بھی حاصل ہے۔ تاریخ میں مسجد اور مدرسہ سیاسی اور سماجی تبدیلی کے
لیے استعمال ہوتے رہے ہیں اور مذہبی تناظر میں عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں ان کی اہمیت واضح ہے۔ نماز جمعہ ایک ایسا اجتماع ہے جس میں خطیب ہفتہ وار اپنا
پیغام لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔ مزید برآں امام مسجد اور خطیب ہر روز نماز کے اوقات کے دوران باقاعدگی کے ساتھ لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان کی سماجی
سرگرمیوں جیسے رسم ورواج، شادی اور غمی میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح مدارس بھی معاشرے کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ مدارس کے ٹرسٹی بورڈز اور انتظامی
کمیٹیاں مقامی بزنس کمیونٹی اور علاقے کے سرکردہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات یہ دونوں ادارے اپنی اس شان و شوکت کو کھو دیتے ہیں جب علماء ان کواپنے
خاص سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مگر اس کے باجود مدارس معاشرے میں سماجی اصلاحات کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مدارس اور مساجد کا مثبت کردار اہم
محرک کے طور پر معاشرے میں سماجی تبدیلی کو ممکن بنا سکتا ہے۔
اختتام
مدرسہ اصلاحات کے بارے میں حکومتی پالیسیوں میں استقامت اوردینی مدارس کے تعلیمی نظام سے درپیش حقیقی مسائل کی نشاندہی پاکستان میں طویل عرصہ سے جاری مدرسہ بحث
اور تنازعہ کے حل کی جانب بڑھنے کے لیے ضروری ہیں۔ اگرچہ نیشنل ایکشن پلان میں مذکور مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کی جزئیات پر مدارس اور حکومت کے درمیان
اختلافات سامنے آئے ہیں مگر مدارس کے ذمہ داران ایکشن پلان کے عملی نفاذ کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر راضی ہیں۔ تاہم مدرسہ اصلاحات کی جانب بڑھتے ہوئے
ملک کی سلامتی اور تحفظ کو درپیش خطرات کو سب سے پہلے ترجیح دی جائے جن کا اس مضمون میں تحفظ اور سلامتی کی جہت کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے ناسور سے
نمٹنے کے لیے حکومت تمام مسالک کے مدارس بورڈز کی مشاورت سے ایک جامع پالیسی ترتیب دے۔ دہشت گردی میں ملوث چند مدارس کی وجہ سے دینی مدارس کے تمام نظام کو مورد
الزام ٹھہرانے سے حکومت اور مدارس کے ذمہ داران کے درمیان گفت و شنید کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ حکومت کومدارس بورڈز کے عہدیداران کو اعتماد میں لینا چاہیے اور
مدارس میں اصلاحات کے مذکورہ نتائج حاصل کرنے کے لیے مدارس کے خدشات دور کرنا ہوں گے کیونکہ تمام مدارس کو ایک ہی پالیسی کے تحت ہینڈل کرنا معاشرتی تقسیم کو
مزید گہرا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
مدارس میں اصلاحات کا لانا ضروری ہے تاکہ اسلام کی پرامن حقیقی تعلیمات اور اقدار کے ذریعے معاشرہ سے پرتشدد نظریات کو ختم کیا جا سکے اور مدارس کے طلباء کو
ایسا ماحول اور تعلیم مہیا کی جائیں جہاں وہ معاشرہ کے ایک ذمہ دار شہری بن کر فائدہ مند ثابت ہوں۔ مذہبی سکالرز اور علماء شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے بارے
میں عوام کے اندر پائے جانے والے ابہام کو واضح کرنے اور شدت پسندی کو کلی طور پر مسترد کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ مختلف مسالک کے درمیان گہری
فرقہ وارانہ تقسیم کومکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا ، تاہم مسالک کے درمیان روابط اور مکالمہ کے ذریعے مسلکی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے سیاسی ہم آہنگی اور خواہش کا فقدان ، مدارس کی جانب سے مزاحمت، بیورو کریسی کا روایتی رویہ ا ور حکومت کے جانب سے سرد مہری، مدارس
کی رجسٹریشن کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کے منصوبے کو بے نتیجہ کر نے کا سبب بن سکتی ہیں۔اتحاد تنظیمات مدارس کی مشاورت سے مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ایک مستقل
اور جامع طریقہ کارجلد سے جلد وضع کرنا چاہیے جس کی رو سے تمام مدارس ایک وقت مقررہ کے اندر رجسٹریشن کا عمل مکمل کریں۔ مدارس کی بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے ریاست
اور ریاستی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ذرائع کو کھوج لگائیں اور ملک دشمن اور امن دشمن عناصر کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔