جدید دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس میں معلومات کا بہاؤ زیادہ ہے اور علم کا فہم کم ، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی صداقتوں کا پرچم تھامے
ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے اور بضد ہے کہ جو کچھ وہ جانتا ہے اسے تسلیم کیا جائے۔ یہ بات جب انفرادی سطح سے نکل کر اجتماعی سطح پر پہنچتی ہے تو کہیں تنازعہ اور
کہیں تہذیبوں کے تصادم پر منتج ہوتی ہے ۔ایسے میں یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی بات سنی جائے اور برداشت کی جائے نہ کہ حق باطل کے فیصلے صادر ہونے
لگیں۔ مکالمہ ایسا صحت مند ہو کہ کسی کی صحت پر گراں نہ گزرے۔ زیر نظر مضمون میں یہی کچھ بیان کیا گیا ہے جو یقیناًثاقب اکبر کے اظہار بیان کا عمدہ نمونہ ہے
۔(مدیر)
تاریخی پس منظر
کچھ عرصے سے دنیا میں مکالمے کی ضرورت پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ سیموئل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington)کے تہذیبوں کے ٹکراؤ کا نظریہ سامنے آنے کے بعد
مکالمے کی ضرورت کا احساس کچھ زیادہ ہی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ مذاہب و ادیان اور مسالک و مکاتب کے مابین گفتگو کے مختلف سلسلے قائم ہوئے اور اس پرمزید پیش رفت
جاری ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جدید تاریخ میں اس کا آغاز 1893ء میں شکاگو سے ہوا۔ اس بارے میں سارا ریف اور سی ایڈورڈو ورجس ٹورو(Sara Reef and C. Eduardo Vargas
Toro) نے اپنے ایک مقالے ’’عالمی امور میں بین المذاہب مکالمے کی اہمیت اور مقصد‘‘(The Importance and purpose of Interfaith Dialogue in Global Affairs) میں
یہی بات لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1893 میں شکاگو میں ورلڈ کولمبین ایکسپوزیشن کے دوران میں دنیا نے نہ فقط فہرس ویل کی پیدائش کا مشاہدہ کیا بلکہ بین الادیان
مکالمے کا آغاز ہوتے بھی دیکھا۔ شکاگو کے میلے میں ایک رسمی میٹنگ کے دوران میں مختلف عقائد رکھنے والے مذہبی راہنما اور دینی امور کے ماہرین نہ فقط اکٹھے ہوئے
بلکہ انھوں نے عالمی بین المذاہب مکالمے کا بھی آغاز کیا۔ اس طرح یہ عالمی مذاہب کی پہلی پارلیمنٹ وجود میں آئی جس کا مقصد مختلف عقائد رکھنے والوں کے مابین
گفتگو اور تعاون تھا۔ان کے اپنے الفاظ ملاحظہ کریں:
Throughout the history of mankind religion has played an important part in politics and international relations. In 1893 during the World's Columbian
Exposition in Chicago, the world witnessed not only the birth of the Ferris wheel, but also the birth of interreligious dialogue. A formal meeting during
that Chicago Fair brought together religious leaders and theologians from different faiths marking the beginning of global interreligious dialogue. This
first "Parliament of the World's Religions" set the foundation for discourse and cooperation among different faiths...
تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ مکالمے کا سلسلہ نیا نہیں ہے اور ماضی میں بھی ادیان اور مسالک کے مابین مکالمہ ہوتا رہا ہے بلکہ مکالمے کے نتیجے میں نئے مذاہب و
مسالک بھی وجود میں آتے رہے ہیں۔ اگر ہم مکالمے کی تاریخ پر نظر رکھیں تو آج مکالمے کو اس کے صحیح منہج پر رکھنے میں اس سے مدد لے سکتے ہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے
کہ مکالمے سے شروع ہونے والی بات بہت مرتبہ غمناک اور نہایت دردناک انجام سے دوچار ہوئی۔ عصر حاضر میں بھی مکالمے کی اوٹ میں مکالمے سے ماورا مقاصد کی بازگشت
سنائی دیتی رہتی ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ مکالمے کے اعتبار سے کئی ایک نشیب و فراز رکھتی ہے۔ بین الادیان مکالمے کا آغاز رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی ہو گیا
تھا۔ ہجرت کے بعد ’’میثاق مدینہ‘‘ ایک مثبت مکالمے ہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا۔ اس معاہدے میں مسلمان تو شریک تھے ہی اوس و خزرج قبائل کے وہ افراد بھی اس کا
حصہ تھے جو ابھی تک اسلام نہ لائے تھے اور بت پرستی کے طریقے پر قائم تھے۔ مدینے میں رہنے والے یہودی قبائل بھی اس میثاق کا حصہ تھے۔
بعدازاں جب مسلمانوں کو جزیرہ نمائے عرب میں ایک بڑی قوت حاصل ہو چکی تھی، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
کہیے! اے اہل کتاب آؤ اس ایک بات پر اکٹھے ہو جاتے ہیں جو تمھارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، کسی شے کو اس
کا شریک قرار نہ دیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے بجائے دوسرے کا رب بننے کی کوشش کرے۔
اس آیہ مجیدہ میں نہ فقط مکالمے کی دعوت دی گئی ہے بلکہ اس کی ماہیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ آیہ اس امر کو واضح کرتی ہے کہ مکالمہ ایک دوسرے پر بالادستی
قائم کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ گویا یہ واضح کردیا گیا ہے کہ جب مکالمے کا ہدف اپنی بالادستی اور تفوق قائم کرنا ہو جائے گا تو پھر وہ مکالمہ نہیں رہے گا۔
مکالمے کی دردناک تاریخ
افسوس کہ خود مسلمانوں کے مابین ہونے والا مکالمہ بالآخر اس اصول سے منحرف ہو گیا۔ معتزلہ اور اشاعرہ کے مابین شروع ہونے والا مکالمہ کس انجام سے دو چار ہوا،
اسے جاننے کے لیے تاریخ کے خون آلود صفحات کو پلٹنا ہوگا۔ علم کلام جس کی بنیاد دراصل ایک دوسرے سے کلام کرنے اور مکالمہ کرنے سے پڑی، وہ خونی آویزشوں تک جا
پہنچا۔ معاملہ تفسیق و تکفیر سے گزر کر قتل و غارت گری کی سرحدوں سے گزر گیا۔ اس خونی اور خطرناک کھیل کا سلسلہ رکا نہیں۔ آج ایک دوسرے کو فاسق و فاجر،کافر و
مشرک اور گستاخ کہنے والے دراصل اسی دردناک تاریخ کے ورثہ دار ہیں۔ اے کاش یہ سمجھ لیا جائے کہ تاریخ عبرت کے لیے ہوتی ہے، اندھا دھند تقلید کے لیے نہیں۔
تاریخ کے ان گوشوں کو اگر عبرت کے لیے اپنے سامنے رکھا جائے تو آج کا مکالمہ نہ فقط منحرف نہیں ہوگا بلکہ اسے ماضی کے حکمرانوں کی طرح آج کے حکمران اور بالادست
قوتیں غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال نہیں کر سکیں گی۔ ضروری ہے کہ مکالمے کے سنجیدہ شریک اپنی چشم بصیرت کو کھلا رکھیں۔ اور ان علامتوں پر گہری نظر رکھیں جو
مکالمے کے انحراف کے وقت ظہور پذیر ہوتی ہیں۔
بہت سے افراد نے مکالمے کے راستے میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور مکالمے کی حدود وقیود اور مقاصد و اہداف کو متعین کرنے کے لیے مقالے
بھی لکھے ہیں اور مکالمے کے مواقع پر بھی انھیں بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔
ظالم و مظلوم کے مابین نہیں
مکالمے کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ظالم و مظلوم کے مابین نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ مکالمہ ایک دوسرے کے وجود کو احترام کے ساتھ قبول کرنے، پرامن
بقائے باہم پر یقین رکھنے، دوسروں کو آزادئ رائے دینے اور جیو اور جینے دو کے اصول کو تسلیم کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ مکالمے کے کسی مرحلے پر بھی ان نظریات اور
اصولوں کو نظرانداز کرنے سے مکالمہ اپنے اصل مقصد سے بھٹک جاتا ہے۔
مکالمے سے پہلے
مکالمے کی ضرورت کو تسلیم کرنا اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ دنیا میں مختلف مذاہب، روایات،رسم و رواج اورنظریات وجود رکھتے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں
میں اور مختلف گروہوں میں ثقافتی مظاہر کا بھی فرق موجود ہے۔ زبان، لہجے، لباس،غذا اور رہنے سہنے کے طریقے اور اس حوالے سے پسند ناپسند خارجی طور پر وجود رکھتے
ہیں۔
مکالمے کے شرکاء کو چاہیے کہ وہ مجادلے، مناظرے اور مکالمے میں فرق کو ملحوظ رکھیں۔ ہر صورت میں اپنی بالادستی اور اپنی صداقت کو دوسروں سے منوانے کی خواہش
مکالمے کی روح کے منافی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مکالمے سے دنیا میں پلورل ازم (تکثیریت) پیدا ہو جائے گا اور بعض لوگوں کے نزدیک شاید یہی مکالمے کا مقصد
بھی ہے۔ ہماری رائے میں اسے مکالمے کے مقاصد میں سے نہیں ہونا چاہیے۔ مکالمہ اختلاف رائے کے ساتھ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کی راہ پر استوار رہنا چاہیے۔
البتہ اختلاف رائے رکھنے اور اس کے اظہار کے لیے سلیقے اور طریقے پر بات ہو سکتی ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
مکالمہ ہر شعبے میں
مکالمہ سیاسی امور سے متعلق بھی ہو سکتا ہے اور سماجی و معاشی امور سے متعلق بھی۔ مذہبی امور سے متعلق مکالمے کو عام طور پر زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے لیکن سیاسی
و معاشی امور سے متعلق مکالمہ پوری دنیا میں ویسے ہی جاری رہتا ہے۔ تاہم مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب مقاصد سیاسی یا معاشی ہوں اور عنوان مذہب بن جائے۔ دین و مذہب
کو اگر سیاسی اور معاشی مقاصد کے لیے حسب ضرورت اور حسب ذائقہ استعمال نہ کیا جائے تو دنیا میں سے بیشتر مذہبی فتنوں کا خاتمہ ہو جائے۔ مذہب کے حوالے سے مکالمہ
کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی تناؤ کی وجوہات کو سمجھیں اور دنیا کے اصل معاشی و سیاسی فتنوں اور استعماری مقاصد پر گہری نظر رکھیں۔ سنجیدہ اور مخلص
مذہبی راہنماؤں کو چاہیے کہ مذہبی جھگڑوں کے پیچھے معاشی اور سیاسی مقاصد کو اپنے پیروکاروں کے سامنے آشکار کریں۔ یہ بات جاننا نہایت ضروری ہے کہ ماضی میں بھی
مذہبی جھگڑوں کے پیچھے حکمرانوں اور سیاست کاروں کے مفادات اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
کیا اس طرح دنیا سیکولر ہو جائے گی
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مکالمے کے نتیجے میں دنیا سیکولر ہو جائے گی اور بعض لوگوں کی واقعاً یہی خواہش ہے کہ دنیا سیکولر ہو جائے کیونکہ ان کے نزدیک
مذہبی فسادات اور جھگڑوں کا واحد اور بہترین حل سیکولرازم ہی ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اس سلسلے میں اہل مغرب نے جو تجربہ کیا ہے وہ ایک ٹھوس حقیقت کی حیثیت
رکھتا ہے۔ یورپ میں کلیسا کی حکمرانی سے نجات پا کر قوموں میں سیکولرازم پر اپنی ریاستوں کو استوار کیا اور تمام تر مغربی ترقی اسی سیکولرازم کی بدولت ممکن ہو
سکی۔ اس سلسلے میں ہماری گذارش یہ ہے کہ ہر تجربے کی اپنی حدودوقیود اور پس منظر ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے خالی نہیں جن میں ممکن ہے یہ کہا جائے کہ
مذہب کی بدولت انسانی معاشرے کو عروج حاصل ہوا اور قوموں نے ہزار مصیبتوں سے مذہب ہی کی بدولت نجات حاصل کی۔ آج کی دنیا میں بھی ایسے تجربوں کو اپنی دلیل بنانے
والوں کی کمی نہیں۔لہٰذا مکالمہ اگر دونوں نظریوں کے حامل افراد کے مابین ہونا ہے تو پھر اپنا نظریہ منوانے کے ارادے سے نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ کسی بھی
نظریے میں جزوی یا کلی صداقت کی موجودگی سے انکار نہ کیا جاسکے۔
ارتکاز فکر ضروری ہے
مکالمے کے حوالے سے گاہے یہ شکایت بھی پیدا ہوتی ہے کہ اس میں ارتکاز فکر باقی نہیں رہتا۔ یہ ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں شرکاء کے ساتھ ساتھ مکالمے کے
سہولت کاروں کی ذمے داری بہت زیادہ ہے۔ ارتکاز فکر باقی نہ رہنے سے انتشار فکر رونما ہوتا ہے۔ کئی مسئلے اور کئی موضوعات ایک ہی وقت میں زیر بحث آنے لگتے ہیں۔
اس لیے وقت اور وسائل ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے نتیجے اور اچھے تاثر کے بغیر نشستیں ختم ہو جاتی ہیں۔
حصول آگاہی کا جذبہ
ضروری نہیں کہ کسی مسلک یا مذہب کا ماننے والا عالم دوسروں کے مسلک یا مذہب سے اچھی طرح آگاہ ہو۔ اس لیے اگر ہر شخص بہتر آگاہی کے جذبے سے مکالمے میں شریک ہو،
اپنے نقطۂ نظر کو اچھے انداز سے بیان کرے، اپنے نظریے کے دلائل بھی اچھے انداز سے پیش کرے، دوسرے کے نظریے اور دلائل سے بھی واقف ہو جائے تو بہتر ہم آہنگی کی
فضا پیدا ہو سکتی ہے جواختلافی امور مکالمے میں سامنے آئیں ان کے اظہار یا ترویج کے طریقے کار اور حدود وقیود کو زیر بحث لانے سے پرامن بقائے باہم کے مقصد کو
تقویت حاصل ہو سکتی ہے۔
ماہرین سے استفادہ
تخصص کے اس دور میں مکالمے کے موضوعات کے پیش نظر موضوع کے ماہرین کو شریک مکالمہ کرنا چاہیے۔ مذہبی موضوعات بھی متنوع ہوتے ہیں۔ ہر مذہب کا عالم بھی ہر شعبے کا
عالم نہیں ہوتا۔ اس لیے موضوع کے ماہر کا انتخاب ضروری ہے تاکہ مکالمے کو صحیح جہت پر رکھا جاسکے اور صحیح نتیجہ اخذ کیا جاسکے۔
بعض افراد پر منفی تاثیر
مکالمے کی ایک مشکل اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی شخص ہر جگہ کسی مسلک یا مذہب کے نمائندے کی حیثیت سے جائے گا، اسی بنیاد پر اسے عالمی دوروں کی دعوتیں ملیں
گی، یہی اس کی شناخت کی بنیاد ہوگا اور یہی اس کے احترام کی وجہ ہو تو پھر کیا وہ اس شناخت کو گہرا کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرے گا؟ اس سلسلے میں دنیا میں
جو تجربات ہوئے ہیں ان کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مختلف درجے، سطح فکر اور حیثیت کے حامل افراد جنھیں دنیا کے بہت سے فورموں پر ایک خاص مسلک یا مذہب کے
نمائندے کی حیثیت سے شرکت کا موقع ملا ہے انھوں نے مختلف طرح کے نتائج دیے ہیں۔ یہ نتائج مثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔ مکالمے کے بارے میں سنجیدہ افراد اور اس سے
مثبت نتائج کے خواہشمند منتظمین کو اپنے ان تجربات کی روشنی میں اگلے مراحل میں قدم رکھنا چاہیے۔
مثبت تاثیر کو خوش آمدید کہیں
مخلص افراد کا اپنی آگاہی کی سطح کے بڑھ جانے کے بعد تبدیل ہوجانا عین ممکن ہے۔ لہٰذا اگر مکالمے کے شرکاء میں مثبت تبدیلیاں ظہور میں آئیں تو انھیں خوش آمدید
کہنا چاہیے۔
شدت پسندوں سے خطرہ
شدت پسند افراد اور گروہوں سے بھی مکالمے کو خطرہ ہے۔ نتیجے کے طور پر مکالمے کے شرکاء بھی اس خطرے کا ہدف ہوتے ہیں۔ شاید بعض لوگوں کا مکالمے میں شرکت کے بعد
اپنے عوام تک اس کے نتائج پہنچانے کی کوئی کوشش نہ کرنے میں ایک یہ عامل بھی ہو۔ البتہ اس میں بھی شک نہیں کہ ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جنھوں نے مکالمے کے
نام پر ملکوں ملکوں کی سیریں کیں اور اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں قیام و طعام سے لطف اندوز ہوئے لیکن واپس آ کر نہ اپنے پیروکاروں کو مکالمے کے مثبت نتائج سے آگاہ
کیا اور نہ خود اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا، بلکہ ایسے افراد بھی موجود ہیں جو مکالمے کی کسی محفل میں گئے تھے تو بھی شدت پسندتھے، واپس آئے تو بھی شدت پسند
ہی رہے۔
مکالمہ صداقت کے ساتھ جاری رہنا چاہیے
ہم آج کی بات یہاں ختم کرنا چاہیں گے کہ مثبت اور منفی تجربوں کو سامنے رکھتے ہوئے مکالمہ ہر سطح پر جاری رہنا چاہیے۔ مذاہب و ادیان کے مابین بھی اور مسالک و
مکاتب کے مابین بھی، سیاسی میدان میں بھی اور معاشی میدان میں بھی،البتہ سچائی اور صداقت کے ساتھ اور دل اور زبان کی یکجائی کے ساتھ۔
*****
سوال : فنونِ لطیفہ مثلاً موسیقی ، مصوری ، اور رقص وغیرہ کے سلسلے میں اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے ؟ کیا یہ چیزیں بالکل حرام ہیں اور اگر حلال ہیں تو کس
حد تک ؟
جواب: فنونِ لطیفہ کے متعلق یہاں کچھ مثالیں دی گئی ہیں ۔میں بطور عمومی کہوں گا کہ قرآنِ مجید کے مطابق خود اللہ تعالیٰ نے زینت کے طور پر مثلاً ستارے وغیرہ
پیدا کیے ۔تو وہ بھی ایک طرح سے فنونِ لطیفہ ہی ہیں۔ بہر حال عرض کرنا یہ ہے کہ موسیقی کے متعلق امام غزالی نے احیاء العلوم میں ایک باب تفصیل سے لکھا ہے اور وہ
کہتے ہیں کہ سو فیصد (موسیقی) حرام نہیں ہے ۔عہدِ نبوی ؐ میں لوگ عید کے دن ڈھول بجاتے تھے۔ ایک دفعہ حضورؐکے سامنے حبشی بچوں کا ایک گروہ آیا اور نیزے چلانے کے
کرتبوں کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کیا ۔حضرت عمرؓ نے ان کو ڈانٹا کہ جاؤیہاں سے نکلو ، کیا کر رہے ہو ۔ رسول اللہؐ کے الفاظ ہیں ’’یا عمر ھذا عید‘۔آج عید کا
دن ہے لہٰذا عید کے دن خوشی منانے کے جو طریقے ہیں وہ موجود ہیں یا ذہن میں آتے ہیں ان سے روکا نہیں جا سکتا ۔
مصوری کے متعلق یہ عرض کرنا ہے کہ صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث ہے ، قیامت کے دن سب سے شدید عذاب مصوروں کو ہو گا ، اس کی تصریح میں حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں
اس سے مراد ان چیزوں کی تصویر ہے جن میں جان ہوتی ہے ،جیسے آدمی اور حیوانات وغیرہ۔باقی درختوں ، مکانوں اور اسی طرح کی چیزوں کی تصویروں کی کوئی ممانعت نہیں ہے
،تو عرض یہ ہے کہ آج ہم مصوری سے مراد صرف آدمیوں کے پورٹریٹ بنانے کو لیں تو میرے نزدیک ناجائز ہو گا ،لیکن عام تصویر ، رنگوں کے ذریعے سے شکلیں بنائیں اور وہ
آدمیوں کی نہیں بلکہ چیزوں کی ہوں تو اس میں کوئی عمل مجھے مانع نظر نہیں آتا ۔
رقص کے متعلق بھی سوال کیا گیا ہے ،1948ء کی شاید بات ہے ،آپ کے ہاں دستور بنانے کا کام شروع ہوا تھا ،مجھے بھی اس زمانے میں دعوت دی گئی تھی ۔اس میں ایک بنگالی
عالم بھی شریک تھے ،اُن لوگوں نے کہا کہ رقص حرام ہے ۔لطیفے کے طور پر میں نے عرض کیا کہ بھائی صاحب ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ گھر میں رقص کرتا ہوں تو تمھیں
روکنے کا کیا حق ہے ۔کہنے لگے کہاں ؟ میں نے کہا گھر میں ، پوچھنے لگے لوگوں کی موجودگی میں ، میں نے کہا بچے ہوں گے ، بچے بھی خوشی سے ہاتھ بجائیں گے کہ اماں
ناچ رہی ہے ۔تو غرضیکہ سو فی صد رقص حرام نہیں ہے ،البتہ اجنبی عورت سے یقیناًحرام ہے ۔
(بحوالہ نگارشاتِ ڈاکٹر حمید اللہ صفحہ244-245،ڈاکٹر صاحب نے اقبال اکادمی لاہور میں 30اپریل 1992کو لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں کہا )