working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

قومی لائحہ عمل برائے انسداد دہشت گردی

خصوصی عدالتیں کیوں؟

بیرسٹرشہزاد اکبر 

نجم

بیرسٹرشہزاد اکبر وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں،وہ Foundation for Fundamental Rights نامی تنظیم کے ڈائریکٹر ہیں ۔انھوں نے بیرسٹری کا امتحان لنکنز ان اور ایل ایل ایم نیو کاسل یونیورسٹی سے کر رکھا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں انھوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا عدالتی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی کئے بغیر صرف خصوصی عدالتوں کے قیام کو مسئلے کا حل قرار دیا جا سکتا ہے ۔اس سوال کے جواب میں انھوں نے پاکستان کے عدالتی نظام کی خامیوں اور پاکستان میں دہشت گردی کے قوانین کی تاریخ بھی بیان کی ہے جس سے مضمون کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے ۔(مدیر)

نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں ۔ان کا طریقہ کار خفیہ ہے جو انصاف کے لئے ا چھی مثال قرار نہیں دی جا سکتی ۔کسی بھی حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آگے چل کر فوجی عدالتیں ،عسکریت پسندی کے خاتمے میں ممد و معاون ثابت ہو سکیں گی ۔اس مقصد کے لئے ایک طویل المدتی حکمت عملی درکار ہو گی نہ کہ دستوری اکھاڑ پچھاڑ ،مگر اس جانب ابھی تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی ۔

خفیہ کا لبادہ

سانحہ پشاور کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا جس کا ایک حصہ یہ بھی تھاکہ خصوصی فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں پر مقدمات چلائے جائیں ۔ یہ حالات اس وقت ہی نظر آنا شروع ہو گئے تھے جب نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد ہونے سے پہلے ہی ملٹری ٹریبیونلز سے سزاؤں کا اعلان ہونا شروع ہو گیا تھا ۔جب 16دسمبر کو وزیر اعظم نواز شریف نے سزائے موت پر گزشتہ سات سال سے عائد پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی جنرل راحیل شریف نے خصوصی فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ چھ دہشت گردوں کی سزاؤں پر عمل در آمد کے پروانے پر دستخط کر دیئے ۔جبکہ اس کے بعد 24دسمبر کو 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا تھا ۔

نیشنل ایکشن پلان کے اعلان سے پہلے ہی پاکستان میں پھانسیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی پھانسی20دسمبر2014ء کو ارشد محمود کودی گئی ۔سابق فوجی ارشد محمود کو پھانسی ایک خصوصی فوجی عدالت نے دی تھی۔اس کے جنازہ میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی جس سے معاشرے میں عسکریت پسندی کا اظہار ہوتا ہے اس نقطے کو نیشنل ایکشن پلان میں نظرانداز کر دیا گیا ۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے حکومت نے دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت سے پاکستان کے آئین کے ساتھ آرمی ایکٹ 1952ء میں بھی ترمیم کی ۔جس کو اکیسویں آئینی ترمیمی بل 2015ء اور دوسرے کو پاکستان آرمی ترمیمی بل 2015ء کا نام دیا گیا ۔

لبرل جماعتوں نے بھی ان خدشات کے باوجود ترمیمی بل کی حمایت میں ووٹ دیا کہ اس سے جمہوری قدروں پر حرف آئے گا ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ بل کی حمایت پاکستان کی سیکورٹی کے لئے کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہے ۔ مذہبی جماعتوں کا بھی اعتراض تھا کہ بل کا نشانہ صرف مذہبی عسکریت پسندی ہے ۔خیبر پی کے جو کہ عسکریت پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے ،کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے عوامی سطح پر تو اس ترمیم کی حمایت کی مگر اس کے حق میں اس لئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا کیونکہ مرکز میں حکمران جماعت سے اس کے اختلافات تھے ۔

ان ترامیم کی اس لئے بھی اجازت دی گئی کیونکہ فوجی عدالتیں دو سال کے معینہ عرصے کے لئے بنائی گئی تھیں ۔سویلین ججوں کی جگہ فوجی افسران دہشت گردوں سے پوچھ گچھ کریں گے ۔یہ عدالتیں فوج کے لیگل ونگ کے جج ایڈووکیٹ جنرل کی ماتحتی میں کام کریں گی ۔نئی آئینی ترمیم کے تحت 9خصوصی فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔جن میں سے تین تین پنجاب اور خیبر پی کے ،دو سندھ اور ایک بلوچستان میں قائم کی گئی۔ قانونی طور پر صوبے وزارت داخلہ کے ذریعے دہشت گردی کے کیسز فوجی عدالتوں میں بھیج سکتے ہیں ۔2015کے وسط تک فوجی عدالتوں کے ذریعے چھ افراد کو سزائے موت سنائی گئی ۔سپریم کورٹ نے اس وقت تک ان سزاؤں پر عمل در آمد روک دیا تھا جب تک فوجی عدالتوں کے بارے میں دائر درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا ۔تاہم اگست 2015ء میں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو جائز قرار دے دیا اور ساتھ یہ رائے بھی دی کہ اگر ملزم یہ سمجھے کہ اس کو سزا دینے کے لئے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے تو وہ سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق رکھتاہے ۔

فوجی عدالتوں میں خفیہ سماعت کی جاتی ہے ۔ اس کے بارے میں معلومات لینا بہت مشکل ہے ۔کوئی نہیں جانتا کہ کس کیس کی سماعت ہے کیوں ہے اور کیسے ہورہی ہے ۔مجموعی طور پر کوئی نہیں جانتا کہ ملزم کو اپنی پسند کاکوئی وکیل کرنے کی آزادی ہے یا نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو سویلین وکلاء عدالتی کارروائی سے پہلے حاضر ہوتے ۔اگرچہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان عدالتوں میں صرف بڑے دہشت گردوں کے کیسز ہی بھیجے جائیں گے ۔ مگر صوبائی حکومتوں نے وہ کیسز بھی فوجی عدالتوں کو بھیج دیئے جو کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو بھیجے جانے تھے تاکہ انھیں سزائیں دلوائی جا سکیں ۔اگست2015ء کے آخر میں ہم نے ایک اور خصوصی قانون پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014 ء کا استعمال بھی دیکھا ۔جب کراچی میں ایک سابق وفاقی وزیر کو بلا کر گرفتار کر لیا گیا جس نے اس قانون کے غلط استعمال کے بارے میں اہم سوالات اٹھا دیئے ہیں ۔

ایساپہلی بار نہیں ہوا

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں ۔ ماضی میں فوجی ڈکٹیٹروں کے ساتھ ساتھ سول حکومتوں نے بھی ایسی عدالتوں کا سہار الیا تھا۔مثال کے طور پر 1970ء میں ذولفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں فوجی عدالتیں قائم کیں ۔اسی طرح 1999 ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے سندھ میں گورنر راج کا نفاذ کرتے ہوئے ایسی ہی عدالتوں کا مطالبہ کیا ۔باوجود اس کے کہ اس طرح کے کیس انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں چلائے جا سکتے تھے جو کہ دو سال قبل ہی 1997میں قائم کی گئی تھیں ۔تاہم یہ دونوں خصوصی عدالتیں جو کہ بھٹو اور نواز شریف دور حکومت میں قائم کی گئی تھیں انھیں اعلٰی عدالتوں میں چیلنج کر دیا گیا ۔بھٹو کی قائم کردہ عدالتوں کو لاہور اور سندھ ہائی کورٹ میں درویش ایم عربی بمقابلہ فیڈریشن 1980لاہوراور نیاز احمد خان بمقابلہ سندھ کراچی1997کے نام سے چیلنج کیا گیا تھا ۔اعلٰی عدالتوں نے فوری عدالتوں کے قیام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سول حکام اور سیکورٹی فورسز کسی صورت آئینی حدودسے ماورا اقدام نہیں اٹھا سکتیں ۔یہی حال نواز شریف کی قائم کردہ عدالتوں کا ہوا ۔سپریم کورٹ نے چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں شاہ لیاقت حسین بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان1999 ء فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دے دیااور کہا کہ ان کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے اور ملک میں ایک متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ انتظامیہ کو کوئی ایسا عدالتی نظام بنانے کی اجازت نہیں ہے جس میں اعلٰی عدالتوں کے کام میں مداخلت ہوتی ہو ۔

اس بار بھی یہی ہو ا کہ فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت کو لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن نے چیلنج کیا اور اس کی وجوہات بھی وہی تھیں جو کہ ماضی میں تھیں ۔تاہم اس بار سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم کو برقرار رکھتے ہوئے ملزم کو اپنی سزا سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اختیار دے دیا ۔

منفی پیش رفت

خصوصی عدالتوں کے قیام سے ملک میں جمہوریت کے فروغ پر منفی اثر پڑا ہے کیونکہ ان عدالتوں کو قائم کرتے وقت اختیارات کی تقسیم سے متعلق آئینی شرائط و ضوابط کا پاس نہیں رکھا گیا۔ فوجیوں کے بطور منصف تقرر سے عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین تفریق دھندلا گئی ہے ۔خصوصی عدالتوں کے قیام سے بہت سے انسانی حقوق پر زد پڑی ہے جن کی آئین کے آرٹیکل 4میں ضمانت دی گئی ہے کہ جس میں ہر ایک کو آزادی اور جائیداد کا حق دیا گیا ہے ۔آرٹیکل 9جو کہ تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ، آرٹیکل 10جو آزادانہ اور منصفانہ سماعت کا حق دیتا ہے اور آرٹیکل 14جو کہ عزت نفس کی ضمانت دیتا ہے ۔فوجی عدالتیں ان سب حقوق کو سلب کر لیتی ہیں ۔ ان فوری عدالتوں کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ یہ وقت کی ضرورت ہیں اور یہ کہ سولین عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں ناکام ثابت ہوا ہے ۔دہشت گردوں کے خلاف عدالتوں میں نہ کوئی گوہی دینے پر تیار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی جج ایسے کیس سن کر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہے ۔اسی کو جواز بناتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کا جواز بنایا گیا تھا ۔مثال کے طور پر کریمینل کوڈ پروسیجر1898ء کے تحت ملزم کو اس کے جرم کی تفصیلات اور شواہد، اس پر جرح کرنے سے سات روز پہلے دیئے جانے لازمی ہیں ۔مگر فوجی عدالتوں میں اس بات کا خیال رکھا نہیں گیا ۔جہاں ایک ملزم کو پہلے ہی دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے ۔اور اس کو سزا دلانے میں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاتا ۔کسی بھی صورت میں محض اس لئے سولین جج کے مقابلے پر فوجی جج لگا دیا جائے کہ وہ بہادر ہے اور اسے کوئی خطرہ نہیں ، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ پھر تحقیق یا استغاثہ اس ساری صورتحال میں کیا ہو گا جب دونوں کو ہی دھمکیوں کا سامنا ہو گا ؟جب تک مکمل اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو صرف فوجی عدالتوں کے قیام سے کوئی توقع رکھنا قرین قیاس نہیں ہو گا ۔

خصوصی فوجی عدالتوں کے ذریعے ملزموں پر جرح کرنے یا انھیں سر عام پھانسیاں دینا اس وقت تک مسئلے کا حل نہیں ہے جب تک عسکریت پسندوں کی ذہن سازی کاعمل جاری رہتا ہے ۔ سزائے موت پر عمل در آمد کے بعد سب سے پہلے ارشد محمود کو پھانسی دی گئی اس کے کیس کو مثال کے طور پر سامنے رکھنا چاہئے ۔اس کے آبائی گاؤں میں اس کے نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔اور اب محض فوجی عدالتوں کے قیام سے یہ امید رکھی جائے کہ صرف ڈر اور خوف سے اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے درست معلوم نہیں ہوتا ۔فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد مسئلے کو جلد حل کرنا ہے ۔تاہم جلد کا مطلب فوری نہیں ہے۔ا س بات کا بھی تقابل کیا جانا چاہئے کہ امریکہ نے تشدد کے ذریعے کون سے راز اگلوا لئے ۔خالد شیخ محمد کو جب غوطے دیئے گئے تواس نے منٹوں میں اپنا جرم تسلیم کر لیا ،مگر کیا اس تیکنیک سے انسدادِ دہشت گردی میں کوئی سنگ میل حاصل کیا جا سکا ۔

طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت

گزشتہ کئی سالوں سے جاری دہشت گردی کے خطرے کاسامنا کرنے کے لئے موجودہ جمہوری اور قانونی سیٹ اپ کو چھیڑے بغیرایک مکمل ،بھر پور اور طویل المدتی حکمت عملی درکار ہے۔انسدادِ دہشت گردی عدالتوں کو مزید فعال بنایا جائے ان کی استعدادِ کار بڑھائی جائے۔بالخصوص ملک میں مجرموں کی سرکوبی کے لئے عدالتی نظام میں اصلاحات اور بعض صورتوں میں اس کی تنظیمِ نو کی اشد ضرورت ہے ۔ 19ویں صدی کے فرسودہ طریقے آج کے حالات اور ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے ۔جہاں ایک طرف ہمیں دہشت گردی کے بڑے خطرے کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہ لااُبالی انتظامیہ ہے جو چٹکی بجاتے ہی ان مسائل کا حل چاہتی ہے ۔اسی طرح اعلٰی عدالتوں کے ججوں نے حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کے کیسوں کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پران کی سماعت شروع کر دی ۔خصوصی بنچ بنائے گئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی شریک ہوئے جس میں یہ حکمت عملی اپنائی گئی تھی تاہم فوجی عدالتوں کے قیام نے اس کاوش کو جگہ نہیں بنانے دی اور اسے بے اثر کر دیا ۔

بدقسمتی سے16 دسمبر 2014ء کو گزرے ہوئے کافی وقت ہو چکا ہے مگر ریاست کے کسی عضو نے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے نظام میں جامع اصلاحات متعارف نہیں کروائیں ،وہ نظام جو اب معنی خیز تنظیمِ نو چاہتا ہے ۔

***

تاریخِ قرآن از ڈاکٹر حمید اللہ

قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحٰق کی کتاب المغازی میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ضائع ہو گئی تھی لیکن اس کے بعض ٹکڑے حال ہی میں ملے ہیں اور حکومت مراکش نے ان کو شائع بھی کیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سطر کی ایک بہت دلچسپ روایت ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی میں معلوم نہیں کس بناء پر یا سہواً چھوڑ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: ‘‘جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئی عبارت نازل ہوتی تو آپ سب سے پہلے اس مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے’’۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ہم واقعہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کی تعلیم سے بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے۔ یہ قدیم ترین اشارہ ہے جو قرآن مجید کی تبلیغ کے متعلق ملتا ہے۔