ماروی سرمد سول سوسائٹی کی ایک سرگرم کارکن ہیں جو پاکستان میں انسانی حقوق،شدت پسندی اور سول ملٹری تعلقات اورحکومتی کار گزاریوں پر اخبارات و جرائد میں
باقاعدگی سے کالم بھی لکھتی ہیں ۔انھوں نے اپنے اس مضمون میں نیشنل ایکشن پلان کے ایک اہم نقطے پر روشنی ڈالتے ہوئے اس باریک لائن کی بھی نشاندہی کی ہے جو نفرت
انگیز بیانئے اور آزادی اظہار کے درمیان موجود ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شر اگیز تقریروں کے خلاف ابھی تک جو کچھ کیا ہے اس کا پوسٹ مارٹم بھی ان کے اس
مضمون میں نظر آئے گا ۔(مدیر)
سانحہ پشاور کے بعد اعلان کئے جانے والے22 نکاتی نیشنل ایکشن پلان میں انسداد دہشت گردی کے تقریباً سبھی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جن میں تشدد، انتہا پسندی
اور شدت پسندی شامل ہیں ۔مگر آج کل جو خبریں گردش میں ہیں وہ مختصر مدتی اہداف سے متعلق ہیں جن میں خصوصی عدالتیں اور فوجی آپریشن شامل ہیں ۔مثال کے طور پر جب
ہم حکومتی اقدامات دیکھتے ہیں تو انتہا پسندی اور شدت پسندی جو کہ مسئلہ کی جڑ ہیں ان پر کسی کی توجہ نہیں۔زیر نظر مضمون نیشنل ایکشن پلان کے پانچویں نقطے کا
احاطہ کرتا ہے جس میں شر انگیز تقریروں اور انتہا پسندانہ مواد کے خلاف حکمت عملی وضع کی گئی تھی ۔
شر انگیزی سے نفرت
شر انگیز تقریر سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ تقریر جو کسی فرد یا گروہ کو اس کی جنس، نسل،علاقہ،مذہب، قومیت،معذوری یا اس کے جنسی رجحان کی بنیاد پر نشانہ بناتی ہو
۔شر انگیز تقریریں کرنے والے معاشرے اور ریاست کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں ۔گزشتہ صدی کو نسل کشی کے کئی واقعات نے داغدار کیا ۔مثال کے طور پر ہولو
کاسٹ بھی ایسی ہی شر انگیزی کا شاخسانہ تھا ۔کئی دوسرے عوامل کے ساتھ عالمی دہشت گردی کی وبا ء کے پیچھے بھی شرانگیز تقریریں ہیں جنھوں نے آگے چل کرانتہا پسندی
کو جنم دیا۔کئی مطالعاتی جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 9/11کے بعد شر انگیز تقریروں سے نفرت انگیز جرائم نے جنم لیا جس سے دہشت گردی کو ہوا ملی ۔
پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوا جہاں دائیں بازو کی قوتوں نے تشدد کو ابھارا اور اقلیتوں پر زمین تنگ کر دی ۔پاکستان جیسے ملکوں کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ
دہشت گردانہ فکر و فلسفہ کو پنپنے نہ دے۔ اور یہ صرف اسی صورت ہو سکتا ہے جب اس سرچشمہ کو توڑا جائے جہاں سے نفرت انگیزی کے شرارے پھوٹ رہے ہیں ۔نیشنل ایکشن
پلان کے پانچویں نقطے نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ اس ہدف کو کیسے حاصل کیا جائے ۔
موجودہ طریقہ
اگرچہ نفرت انگیز تقریر کی کوئی حتمی وضاحت، کسی عالمی دستاویز میں بھی نہیں ہے تاہم ایسے اشارے دیئے گئے ہیں جن کی بنیاد پر کوئی بھی تقریر اس زمرے میں آ سکتی
ہے اس کی حدود و قیود واضح کر دی گئی ہیں۔ Prevention and Punishment of the Crime of Genocide میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام اقدامات جن سے براہ راست نسل کشی ہو یا
س کے لئے اشتعا ل دلایا جائے ۔اسی طرح Elimination of All Forms of Racial Discrimination (ICERD) میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہر اس عمل کو جرم قرار دے جس کے تحت
وہ تما م خیالات جن کی ترویج یا تبلیغ سے کسی نسلی برتری، نسلی منافرت یا پھر نسلی امتیاز کو ہوا ملتی ہے پر پابندی عائد کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دوسرا قابل
ذکر عالمی معاہدہ International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR) ہے جو ریاستوں پر زور دیتا ہے کہ وہ قومی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر عوام میں
امتیازی تفریق ڈالنے والوں کا قلع قمع کرے،اس بنیاد پر لڑائی یا تشدد کی ممانعت قرار دی گئی ہے۔ 2009ء میں ICCPR پر دستخظ کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں یہ بحث شروع
ہوئی کہ پاکستان کے قوانین کو ICCPRکے مطابق کیسے بنایا جائے ۔جس سے ظاہر ہو اکہ پاکستان پینل کوڈ ان سب کا مکمل احاطہ کرتا ہے جو اشتعال انگیز تقریر کے زمرے
میں آتے ہیں ۔مثال کے طور پر سیکشن 153-Aکے تحت وہ سب کچھ جرم قرار پائے گا جس کے تحت اگر کوئی شخص اپنے زبان و بیان سے یا کسی حرکت سے عدم برداشت، دشمنی، مختلف
مذاہب، نسلوں، کے درمیان نفرت کو ہوا دے یا ان کی جائے عبادت کو، رہائش کو،کمیونٹی کو زبان یا کسی بھی دوسرے طریقے سے نقصان پہنچائے ۔اسی طرح سیکشن 153-A (B)کے
تحت ان سب کو سزا ہو سکتی ہے جو کسی بھی فرد کو کسی دوسرے کے خلاف اس کے مذہب، فرقے، نسل، زبان، یا علاقے کی بنیاد پر منافرت پر ابھارے ۔چاہے اس کی وجہ جو بھی
ہو اگر اس سے عوام کی جان و مال کو خطرہ ہے تو وہ قابل دست در اندازی پولیس جرم تصور کیا جائے گا ۔ان قوانین کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ لیگل فریم
ورک میں رہتے ہوئے ریاست کو اس خباثت سے نمٹنے کے لئے کافی مدد مل سکتی ہے ۔مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نفرت انگیز تقریروں کا
تعین کرنے اور ان کے مرتکب افراد کو سزا دلانے کے لئے ضروری تربیت اور وسائل فراہم کئے جائیں ۔اور اس بنیاد پر جو کار گزاری ہو اس سے عوام کا آگاہ کیا جائے تاکہ
عوامی سطح پر احتساب کا عمل جاری ہو سکے ۔
حد وا ضح کی جائے
انسانی حقوق کے تناظر میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شر انگیز تقریر کے خلاف کوئی سکہ بند قانون بنایا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کی آڑ لے کر ریاست شہریوں کے
حقِ آزادی اظہارِ رائے کو بھی سلب کر لے ۔پاکستان کے مخصوص تناظر میں جہاں ایک طرف جمہوریت پا بند سلاسل رہی تودوسری جانب جمہوری حکمرانوں نے بھی عوام کو اس کے
آزادیِ اظہار رائے کے حق سے محروم رکھا ۔انسانی حقوق کے وکلاء اور سول سوسائٹی نے سول ملٹری گٹھ جوڑ پر آواز اٹھائی ہے جہاں ریاست ہر مسئلے کو غداری اور کفر کے
آئینے میں دیکھتی ہے ۔اس پس منظر میں اگر نفرت انگیز تقریر کے بارے میں کوئی سخت قانون روشناس کرایا گیا تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ حکمرانوں کے خلاف کی جانے
والی تنقید بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے محافظ اس مسئلے پر قوانین میں نرمی چاہتے ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی کے ماہرین اس
مسئلے کے خلاف سخت قوانین کے آرزو مند ہیں ۔جبکہ مفکرین آزادی اظہار کے داعی ہیں کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔غالب اکثریت کا خیال ہے کہ اگر آپ کسی نقطے پر
آ کر کسی فرد یا کمیونٹی کے تحفظ کے لئے آزادی اظہار پر قدغن لگائیں گے تو یہ پابندی ان کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے ۔
پاکستان میں آزادی اظہار کے مقابلے میں نفرت انگیز اظہار کی بحث کچھ متضاد قوانین سے پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ جب بھی کوئی متاثرہ فریق عدالت جاتا ہے تو وہاں ایک
قانون اس کی مدد کرتا ہے اور دوسرا اس کی مخالفت ۔مثال کے طور پر بعض اوقات جب بھی کوئی تقریر دو گروہوں کے مابین منافرت کو ہوا دیتی ہے اور وہ عمل جس سے مذہبی
شعائر کی اہانت ہوتی ہے دونوں ہی ایک قطار میں نظر آتے ہیں ۔لیکن دوسرے معاملات میں یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔چند مذہبی رہنماؤں کی تقاریر اور خطابات دوسرے مذہبی
فرقے مثلا احمدیو ں کے خلاف 153-Aکے تحت فرقہ وارارنہ بنیاد پر منافرت نہیں پھیلائی جا سکتی مگر اس کے ساتھ ہی اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ سیکشن 298کے تحت بچ
جاتا ہے کیونکہ یہ دفعہ مذہبی شعائر کی توہین پر لاگو ہوتی ہے اور احمدی اس کا نشانہ بنتے ہیں ۔
مزید برآں پاکستان میں مذہب، فرقے، نسل،سیاسی نظریات اور سماجی مرتبے کے لحاظ سے معاشرہ تقسیم کا شکار ہے جس میں نفرت آمیز تقریروں اور انتہا پسندانہ مواد نے
اہم کردار ادا کیا ہے ۔جس کی بنیاد پر حالات دگرگوں ہو رہے ہیں اور ان طبقات کو نفرت سے بھرے پیادے وافر تعداد میں میسر آ رہے ہیں جو حالات کو پہلے انتہا پسندی
اور پھر اور بعض صورتوں میں دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں۔ان حالات میں نفرت انگیز تقریروں کا قلع قمع آسان نہیں ہے اور شاید عملی طور پر ممکن بھی نہیں ۔اگر آ پ
اس کے پس منظر میں جائیں گے تو معاملہ مزید الجھتا چلا جائے گا ۔لیکن حکومت کے لئے تکثیریت کے بنیادی اصولوں پر عمل کرانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔سیکولر سوچ کا
سہارا لئے بغیر جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کر کے اور ایک دوسرے کی آ زادیوں کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے ۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت لائحہ عمل کیا ہے؟
نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے دو دن بعد 26دسمبر2014ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے نیشنل ایکشن پلان کے مختلف نکات پر عمل درآمد کے لئے کمیٹیاں بنائیں ۔اسی روز
وزیر داخلہ کی قیادت میں شر انگیز تقریروں اور منافرت پر مبنی مواد کے خلاف بھی ایک کمیٹی کا اعلان کیا گیا ۔اس کمیٹی کے دیگر ممبران میں وزیر مذہبی امور، وزیر
منصوبندی و ترقی، وزیر اطلاعات و نشریات،ڈی جی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ایم ڈی پی ٹی وی، تمام صوبائی ہوم سیکرٹریز، اوقاف کے صوبائی سیکرٹریزنیکٹا کے قومی کو
آرڈینیٹر اور سیکرٹری داخلہ شامل ہیں ۔اس کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ تین دن کے اندر اپنی سفارشات مرتب کرے ۔یہ ڈیڈ لائن 29دسمبر 2014ء بنتی تھی مگر ایسا نہیں
ہو سکا ۔پھر کہا گیا کہ کمیٹی 15جنوری2015ء تک ایک مکمل حکمت عملی مرتب کرے گی مگر اس بار بھی وزارت داخلہ معینہ وقت میں کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ اور
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پر کوئی پیش رفت ہوئی بھی یا نہیں ۔
حکمتِ عملی
حکومت کی منافرت پر مبنی تقاریر اور مواد کے خلاف کارگزاری دیکھنی ہو تو وزارتَ داخلہ کی وہ رپورٹیں دیکھی جا سکتی ہیں جو وہ وقتاً فوقتاً وزیر اعظم کو بھیجتی
رہتی ہے ۔اس حکمت عملی کی دو جہتیں ہیں ۔ایک یہ کہ نظام کوفعال بنایا جائے تاکہ وہ شر انگیز مواد کی تشہیر پر نظر رکھ سکے ۔ حکومتی اہلکاروں کے مطابق کئی خطیب
منافرت پر مبنی تقریریں کرنے پر گرفتار ہوئے اور وہ دکانیں جہاں ان کی کتابیں یا سی ڈیز بک رہی تھیں انھیں ضبط کر کے بند کر دیا گیا ۔مثال کے طور پر حکومتی
اعداد و شمار کے مطابق وسط جنوری تک251افراد گرفتار ہوئے تھے جن کی تعداد جولائی کے آخر میں بڑھ کر 1799تک جا پہنچی ۔اعداد و شمار میں مبالغہ آ میزی ہو سکتی ہے
۔کیونکہ فرقہ وارانہ وعظ کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا اور عام مولویوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔زیادہ تر گرفتاریاں 1965ء کے اس قانون کے تحت ہوئی ہیں جس میں
لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی حد بندی کی گئی ہے ۔جس کی پابندی انتظامیہ کی جانب سے کرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق جنوری میں 1100لوگ لاؤڈ سپیکر کے
استعمال پر گرفتار ہوئے ۔اس میں سارے نفرت انگیزی پھلانے پر نہیں بلکہ لاؤڈ سپیکراستعمال کرنے کی وجہ سے پکڑے گئے۔ مثال کے طور اسلام آباد میں حالیہ دنوں میں
انسانی حقوق کے کئی کارکنوں کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ لاؤڈ سپیکر پر آئی الیون کی کچی بستی گرائے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ۔مصنف کے ساتھ ایک
انٹرویو میں حکمران جماعت کے ایم این اے شیخ وقاص اکرم جو اپنے حلقہ انتخاب جھنگ میں فرقہ وارایت کے خلاف ہراول دستے میں کھڑے ہیں انھوں نے اس کے دیگرپہلوؤں کی
جانب بھی اشارہ کیااور کہا کہ شیعہ اور بریلوی علماء لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر زیادہ تعداد میں گرفتار ہوئے ۔کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ان پر
ہاتھ ڈالنا آسان ہے بجائے اس کے کہ وہ تکفیریوں پر ہاتھ ڈالیں جو کہ دوسرے فرقوں اور مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے میں بنیادی کردار رکھتے ہیں ۔وقاص اکرم نے کہا
کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوشش کی کہ وہ کچھ گرفتاریاں دیو بندی مکتب فکر کے لوگوں کی بھی کریں تاکہ توازن کا احساس ہو اور یہ بتایا جائے کہ حکومت سب
کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہی ہے ۔مگر یہ گرفتاریاں ان دیو بندیوں کی ہوئیں جن کو ان کے اپنے فرقے کے ہی سخت گیرلوگوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا تھا۔
انفارمیشن ہائی وے کے اس دور میں نفرت انگیز تقریروں اور مواد کا قلع قمع کرنے کے لئے مؤثر اور دوررس اقدامات تجویز نہیں کئے گئے ۔اور نہ ہی کوئی ایسا پلیٹ فار
م موجود ہے جہاں پر لوگ ایسے مواد کی نشاندہی کر کے اسے بلاک کروا سکیں ۔حکومت اس مسئلے کے ازالے پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے ۔اوراس مقصدکے لئے سائبر کرائم کے
خلاف ایک متنازعہ قانون بھی روشنا س کروا رہی ہے جس کی اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے ۔حکومت نفرت کے ان سوداگروں کے
خلاف کوئی مضبوط مؤقف نہیں اختیار کر سکی ۔کچھ مخصوص مساجد سے مخصوص مذہبی ایام کے دوران نفرت انگیز تقاریر کی روش جوبن پر پہنچ جاتی ہے ۔جمعہ بھی ان میں سے ایک
ہے جہاں خطبوں کا اہم موضوع تفرقہ بازی ہوتا ہے ۔مگر ریاست اس پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ان کو اپنی نفرتیں پھلانے میں آزادی ملی ہوئی ہے ۔
مجموعی طور پر نیشنل ایکشن پلان کی جانچ پڑتال پارلیمنٹ اور شہریوں کی جانب سے ہونی چاہئے کہ اس پر کیا پیش رفت ہوئی ہے ۔
بھر پور مہم کی ضرورت
نفرت انگیز تقاریر کے خاتمے کے لئے حکومت کی روایتی حکمت عملی تویہ ہے کہ اس کی مکمل ممانعت کر دی جائے۔ نہ کوئی شر انگیز تقریر کرے نہ اس پر بحث کرے نہ ہی ایسا
مواد پھیلائے۔ اگر ایسا ہو گیا تواس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی کیونکہ اس طریقے سے آزادی اظہار پر قد غن لگ جائے گا۔کچھ ناقدین نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے
کہ حکومت اس طریقے سے شہریوں کے اس بنیادی حق کو سلب کرنے کا ماحول بنا رہی ہے ۔اگر ایسا ہوا تو شہریوں کے نزدیک حکومت کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ مخالفین کی آواز
کو دبانا ان معاشروں کے لئے اور زیادہ پُر خطر ہوتا ہے جو پہلے ہی شدت پسندی اور نفرت کا شکار ہوں ۔نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لئے یہ جواز کار آمد نہیں ہو
گا۔
دوسرا طریقہ کار غیر روایتی ہو گا کہ نفرت انگیز تقریریں سننے والوں تک رسائی اختیار کی جائے اور انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ ایسا نہ کریں ۔اس طریقہ کار کے
تحت حکومت نفرت انگیز مواد کے خلاف ایک بھر پور مہم چلائے۔ ویسی ہی مہم جیسی کہ پولیو کے خاتمے کے لئے چلائی جاتی ہے ۔اگر لوگوں کو باور کرایا جائے کہ آپ کے ارد
گرد بھی پولیو جیسا خطرناک وائرس پنپ رہا ہے تو لوگ اس سے آگاہ ہو جائیں گے ۔ایک موئثر حکمتِ عملی تو شاید وہ ہو جس میں ان دونوں طریقوں کو ملا کر کوئی طریقہ
بنایا جائے۔اور لوگوں کے بنیادی حقوق کو چھیڑے بغیر جس کی ضمانت آئینِ پاکستان انھیں دیتا ہے کوئی طریقہ وضع کیا جائے ۔اس حکمتِ عملی کے تحت علماء کے خطبات اور
تقریروں کے ساتھ ساتھ مدرسوں کے نصاب کے لئے بھی کوئی ضابطہ کار بنایا جائے ۔اگرچہ یہ سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہے کہ ریاست مذہبی معاملات میں مداخلت کرے۔
تاہم پھر بھی وہ غیر جانبداری سے فرقوں کے مابین اور بین المذاہب نفرت انگیز تقریروں پر نظر رکھے ۔کوئی سخت ضابطہ ہی سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے مخالفین کے
خلاف ہرزہ سرائی سے روک سکتا ہے ۔اس طرح سے مختلف پلیٹ فارمز سے کام کرتے ہوئے کسی بھی مذہب، فرقے،نسل،قومیت یا عورتوں کے خلاف متعصبانہ خیالات کی کسی بھی صورت
اجازت نہ دی جائے۔ معاشرے کے اندر نفرت انگیزی کو روکنے کے لئے تین طرح کے اقدامات کرنے ہوں گے ۔
نمبر (۱)تعلیمی نظام میں اصلاحات لاتے ہوئے طلباء کے اندر ناقدانہ اور شکوک و شبہات سے مبرا سوچ پروان چڑھائی جائے ۔
نمبر(2)طلباء کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ مظلوم طبقوں سے ہمدردی پیدا کریں تکثیریت پر مبنی سوچ کو پروان چڑھائیں۔
نمبر (3) لوگوں حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ مجموعی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں اوراختلافِ رائے کے حق کو پہچانیں۔
اس پروگرام کے تحت تمام تعلیمی مدارج کے اساتذہ کوبا لخصوص پرائمری اور مدارس کی سطح پر پڑھانے والوں کو عدم بنیاد پرستانہ اور نفرت انگیز مواد کے خلاف مہم کا
حصہ بنایا جائے ۔مزید یہ کہ وسیع پیمانے پر مزید پروگرام بھی چلائے جائیں ۔جیسا کہ فلم،ریڈیو، سوشل میڈیا، اخبارات و جرائد اور میڈیا کے دوسرے ذریعوں سے بھی مدد
لی جاسکتی ہے ۔تاکہ لوگوں میں شعور اجاگر ہو کہ وہ کیسے نفرت اور شر انگیزی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ۔اس طرح عمومی سکولوں کے نصاب پر بھی نظر
ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب کو معاشرے کی روشن خیال اور ترقی پسند قیادت کے مشوروں سے از سر نو مرتب کیا جائے۔ ریاست کو بھی انتہا پسندانہ نظریات کی ترویج نہیں
کرنی چاہئے ۔متعصبانہ نظریات اور تقریریں ریاست کی حد تک بھی ختم ہونی چاہئیں ۔وگرنہ کوئی مختصر المدتی مقصد تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن مستقبل کو دیکھا جائے
تو یہ ریاست کے لئے زہر قاتل ہی ہے ۔
***
چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس
جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔ جن جن ملکوں میں چین سیبراہ راست گئی مثلاً روس، ترکستان، ایران۔ وہاں کبھی بھی کسی کو یہ خیال نہیں گزرا۔
مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی، انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا
رواج انہی کے ذریعے ہوا اس لیے یہ بدعتِ سیۂ یہاں بھی پھیل گئی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔
بنیاد ظلم در جہاں اندک بود۔ ہر کہ آمد براں مزید کرد۔ اب انگریز تو یہ کہہ کر الگ ہو گئے کہ زیادہ دودھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن ان کے تخمِ فساد نے جو برگ و بار
پھیلا دیے ہیں، انہیں کون چھانٹ سکتا ہے؟ لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں۔ کھانے کی جگہ پیتے ہیں، اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان
نادانوں سے کون کہے کہ: ہائے کمبخت، تو نے پی ہی نہیں