مسلمانوں کوتشبہ کا مسئلہ دور اوّل سے ہی درپیش رہا ہے ،یعنی کن امور میں وہ غیر مسلموں کی تقلید کر سکتے ہیں اور کن میں نہیں،غیر مسلموں کے ساتھ روابط کی نوعیت
کیا ہونی چاہئے ۔ ویسے تو ہر دور میں علماء اور فقہا نے اس کی اپنی توجیح پیش کی ہے تاہم موجودہ دور میں ایک بار پھر یہ موضوع اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔اس موضوع
کے تمام حوالوں کا جائزہ ڈاکٹر خالد مسعود نے زیر نظر مضمون میں لیا ہے ۔ڈاکٹر خالد مسعودکا شمار دنیائے اسلام کے صفِ اوّل کے دانشوروں میں ہوتا ہے ۔کئی کتابوں
کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئرمین بھی رہے ۔ادارہ تجزیات کے لئے یہ امر باعثِ فخر و مباہات ہے کہ اسے ڈاکٹر صاحب کی مشاورت اور قلمی
تعاون حاصل ہے ۔جس کے ذریعے ہم اہلِ علم و فکر کی آبیاری میں مصروف ہیں ۔(مدیر)
اسلامی معاشرہ ابتداء ہی سے مختلف ثقافتوں سے مزین تھا۔ اس زمانے کا حجاز بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر واقع تھا ، جو شام کے ذریعے روم اور بازنطین سے ا ور یمن
کے ذریعے ایک جانب حبشہ اور ہند سے اور دوسری جانب فارس سے جڑا ہوا تھا۔ مدینہ منورہ میں جہاں یہودی آباد تھے اور جن کے مذہب اور ثقافت سے بنواوس بھی متاثر تھے
وہاں صحابہ کرامؓ میں ایسے لوگ موجود تھے ، جن کا تعلق حبشہ ، فارس اور روم سے تھا۔ ہجرت مدینہ سے پہلے صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی
اور ان کے ذریعے بھی وہاں کی ثقافت کے اثرات مدنی معاشرت میں آئے ۔ تاہم عرب و عجم کی جو تفریق قبل از اسلام جاہلی معاشرے میں بہت شدت سے موجود تھی ، اسے دور
کرنے میں بہت عرصہ لگا ۔ مدنی دور میں عرب زمانہ جاہلیت کے بہت سے تعصبات کو جو زبان اور نسب کی بناء پر تشخص پر اصرار کرتے تھے ، ختم کرتے ہوئے اسلام نے اس بات
پر زور دیا کہ زبان اور نسب پہچان کے لئے ہیں ۔ ان کی بنیاد پر کسی کو برتر قرار نہیں دیاجاسکتا ۔ برتری کا معیار انسانیت اورتقویٰ ہیں۔ زبان اور نسب دینی تشخص
کی بنیاد بھی نہیں۔
اسلام بطور دین تمام ادیان کو ہدایت کے ایسے سلسلے کی مختلف کڑیاں قرار دیتا تھا ، جو اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور نبیوں کے ذریعے ظہور میںآتی تھیں ۔ یہود اور
نصاریٰ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ ان کی حیثیت اہل کتاب کی تھی ۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کے یہود کی بہت سی عادات اور روایات کی تائید کی ۔ حتیٰ کہ آپ ؐ
نے ان صحابہؓ کو جو قبول اسلام سے پہلے یہودی اور نصرانی روایات کے عالم تھے، اجازت دی کہ وہ تورات اور انجیل کی تلاوت جاری رکھیں ۔ ابن سعد زہری (م ۲۳۰ھ) کی
روایت کے مطابق ایک صحابی ابوالجلد جیلان بن فروہ رضی اللہ تعالی عنہ تورات کی تلاوت مکمل کرتے تو اس تقریب میں دوسرے صحابہ بھی شریک ہوتے ۔ (1) البتہ نبی اکرم
ﷺ نے ان کی ایسی روایات اور عادات کو جو غیر مسلموں کے مخصوص دینی تشخص کی علامت ہیں ۔ اختیار کرنے سے منع کیا اور اسے ’’ تشبہ‘‘ کے لفظ سے یاد کیا ۔ احادیث میں
تشبہ کی کی ممانعت اسی مفہوم میں ہے ۔ فقہاء نے انہی احادث کی بنیاد پر ’’ التشبہ بالکفار‘‘ یعنی کفار سے مشابہت کے مسائل ترتیب دئیے ۔ ان فقہی مباحث کے مطالعے
سے پتہ چلتا ہے کہ فقہا دینی اور ثقافتی شناختوں میں امتیاز کے قائل تھے۔ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں جوں جوں اسلامی معاشرے پر غیروں کی یلغار بڑھی ، کفار
سے مشابہت کا مسئلہ اہمیت اختیار کرتا گیا ۔ تاہم مختلف ادوار میں ثقافتی اور تاریخی سیاق کے اختلاف کی وجہ سے تشبہ کے معانی میں بھی توسیع ہوتی گئی۔
حالیہ ادوار میںیورپی استعمار ، قومیت کی تحریکوں اور مغربی ثقافت سے تصادم کے حوالے سے بھی یہ مسئلہ بار بار زیر بحث آیا ۔ آج کل مسلم تشخص کی بحث میں ایک
مرتبہ پھر کفار سے مشابہت کا حوالہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اب اسلامی تشخص کو مغربیت کے تناطرمیں دیکھا جا رہاہے اور مغربیت کو عیسائیت اور یہودیت کے پس
منظر میں ۔ اسی تناظر کی وجہ سے بعض مصنفین مبالغے کی حد تک تشبہ کے مفہوم کو وسعت دے رہے ہیں ۔ تاہم چوکہ حدیث اور فقہ میں بنیادی طوپر تشبہ کے لیے دینی اور
ثقافتی پہلوؤں میں فرق موجود ہے ۔ اس لیے اس تمام تر مبالغے کے باوجود اس امتیاز کو نظر انداز کرنا مشکل ہے ۔ اس مختصر مضمون میں ہم اس مسئلے کا تاریخی جائزہ
پیش کررہے ہیں۔ جس سے یہ امتیاز نمایاں ہوجائے گا۔
کفار سے مشابہت کی گفتگو میں اکثر مصنفین کا بنیادی ماخذ سنن ابو داؤد کی مندرجہ ذہل روایت ہے ۔ من تشبہ بقرم فھو منھم(2) (جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ
انہی میں سے ہو گیا۔)
تمام فتاویٰ اور فقہی اور ثقافتی رسائل میں کفار سے مشابہت کی بحث کا آغاز اسی حدیث سے ہوتاہے ۔ تاہم ابو داؤدؒ کی اس روایت کے حوالے سے علماء نے بہت سے سوالات
بھی اٹھائے ہیں۔ مثلاً تشبہ کاصحیح مفہوم کیا ہے ؟کیا حدیث میں اس کی ممانعت کا حکم عام معنوں میں ہے ؟ قوم سے کیا مراد ہے ؟ عام معنوں میں تشبہ سے ممانعت کی
نوعیت کیا ہے ؟ یہی روایت اما م ابو داؤدؒ سے پہلے مسند امام احمد بن جنبل ؒ میں آچکی ہے ۔ اس روایت سے ملا کر دیکھا جائے تو ان سوالات کا کافی حد تک جواب مل
جاتا ہے ۔ مسند ابن حنبل کی روایت سنن ابو داؤد کے مقابلے میں زیادہ مفصل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنن کی عبارت مسجد کی روایت کا حصہ ہے ۔ مسند میں یہ روایت
اس طرح بیان ہوئی ہے ۔
بعثت بالسیف بین یدی الساعتہ حتی یعبداللہ وحدہ لاشریک لہ، وجعل رزقی تحت ظل رمحی ، وجعل الذلتہ والصعفار علی من خالف امری ، ومن تشبہ بقوم فھو منھم (3)
(میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں تاکہ صرف خدا کی عبادت ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔ میرارزق میرے نیزے کے سائے میں رکھا گیاہے۔
جو لوگ میرے حکم کی مخالفت کریں گے ان کے لیے ذلت اور پستی لکھ دی گئی ہے اور جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں شمار کیاجائے گا۔)
سنن ابو داؤد اور مسند احمد بن حنبل دونوں میں یہ الفاظ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہیں۔ ان سے بھی ہماری رائے کو تقویت ملتی ہے کہ دونوں ایک ہی روایت کا حصہ
ہیں ، جو مسند احمد میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے اور سن ابو داؤد میں اس کا صرف ایک جملہ روایت ہوا ہے ۔ امام ابن حنبل ؒ کی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ مشابہت کا
معیار نبی ﷺ کا حکم ہے ۔ بالفاظ دیگر مشابہت کا دائرہ دینی امور پر محیط ہے ۔ روز مرہ کی عادات و اطوارپر نہیں۔ زمانی طور پر امام احمد بن حنبل (م ۲۴۱ھ) اور ان
کی مسند ابو داؤد (م ۲۷۵ھ) اور ان کی سنن سے مقدم ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ روایت مختلف الفاظ میں امام ترمذی ؒ (م ۲۷۹ھ) اور علامہ طبرانیؒ (م ۲۶۸ھ) نے
بھی روایت کی ہے لیکن امام بخاری ؒ (م ۲۵۷ ھ) ، امام مسلمؒ ؒ (م۲۶۲ ھ) اور امام مالک ؒ (۱۹ھ) نے یہ الفاظ روایت نہیں کئے۔ سنن ابو داؤد میں موجود حدیث چونکہ
جزوی طورپر روایت ہوئی ہے اس لیے مشابہت کا مفہوم بہت وسیع ہو گیا ہے ۔ امام نے خود بھی اس مفہوم کو وسعت دینے کے لیے اس حدیث کو ’’ لیس الشھرۃ‘‘ کے عنوان کے
تحت باب میں درج کیا ہے ۔ اس باب میں درج دوسری احادیث میں عزت و شہرت کے لیے لباس پہننے اور لباس میں دوسرے لوگوں کی نقل کی ممانعت کا ذکر ہے ۔ (4) اس طرح
مشابہت کے مفہوم میں لباس و عادات میں مشابہت بھی شامل ہو گئی ۔ یہاں اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ انسانی معاشروں میں عام طور پر لباس بھی پہچان کا ذریعہ ہوتا ہے،
جس سے کسی علاقے او ر معاشرے کی ثقافت میں کسی شخص کے مرتبے اور جنس کا پتہ چلتا ہے اور بعض اوقات لباس سے مذہبی وابستگی کا بھی اظہار ہوتاہے۔ اس کے برعکس
احادیث کے دوسرے مجموعوں میں تشبہ کی ممانعت عمومی نظر نہیں آتی ۔ جیسے جامع ترمذی کی مندرجہ ذیل روایت میں مشابہت کے دینی اور ثقافتی پہلو میں امتیاز پر روشنی
پڑتی ہے ۔:
’’ لیس منامن تشبہ بغیر نا، لاتشبھوا بالیھود والنصاریٰ، فان تسلیم الیھود بالا صابع و تسلیم النصاریٰ بالاشارۃ بالاکف۔(5)
(جودوسروں سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ۔ یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو ۔ یہود انگلیوں کے اشارے سے سلام کرتے ہیں اور نصاریٰ ہاتھ کی
ہتھیلی کے اشارے سے)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مدینہ منورہ میں یہود ونصاریٰ کے ہاں سلام کے طریقے سے بھی مذہبی شناخت ہوتی تھی ۔ اس روایت سے مشابہت کی ممانعت کا مفہوم اور حکم
دونوں واضح ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایسی مشابہت ممنوع ہے جو دوسرے ادیان کی دینی عادات اور رواج سے تعلق رکھتی ہو ۔
امام ابو داؤد ؒ اور امام ترمذی ؒ کی مندرجہ بالا دونوں روایات کے بارے میں ماہرین حدیث میں اختلاف ہے ۔ بارہویں صدی ہجری تک علماء ان احادیث کو اسناد کے اعتبار
سے کمزور سمجھتے تھے (6)۔ تاہم بعد میں محدثین اور فقہاء کی اکثریت نے تشبہ کے مسئلے پر انہی احادیث پر انحصار کیا ہے۔ یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اگرچہ
احادیث کے الفاظ میں مشابہت کا ذکر دینی تشخص کے محدود مفہوم میں ہے تاہم ان احادیث کی ترتیب اس طرح دی گئی ہے اور ان کو ایسے عنوان کے تحت درج کیا اور ایسے
ابواب میں دوسری احادیث کے ساتھ شامل کیا گیاہے کہ مشابہت کے مفہوم میں دینی تشخص کے ساتھ ثقافت اور رواجات بھی شامل ہو گئے ۔ اس کی وجہ سے تاریخ کے مختلف ادوار
میں جس اسلامی روایت کو فروغ ملا ، اس میں تشبہ بالکفار کا مسئلہ عمومی مفہوم کے ساتھ سامنے آیا۔ اس مختصر مضمون میں اس مسئلے کی تاریخ تفصیل سے توبیان نہیں کی
جا سکتی ،تاہم اختصار کے ساتھ چند اہم مفکرین کے حوالے سے اس پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
امام غزالی ؒ (م۵۰۵ھ)
چھٹی صدی ہجری جب اسلامی معاشرے میں یونانی ، ایرانی اوردوسری ثقافتوں کے زیر اثر مختلف فرقوں کا ظہو رہوا اور کلامی بحثوں میں اسلامی شناخت اور کفر اور تکفیر
کے مسائل اٹھے تو کفار سے مشابہت پر بھی بحث ہوئی۔ امام غزالی ؒ نے اس مسئلہ کا تفصیلی تجزیہ ضروری سمجھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو دینی
حیثیت سے نہیں ، بلکہ معاشرتی اور ثقافتی سوال کے طورپر اٹھایا ۔ اسی لیے انہوں نے اس مسئلے کو اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں کتاب آداب الالفتہ والاخرۃ
والصحبتہ والمعاشرۃ مع اصناف الخلق (لوگوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ محبت ، اخوت ، تعلقات اور معاشرے کے آداب) کے باب میں ذکر کیا اور اس کے نفسیاتی پہلوؤں پر
روشنی ڈالی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ انسان محبت اور انس کی بناء پر دوسرے کی مشابہت اختیار کرتا ہے اور نفرت اور حقارت کی بنیاد پر مشابہت سے گریز کرتا ہے ۔ امام
کے نزدیک یہ محبت اور نفرت دین کے حوالے سے ہے ۔ نفر ت کی وجہ کفراور بدعت ہیں تو ایمان محبت کی ۔ تاہم اگر حالت جنگ نہیں ہے تو عام میل جول میں کسی مسلمان کو
کسی کافر کو نقصان پہنچانے کا کوئی حق نہیں ۔ البتہ غیر مسلموں سے غیر ضروری میل ملاقات اور دوستی سے اجتناب کیا جائے۔ ان سے سلام میں پہل نہ کی جائے ۔ اگر
راستے میں مسلمان اور غیر مسلم کا آمنا سامنا ہوجائے تو غیر مسلم راستے کے کنارے پر چلے ۔(7)
امام غزالی ؒ ، ا س بحث میں امام مسلم ؒ ، امام بخاری ؒ ،ترمذی ؒ اور ابوداؤدؒ کی روایت کردہ چار احادیث کا ذکر کرتے ہیں ، جن میں کفار کو سلام کرنے ، ان کا
احترام کرنے اور ان سے ملاقات کی ممانعت کی گئی ہے ۔ ان میں سے صرف ایک حدیث (ترمذی کی روایت) میں لفظ تشبہ کا ذکر ہے اور وہ بھی اسلام کے اشارے کے حوالے سے (8)
۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اکرمﷺ نے اپنی آمد پر لوگوں کو تعظیماً کھڑے ہونے سے منع کیا کیونکہ اس میں عجم سے مشابہت پائی جاتی ہے ۔ (9)
ہمارے خیال میں یہود ، نصاری ٰ اور عجم کے طور طریقوں کی مشابہت سے ممانت کی یہ احادیث اس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب مدینہ میں اسلامی معاشرت کو غیر مسلموں کے
ساتھ دینی اور ثقافتی تعلقات میں مختلف رویوں کا سامنا کرناپڑا۔ اس ضمن میں یہودِ مدینہ کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ یہود کے اہل کتاب
ہونے کی وجہ سے نبی اکرمﷺ نے ابتداء ہی سے ان کے ساتھ احترام اور دوستی کا تعلق قائم رکھنا چاہا اور ان کی بعض دینی روایات میں مشابہت بھی اختیار کی ا ور ان کے
ایسے رسوم ورواج کی مشابہت سے منع فرمایا ۔ جو خالصتاً ان کا دینی امتیاز تھے۔ (10) البتہ جب یہود نے عناد کا راستہ اختیار کیا اور عام میل ملاقات میں بھی
انتہائی نفرت اور دشمنی کا اظہار کیا تو نبی اکرم ﷺ نے بھی احتیاط کا راستہ اختیار کیا۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ احادیث میں اکثر ذکر آتا ہے کہ یہودی نبی اکرمﷺسے ملتے تو بددعا کے الفاظ دہراتے ۔ سام کے الفاظ سے سلام کہتے ۔ اس کے باوجود نبی اکرمﷺ
نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان کو بدعا سے جوا ب نہ دیں ۔ جب یہود ایسے الفاظ کہیں تو صرف ’’ وعلیکم ‘‘ کہہ کر جواب دیں۔ (11) بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ
ایک مرتبہ یہود کے گروہ نے رسول اللہﷺ کو السام علیک کہہ کر سلام کیا ۔ حضر ت عائشہؓ نے جواب میں کہا موت تم پر ہو اور تم پر لعنت ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے
عائشہؓ اللہ تعالٰی ہر معاملے میں نرمی پسند کرتا ہے (12) ۔ یہود کے اس رویے کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے ۔ وَ اِذَا جَآءُ وکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ
یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَ یَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ لَوْ لَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ (المجادلہ : ۸)
(اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس طرح دعا نہیں د یتے جس طرح اللہ دعا دیتا ہے وہ اپنے دل میں کہتے ہیں کہ جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں
نہیں دیتا۔)
ا س کے برعکس قرآن کریم نے عام اصول کے طورپر حکم دیا :
(جب تم کو کوئی دعا دے تو اس سے بہتر دعا دو ۔ یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ۔)
امام ابن تیمیہ ؒ (م ۷۲۹ ھ)
آٹھویں صدی ہجری میں اسلامی معاشرہ بہت بڑے سیاسی اور سماجی بحران سے گذررہا تھا۔ ساتویں صدی میں منگولوں نے بغداد کی عباسی خلافت کا خاتمہ کردیا تھا۔ آٹھویں
صدی میں ایک جانب ترک اور مملوک مسلمان بادشاہ ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے۔ دوسری جانب مسلم دنیا منگولوں کی تاخت و تاراج کا ہدف بنی ہوئی تھی۔ نصاری طویل صلیبی
جنگوں کا آغاز کر چکے تھے۔ امام ابن تیمیہؒ ایک طرف مسلمانوں کو دشمنوں کے خلاف جہاد کی دعوت دے رہے تھے اور دوسری جانب معاشرے میں موجود تقلیدی رویوں کی
خرابیوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے۔ اپنے افکار کی وجہ سے وہ مملوک سلاطین کے زیر عتاب بھی تھے۔ اور شدید آزمائشوں اور ابتلا سے گزررہے تھے۔ اس شدید
سیاسی اور ثقافتی کشمکش کے دور میں اسلامی شناخت کا مسئلہ بے حد پیچیدہ ہو گیا تھا۔
ابن تیمیہ کو مسلمان معاشرے سے شدید شکایت تھی کہ غیر مسلموں سے مشابہت کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ بہت نرم پڑتا جا رہا تھا۔ انہوں نے اس مسئلہ کی اہمیت کے
پیش نظر اس کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ احادیث میں مسلمان معاشروں کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ مسلمان یہود کے نقش قدم پر چلنے لگیں گے اور تفرقے میں پڑ جائیں
گے۔ (13) امام ابن تیمیہ اس پیشین گوئی کو سورۃ الفاتحہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں جس میں بنی نوع انسان کے تین گروہ بیان ہوئے ہیں۔(1) اول وہ جو صراط مستقیم
اور سیدھے راستے پر چلتے ہیں(2) دوسرے وہ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔(3) تیسرے وہ جو سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔ امام ابن تیمیہ کے نزدیک پہلے گروہ سے مراد
مسلمان ہیں،دوسرے یہود اور تیسرے نصاریٰ ہیں(14) ۔ ابن تیمیہ کے نزدیک یہو دو نصاریٰ دونوں صراط پر مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں گروہ بندی اور
تفرقے کو یہود و نصاریٰ کی مشابہت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی رسائل میں تشبہ کے مسئلے پر بحث کی ہے لیکن ان کا رسالہ افتضاء الصراط المستقیم
مخالفتہ اصحاب الجحیم خاص طورپر اس استدلال پر مبنی ہے کہ سیدھا راستہ اہل دوز خ کی مخالفت سے ہی مل سکتا ہے ۔ امام ابن تیمیہؒ کے نزدیک مشابہت کی ممانعت کا
مطلب صرف کفار کی نقل کی ممانعت ہی نہیں بلکہ ان کی مخالفت بھی اس ممانعت میں شامل ہے ۔
اما م غزالی ؒ کی طرح امام ابنِ تیمیہؒ بھی تشبہ کے مسائل میں دینی اور ثقافتی شناخت میں امتیاز کے قائل ہیں۔ امام کے نزدیک مشابہت محض ان افعال کا نام نہیں جو
کسی دوسر ے کی نقل میں کیے جائیں ۔ مشابہت کی ممانعت میں وہ اغراض و مقاصد بھی شامل ہیں جن میں دوسروں کی متابعت کی جائے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ التشبہ یعم من فعل
الثیئی لاجل انھم فعلوہ وھو نادر و من تبع غیرہ فی فعل لغرض لہ فی ذلک اذاکان اصل الفعل ما خوذا من ذلک الغیر(15) (تشبہ کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کوئی
نادر کام اس لیے کیا جائے کہ وہ (کفار) کرتے ہیں اور یہ بھی کہ کوئی دوسرے کی پیروی میں کوئی کام کرے اور اسی مقصد کے لیے کرے جو غیر کا مقصد ہو اور جب کہ اس
فعل کی اصل بھی اس غیر سے ماخوذ ہو ۔)
آسان لفظوں میں یوں کہاجا سکتا ہے کہ تشبہ کے دو مفہوم ہیں ایک محض نقل اور دوسرے اغراض و مقاصد میں پیروی ۔ اگرچہ دونوں کفار سے مشابہت کے زمرے میں آتے ہیں ۔
لیکن دوسرا مفہوم زیادہ قابل مذمت ہے ۔ اور اسی مفہوم کی بنیاد پر مشابہت کی ممانعت کا تقاضا ہے کہ کفار کی مخالفت کی جائے ۔ امام متعد د قرآنی آیات اور احادیث
کا حوالہ بھی دیتے ہیں ، جن میں کفار خصوصاً یہود ونصاریٰ سے مشابہت کو منع کیا گیا ہے۔ (16) ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم اور احادیث میں صرف کفار کے افعال کی
نقل سے منع نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مخالفت کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ کفار کے افعال اور رواجوں کے الٹ کام کرو۔ مثلاً یہود بیت المقدس کو قبلہ مانتے تھے، رسول ﷺ
نے (اللہ کے حکم سے) اس کو بدل کے بیت اللہ کو قبلہ قراردیا ۔ نماز کے اوقات یہود اور نصاریٰ کے برعکس متعین کئے۔ خضاب ، ڈارھی اور حجامت میں یہود اور نصاریٰ کے
رواج کی مخالفت کی۔ (17)
اما م ابن تیمیہ کے نزدیک تشبہ کی ممانعت کا ماخذ سنت نبویہ کے علاوہ صدر اسلام میں غیر مسلموں سے کیے گئے معاہدات بھی ہیں ۔ امام کے بقول ان دستاویزات سے پتہ
چلتا ہے کہ غیر مسلموں نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ فاتح مسلمانوں کے احترام میں لباس ، ٹوپی یا عمامہ اور بالوں کا ایسا انداز اختیار نہیں کریں گے جو مسلمانوں
کا شعار ہے اور وہ جوتے نہیں پہنیں گے ، جو مسلمان پہنتے ہیں۔ (18)
بظاہر امام ابن تیمیہ ؒ کا استدلال بہت پیچیدہ لگتا ہے ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے استدلال کی بنیاد صدر اسلام کی تاریخ ہے جس میں تشبہ کی ممانعت کا سیاق
و سابق دینی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھا۔ ا ن افعال اور رواجات کا ثقافتی پہلو بھی اس سیاق سے علیحدہ نہیں ۔ تاہم ان کے استدلال کا دارو مدار دینی اصول ہیں
۔ ان کا کہنا ہے کہ کفار کی نقالی اور مشابہت ان سے محبت اور انس کا سبب بنتی ہے ۔ جو کفر اور گناہ کے اعمال سے نفرت کو کم کرتی ہے اور بالآخر مسلمان کو کفر تک
لے جاتی ہے ۔(19) یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابن تیمیہ ؒ ثبوت کے طورپر ان یہود ونصاریٰ کی مثال دیتے ہیں ، جو مسلمان معاشروں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہناہے
کہ ان لوگوں میں مسلمانوں کے خلاف عناد کم ہو جاتا ہے ، اس کے برعکس وہ کفار جو مسلمان علاقوں سے باہر رہتے ہیں ان میںیہ عناد اور دشمنی کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔
(20) ظاہر ہے امام ابن تیمیہؒ یہ مثال اس لیے نہیں دے رہے کہ مسلمانوں کے خلاف وہ عناد کی کمی کو براگردانتے ہیں اور نہ ہی اس لئے کہ وہ بین المذاہب عناد اور
دشمنی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہاں صرف یہ حقیقتِ حال بیان کررہے ہیں کہ معاشرتی میل جول سے لوگوں میں نفرت کم ہو جاتی ہے ۔ دین اور ثقافت کے مابین روابط گہرے
ہو نے کی وجہ سے یہ دونوں پہلو ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن معاشرتی میل جول بجائے خود منع نہیں ۔ اگر وہ دینی اقدار سے دوری کا سبب بنیں تو منع
ہیں۔ چنانچہ جیساکہ پہلے ذکر ہوا کہ فعل کی محض نقل جس میں نیت شامل نہ ہو اس مشابہت کے زمرے میں نہیں آتی جس سے منع کیا گیا ہے ۔ اس لیے ہر لمحہ ضروری ہے کہ
دین اور ثقافت کے مابین تفاوت کی مسلسل تعریف اور نشاندہی ہوتی رہے اور ان کی سرحدوں کو باہم گڈ مڈ نہ ہونے دیاجائے۔
اس تفاوت اور امتیاز کی اہمیت کو وہ ایک مثال سے واضح کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کے لیے غیر مسلموں کا کھانا اور لباس اسی وقت منع ہے ، جب وہ ان کی مذہبی رسوم سے
مخصوص ہو ۔ ان کا ہر کھانا اور ہر لباس منع نہیں۔(21) غیرمسلموں کے تہواروں میں شرکت کی ممانعت بھی اس صورت میں ہے کہ وہ واضح طورپر ان کی مذہبی رسم ہو کیونکہ
اس طرح اسلام میں بدعات کا دروازہ کھلتا ہے (22)- اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کفار سے مشابہت صرف مذہبی امور میں منع ہے ہر مشابہت منع نہیں۔ یعنی ایسے
افعال کی نقل کرنا منع ہے جسے غیر مسلم مذہب اور عبادت کے طورپر کرتے ہیں ۔ اسی طرح مذہبی غرض اور مقصد سے غیر مسلموں کے افعال کی نقل کرنا بھی شدت سے منع ہے ۔
امام ابن تیمیہؒ کے ہاں مشابہت کے حوالے سے دین اور ثقافت میں فرق کرنا ضروری ہے اور دین کو وسیع مفہوم میں لینے کی بجائے اس کی تجدید ضروری ہے تاکہ دینی تشخص
اور ثقافتی تشخص میں فرق کیاجا سکے ۔ اس حوالے سے تشبہ کا مسئلہ بہت حد تک بدعت کے تصور اور ممانعت کے قریب ہے یعنی ہر نئی بات بدعت نہیں بلکہ بدعت وہ عمل ہے ،
جسے دین کا درجہ دے کر اپنایاجائے ۔ انیسویں صدی میں احیاء و تجدید کی تحریکوں نے بدعات کے خلاف آواز اٹھائی ، تو خاص طور پر ان رسوم کا ذکر آیا جو غیر مسلم
معاشرتوں کے زیر اثر مسلمانوں میں رواج پا گئے تھے۔ چنانچہ تشبہ اور بدعت بیک وقت زیر بحث آنے سے اکثر انہیں ہم معنی سمجھ لیا گیا ۔ تاہم فقہاء نے دین اور ثقافت
میں فرق کی ضرورت پر زور دیا ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی احیاء اور اصلاح کی تحریکوں نے امام ابن تیمیہ ؒ کے افکار کو بنیادی حوالہ دیا لیکن امام نے دینی
اور ثقافتی شناخت میں امتیاز کے جس اصول پر زور دیا تھا وہ اکثر اوقات نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ (م ۱۲۸۴ھ)
علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ نے سنن ابو داؤد کی شرح میں محولہ بالا حدیث پر بحث کرتے ہوئے تشبہ کے مسئلے پر ابن تیمیہؒ کی مباحث کا جائزہ لیا ۔ ان کاکہنا تھا
کہ ابن تیمیہؒ نے تشبہ کو کلی اور وسیع مفہوم میں لیا ہے ۔ کیونکہ تشبہ دراصل تعلق اور وابستگی کا اظہار ہے ۔ اگر کوئی شخص صالحین کی نقل کرتا ہے تو وہ صالحین
میں شمار ہونا چاہتا ہے اور اگر فساق اور کفار کی نقل کرتا ہے تو ان میں شمار ہوگا۔ (23) ۔ علامہ عظیم آبادی ، ابن تیمیہ کی اس بات سے متفق نہیں کہ اس بارے میں
نیت کا اعتبار ہو گا۔ وہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ایک اثر نقل کرتے ہیں کہ اگر ایک مسلمان جو مشرکین کے علاقے میں سکونت اختیار کرلے ، ان کے تہوار منائے اور اسی
حالت میں فوت ہوجائے تو قیامت کے روز انہیں میں شمار ہوگا اگرچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا یہ بیان ایک ایسے تاریخی سیاق و سابق سے تعلق رکھتا ہے جب ہر مسلمان کے
لیے مسلم علاقے میں ہجرت لازمی تھی اور مشرکین کے علاقے میں رہنے پر اصرار سے اس کے امت مسلمہ سے تعلقات کی قانونی حیثیت بدل جاتی تھی تاہم علامہ عظیم آبادی اس
سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کفار کی نقل ہر حال میں منع ہے ، خواہ تشبہ میں کفار سے وابستگی کی نیت ہو یا نہ ہو۔ (24) وہ اپنے موئقف کی تائید میں کئی احادیث نقل
کرتے ہیں۔
علامہ عظیم آبادی تشبہ کے مذہبی، سیاسی اور ثقافتی پہلوؤں میں فرق نہیں کرتے ۔ اس ضمن میں وہ قرآن کریم میں کفار کے ساتھ ولا (ولایت ، قرابت ، دوستی) کی ممانعت
کا ذکر کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں سورۃ نساء ۱۳۹، سورۃ المائدہ : ۵۱ اور سورۃ توبہ : ۲۳ میں کفار کو اولیاء (قرابت) بنانے سے منع کیا گیا ہے ۔ برصغیر میں اس
ممانعت کا اکثر ترکِ موالات کے نام سے ذکر کیا گیا اور انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں اسے استعمار کے خلاف مزاحمت کے جوا زمیں اہم استدلال بنایا ۔ امام ابن
تیمیہ ؒ نے بھی ولا (قرابت) کے مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے،تاہم امام کے ہاں اس کی نوعیت خالصتاً سیاسی ہے ۔ ان کے نزدیک اگر نیت دینی قربت کی ہو تو منع ہے ، اسی
لیے تشبہ کی بحث میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔
سید احمد خان(م ۱۳۱۶ھ)
سید احمد خان (بانی علی گڑھ کالج) کفار سے مشابہت کی کلی ممانعت کے قائل نہیں تھے بلکہ ایسی ممانعت کو ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ علماء کفار سے
مشابہت کو بہ عام معنوں میں لیتے تھے حتٰی کہ چھری ، کانٹے اور میز پر بیٹھ کر کھانے کوبھی کفار سے مشابہت قرار دے کر حرام سمجھتے تھے۔ ۱۸۶۷ء میں سید احمد خان
نے کچھ انگریزوں کے ساتھ ایک ہی میز پر کھانا کھایا تواس پر پورے ملک میں بہت احتجاج ہوا ۔ سید احمد خان نے اپنے دفاع میں ایک مضمون لکھا۔ (25) جس میں یہ
استدلال پیش کیا کہ اہل کتاب کا طعام حلال ہے ۔ اس مضمون میں انہوں نے مسئلہ تشبہ اور اس کے ثبوت میں پیش کردہ حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم کی اسناد پر بھی جرح
کی ۔ ان کے نزدیک ماہرین حدیث کے بیان کردہ جرح و تعدیل کے اصولوں کے مطابق یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی اسناد میں دوراوی ایسے تھے ، جن کی آپس میں ملاقات ثابت
نہیں ۔ دوسرے سید احمد خان کے نزدیک یہ حدیث بیانیہ ہے اور اس کی بنیاد پر حکم جاری نہیں کیاجا سکتا ۔ تیسرے اس میں لفظ قوم استعمال ہوا ہے جو بہت عام ہے ۔ اسے
کسی مذہبی گروہ یا کفار سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ چوتھے یہ کہ ایسی ممانعت سنت رسول ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ سے شامی حلّہ کا استعمال ثابت ہوا ہے ، جو
عیسائیوں کا لباس تھا۔ پانچویں یہ کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام عام عربوں کا لباس پہنتے تھے جو سارے مسلمان نہیں تھے۔
اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ سید احمد خان کے دور میں کفار سے مشابہت کی بحث کا سیاق و سباق خالص سیاسی تھا ۔ یہ استعما ر کا دور تھا جب مسلمان انگریزوں کی ہر بات
سے متنفر تھے اور مغرب کے خلاف مذہبی شناخت کا مسئلہ بنیادی اہمیت اختیار کرگیا تھا ۔ انگریزوں کے خلاف مزاحمت کے لیے بدعت اور تشبہ کے نظریات سب سے زیادہ موثر
تھے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دور میں حرمت و نجاست کے نظریات بھی جن میں مقامی چھوت چھات کے تصورات بھی شامل ہو گئے تھے اور جو پہلے صرف ہندوؤں کے خلاف
استعمال ہو تے تھے اب انگریزوں کی مخالفت کے لیے کام آنے لگے ۔ غیر مسلموں کے ساتھ میل جول ، ان سے ہاتھ ملانا ، ان کے ساتھ کھانا کھانا سب نجاست کے زمرے میں
آگئے ۔ اس کا سیاسی فائدہ ضرورہوا لیکن سیاسی امور کو دینی حیثیت دینے سے مسلمانوں کی روز مرہ زندگی محدودہوتی گئی ۔
کفار سے مشابہت کے منفی پہلو کا ذکر تیونس کے دانشور خیر الدین پاشا نے اپنی کتاب اقوم المسالک میں بھی کیا ہے ، انکا کہنا ہے کہ آئینی طرزِ حکومت مسلم ممالک کی
بنیادی ضرورت ہے اور اسلام بھی اس کی تائید کرتا ہے لیکن قدامت پسندوں نے کفار سے مشابہت کا عمومی اطلاق کرکے اس کی بھی مخالفت کی اس کا سب سے زیادہ فائدہ
بادشاہوں اور استبدادی قوتوں کو ہوا ۔سید احمد خان نے ۱۸۷۵ء میں اس کتاب کے اقتباسات شائع کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کی توجہ کفار کے مشابہت کے عمومی اطلاق
اور خصوصاً اس کے سیاسی منفی پہلوؤں کی طرف دلائی۔ (26) برصغیر کے علماء سید احمد خان کی انگریز دوستی کو اسلامی شناخت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے ۔قاری محمد طیب کی
کتاب التشبہ فی الاسلام سید احمد خان کے افکار کی تردید میں لکھی گئی ۔
قاری محمد طیب ؒ (م ۱۴۰۴ھ)
قاری محمد طیب ؒ کا تعلق دارالعلوم دیو بند کے بانی گھرانے اور دیو بندی مسلک کے شارحین سے ہے ۔ دیو بندی مسلک اپنی دو نمایاں خصوصیات کی بناپر معروف ہے ۔ :
بدعات کی اصلاح اور برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت ۔ استعمار کے خلاف جدوجہد میں دیو بند کے اکثر علماء نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور ہندو
مسلم اتحاد کی حمایت کی۔ اس طرح کفار سے مشابہت کے ایک پہلو یعنی غیر مسلموں سے دوستی اور تعاون کے مسئلے پر اس روایتی موقف کی جزوی مخالفت کی جو کسی بھی غیر
مسلم سے(ہر طرح کی) دوستی کو کفار سے مشابہت کے تحت ممنوع قرار دیتا تھا۔ قاری طیب صاحب نے یہ تفصیلی کتابچہ ۱۹۲۹ء میں اس وقت لکھاجب وہ دارالعلوم دیو بند کے
مہتمم تھے۔ کتاب کے دو مقصد تھے ، ایک تو استعماری دور میں تشبہ کے مسائل کا تفصیلی تجزیہ اور دوسرے سید احمد خان اوردوسرے ایسے مسلمان رہنماؤں کے افکار کی
تردید جو کفار سے مشابہت کی ممانعت کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔
قاری محمد طیب صاحب نے تشبہ کو وسیع ترین مفہوم میں لیا۔ تشبہ کے عمومی تصور اور اس کے اصول بیان کیے اور اس مسئلے سے پیدا ہونے وا لے خصوصی اور فروعی مسائل سے
بحث کی ۔ اس بحث میں شاہ ولی اللہ (م ۱۱۷۶ھ) اور مولانا قاسم نانوتوی ؒ (م ۱۱۹۷ھ) کی آراء بھی پیش کیں اور ابن تیمیہ ؒ کی بھی ۔ تشبہ کی اصولی بحثوں کے تحت قاری
صاحب نے اس کی عملی صورتوں پر گفتگو کی ہے جن میں ’’ لباس ‘‘ کا مسئلہ نمایاں ہے۔ انیسویں صدی میں برصغیر میں انگریزی لباس کے بارے میں بہت بحث چلی تھی ۔ سید
احمد خان اور ان کے ساتھی انگریزی لباس کے حامی تھے اور علماء اور قدامت پسند طبقے اسے انگریزوں کی نقالی سمجھتے تھے اور انگریزی لباس پہننے والوں کو کرسٹان
کہتے تھے۔ قاری صاحب نے ایک سو سے زیادہ صفحات میں سید احمد خان کے رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کی تفصیلی تردید کی ہے۔(27)
قاری صاحب نے ’’ من تشبہ بقوم‘‘ حدیث پر سید احمد خان کی تنقید کے جواب میں بتایا کہ امام احمد بن حنبل ؒ اور ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک اس حدیث کی اسناد میں کوئی
کمزوری نہیں اور اس کا کوئی راوی ضعیف نہیں ۔ قاری صاحب کی نظر میں حدیث کا مفہوم عام ہے اور تشبہ کی ممانعت تمام کفریہ افعال کے لئے ہے ۔ اس کی وضاحت میں انہوں
نے حضر ت عمرؓ کا حکم نقل کیاہے کہ پانی سے غسل کرنا منع ہے کیونکہ عربوں کی عادت پسینے سے نہانے کی تھی ۔ (28) چنانچہ یہ حدیث مشابہت کی مطلق ممانعت کا حکم
دیتی ہے ، جس میں کفار کی دوستی اور ان سے مدد طلب کرنا بھی شامل ہے۔
عمومی اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے قاری طیب صاحب مشابہت اور تشخص کے تصورات کا تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اسلام نے قبل از اسلام
قوانین اور شرائع کو منسوخ کردیا تھا اور تشبہ کی ممانعت دراصل اسی تنسیخ کی حفاظت کے لیے تھی کہ مشابہت کے بہانے یہ منسوخ شدہ قوانین اور روایات دوبارہ زندہ نہ
ہو جائیں۔
ان میں یہود ونصاریٰ کی شرائع بھی شامل ہیں جنہیں اسلامی شریعت نے منسوخ کردیا تھا۔ قاری طیب صاحب کے نزدیک اس کا سبب یہ تھا کہ اب’’ وہ دنیا کے روحانی مزاج کے
موافق نہیں رہے تھے‘‘(29) ۔ قاری صاحب یہ وضاحت ضرور کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت نے ماقبل شرائع کو کلی طورپر منسوخ نہیں کیا بلکہ ان میں سے مفید اور اچھے قوانین
کو باقی رہنے دیا۔
قاری طیب صاحب کے نزدیک تشبہ سے تشخص میں ابہام پیدا ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں وہ قومی تشخص کے تصور کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ قوم کی تعریف میں وہ مذہبی اور دوسرے پہلوؤں
میں فرق نہیں کرتے ان کاکہنا ہے کہ ’’ قومیت یا قوم اس انسانی مجموعہ کانام ہے جو کسی خاص ملت ، خاص مشرب یا خاص سبیل و صراط کا پابند ہو اور اس مشرب و ملت کی
خصوصیات نے اس مجموعہ کو دوسرے انسانی مجموعوں سے الگ اور ممتاز کردیا ہو ۔‘‘ (30) اس تعریف کے ساتھ دوقوموں کی مثال کے لیے مذہب کا ذکر کرتے ہیں ۔ جیسے نصاریٰ
، یہود ، مشرک اور مسلمان سب اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ تشبہ بالغیر (دوسروں سے مشابہت) سے یہ امتیاز مٹ جاتا ہے ۔ اس بات کو وہ
منطقی استدلال سے بھی ثابت کرتے ہیں کہ منطق میں تعریف (حد) کی بنیاد بھی امتیاز اور فصل(فریق) پر ہے۔ مختلف اقوام اور امتیں انہی خصوصیات سے پہچانی جاتی ہیں،
جن میں ان کی اخلاقی قدریں ، عادات اور ثقافت شامل ہیں۔ اسی بنیاد پر یورپی اقوام دوسری اقوام سے الگ ہیں۔(31)
شرعی ممانعت کے نقطہ نظر سے قاری صاحب کاکہنا ہے کہ اضطراری اور طبعی عادات جن میں کھانا پینا وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں انسان کا کوئی اختیار نہیں ۔ اس لیے ان میں
مشابہت کی ممانعت نہیں ۔ جن افعال اور اعمال پر مشابہت کی ممانعت کا اطلاق ہوتا ہے وہ دو طرح کے ہیں ایک تعبدی افعال ہیں ، جن کا تعلق عبادات سے ہے ۔ دوسرے
تعوّدی ہیں جو عادات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پہلی قسم کے اعمال کی مثال صلیب لٹکانا اور دوسری قسم کے اعمال کی مثال غیر مذہبی رسوم و عادات ۔ پہلی قسم کے اعمال میں
تشبہ حرام ہے ۔ دوری قسم یعنی غیر مذہبی افعال میں تشبہ حرام نہیں ۔ اس گفتگو میں قاری صاحب ؒ نے تشبہ کے آٹھ فقہی مراتب بیان کیے ہیں۔
قاری طیب صاحب اس بحث کانتیجہ یوں بیان کرتے ہیں کہ کفار سے مشابہت کا اصل مقصد امت مسلمہ کو فکری انتشار اور تباہی سے بچانا ہے اور ان کو غیر مسلموں سے ممیز
کرنا ہے ۔ ، تاہم فطری ضروریات کے ضمن مین حرج یا تنگی پیدا کرنا اس ممانعت کا مقصود نہیں ۔ چنانچہ فطری حدود کا لحاظ کرتے ہوئے عورتوں کو مردوں کی مشابہت سے ،
مصوروں کو خدا کی شبیہ سے اور غلاموں کوآزاد لوگوں کی نقل سے منع کیا گیاہے۔
قاری طیب صاحب کے ہاں تشبہ کے مفہوم میں وسعت اس وقت کے سیاسی تناظر سے آئی اور اس کی بڑی وجہ دیو بند اور علی گڑھ کے طرز ہائے فکر کا اختلاف تھا۔ اگرچہ قاری
صاحب تشخص کے دینی اور دوسرے پہلوؤں میں فرق کے قائل ہیں لیکن مخصوص سیاسی پس منظر کی وجہ سے اس پر زور نہیں دیتے اور مشابہت کے وسیع مفہوم پر اصرار کرتے ہیں۔
قاری صاحب کی کتاب کا موازانہ اس عہد کے فتاویٰ خصوصاً دیو بند مسلک کے فتاویٰ سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی مصالح کے باوجود مفتی حضرات دینی اور سیاسی
مفاہیم میں امتیاز کی فقہی بنیادوں سے انکار نہیں کرتے۔
شاہ عبدالعزیزؓ (م ۱۲۳۹ھ) نے فتاویٰ عزیزی میں غیر مسلموں کے رسوم و رواج اور تہواروں کی نقل اور مشابہت کے بارے میں مختلف سوالات کے جواب میں ایک قاعدے کے
طورپر بیان کیا کہ ایسے رواج اور عادات جو کفار سے مخصوص ہوں ان کا اپنانا منع ہے ۔ ایسی عادات جو کفار میں عام تو ہوں لیکن ان سے مخصوص نہ ہوں ان کی نقل منع
نہیں ۔ اسی طرح اگر مسلمان غیر وں کی عادات و رواج کو سہولت اور فائدے کی غرض سے اختیار کریں لیکن کفار کی نقل مقصود نہ ہو تو وہ بھی ممنوع نہیں ۔ (33) شاہ صاحب
نے غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کی اور ایسے لباس کی جو غیر مسلموں کا مذہبی شعار ہوں ، مشابہت سے منع فرمایا ۔
مولانا عبدالحئی لکھنوی ؒ (م۱۳۰۵ھ) سے تشبہ کے بارے میں بہت سے فتاویٰ طلب کئے گئے۔ سوالات ہنود ونصاریٰ کے بارے میں بھی تھے اور مسلمانوں کے درمیان مختلف فرقوں
کے بارے میں بھی۔ ان سوالات میں تشبہ کامسئلہ اکثر بدعت سے جڑا ہوا تھا ۔ مثلاً انگریزی زبان اور جدید آلات اور ٹیکنالوجی کے مسائل بدعت اور تشبہ دونوں حوالوں
سے کئے گئے ۔ مولانا کا کہنا تھا کہ زبان اور آلات تشبہ کے دائرے میں نہیں آتے ۔ ان پر تشبہ کی ممانعت کا اطلاق اسی وقت ہو گا جب نیت دین میں تشبہ کی ہو ۔ کسی
امر مذموم میں نصاریٰ کیساتھ قصداً تشبہ کیا جائے تو ناجائز ہو گا ور نہ نہیں۔ (34)
مولانارشید احمد گنگوہیؒ (م ۱۳۲۳ھ) کے فتاویٰ میں بھی بدعت اور تشبہ کے مسائل ساتھ ساتھ مذکور ہیں۔ مولاناگنگوہی نے بھی مذہبی اور ثقافتی مشابہت میں فرق کیا ہے
۔ ان کاکہناہے کہ صلیب نصاریٰ کا شعار ہے لیکن انگریزی لباس ، ہیٹ وغیرہ ان کا مذہبی شعار نہیں کیونکہ ان ممالک میں مسلمان یہی لباس پہنتے ہیں۔ البتہ ہندوستان
میں ایسا نہیں ہے اس لیے اس میں تشبہ پایاجاتا ہے (35) ۔ تاہم انھوں نے دوسرے فتاویٰ میں وضاحت کی کہ جب کوئی لباس یا عادت دوسروں میں بھی عام ہو جائے تو وہ
تشبہ ممنوع نہیں رہتا ۔ مثلاً مولانا عبدالحئی لکھنوی مسلمانوں کو کھڑاؤں پہننے سے منع کرتے تھے کیونکہ ہندو جوگی پہنتے تھے۔ مولانا گنگوہی نے وضاحت کی کہ ’’
کھڑاؤں چوبیں کا پہننا بدعت نہیں .... البتہ بسبب مشابہت یوگیہ کے کسی وقت منع لکھا تھا مگر اب یہ کہ کافر و مسلم میں شائع ہو گئی ہے ممنوع نہیں رہی۔‘‘(36)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ (م ۱۳۲۳ھ) نے مولانا گنگوہی کی تائید کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انگریزی لباس کو منع فرمایا کہ اس میں غیر مسلموں
سے مشابہت موجود ہے۔(37)
مفتی کفایت اللہ ؒ (م ۱۳۷۲ھ) کے فتاویٰ میں تشبہ کے مسائل میں نصاریٰ کے ساتھ ہندوؤں سے مشابہت کے بارے میں سوالات میں اضافہ نظر آتا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ
معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانے میں ہندو مسلم تشخص کا سوال بہت شدت سے ابھر رہا تھا ۔ مفتی کفایت اللہ کا تعلق جمعیت العلمائے ہند سے تھا جو ہندوستان کی آزادی کی
تحریک میں کانگریس سے اشتراک کررہی تھی ۔ کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی مسلمان قشقہ اور چندن لگائے تو کیا یہ ہندوؤں سے مشابہت کی وجہ سے منع ہو گا۔ مفتی صاحب نے
جواب دیا کہ مسلمانوں کو اس سے احتراز لازم ہے کیونکہ یہ اہل ہنود کا خاص قومی اور مذہبی شعار ہے ۔ لیکن اس پر ارتداد کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ۔ (38) مفتی
صاحب سے اکثر موالات کے بارے میں بھی پوچھا گیا کہ ہندوؤں سے دوستی اور میل جول کاکیا حکم ہے ۔ کیا ان کا کھانا اور مذہبی تہواروں میں شرکت حرام ہے۔ مفتی صاحب
نے واضح کیا کہ قرآن کریم نے کفار سے میل جول ، معاملات اور تجارت وغیرہ کو مطلقاً حرام نہیں بتایا ۔ (39) بلا ضرورت ایسے میل جول سے منع کیا جس سے دین کو نقصان
کا اندیشہ ہو ۔ (40) مفتی صاحب ہندوؤں کے ساتھ سماجی اور سیاسی تعاون کے قائل تھے۔ تجارت ، زراعت وغیرہ میں شراکت عمل کو جائز سمجھتے تھے لیکن مشرکانہ رسوم پر
مبنی اجتماعات اور ایسے اجتماعات میں جہاں اسلامی احکام کا مذاق اڑایا جاتا ہو شرکت سے منع کرتے تھے۔ (42) مسلمانوں کے نزدیک غیر مسلم نجس اور ناپاک نہیں لیکن
ہندو مسلمانوں کو ناپاک سمجھتے ہیں اور کسی چیز کو مسلمان کا ہاتھ لگ جائے تو اسے بھی ناپاک سمجھتے ہیں ۔ اس صورت حال میں مسلمان بھی قومی غیرت سے کام لیں۔ (41)
مفتی صاحب کایہ فتویٰ بعض مخصوص سماجی رویوں کا عکاس ضرور ہے لیکن یہاں بھی وہ چاہنے کے باوجود دینی اور سماجی تشخص کے فقہی امتیاز کے اصول کی مخالفت نہیں کر
پائے۔
۱۹۳۶ ء میں کراچی میں ایک جلسے میں ایک مسلمان مقرر نے اسلام میں انسانی مساوات کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا کہ مسلمان کے لیے کسی اچھوت کا جوٹھا کھانا اور پانی
پینا منع نہیں ہے۔ سٹیج پر بیٹھے ایک مسلمان لیڈرنے اسی وقت ایک ہندو لیڈر کاجوٹھا پانی پی کر اس کا ثبوت دیا تو اس پر اخبارات میں دوسرے دن بہت احتجاج ہوا ۔
دہلی کے ایک مسلمان تاجر نے اس پورے واقعے کو مسلمانوں کی تذلیل قرار دیا کہ جو لوگ حرام اور مردار کھاتے ہیں ان کا جوٹھا کیسے جائز ہو سکتا ہے ۔ مفتی کفایت
اللہ صاحب نے اپنے فتویٰ میں تفصیل سے واضح کیا کہ کافرو مسلم سب کا جوٹھا پاک ہے اور جب تک ناپاکی کی آمیزش کا یقین نہ ہو اس وقت تک ناپاکی کا حکم دینا درست
نہیں۔(43)
مفتی محمد شفیع (م ۱۳۹۷ھ) دارالعلوم دیو بند کے معتبر اور مستند مفتی تھے۔ تاہم علمائے دیو بند کے عام رحجان کے برعکس مفتی صاحب تحریک پاکستان کے حامی اور
اسلامی تشخص کے علمبردار تھے ۔ تشبہ کے مسئلے میں ان کاموقف علمائے سلف سے مختلف نہ تھا۔ وہ بھی غیر مسلموں کے بارے میں معتدل رائے رکھتے تھے۔ اگر کسی ہندو نے
صاف ہاتھوں اور پاک و صاف برتنوں میں کھانا تیار کیا ہے تو اسے مسلمانوں کے لیے جائز سمجھتے تھے۔ البتہ اوپر جو واقعہ ذکر ہوا اس کے بارے میں یہ حکم واضح کرنے
کے بعد کہ غیر مسلم کا جوٹھا حرام نہیں ہے ، انہوں نے سیاسی حالات کے پیش نظر یہ اضافہ کیا ۔
’’ ہندو چونکہ ہم سے نفرت کرتے ہیں ہماری غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم بھی ان سے نفرت کریں۔ ہمیں ان کی دکانوں سے سود انہیں خریدنا چاہیے صرف اسی وقت خریدیں جب
ناگزیر ہو ۔فطرتاً ہندو دوسرے غیر مسلموں کی نسبت زیادہ ناپاک ہیں اس لیے ان کے کھانے سے احتراز بہتر ہے ۔ اس کے باوجود ان کے کھانے کو شرعی طور پر ناپاک اور
حرام نہیں کہا جاسکتا ۔‘‘ (44)
حال ہی میں کفار سے مشابہت کے مسئلے پر انٹرنیٹ پر بہت سا مواد شائع ہواہے ۔ ان مضامین ، رسالوں اور کتابوں میں مسلمان مصنفین نے اکثر تشبہ کو بہت وسیع معنوں
میں لیا ہے اور کفار کے ساتھ مشابہت میں تعلیم ، سیاسی تعاون ، سماجی میل جول اورہر طرح کی دوستی کو ممانعت کے مفہوم میں لیا ہے ان میں سے بعض کتابوں میں تشبہ
کی ممانعت کو دوقطبی حیثیت دیتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ دائمی حالت جنگ کا نظریہ پیش کیا ہے ۔ ان میں سے ایک طویل مضمون ’’ مسئلہ کفار سے مشابہت پر ایک اجمالی
نظر ‘‘ اردو میں ہے ۔ مصنف کا نام نہیں دیا گیا ۔ بقول مصنف یہ مضمون زیادہ تر امام ابن تیمیہ کی کتاب افتضا ء الصراط مستقیم .... اورقار ی محمد طیب صاحب کی
کتاب التشبہ فی الاسلام سے ماخوذ ہے ۔ تاہم مصنف نے اس میں بہت سے اہم اضافے بھی کئے ہیں ۔ جن کی وجہ سے تشبہ کے تجزیے میں بہت سے جدید مباحث بھی شامل ہو گئے
ہیں۔ مصنف نے مضمون کے آخر میں تشبہ اور تشخص کے حوالے سے بہت ہی اہم بات کہی ہے جس سے تشبہ کی بحث کا جدید نظریہ قومیت سے بہت گہرا تعلق سامنے آتا ہے۔
’’ خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعت میں تشبہ بالغیر کی ممانعت کسی تعصب پر مبنی نہیں بلکہ غیر ت اور حمیت اور تحفظ خود اختیاری پر مبنی ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم
نہیں کہلا سکتی جب تک اس کی خصوصیات اور امتیازات پائیدار اور مستقل نہ ہوں ۔‘‘ (45)
انٹرنیٹ کی دوسری اہم کتاب جس کا بار بار ذکر آتا ہے و ہ شیخ احمد الغماری کی الاستنفار لغزو التشبہ بالکفار ہے۔ (46) کتا ب کا متن انٹرنیٹ پر نہیں ملتا ۔ البتہ
جو تلخیص اور اقتباسات ملتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب کا ماخذ بھی اکثر ا بن تیمیہ ؒ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم ہے ۔ تاہم اس کے علاوہ ابن تیمیہ کے
فتاویٰ شیخ محمد عبدالوہاب کی کتاب التوحید اورمسائل الجاہلیتہ سے بھی استفادہ کیا گیاہے ۔ ان اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب میں تشبہ کی ممانعت میں کفار
سے جہاد بھی شامل ہے ۔
مندرجہ بالا بحث کو ختم کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کفار سے مشابہت کے مسئلہ کی تاریخ کو چار بڑے ادوار میں دیکھاجا سکتا ہے جن میں اس کی تشریح ہر دور کے
تقاضوں کے تحت کی گئی ۔ پہلا دو رمدنی معاشر ت کا ہے ، جہاں مسلمانوں کا دینی تشخص قائم کرنے کے لیے یہود ونصاریٰ اور مشرکین سے تشبہ کو منع کیا گیا ۔ دوسرا دور
چھٹی صدی ہجری کا ہے جہاں غیر عرب ثقافتوں اور خصوصاً فارسی ثقافت کے میل جول سے دینی تشخص کا مسئلہ ابھرا۔ اس دور میں دینی اورثقافتی تشخص میں امتیاز پر زور
دیا گیا۔ امام غزالیؒ کی تحریر اسی دور سے تعلق رکھتی ہے ۔ تیسرا دور ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کا ہے ، جس میں وسط ایشیا میں منگول اور اندلس دور میں دینی اور
ثقافتی تشخص میں امتیاز مشکل ہو گیا تھا۔ امام ابن تیمیہ ؒ نے اس صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کیا اور اس امتیاز پر زور دیا ۔ ان کی تحریروں میں دین کے مفہوم
میں وسعت کی وجہ سے تشبہ کا مفہوم بھی وسیع ہو گیا۔ تاہم ان کے ہاں بھی تشبہ کی اصل ممانعت کی بنیاد دینی شعار میں مماثلت اور مشابہت کی نیت پر گفتگو رہی ۔
چوتھے دور یعنی تیرہویں اور چودھویں صدی میں یورپی استعمار ، مغربی ثقافت اور قومیت کی تحریکوں کے پس منظر میں مسلم تشخص کے بارے میں مزید سوالات ابھرے۔ ا ن
مسائل نے مسلم مفکرین کو اس مسئلے کو مزید کھنگالنے کا موقع دیا ۔ اس دور میں قومیت اور مغربیت کو مذہب کے نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی وجہ سے اکثر ثقافتی امور کو
بھی مذہبی شعارمیں شامل سمجھا گیا ۔ اس لیے بعض مسلم مفکرین نے تشبہ کو بہت زیادہ وسعت دے دی۔ تاہم فتاویٰ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم فقہا ء نے مسلم تشخص
کے تعین اور اس کی حفاظت کے لیے صرف دینی پہلو پر زور دیا اور اسے سیاسی و ثقافتی پہلوؤں سے الگ رکھنے کی کوشش کی ۔ ان ادوار کے فتاویٰ میں سیاسی ترجیحات کی وجہ
سے غیر مسلموں سے تعلقات کو منع بھی کیا گیالیکن کفار سے مشابہت کے مسئلے میں شدت اور انتہا پسندی اکیسویں صدی میں پیداہوئی ، جب مغربی ممالک نے بتدریج دین بے
زاری کی راہ اختیار کی ۔ مسلمانوں میں قدامت پسند طبقے نے انیسویں صدی میں مغربی یلغار کے مقابلے میں حفاظت دین کا راستہ اختیار کیا تھا جس میں انہوں نے مسلم
معاشروں اور اسلام کو دنیا کے دوسرے معاشروں اور مذاہب سے الگ تھلگ رکھنا بہتر سمجھا۔ اس علیحدگی پسندگی سے اسلام اور مغرب میں ایک خلیج پیداہوئی ، جسے مغرب کی
بالادست سوچ نے مزید وسیع کردیا ۔ ان تمام بین الاقوامی سیاسی عوامل کا رد عمل ہے کہ مسلم معاشروں میں مذہبی اور ثقافتی رواداری کمزور پڑتی گئی ۔ مغربیت کی
سیاسی مخالفت میں بھی اہل مغرب کا تشخص یہود ونصاریٰ کے طورپر کیا گیا اور ان کے تشبہ کی مخالفت اور ممانعت بھی مذہبی بنیادوں پر کی گئی ۔
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اٹھارہویں صدی تک مسلمان معاشرے رواداری اور وسعت نظری کی مثال رہے ۔ اس کے مقابلے میںیورپ میں مذہبی رواداری اور ثقافتی تنوع نہ
ہونے کے برابر تھا۔ یورپی ثقافتیں ، مذہبی وحدت اور ثقافتی اتحاد کے اصول پر عمل کرتی تھیں۔ مختلف مذہب ، زبان اور ثقافت کے لوگوں سے یہ توقع رکھی جا تی تھی کہ
وہ جلد از جلد مقامی تہذیب میں ضم ہو جائیں ۔ مسلم معاشروں میں اسکندریہ ، بیروت ، استنبول ، دہلی ، لاہور اور دوسرے شہروں میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ
ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ہسپانیہ میں مسلمانوں کے دور تک نصاریٰ، یہود اور مسلمان تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں برابر کے شریک تھے لیکن آٹھویں صدی ہجری میں جب نصاری ٰ
کا غلبہ ہوا تو مسلمانوں اور یہود کے لیے ہسپانیہ میں کوئی جگہ نہیں رہی ۔ ہسپانیہ سے نکالے گئے یہود کی بڑی پناہ گاہ سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ کے مسلمان
معاشرے تھے۔ یورپ ، امریکہ ، آسٹریلیا میں آج بھی باہر سے آنے والوں سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقامی زبان اور ثقافت اختیار کریں گے۔ مسلمانوں اور مغربی
اقوام میں بڑھتی ہوئی دوریوں کی جہاں کفار سے مشابہت کی جدید سیاسی توجیہات ذمہ دار ہیں وہاں مغربی اقوام کے ہاں ثقافتی برتری اور سیاسی بالادستی کے نظریات
اورقومی اور ثقافتی تشخص کے ایسے تصورات بھی ہیں جو مذہبی رواداری کو بہت ہی محدود کرتے ہیں اور قدامت پسند مسلمانوں کے اس احساس کو تقویت دیتے ہیں کہ مسلمانوں
اور مغربی اقوام کے درمیان امتیازکی اصل بنیاد مذہب ہے ۔ کفار سے مشابہت کا مسئلہ دینی اور ثقافتی تشخص میں امتیاز کرتے ہوئے سیاسی اور سماجی تعاون اور ہم آہنگی
کی بنیادیں فراہم کرسکتا تھا لیکن قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے تہذیبوں میں تصادم ، اسلامیت اور مغربیت کے مابین کش مکش کے عنوان سے دیکھا گیا
اور اسلامی تشخص کی تعریف اسلام اور کفر کے درمیان جنگ کے حوالے سے کی جانے لگی ۔ تشخص دراصل بہت سی پہچانوں کا مجموعہ ہے اور ہر پہچان کا موقع اور سیاق الگ الگ
ہیں ۔ ان کو غلط ملط کردینے سے ہی مسائل جنم لیتے ہیں۔
حواشی
۱۔ ابن سعد الطبقات الکبری (بیروت : دارالکتب العلمیہ ۱۹۹۷ء) جلد ۷۔ ص ۱۶۶۔ حضرت ابوالجلد الجونی ازو قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور حدیث کے ثقہ راویوں میں شمار
ہوتے ہیں۔ ابن سعد نے ان کی بیٹی میمونہ کا بیان قلمبند کیا ہے ۔ قالت کان ابی القرآن فی کل سعتہ ایام ویختم التوراۃ فی سنتہ بقوھا نظرافاذاکان یوم ختمھا حثہ
لذلک ناس و کان بقول کان بقال نزل عند ختمھاالرحمتہ۔
۲۔ ابو داؤد سنن (ریاض دارالسلام ،۲۰۰۰ء) ص ۱۵۱۸۔
۳۔ ابن حنبل ، مسند (ریاض دارالسلام ۲۰۰۰۰ء) حدیث نمبر۴۸۶۹
۴۔ سنن ابو داؤد ، باب لبس الثھر ۃ ، ص ۱۵۱۸
۵۔ ترمذی ، جامع (ریاض دارالسلام ۲۰۰۰ء) ص ۱۹۲۳
۶۔ علمائے حدیث میں سے علامہ المتذری ؒ (م ۶۵۶ھ) حافظ السخاوی ؒ (م ۹۰۳ ھ) اور علامہ المناوی ؒ (م ۱۰۳۱ھ) کے نزدیک اس حدیث کے سلسلہ رواۃ میں عبدالرحمن بطور
راوی ضعیف ہیں ۔ تاہم حافظ السخاوی نے اس بنا پر ان کی روایت کو قابل قبول قرار دیا ہے کہ ان الفاظ میں نہیں لیکن اس معنی میں اور روایات بھی مو موجود ہیں۔ امام
ابن تیمیہ ؒ (م ۷۲۹ھ) اور امام ابن حجر ؒ (م ۸۵۲ھ) کے نزدیک اس روایت میں کوئی ضعف نہیں۔
۷۔ الغزالی احیاء علوم الدین (بیروت دارالمعرفتہ ت ۔ ن) ج ۲ ص ۱۶۸
۱۳۔ امام ابن تیمیہ : اقتصاء الصراط المستقیم مخالفتہ اصحاب الجحیم (لاور مکتبہ سلفیہ ۱۹۷۸ء) ص ۱
۱۴۔ ایضاً
۱۵۔ ایضاً ص ۸۲
۱۶۔ ایضاً صف ۱۳ دمابعد
۱۷۔ ایضاً ۱۲۔۱۳
۱۸۔ ایضاً ص ۱۲۱
۱۹۔ ایضاً ص۲۱۶
۲۰۔ ایضاً۲۲۰
۲۱۔ ایضاً ص ۲۴۹
۲۲۔ ایضاًص ۱۸۰
۲۳۔ ابو الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی عون المعرد شرح سنن ابی داؤد (قاہرہ : مکتبہ ابن تیمیہ ۱۹۸۷ء) ج۱۱،ص۷۲
۲۴۔ ایضاً ص ۷۵
۲۵۔ سید احمد خان کا یہ مضمون تہذیب الاخلاق ، جلد چہارم میں ۱۸۷۳ء میں شائع ہوا یہ مضمون محمد اسماعیل پانی پتی کی مرتبہ مقالات سرسید (لاہور مجلس ترقی ادب
۱۹۶۲ء ، صفحات ۳۴۱،۳۸۳) میں شامل ہے۔
۲۶۔ سید احمد خان ، مقالات سرسید ، مرتبہ اسماعیل پانی پتی صفحات ۹۰۔۹۴
۲۷۔ قاری محمد طیب التشبہ فی الاسلام (لاہور ، ادارہ عثمانیہ ۱۹۳۰ء) صفحات ۲۵۸۔۳۵۰۔