کشمیر اور فلسطین وہ بنیادی تنازعات ہیں جن کی کوکھ سے دنیا کے کئے مسائل نے جنم لیا ہے ۔اقوامِ متحدہ بھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکا ۔مگر اس کا یہ مطلب بھی
نہیں کہ ان تنازعات کے حل کی تمام راہیں مسدود ہو چکی ہیں ۔ نامور امریکی مفکر سٹیفن پی کوہن اور مایان مالٹر نے دنیا کے ان دیرینہ تنازعات کے حل کے کئی امکانات
پر بحث کی ہے ۔ ساتھ ساتھ ان وجوہات کا بھی تذکرہ کیا ہے جو ان مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔سٹیفن پی کوہن 12کتابوں کے مصنف ہیں اور نامور ادارے
بروکنگز سے منسلک ہیں ۔ جنوبی ایشیاء کے بارے میں ماہر مانے جاتے۔شریک مقالہ نگار مایان مالٹر یونیورسٹی آف شکاگو میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں ۔(مدیر)
اوبامہ اور کلنٹن مشرقِ وسطیٰ میں جاری امن کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے میں ناکام ثابت ہوئے۔اسی طرح جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے قیام کے لئے بھی وہ کسی
صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ان دونوں خطوں کے لئے کسی سطح پر کچھ ہوا نہ ہی سفارتکاری ثمر آور ثابت ہوئی۔ گزشتہ پچاس سے زائد سالوں سے یہ تنازعات حد درجہ دگر
گوں سطح پر ہیں۔
بعض اوقات یہ حکمت عملی بھی کارگر ہوتی ہے کہ مسئلے کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جائے تاکہ فریقین خطرے کا ادراک کرتے ہوئے از خود کوئی پیشرفت کرنے کی جانب راغب ہو
سکیں۔شاید مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا میں بھی ایسا ہی ہوا۔جہاں فریقین نے حالات کو دیکھتے اور نئے خطرات کو بھانپتے ہوئے اپنی اپنی تزویراتی حکمتِ عملی پر نظر ثانی
کی ہے ۔حالانکہ پہلے وہ اس کے لئے ہر گز تیار نہیں تھے۔
پیٹر کولمن ( Coleman Peter)اوروالمان ووکن(ValmanVolkan) کے نظریئے کے مطابق جو تنازعہ 25سال یا اس سے زائد پرانا ہو جائے اور اس کے حل کی کوئی صورت نہ نکلے تو
یہ تنازعات خانہ جنگی میں بدل جاتے ہیں جس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔143RANDکے ایک حالیہ جائزے کے مطابق اگر اسرائیل اور فلسطین میں امن ہو جائے تو فریقین کو
183ارب ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔جبکہ پاکستان اور بھارت کو اس سے بھی کہیں زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ وسطی ایشیاء تک تجارتی راستے کھل جائیں گے۔مشرقِ وسطیٰ
میں امن سے براہِ راست ایک کروڑ 30لاکھ لوگ مستفید ہوں گے جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر امن ہو جائے تو دنیا کی کل آبادی کے پانچویں حصے کو فائدہ پہنچے
گا۔
اقوامِ متحدہ کے قیام کے فوراً بعد یہ تنازعات اس کے لئے پہلے چیلنج کے طور پر تھے مگر اب 50سال بیت چکے۔اگرچہ اس دوران چند مواقع ایسے بھی آئے جہاں ان کی کوئی
سبیل نکل سکتی تھی مگر دنیا نے یہ مواقع بھی گنوا دیئے۔
ان دونوں تنازعات میں ایک مقدرمشترک ہے کہ فریقین کے عدم اعتماد نے سخت گیر طبقے کو موقع دیا کہ وہ آگے آئے اور مذاکرات کو سبوتاژ کر دے۔ 147Shooting for a
Century148 (Brookings Institution Press, 2013),کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے معاملے میں تو بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔جہاں تک اسرائیل اور فلسطین کا معاملہ ہے
وہاں صورتحال بدستور غیرتسلی بخش ہے۔اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعت Likudniksکی کوشش ہے کہ وہ فلسطینیوں کی موجودگی کا ہی انکار کر دے جبکہ اس کے مقابلے پر سخت
گیر حماس کا عسکری ونگ جنگ کے لئے ہمیشہ اپنے پاؤں رکاب میں رکھتا ہے۔
سفارت کاری کے لئے ساز گار حالات
گفت و شنید اسی صورت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب ایک دوسرے پر اعتماد کیا جائے۔صدر رنالڈ ریگن تو ایک دوسرا فارمولہ بھی دیتے ہیں کہ ’’اعتماد لیکن یقین کے ساتھ
‘‘۔یہ ایک روسی اصطلاح ہے جس کے تحت نیچے سے کام شروع کیا جاتا ہے۔عام افراد کے عام افراد سے ، کاروباری لوگوں کے کاروباری لوگوں سے اور منڈیوں کے منڈیوں سے
روابط استوار کئے جاتے ہیں۔ جس کے بعد اوپر کی سطح پر اعتماد سازی میں اضافہ ہوتا ہے اور سفارتکاری کے لئے سازگار ماحول میسر آتا ہے۔اگرچہ یہ بھی کوئی حتمی
کامیابی کی ضمانت تو نہیں لیکن اگر لوگ تندہی کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے تو کسی نہ کسی وقت حالات پلٹہ کھا سکتے ہیں۔تاجر اور کاروباری لوگ اپنے اثاثوں
کی طرح رجائیت پسندی سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔یہ لوگ اسرائیل ،فلسطین اور پاکستان ،انڈیا کے دوطرفہ مزاکرات کرانے اور انھیں نتیجہ خیز بنانے پر مجبور کرسکتے
ہیں۔فریقین اگر چاہیں تو امریکہ کو بھی بطور مبصر اپنے ساتھ بٹھا سکتے ہیں۔ وہ باہم مل بیٹھیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں۔یہ لوگ اپنے اپنے سیاستدانوں پر تنازعے
کے حل کے لئے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔یہ کوششیں وقتی طور پر وقت اور پیسے کا ضیاع معلوم ہوں گی مگر جب فیصلہ سازی نوجوان قیادت کے ہاتھ میں آئے گی تو تبدیلی ضرور آئے
گی۔
ہمارے علم کے مطابق دونوں تنازعات میں کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا (ماسوائے کراچی یونیورسٹی کے ایک جائزے کے )۔ان کے لئے الگ الگ حکمت عملی درکار ہو گی۔تاکہ
انھیں حل کیا جا سکے یا کسی حل کی جانب پیش قدمی کی جاسکے۔اس کا ایک ابتدائی خاکہ یہاں دیا جا رہا ہے۔
* دونوں تنازعات کے ساتھ کئی دیگرمسائل اور ممالک نتھی ہو چکے ہیں۔اوبامہ اور کلنٹن تسلیم کر چکے ہیں کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے تاہم اب
یہ ایک علاقے پر قبضے کی جنگ بھی بن چکی ہے جس میں چین بھی ملوث ہے۔مغربی کنارہ فلسطینیوں اور اسرائلیوں کی شناخت کا عنصر ہے لیکن اصل معاملہ یوروشلم کا ہے کہ
اس پر کس کا حق ہے۔ مسلمان جب بھی فلسطین کا مسئلہ اٹھاتے ہیں تو وہ کشمیر کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
* دونوں خطوں میں خانہ جنگی کا عنصر بھی پروان چڑھ رہا ہے کیونکہ فریقین کے مفادات کا باہمی ٹکراؤ بھی ہے۔
* چاروں ریاستیں خود کو مظلوم سمجھتی ہیں ، اور سمجھتی ہیں کہ انھیں خطرہ ہے ،یہاں کی مظلوم اقلیت شدت پسندوں اور جنونیوں کی زد پر ہے جسے سیاست کی بھینٹ چڑھا
دیا گیا ہے۔
* اس صورتحال میں ریاستیں اپنی بقا کو مقدس گردانتے ہوئے کچھ بھی کر گزرتی ہیں ۔
* اگر کبھی ان ریاستوں نے پہلا قدم اٹھا بھی لیا تو یہ دوسرا ،تیسرا یا چوتھا قدم اس وقت تک نہیں اٹھائیں گی جب تک سرکش اور ہٹ دھرم عناصر موجود ہیں۔
* دونوں جانب باہمی اعتماد کا فقدان ہے ،تما م فریقین کو دوسرے ذرائع بھی دیکھنے ہوں گے بالخصوص جب معاملہ سفارتکاری کا ہو
* دونوں جانب کے فریقین میں سماجی اور ثقافتی روابط کا بھی فقدان ہے۔حالانکہ دونوں خطوں میں عثمانی اور مغل دور میں ایک دوسرے کے ساتھ بہتر سماجی روابط اور
اقتصادی تعلقات رہے ہیں۔
* دونوں معاملوں میں حقیقت پسندی پر مبنی ایک ایسے’’ امن عمل‘‘ کی ضرورت ہے جس میں حالات بہتر ہو سکیں ،آزادانہ تجارت ہو ، لوگ آسانی سے آ جا سکیں،جنگ کے خطرات
کم کئے جا سکیں اور وہ تما م لوگ جو اس’’ امن عمل‘‘ کے خلاف ہوں ان کا تدارک کیا جائے۔
* چاروں ریاستوں میں امن کے قیام اور کسی قابل قبول حل کی راہ میں روڑے اٹکانے والے موجود ہیں۔
* اٹل اسرائیلی آباد کار اورسخت گیر فلسطینی ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھے بغیر ایک ریاستی حل چاہتے ہیں۔پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور مودی
کے پیچھے قدامت پرستانہ سوچ یہ سب جنوبی ایشیا میں امن کی راہ میں روڑے اٹکانے والی سرکردہ وجوہات ہیں۔اسی طرح بھارت کی کانگریس پارٹی مہاتما گاندھی کے بعد یہ
سمجھتی ہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔جس کے لئے اندرا گاندھی نے طاقت کا استعمال کر کے پاکستان کو نقصان پہنچایا جس کے رد عمل میں پاکستان کے سر پر مستقل طور پر
جنونیت سوار ہوئی اور اس نے اسلامی بم بنا لیا۔
* جہاں تک ان تمام ریاستوں میں فوج اور انٹیلی جنس اداروں کا تعلق ہے، انھیں ان تنازعات کی وجہ سے ہی تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مدمیں بھاری رقوم دی جا رہی
ہیں۔
جمہوریت اور امریکہ کا کردار
جمہوریت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہاں ثمرآور نہیں ہوتی جہاں پر معاشرہ تقسیم کا شکار ہو۔ان چاروں ریاستوں کی شناخت ایک تقسیم کے گرد گھومتی ہے۔
نامور مفکر عتی ابراہیم (Itty Abraham)نے لکھا ہے کہ’’ جغرافیائی سیاست اور بٹوارے نے ریاست کے اندراور باہر فطری حلیف پیدا کر لئے ہیں۔بٹوارے نے عدم تحفظ کا
احساس کئی گنا بڑھا دیا ہے جس کی کوئی حد نظر نہیں آتی‘‘۔
سیکولرازم دنیا کے ان دونوں خطوں کے لئے زرخیز ہو سکتا ہے۔امریکی اقدار ہمیشہ پاکستان کے لئے بہتر نہیں ہو سکتیں حتیٰ کہ انڈیا کے لئے بھی۔جہاں بی جے پی کے کچھ
لوگ اسلامی پاکستان کو اس شرط پر تسلیم کر لیں اگر انھیں بدلے میں ایک ہندو انڈیا مل جائے۔حماس شدت پسند مذہبی جماعت کا روپ اتار سکتی ہے جبکہ الفتح پہلے ہی جدت
پسند ہے مگر ان دونوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد کیا ہو گی۔
امریکہ کئی طرح کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ایک تو یہ کہ وہ دونوں گروپوں کو مسلسل مذاکرات میں مصروف رکھے۔تاکہ یہ تنازعہ کسی صورت ایٹمی جنگ میں نہ بدل سکے
(امریکہ نے پاکستان اور اسرائیل کے ایٹمی پروگراموں سے آنکھیں بند کئے رکھیں اور اس نے جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا ایٹمی نیو دہلی سے بھی تعلقات کو معمول پر رکھا
)۔امریکہ کا ابھی تک اپنا کوئی مؤقف نہ تو کشمیر پر ہے نہ ہی یوروشلم پر،نہ غزہ پر نہ ہی مغربی کنارے کے بارے میں۔غیر معمولی طور پر امریکہ نے کہا کہ کشمیر کی
لائن آف کنٹرول عالمی سرحد کا درجہ رکھتی ہے لیکن وہ اس کو پالیسی بنانے میں ناکام رہا۔صدر اوبامہ نے انڈیا کے حالیہ دورے پر جانے سے پہلے اپنے سٹاف سے کشمیر کے
بارے میں دریافت کیا جنھوں نے انھیں اس کا ذکر کرنے سے روکا۔بل کلنٹن اس سے قبل کشمیر کو دنیا کا سب سے خطر ناک علاقہ کہہ چکے تھے۔
حالت امن کی جانب
اصولی طور پر صرف دو راستے ہیں۔جن کو یورپی پس منظر میں امریکی مفکر چارلس کپان (Charles Kupchan) نے درجہ بدرجہ بیان کیا ہے۔کہ ان کی لیڈر شپ کسی ایک بات پر
متفق ہو جائے جس کے بعد ترقی کا عمل تیز ہو جائے، باہمی روابط اور تجارت اس حد تک بڑھ جائے کہ دو معاشرے ،قومیں اور معیشتیں ایک دوسرے کی اسیر ہو کر رہ
جائیں۔ضروری ہے کہ پہلے یہ باہمی تجارت کریں پھر عوامی سطح پر رابطے استوار کئے جائیں۔ثقافتی تبادلے ہوں جس کے بعد ان کے سخت گیر رہنما بھی ٹھنڈے پڑ
جائیں۔درحقیقت یہ دونوں طریقے موجود ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی تنازعے کا حل اس وقت تک نہیں دے سکتا جب تک فریقین ایسا نہیں چاہتے کیونکہ ایک دوسرے کے بارے
میں شکوک و شبہات اور خوف نسل در نسل چلا آرہا ہے۔
بعض اوقات باہر سے بھی کوئی حل دیا جا سکتا ہے یا ٹھونسا جا سکتا ہے جیسا کہ 1960ء میں انڈس واٹر ٹریٹی کا معاہدہ، جس کے پیچھے ورلڈ بنک تھا۔ یہ معاہدہ امریکہ
میں ہوا جو کہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ ایک شاندار علامت ہے کیونکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان یہ آخری کامیاب معاہدہ تھا۔اگرچہ دونوں نے شروع میں اس
پر دستخطوں سے انکار کیا لیکن پھر دونوں کے درمیان مزید مزاکرات ہوئے جس کے بعد یہ معاہدہ ہو گیا ۔حتیٰ کہ 1971میں اندرا گاندھی اور ذولفقار علی بھٹو کے درمیان
شملہ معاہدہ بھی ناکام ہو گیا تھاکیونکہ اس میں کہا گیا تھا کہ دونوں فریق مسئلہ کشمیر حل کریں گے اور دونوں جانب نئے ضابطے بنائے جائیں گے لیکن اس کے نتیجے میں
پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع ہوا جس کا مقصد نئی دہلی کو اس کی حدود میں رکھنا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے پر کئی کانفرنسیں تسلسل کے ساتھ ہوتی رہی ہیں جن میں سے زیادہ تر کا انعقاد وائٹ ہاؤس کی جانب سے کیا گیا تھا۔کیمپ ڈیوڈ میں بھی فریقین کو
مدعو کیا گیا مگر اسرائیل اور فلسطین اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔اسرائیل میں تعصب نہ رکھنے والی حکومت کی عدم موجودگی اور فلسطین میں پی ایل او ، حماس اور حزب
اللہ جیسی عسکری تنظیموں کے عروج کی وجہ سے مزاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔امریکہ نے وہاں ایسے کام شروع کئے جو نظر چھوٹے آتے ہیں مگر ان کے نتایج دورس ہوں
گے۔مثال کے طور پر یو ایس ایڈ نے ’’نیئر ایسٹ فاؤنڈیشن‘‘ کو زیتون کے تیل کا ایک پراجیکٹ دیا جس سے اسرائیل اور فلسطین کے زیتون کے کاشت کار ایک دوسرے کے ساتھ
رابطے میں آگئے۔اسرائیل نے بھی اس کی اجازت دے دی کیونکہ اس میں اسے کوئی نقصان نہیں تھا اور امریکہ بھی خوش ہو گیا۔امریکہ نے اپنی فاؤنڈیشنز کے ذریعے ٹریک ٹو
ڈپلومیسی کے پروگرام بھی شروع کئے جن میں سے بعض انڈیا کے حوالے سے بہت زیادہ حساس بھی تھے۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان تنازعات کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔143143RANDجیسی تنظیموں کی جانب سے وہ مطالعے جن میں تنازعے کے حل کی صورت میں ہونے والے مالی فوائد
کا ذکر کیا گیا تھا وہ فوائدان تنازعات کے پیچھے موجود تاریخ کا جبراور جنونیت ختم نہیں کر سکتے۔مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی موجودہ صورتحال نے تیسری سمت بھی
اشارہ کیا ہے جو علاقائی تناظر میں ہے کہ فریقین پر باہر یا اندر سے حل ٹھونسنے کی بجائے وہ خود خطرات کو دیکھتے ہوئے پائیدار حل کی جانب سفر کر سکیں۔
افراتفری اور اسلامی شدت پسندی کا خطرہ
دونوں خطوں میں اب افراتفری اور اسلامی شدت پسندی کا خطرہ اکٹھا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل اورسعودی عرب ایک دوسرے سے رابطے کر رہے ہیں۔چین کی پاکستان میں
بھی دلچسپی بڑھ گئی ہے جس کا ایک مقصد بھارتی اثروررسوخ کو بھی کم کرنا ہے۔امریکہ ، سعودی عرب ،ایران ، انڈیا ،چین اور بہت سارے پاکستانی ،کئی فلسطینی اور
اسرائیلی ،یورپی ممالک یہ نہیں چاہتے کہ دونوں خطوں میں کوئی اسلامی سنی شدت پسند غالب آ جائیں۔یہ ایک مشترکہ مقصد اور باہمی مفاد ہو سکتا ہے۔جیسا کہ افغانستان
میں کوئی نہیں چاہتا کہ طالبان کی جگہ دولتِ اسلامیہ لے لے۔
ایران کسی بھی ایسے منصوبے کا شراکت دار ہو سکتا ہے۔کیا حالیہ ایٹمی معاہدے کے بعد امریکہ اور ایران اکٹھے کام کر سکتے ہیں اس سنی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے جس
کا سامنا ایران اور مغرب دونوں کو ہے۔اس کی ایک مثال امریکہ کی ہے کہ اس نے روس کے رہنما سٹالن کے ساتھ مل کر دوسری جنگ عظیم میں نازی خطرے کا مقابلہ
کیا۔واشنگٹن نے 9/11کے بعد بھی ایران کے ساتھ مل کر کام کیا مگر یہ سب کچھ صدر بش کی اس حکمت عملی سے پہلے ہوا جس میں انھوں نے ایران کو بھی بدی کا محور قرار
دیاتھا۔
امریکہ کو ان دونوں تنازعات کے حل کے لئے اپنی توانائیاں پھر سے اکٹھی کرنی ہوں گے اور ساتھ ساتھ اس بات کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ کیا وجہ کہ یہ تنازعات ابھی
تک حل طلب ہیں۔ایک وقت میں صرف ایک نہیں بلکہ کئی حکمت عملیوں پر ایک ساتھ کام کیا جائے۔اس پر وقت لگ سکتا ہے۔ دونوں خطوں میں یہ انتہائی مناسب وقت ہے کیونکہ
خطرات زیادہ سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ قدامت پسند رہنما امن کا کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں جیسے کہ نکسن اور چین ،بیگن اور سادات ،واجپائی اور مشرف نے
نکالا تھا۔ان واقعات میں سخت گیر حلقوں نے بھی قدامت پرستوں کے اقدام کو سراہا تھا۔جبکہ امن کا راگ الاپنے والی فاختاؤں نے منافقت کا مظارہ کرتے ہوئے ان کی مدد
نہیں کی اور جب فاختاؤں نے امن کی جانب کوئی اقدام اٹھانا چاہا تو ان کے راستے میں شکرے آ گئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی قوم کی اساس کسی ایک دشمن پر کھڑی ہوتی ہے تو ایک نیا اور بڑا خطرہ ہی اس کی توجہ کسی اور جانب مبذول کرا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں
(پاکستان اور حماس)اندرونی مسائل اور اصلاحات کو بیرونی خطرے کے مقابلے پر اہمیت نہیں دیتے۔جس سے باہر والے سمجھتے ہیں کہ یہ ممالک ٹھیک نہیں ہو سکتے کیونکہ ان
کے اندرونی مسائل انھیں ایسا کرنے نہیں دیتے۔اب مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی رہنماؤں کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ افراتفری اور شدت پسندی کے وسیع خطرے کو دیکھتے
ہوئے امن کی جانب عمل کا آغاز کر دیں بے شک اس میں کوئی فوری حل نہ بھی ملے مگر مزاکرات کی بحالی میں ان کے معمول کے تعلقات تو بہتر ہو جائیں گے۔