working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

نقطۂ نظر

مجادلہ نہیں مکالمہ

سبوخ سید

ایک دوسرے کی آراء کا احترام مکالمے کا بنیادی خاصا ہے ، ہمارے ہاں عدم برداشت نے ہمیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے اس کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مکالموں نے مجادلوں کی شکل اختیار کر لی تھی ،اختلاف فکری تھے بھی تو ہم نے انہیں اس نہج پر پہنچا دیا جہاں وہ دشمنیوں اور پھر خونی معرکوں میں بدل گئے ۔کچھ کچے ذہن پہلے ابہامات کا شکار ہوتے ہیں پھر وہ ارد گرد کے ماحول سے ایک ایسا بیانیہ بنا لیتے ہیں جو عدم برداشت اور تشدد سے عبارت ہوتا ہے ۔ضروری ہے کہ وہ مکالمے کے آداب جانیں اور ہر چیز کو اپنے دماغ کی رنگین عینک سے دیکھنے کے رجحان پر قابو پائیں ۔ زیر نظر مضمون میں سبوخ سید یہی پیغام دیتے نظر آتے ہیں ۔سبوخ سید صحافی اور اینکر پرسن ہیں اور ایک نیوز ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں ۔(مدیر)

میں دارالعلوم کراچی کے عقب میں واقع قبرستان میں کھڑا قبروں کے کتبے پڑھ رہا تھا کہ کہ سامنے سے ایک خوش پوش نوجوان آگیا۔ شلوار ٹخنوں سے اونچی ،کریزوں والا سفید کرتا اور پٹی والا گلہ ، مشت بھر تراشی ہوئی داڑھی ،سر پر سفید عمامہ ،عمر لگ بھگ چوبیس ،پچیس برس ہوگی۔ مشہور عطر سلطان مکہ کی خوشبو سے اس کا وجود مہک رہا تھا۔

مسکراتے ہوئے بغلگیر ہوئے ، دونوں ہاتھ ملائے اور کہنے لگا کہ

آپ سبوخ سید ہی ہیں نا ں؟

ایک بار تو میرے پاؤں سے زمین ہل گئی کہ اب خیر نہیں۔

میں نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا کہ جی ہاں میں سبوخ سید ہوں۔

ہم نے حال احوال کا تبادلہ کیا۔

اس نوجوان نے شائستہ لہجے میں گفت گو شروع کر تے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو کچھ باتیں پوچھ سکتا ہوں ؟

میں نے کہا کہ ضرور پوچھئے۔

انہوں نے کہا کہ میرا نام صہیب احمد ہے اور میرا تعلق سوات سے ہے۔ میں سوشل میڈیا پر آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں۔ مزا بھی آتا ہے تاہم بڑی کوفت ہوتی ہے۔ مجھے کراچی کے ایک عالم نے بتایا کہ آپ کے والد صاحب بھی عالم دین ہیں۔مجھے یہ سن کر مزید تشویش ہوئی کہ علماء کے بیٹے کیوں ایسا کر تے ہیں ؟فیس بک پر میں نے کئی بار آپ سے بات کرنے کی کوشش بھی کی تاہم آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

میں نے ان سے معذرت کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کی طبع سلیم پر میری کون سے بات گراں گذری ؟

انہوں نے کہا کہ آپ ہر وقت مدارس پر تنقید کر تے رہتے ہیں ؟ دنیا دار لوگ اگر کوئی غلط کام کریں تو آپ لوگ نہیں بولتے تاہم اگر وہی کام کوئی عالم غلطی سے کر بیٹھے تو آپ بیچ چورہے کے ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ وہ عام سوال تھے جو مجھ سے تقریبا کراچی کے ہر مدرسے میں پوچھے گئے۔

میں نے صہیب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ

بھائی دیکھیں ، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے مدارس پر نہیں بلکہ مدارس کے رویے پر تنقید کی۔ ہم تو مدارس کی خدمات کا اعتراف کر تے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان مدارس کا احسان ہے کہ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو یہ زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ کام ہماری حکومتوں کے کرنے کے تھے جو مدارس ادا کر رہے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مدارس نے ہمیشہ حکومت کو اپنا دشمن سمجھا اور حکومت میں شامل بعض لوگوں نے مدارس کو جہالت کا گڑھ قرار دیا۔ ہمارے مدارس ابھی تک انگریزکے ساتھ مزاحمت کی داستانیں دل میں سجائے حکومت سے ٹکرانے کے لیے سر بکف ہیں۔ یہ دونوں رویے انتہا پسندانہ سوچ کا عکاس ہیں۔

میں نے صہیب سے کہا کہ اگر آپ مجھے چائے کا ایک کپ پلائیں تو بات زیادہ آسانی سے ہو سکے گی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ آپ توامیر آدمی ہیں ، جیو نیوز میں کام کر تے ہیں ، اتنی زیادہ تنخواہ لیتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور چائے ہم سے پیتے ہیں۔ چائے تو آپ کو پلانی چاہیے،ہم تو طالب علم ہیں ۔

میں نے صہیب سے کہا دیکھو چائے میں پلا دیتا ہوں لیکن ایک بات زرا غور سے سنیں ۔ آپ نے جو کچھ میرے بارے میں کہا کہ وہ سب غلط ہے کیونکہ میں نے جیو ٹی وی چھوڑ کر بول نیوز سے وابستگی اختیار کر لی تھی ، اور بول کے بحران کی وجہ سے گذشتہ آٹھ ماہ سے بے روز گار ہوں ، اس نے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔

میں نے کینٹین کی طرف بڑھتے ہوئے صہیب کو روکا اور اس سے کہا کہ دیکھو ، آپ نے ایک بات کر دی لیکن حقیقت اس سے کتنی مختلف تھی۔ اسی طرح بعض باتیں ہم نے ذہنوں میں حقیقت سمجھ کر بٹھائی ہوتی ہیں لیکن اگر ہم فریق مخالف کا مؤقف سنیں تو شاید حیران بھی ہوں اور شرمسار بھی ۔ میں نے آگے بڑھتے ہوئے اسے کہا کہ

" یہ آپ کا قصور نہیں ، ہمارا سارا معاشرہ ہی یہ طے کرچکا ہے کہ ہم نے دوسرے کے بارے میں از خود یک طرفہ طور پر رائے بنانی ہے اور اپنی طے شدہ رائے کے نتیجے میں دوسرے شخص کو کٹہرے میں کھڑا کر کے سنگ باری شروع کر دینی ہے۔ ہم پوری دنیا کو اپنی آنکھ اور اپنے پسندیدہ رنگ کے چشمے سے سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ، ہم ہر وقت مجادلے کی کیفیت میں ہوتے ہیں ، مکالمے کو ہم نے حرام قرار دے دیا ہے "

صہیب نے میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ

یہ بات تو آپ کی درست ہے کہ ہم اگر عیسائیت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو چرچ میں جانے کے بجائے اپنے بزرگوں کی کتابوں سے سمجھتے ہیں ، حالانکہ کراچی میں بے شمار چرچ موجود ہیں لیکن ہم کبھی وہاں نہیں جاتے اور ناہی وہ یہاں آتے ہیں۔اس طرح ہمیں اپنے اکابر کی لکھی ہوئی کتاب " عیسائیت کیا ہے " سے ہی عیسائیت کو جاننا پڑتا ہے۔

مجھے صہیب کی بات سے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ہم کنٹین پر پہنچ گئے۔ چائے اور کیک منگوائے ، میں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے صہیب کو بتایا کہ

میں 2001 سے لیکر 2004 تک شیخ زید اسلامک سنٹر پشاور یونی ورسٹی کا طالب علم رہا۔ میں نے وہاں سے بی اے آنرز کیا۔ ہمارے نصاب میں تقابل ادیان کی کتب بھی شامل تھیں۔ ڈاکٹر رشاد احمد سلجوق صاحب ہمارے استاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب نہایت نفیس آدمی ہیں اور جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کے بھتیجے ہیں۔ جب ہم مسیحیت کے بارے میں پڑھ رہے تھے تو ہمیں یہ پڑھایا گیا جب کوئی شخص مسیحیت میں داخل ہوتا ہے تو اسے سب سے پہلے بپتسمہ دیا جاتا ہے۔

بپتسمہ (Baptism) مسیحیوں کی ایک مذہبی رسم ہے جس میں مسیحیت میں داخل ہونے والے نئے آدمی یا نومولود پر مقدس پانی چھڑک کر باقاعدہ مسیحیت میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ رسم گرجوں میں ادا کی جاتی ہے۔ بعض گرجوں میں مسحیوں کو اس وقت بپتسمہ دیا جاتا ہے جب وہ جوان ہوجائیں۔پانی سے بپتسمہ مسیحیوں کا گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے اور روحانی بحالی کا ایک طریقہ ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہندو ، سکھ یا مسیحی اسلام قبول کرے تو وہ پہلے مسلمانوں کے طریقے کے مطابق غسل کرتا ہے۔

بپتسمہ دریا ، سمندر یا چشمے یا کسی بہتے ہوئے پانی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بپتسمہ لینے والا جو پہلے ہی پانی اور مقدس روح کا بپتسمہ لے چکا ہو وہ مسیح کے نام سے اس طرح بپتسمہ لیتا ہے کہ اس کا پورا جسم پانی میں ڈوبا ہوا ہو اور سرنیچے کی طرف جھکا ہوا ہو۔ پیروں کا دھونا اس بات کی علامت ہے کہ بپتسمہ لینے والا مسیح کے ساتھ شریک ہے اور محبت، تقدیس، عاجز ی اور معاف کرنے کے جذبہ اور خدمت گذاری کی یاد دہانی ہے۔ عیسائی عقائد کے مطابق جو شخص بپتسمہ لے اسے مسیح کے نام پر اپنے پیروں کو دھونا چاہئے۔ اس طریقہ سے ایک دوسرے کے پیر دھونا ایک ایسا رواج ہے جس کو کسی بھی مناسب موقع پر عمل میں لایا جا سکتا ہے۔

تاہم ہم نے کتاب میں جو بپتسمے کے بارے میں پڑھا ، اس کی منظر نگاری کچھ یوں کی گئی تھی جس سے یہ مذہبی رسم کے بجائے ایک مساج سنٹر کی سی عکاسی کر رہا تھا۔ ہم نے پڑھا تھا کہ مسیحی ہونے کے لیے پہلے ایک تالاب میں ننگے بدن کے ساتھ نہانا پڑتا ہے۔ پھر دوسرے کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں اس شخص کے سر پر تیل ڈالا جاتا ہے۔ پھر اس کا مساج کیا جاتا ہے جس کے بعد ایک کھانا پوتا ہے جسے عشائے ربانی کہا جاتا ہے۔

میں نے جب یہ پڑھا تو چھٹی کے بعد سیدھا پشاور صدر میں واقع چرچ چلا گیا۔ یہ چرچ اس حوالے سے بڑا اہم ہے کہ درویش مسجد پشاور اور چرچ کی عمارت دونوں میں ایک دیوار کا فاصلہ ہے۔اس مسجد میں پشاور کے معروف عالم دین ، جمیعت علمائے اسلام کے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا حسن جان خطیب تھے۔ چرچ کے گنبد سے مسجد کے مینار دیکھنا ایک حسین نظارہ ہے جو اس شہر میں برداشت اور ہم آہنگی کی دلیل کے طور پر نئے ذہنوں کو دعوت غور و فکر دے رہا ہے۔

میں نے پشاور چرچ کے فادر سے مسیحیت میں شامل ہونے کے عمل کے بارے میں تفصیلی آگاہی حاصل کی تو مجھے علم ہوا کہ جو ہمیں پڑھایا جا رہا ہے ، وہ یوں نہیں ہے۔

یہ بات میں نے ممتاز مسیحی سماجی کارکن رومانہ بشیر کو بھی بتائی تو انہوں نے کہا کہ مسیحیت کے بارے میں لوگوں کے اذہان میں بہت سی خرافات اور من گھڑت باتیں داخل کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اصل وجہ یہ ہے کہ مسیحی، ہندو ، بہائی اور سکھ بچے بھی پاکستان میں مسلمان بچوں کے ساتھ عصری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ مسلمان بچوں کے لیے اسلامیات کا استاد تو موجود ہے تاہم دیگر مذاہب کے بچوں کے لیے ان کا کوئی مذہبی استاد نہیں۔ یوں غیر مسلم بچے بھی اسلامیات ہی پڑھتے ہیں۔ بعض اسکولوں میں اسلامیات کی جگہ اخلاقیات کا مضمون شامل کیا گیا ہے جسے پڑھاتا وہی اسلامیات کا استاد ہے۔ مسلمان استاد ہمارے بچوں کو اپنے عقیدے کے مطابق مذہب پڑھاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پریشان رہتے ہیں۔ان کو گھروں اور چرچوں میں کچھ اور کہا جاتا ہے جبکہ اسکولوں میں کچھ اور پڑھایا جا تا ہے۔ خیر یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر میں پھر کبھی قلم اٹھاؤں گا۔ میں نے صہیب سے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ چیزیں کہاں تک جا پہنچی ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں علم ہی نہیں کہ ہمارے اصل اور بنیادی مسائل کیا ہیں۔ یہ ہمارا ایک دوسرے کے بارے میں روایتی رویہ ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے کا خواہ مخواہ دشمن بنا دیا ہے۔

صہیب نے کہا کہ آپ کو تو عیسائیوں کے بارے میں بڑی معلومات ہیں تو میں انہیں کہا کہ عیسائی نہ کہیں بلکہ مسیحی کہیں۔

انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں ؟

تو میں انہیں بتایا کہ پہلے میں بھی عیسائی لکھتا تھا ، تاہم مجھے مسیحی دوستوں نے بتایا کہ انہیں عیسائی کے بجائے مسیحی لکھا ، پڑھا اور پکارا جائے ،انہیں عیسائی کے بجائے مسیحی کہلوانا پسند ہے ۔ میں نے اس کے بعد کبھی بھی عیسائی لفظ نہیں کہا ، بلکہ ہمیشہ مسیحی استعمال کیا۔ اسی طرح پاکستان میں بسنے والے غیر مسلموں کو اقلیت کہنا بھی زیادتی ہے کیونکہ ان کی حیثیت اس ملک میں ذمی کی نہیں بلکہ معاہد کی ہے اور یوں وہ اس ملک میں برابر کے شہری ہیں۔

اس پر صہیب نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا کہ بھائی صاحب ، اب آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ کیا کوئی مسلمان یورپ ، امریکا اور بر طانیہ میں برابر کا شہری ہے کہ ہم مسیحیوں کو برابر کا شہری سمجھیں۔

میں نے اسے کہا کہ اس طرح تو کوئی پاکستانی ، ہندوستانی ،برمی اور بنگلہ دیشی کو بھی عرب ممالک میں برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا حالانکہ عرب بھی مسلمان ہیں اور یہ بھی مسلمان ہیں۔

بھائی بات مذہب کی نہیں ، بلکہ جغرافیے کی ہے۔ آپ اپنے گھر میں سارے کام اپنی مرضی سے کر تے ہیں تاہم اپنے کسی رشتے دار کے گھر میں اپنی مرضی سے سارے کام نہیں کر سکتے بلکہ

وہ جس کمرے میں آپ کو سونے کا کہے گا ، وہیں آپ سوئیں گے۔

جس وقت وہ آپ کو ناشتہ دے گا ، اسی وقت آپ ناشتہ کریں گے ،

کھانے میں جو وہ کھلائے گا ، وہی آپ کھائیں گے۔

صہیب نے ہنستے ہوئے کہا کہ یار آپ پنجابی لوگ باتوں میں بڑے تیز ہوتے ہیں تو میں نے صہیب سے کہا دیکھو ، اب پھر تم ایک غلط بات کر رہے ہیں ، میں پنجاب کا نہیں بلکہ خیبر پختون خواہ کے ضلع ایبٹ آباد سے تعلق رکھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ " ایک ہی بات ہے "

میں کہا کہ وہ کیسے ؟

کہنے لگے کہ تم بھی پنجابی بولتے ہو اور وہ بھی پنجابی بولتے ہیں۔

میں نے کہا بھائی ، دیکھو اب ایک اور غلط بات کر رہے ہو ، ہم پنجابی نہیں بلکہ ہندکو بولتے ہیں۔

ہمارے ہاں سواتی اور جدون بھی ہندکو بولتے ہیں حالانکہ وہ جدی پشتی ، اصلی اور نسلی پٹھان ہیں۔ اسی طرح بٹگرام ، تور غر اور اوگی کے لوگ پشتو بولتے ہیں ، کوہستان کے لوگ کوہستانی بولتے ہیں لیکن رہتے سب ہزارہ ڈویڑن میں ہیں۔

تو کیا اس بنیاد پر انہیں پنجابی کہا جائے گا ؟

صہیب نے یہ سن کر کہا کہ " یہ تم ٹی وی والوں کو باتیں بنانے کا بڑا تجربہ ہوتا ہے " میں نے کہا کہ ایک اور غلط بات کر دی آپ نے ،یہ تجربہ تو مدارس میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں منطق ، ادب ، فلسفہ پڑھایا جا تا ہے۔ تقابل ادیان اور مسالک کے کورس کرائے جاتے ہیں۔ مناظرے اورمجادلے اور مباحثے کرائے جاتے ہیں۔ فن تقریر و تحریر سے آشنا کرایا جاتا ہے۔ خطبا اور واعظین کے سامنے آپ ہمہ وقت بیٹھتے ہیں۔لفظ و حرف آپ کی جیب میں ہوتے ہیں۔

میرے بھائی بات اصل میں یہ ہے کہ مسئلہ معلومات اور دلیل کا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس معلومات کتنی ہیں اور ہم ان معلومات کے نتیجے میں دلائل کو کیسے قبول اور رد کر تے ہیں۔

اس سارے کام کے لیے سب سے پہلے دل کے بند دروازے کھولنے پڑتے ہیں۔ پھر دماغ کے دریچوں کو تازہ ہوا دینی پڑتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں دوسروں کے لیے اپنے دروازے کھولنے پڑتے ہیں اور ان کے دروازوں پر علم کے حصول کے لیے پیار اور محبت سے دستک دینی پڑتی ہے۔

جس دن ہم نے اپنے دل ، دماغ ، گھر ، مدرسے ، مسجد کے دروازے سب کے لیے کھول دیے ،وہ دن مناظروں اور مجادلوں کا آخری دن ہوگا۔ یہ مکالمے کی ابتدا ہو گی۔ ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں ، بلکہ قبول کریں گے۔

مغرب کی آذان کا وقت ہونے والا تھا۔ میں نے صہیب کو احمد فراز کی ایک نظم سنائی

تم اپنے عقیدوں کے نیزے،ہر دل میں اْتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں،تم خنجر کیوں لہراتے ہیں

اِس شہر میں نغمے بہنے دو،بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے،ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں

تم کس کا لہو پینے آئے،ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے،جب حرف یہاں مر جائے گا

جب تیغ پہ لَے کٹ جائے گی،جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا سْر سازوں کا،جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے گا،پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے

اپنے چہرے آئینوں میں،جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے

صہیب نے کہا کہ آپ سے گفت گو کا واقعی مزا آیا لیکن میرے کچھ سوالات ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ میں نے کہا کہ بس آپ ہمیں محبت سے چائے پلاتے رہیں گے تو ہم اکٹھے بیٹھ کر اپنی سوچ اور فکر کی تشکیل نو کر تے رہیں۔

ہم بات کر ہی رہے تھے کہ دارالعلوم کراچی کی خوبصورت مسجد سے آذان مغرب کی آواز آنا شروع ہو گئی۔

خدائے وحدہ لاشریک کی ذات انسانوں کو قیاس آرائیوں کے بجائے حقیقت کی جانب بلا رہی تھی ، وہ آواز جو کبھی یہاں گونجتی ہے ، کبھی وہاں گونجتی ہے۔

یہی آواز کبھی چرچ میں ، کبھی مسجد میں ، کبھی مندر میں ، کبھی گورداوارے میں ، کبھی سینگاگ میں ، کبھی جماعت خانے میں گونجتی ہے۔

خدا محبت ہے اور محبت خدا ہے۔

کاش ایک دن محبت اور فلاح کی یہ آواز ہمارے دل اور دماغ سے بھی گونجے