working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

دینی مدارس کا مروجہ نصاب ۔ ایک مختصر جائزہ

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں اور اس کے ساتھ گفٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہیں ۔ ان کا شمار اہل مذہب کی نئی اور توانا آوازوں میں ہوتا ہے ۔انھوں نے زیر نظر مضمون میں مدارس کے نصاب کے حوالے سے چند سوالا ت اٹھائے ہیں ،چونکہ وہ مذہبی اور جدید تعلیم کی تدریس سے وابستہ ہیں اس لئے ان کی رائے اہمیت کی حامل ہے ۔اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مدارس کا نصاب دور جدید کے تقاضے تو درکنا ر خود مذہبی تقاضے بھی پورے نہیں کر رہا ۔

دینی مدارس کے مروجہ نصاب تعلیم کی بنیاد تاریخی طور پر اس نصاب پر رکھی گئی تھی جسے کوئی ڈھائی صدیاں قبل برصغیر میں ملا نظام الدین سہالوی نے اس وقت کے رائج علوم وفنون کی تدریس کے لیے مرتب کیا تھا۔ بدلتی ہوئی دینی وتعلیمی ضروریات کے تناظر میں بیسویں صدی کے آغاز میں دینی روایت سے وابستہ بڑے اہل علم نے اس نصاب کی اصلاح اور اس میں ترمیم واضافہ کے ضرورت کی طرف متوجہ کرنا شروع کیا تو عمومی سطح پر اس تجویز کی مخالفت ومزاحمت کی آوازیں زیادہ سنائی دیتی رہیں اور سخت یا نرم لہجوں میں اس پر گوناگوں تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ نصاب میں تبدیلی کے خلاف عام طور پر بنیادی استدلال اس نصاب کی تاریخی اہمیت اور افادیت سے کیا گیا، تاہم ترمیم واضافہ اور اصلاح کے حق میں اٹھائی جانے والی آوازوں میں بھی کئی نامور اہل علم کی آوازیں شامل تھیں جن کا اپنا وزن تھا۔ چنانچہ مخالفت کے باوجود بالفعل اس سمت میں دھیمی رفتار سے سہی، پیش رفت ہوتی رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ مختلف حلقوں نے اس میں بہ تدریج کئی قسم کی تبدیلیاں قبول کر لیں۔ اضافہ جات وترامیم کے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد آج یہ نصاب جس صورت میں پاکستان کے دینی مدارس میں رائج ہے، اسے محض ایک تاریخی نسبت کے حوالے سے ہی ’’درس نظامی‘‘ کہا جا سکتا ہے، ورنہ اپنے بنیادی خط وخال، ترجیحات اور مندرجات کے اعتبار سے اس نصاب کی شکل وصورت اور ہیئت کم وبیش 80 فیصد تبدیل ہو چکی ہے۔

تبدیلی اور اصلاح کے ایک مسلسل عمل کے باوجود نصاب کے بہت سے اہم خلا اور مطلوبہ اصلاحات آج بھی اہل علم کے مابین زیر بحث ہیں اور مختلف حوالوں سے اس پر غور وفکر اور تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان سطور میں نہایت اختصار کے ساتھ اس ضمن کے بعض اہم پہلوؤں کا ذکر کیا جائے گا۔

قرآن وحدیث

قرآن مجید سے متعلق نصاب کے حوالے سے اہم ترین نکتہ اس کی ’’محدودیت‘‘ کو قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ قرآن مجید سے متعلق وسیع ومتنوع علوم ومعارف کے مناسب اور تعارفی مطالعہ کو نصاب میں اہمیت نہیں دی گئی۔ اگرچہ وفاق المدارس العربیہ کی بعض حالیہ اصلاحات کے تحت متعلق نصاب میں دو اضافے کیے گئے ہیں، یعنی الفوز الکبیر اور التبیان فی علوم القرآن جو اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس طرح پہلی مرتبہ دینی نصاب میں متن قرآن کے براہ راست مطالعہ سے ہٹ کر قرآن سے متعلق مختلف اصولی وتاریخی مباحث کو جزو نصاب بنایا گیا ہے، تاہم یہ دونوں اضافے اپنے موضوع سے متعلق مباحث کا زیادہ جامعیت کے ساتھ احاطہ نہیں کرتے۔ شاہ ولی اللہ کی الفوز الکبیر دراصل اصول تفسیر اور علوم القرآن سے متعلق چند بنیادی مباحث کے محاکمہ کی حیثیت رکھتی ہے جسے علمی سطح پر سمجھنے کے لیے طلبہ کو ان مباحث کا ایک بنیادی تعارف حاصل ہونا چاہیے، جبکہ اس ضرورت کو پورا کرنے والی کوئی کتاب شامل نصاب نہیں۔ الصابونی کی التبیان فی علوم القرآن اس موضوع پر ان کے محاضرات کا مجموعہ ہے جنھیں بعد میں تحریری صورت میں مرتب کر لیا گیا۔ علوم القرآن کے ابتدائی سطح کے تعارف کے لیے تو یہ کتاب مناسب ہو سکتی ہے، لیکن اعلیٰ سطحی تدریس کے لیے ناکافی اور ناموزوں ہے۔

اصول تفسیر، علوم القرآن اور مختلف تفسیری مناہج اور امہات کتب تفسیر کے تعارف کے حوالے سے اہل حدیث مدارس کا نصاب نسبتاً بہتر ہے، چنانچہ اس میں امام ابن تیمیہ کے مقدمۃ فی اصول التفسیر، مناع القطان کی مباحث فی علوم القرآن اور محمد حسین ذہبی کی معروف تصنیف التفسیر والمفسرون (غالباً منتخب اجزاء) کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے جن کے مطالعہ سے طلبہ علوم القرآن کے مباحث اور تفسیری مناہج کا بنیادی تعارف حاصل کر سکتے ہیں۔

قرآن مجید کی تعلیم سے متعلق نصاب کی محدودیت اور اور طرز تدریس کے نقائص کا شکوہ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے یوں کیا ہے کہ:

’’تفسیر میں تخصص کے شعبے متعدد مدارس میں قائم ہیں، لیکن وہ چند ماہ میں پورا قرآن حکیم کسی ایک استاد یا مفسر کے طرز تفسیر کے مطابق سرسری طور پر پڑھا دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان تفسیری پروگراموں کے فارغ التحصیل اصحاب زیادہ سے زیادہ اپنے شیخ کے طرز پر عوامی یا مناظرانہ انداز کا درس قرآن دینے کے قابل تو ہو سکتے ہیں، لیکن ان پروگراموں کے نتیجے میں وہ علوم قرآن، ذخائر تفسیر، تفسیر کے مہتم بالشان مسائل، مناہج مفسرین، دور جدید میں قرآن پاک پر کیے جانے والے اعتراضات اور شبہات، تاریخ تدوین قرآن اور ان جیسے امہات مسائل سے اکثر ناواقف ہی رہتے ہیں۔‘‘ (’’دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم وتحقیق‘‘، ماہنامہ الشریعہ، جنوری 2008، ص 9، 10)

حدیث کی تدریس کے حوالے سے موجودہ نصاب کا سب سے اہم اور امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس میں امہات کتب حدیث کے متون کا سبقاً سبقاً مطالعہ کیا جاتا ہے جس سے احادیث کا کم وبیش دو تہائی ذخیرہ طلبہ کی نظر سے گزر جاتا ہے۔ تاہم اتنے بڑے اور قیمتی ذخیرے کی تدریس کے لیے عموماً جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اس کے مختلف پہلوؤں کی اصلاح کے ضمن میں اہل علم اپنے تبصرے اور تجزیے پیش کرتے آ رہے ہیں۔ سب سے اہم تنقید یہ ہے کہ حدیث کی تدریس کے دوران میں بعض فروعی فقہی مسائل پر، جو ہمارے یہاں کے فقہی مکاتب فکر کے مابین مختلف فیہ ہیں، زیادہ توجہ اور زور صرف کیا جاتا ہے، جبکہ معاشرتی اور اجتماعی زندگی سے تعلق رکھنے والے ابواب کے تفصیلی وتحقیقی مطالعہ سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے۔ (دیکھیے: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، تعلیمات، ص 181۔ مولانا محمد تقی عثمانی، ہمارا تعلیمی نظام، ص105۔ مولانا زاہد الراشدی، عصر حاضر میں اجتہاد، ص 241، 242۔ مولانا مفتی محمد زاہد، ’’تدریس حدیث اور عصر حاضر کے تقاضے‘‘، الشریعہ، مئی 2009ء، ص 46)

علوم القرآن کی طرح، علم حدیث کے دائرے میں بھی ذخیرۂ حدیث سے متعلق متنوع علوم وفنون اور اس علم کے ارتقا وتشکیل کا کوئی جامع تعارفی مطالعہ نیز حجیت حدیث سے متعلق معاصر کلامی مباحث پر کوئی باقاعدہ کتاب وفاق المدارس کے نصاب میں شامل نہیں، اگرچہ دورۂ حدیث میں امہات کتب کی تدریس کے آغاز میں ان مباحث پر ایک عمومی گفتگو کی جاتی ہے۔ ان پہلووں پر رابطۃ المدارس اور اہل حدیث مدارس کے نصاب میں البتہ توجہ دی گئی ہے، چنانچہ رابطہ کے نصاب میں مولانا مودودی کی ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ اور سید مناظر احسن گیلانی کی ’’تدوین حدیث‘‘، جبکہ اہل حدیث مدارس کے نصاب میں مصطفی السباعی کی ’’السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی‘‘ شامل ہیں۔ تاہم یہ کتابیں بھی ذخیرۂ حدیث کے استناد کے حوالے سے معاصر مباحث اور خاص طور پر مستشرقین کے ہمہ جہت اعتراضات کا احاطہ نہیں کرتیں۔

علم فقہ

علم فقہ کے دائرے میں موجودہ نصاب کے نمایاں نقائص کو درج ذیل نکات کی صورت میں واضح کیا جا سکتا ہے:

۱۔ علم فقہ کی تشکیل و ارتقا، چودہ صدیوں میں اس کے مختلف ادوار، متنوع فقہی مکاتب فکر اور رجحانات اور اسلامی تاریخ کے نامور مجتہدین وفقہاء کے افکار وخدمات کے تعارفی مطالعہ پر مبنی کوئی کتاب نصاب میں شامل نہیں۔ اس ضمن میں واحد استثناء اہل حدیث مدارس کا نصاب ہے جس میں فقہ کی عمومی تاریخ کے موضوع پر مناع القطان کی تاریخ التشریع الاسلامی جبکہ بعض فقہی واجتہادی رجحانات کے آغاز اور باہمی امتیازات کی تفہیم کے لیے شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ کے منتخب حصے نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔

۲۔ فقہی ذخیرے کی تدریس کے ضمن میں موجودہ نصاب صرف ایک فقہ یعنی فقہ حنفی کے گرد گھومتا ہے۔ دیگر فقہی مذاہب کا برہ راست مآخذ کی روشنی میں معروضی مطالعہ کسی بھی درجے میں شامل نصاب نہیں۔ اس حوالے سے بھی اہل حدیث مدارس میں عمومی رجحان سے ہٹ کر السید سابق کی کتاب فقہ السنۃ کے بعض ابواب نیز ابن رشد کی بدایۃ المجتھد شامل نصاب کی گئی ہے جو کسی مخصوص فقہی مسلک کی ترجمانی نہیں کرتی۔

۳۔ علم فقہ کے نصاب کی نمایاں ترین خامی یہ ہے کہ اس میں فقہ وشریعت سے متعلق معاصر سوالات ومباحث اور موضوعات کو کلیتاً نظر انداز کیا گیا ہے اور کوئی ایک کتاب بھی ایسی شامل نصاب نہیں جو معاصر قومی وبین الاقوامی عرف کے تناظر میں متعلقہ سوالات کو موضوع بناتی ہو۔ اس خلا کی شکایت عرصہ دراز سے مدارس کے جید ترین علماء کرتے آ رہے ہیں، لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ملکی قوانین کی تعلیم کی ضرورت کے حوالے سے مولانا اشرف علی تھانوی نے کوئی پون صدی قبل لکھا تھا کہ:

’’یہ میری بہت پرانی رائے ہے اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی، اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا۔ وہ رائے یہ ہے کہ تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہئیں۔ یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔‘‘ (الافاضات الیومیہ، جلد ششم، ص 534)

۴۔ علم فقہ کی تعلیم وتدریس کے دائرے میں پائے جانے والے خلا کا ایک بے حد اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں ریاستی نظام اور بین الاقوامی قانون کے ضمن میں دور جدید کی جوہری تبدیلیوں سے متعلق اجتہادی زاویہ نگاہ کو اہداف کا حصہ نہیں بنایا گیا، چنانچہ ا س حوالے سے کلاسیکی دور کے فقہی ذخیرے کو غیر تنقیدی انداز میں پڑھانا ان فکری ونظری ابہامات کی جڑ کی حیثیت رکھتا ہے جن سے اس وقت موجودہ نظم ہائے ریاست کے خلاف پر تشدد رجحانات کے حق میں جواز اخذ کیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں دینی مدارس میں فکری تربیت پانے والے طلبہ واساتذہ کو کو فکری ابہام اور ذہنی الجھاؤ کی اس کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے جامع نصابی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

معقولات (فلسفہ، منطق، کلام)

درس نظامی میں معقولات کے عنوان سے کم وبیش ہر شعبہ علم کے دائرے میں ایسی اعلیٰ سطحی کتابیں شامل کی گئی تھیں جن پر یونانی منطق کی اصطلاحات میں مباحث کی تنقیح کا رنگ کا غالب تھا۔ اس ضمن میں یونانی فلسفہ، یونانی منطق اور علم الکلام کے علاوہ ریاضی اور ہیئت کے مضامین بطور خاص معقولات کا حصہ بنائے گئے تھے اور پورے نصاب پر معقولی رنگ بے حد غالب تھا۔ تاہم نصاب میں مختلف مراحل پر ہونے والی تدریجی اصلاحات کے نتیجے میں موجودہ نصاب تعلیم میں یہ پہلو بڑی حد تک ختم ہو چکا ہے اور منطق، فلسفہ اور کلام کے مضامین سے متعلق نصاب سکڑتا ہوا چند کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔

برصغیر میں فلسفہ کی تدریس کے لیے جن کتابوں پر عموماً انحصار کیا گیا، ان کے مضامین یونانی فلسفے کے ان مباحث کے گرد گھومتے ہیں جن سے عباسی دور میں یونانی علوم کے عربی زبان میں ترجمہ کی وساطت سے مسلمان واقف ہوئے۔ ان چند مخصوص کتابوں پر انحصار اور فلسفے کی بنیادی ماہیت اور اس کی عمومی تاریخ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں عموماً فلسفہ کا جو تصور پایا جاتا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ فلاسفہ یا حکماء نام کی کوئی ایک جماعت ہے جس کے کچھ مخصوص ومتعین نظریات ہیں جو ان کے ہاں عقائد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان نظریات کو ’’فلسفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ فلسفہ کا یہ تصور، ظاہر ہے کہ بے حد ناقص ہے، کیونکہ فلسفہ چند متعین اور طے شدہ نظریات کا نہیں، بلکہ عقلی بنیادوں پر غور وفکر کی ایک مسلسل روایت کا نام ہے جس میں بے شمار مختلف ومتنوع بلکہ متضاد رجحانات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ خود مسلمانوں کی فکری روایت اس تنوع اور تغیر وارتقا کی ایک رنگا رنگ داستان ہے۔ عرب ابتداءً ا یقیناًاس طرح کی عقلی بحثوں سے یونانی علوم کے ترجمہ کی وساطت سے واقف ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد ان تصورات ونظریات کی تنقیح، تشریح وتوضیح اور تردید واثبات کی ایک مستقل علمی روایت قائم ہو گئی جس میں اگر ایک طرف یونانی فلسفے کے ان تصورات کو اسلامی عقائد کے مطابق ڈھالنے اور انھیں اسلامی عقائد کی عقلی تفہیم کے لیے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آیا تو دوسری طرف اس کے برعکس فلسفہ یونان کے اساسی تصورات پر نقد ومحاکمہ کا فکری رجحان بھی پیدا ہوا، چنانچہ دور متوسط میں غزالی اور بعد ازاں ابن تیمیہ وغیرہ نے یونانی منطق وفلسفہ پر جان دار تنقیدیں کیں اور ان عقلی معیارات کو چیلنج کیا جن کی بنیاد پر فلاسفہ کے خلاف اسلام نظریات کی تائید کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یونانیوں سے ورثے میں ملنے والے تصورات ومباحث کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے جلیل القدر اہل فکر بھی پیدا ہوئے جنھوں نے نئے اور طبع زاد مباحث پر داد فکر دی اور مابعد الطبیعیات کے علاوہ انسانی نفسیات، علم اخلاق، عمرانیات، سیاسیات اور فلسفہ تاریخ جیسے موضوعات پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ ان میں الکندی، الفارابی، ابن سینا، ابن باجہ، ابن طفیل، ابن رشد، ابن خلدون اور نصیر الدین طوسی وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عقل اور شریعت کے باہمی تعلق جیسے دقیق سوالات پر علم کلام اور اصول فقہ میں معرکہ آرا بحثیں اٹھائی گئیں اور اس حوالے سے مختلف فکری رجحانات معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ مکاتب فکر کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آئے۔ مسلم صوفیہ نے اہم ترین فلسفیانہ مباحث کے حوالے سے ایک مستقل روایت کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی ماخذ کشف وعرفان اور روحانی سیر ومشاہدہ تھے۔

اس تناظر میں فلسفہ کی تعلیم کے حوالے سے دینی تعلیم کے نصاب پر ایک بنیادی اور اساسی نوعیت کی نظر ثانی کی ضرورت ہے جس کی طرف کافی عرصے سے بالغ نظر اہل علم توجہ دلاتے چلے آ رہے ہیں، لیکن ان کی آواز ہنوز صدا بصحرا ہی محسوس ہوتی ہے۔

عربی زبان وادب

عربی زبان وادب کی تدریس کے حوالے سے کلاسیکی درس نظامی کے مندرجات پر برصغیر میں بیسویں صدی کے آغاز سے ہی تنقید کا آغاز ہو چکا تھا اور غالباً جس مضمون کی تدریس پر گزشتہ صدی میں مختلف پہلووں سے سب سے زیادہ تنقید کی گئی ہے، وہ عربی زبان وادب ہی کا مضمون ہے۔ اس ضمن میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں سب سے زیادہ اجتہادی طرز فکر اختیار کیا اور تدریس کے لیے نامور عرب اساتذہ کو اپنے ہاں دعوت دے کر ان کے نظریات وتجربات سے کشادہ دلی کے ساتھ استفادہ کیا۔ ندوہ کے اہل قلم نے اس حوالے سے برصغیر میں زبان وادب کی تدریس کے بنیادی تصور اور منہج پر کڑی تنقید کی اور منطقی وتجربی استدلال کے ذریعے سے اس میں اصلاح کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ (دیکھیے: ’’علماء دیوبند کی علمی ومطالعاتی زندگی‘‘، مرتبہ مولانا عبد القیوم حقانی، ص58، 59۔ مقدمہ معلم الانشاء حصہ اول، ص 8، 9) تنقید کا ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ اس نصاب میں عربی ادب کے جو نمونے تدریس کے لیے منتخب کیے گئے ہیں، وہ حقیقی معنوں میں ’’ادب‘‘ کے نہیں، بلکہ لفظی صناعی کے اسلوب کے نمونے ہیں جو ایک خاص دور میں بعض وجوہ سے زیادہ مقبول ہو گیا تھا۔ (سید ابو الحسن علی ندوی، ’’مختارات من ادب العرب‘‘، ص 41)

مذکورہ تنقیدات کی روشنی میں گزشتہ پون صدی میں عربی زبان وادب کی تعلیم کے نصاب میں سست رفتاری کے ساتھ اصلاحات کا ایک عمل جاری نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے موجودہ نصاب کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ نصاب کی اصلاح کے حوالے سے کی جانے والی بنیادی تنقیدات کافی حد تک موثر ہوئی ہیں اور نصاب کی تشکیل میں زبان کی تدریس کے جدید تصورات ومناہج کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ البتہ بعض اہم اور بنیادی خامیاں ہنوز برقرار ہیں اور ان کی اصلاح کے لیے وقتاً فوقتاً آوازیں بھی اٹھتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر نصاب کی سب سے بنیادی خامی کا تعلق قواعد زبان کی تدریس سے متعلق ہے اور اس کے دو پہلو بے حد نمایاں ہیں: ایک یہ کہ اس میں قواعد زبان کی عملی مشق کے بجائے ساری توجہ قواعد کی نظری وتصوراتی تفہیم اور قواعد کے انطباق کی منطقی شرائط وقیود کی تنقیح پر مرکوز کی گئی ہے۔ بالخصوص اعلیٰ سطحی نصابی کتب جن بحثوں پر زورِ بیاں صرف کیا گیا ہے، وہ قواعد سے زیادہ فلسفہ قواعد کے زمرے میں آتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کتابوں میں تعلیم قواعد کے لیے تدریج (gradation) کا فطری طریقہ اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ ابتدا سے ہی طلبہ کو علم نحو وعلم صرف کی ایسی جامع کتابوں کی تدریس شروع کرا دی جاتی ہے جن میں تمام مباحث اور مسائل کی پیچیدہ جزئیات مذکور ہوتی ہیں جنھیں گرفت میں لانا طلبہ کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔

عربی زبان کی تعلیم کے ممتاز ماہر ومتخصص مولانا محمد بشیر سیالکوٹی نے ان دونوں پہلوؤں سے موجودہ نصاب کے نقائص کو تفصیلاً واضح کیا ہے۔ (’’درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘، ص ۱186،187، ص 352،354، ص 404، 405)

مذکورہ مختصر جائزے سے واضح ہے کہ مدارس میں دینی علوم کی تدریس کے نصاب میں بہتری اور ترقی کی گنجائش بلکہ ضرورت بدستور موجود ہے۔ بہتر ہوگا کہ نصاب پر نظر ثانی اور تبدیلی کے عمل کو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے اور مختلف وفاق ایک دوسرے کے نصابات اور تجربات سے باہمی استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے دوسرے ممالک کے تعلیمی اداروں اور علوم اسلامیہ کے ماہرین سے بھی راہ نمائی لینے میں کسی قسم کے بخل سے کام نہ لیں۔