working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

رپورتاژ

پاک افغان تعلقات کا مستقبل
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے تحقیقی جریدے
Conflict and Peace Studies
کے خصوصی شمارے سے اقتباس

پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کسی دور میں بھی مثالی نہیں رہے ۔ شمال اور جنوب کی یہ کشمکش صدیوں سے رہی ہے ۔اینگلو افغان جنگوں سے لے کر افغانستان کی خانہ جنگی ،طالبان دور ،روسی مداخلت اور گیارہ ستمبر کے بعد جنم لینے والے تنازعات میں سے کسی نے بھی اس کشمکش کو کم نہیں کیا ۔ بلکہ یہ کشمکش اپنی شکلیں اور ہیئت بدل کر سامنے آتی رہی ہے ۔ پاکستان افغانستان کو اپنی بھارت مرکز خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھتا ہے اور افغانستان پاکستان کو پشتون مسئلہ کے تناظر میں دیکھتا ہے ۔اس خطے سے اٹھنے والی شدت پسندی نے اس صورتحال کو ایک نیا رخ ضرور دیا ہے تاہم اس مسئلے کی جہتیں اتنی پھیلی ہوئی ہیں کہ اس میں دنیا کی کئی طاقتوں کے معاشی و تزویراتی مفادات کا دخل بھی ہے اور علاقائی سیاست بھی جس نے اس مسئلے کو پیچیدہ تر بنا دیا ہے ۔آج کی دنیا میں معیشت کو تنازعات کے حل میں سب سے مضبوط فیکٹر کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔اگر اس حواے سے دیکھا جائے تو تنازعات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ معاشی امکانات کی ایک دنیا بھی اس خطے کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ۔اب یہ خطے کی لیڈر شپ کا امتحان ہے کہ وہ ان امکانات کو کیسے حقیقت میں بدل کر پائیدار ترقی اور امن کی راہیں ہموار کرتی ہے ۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے تحقیقاتی جریدے Conflict & Peace Studies نے پاک افغان تعلقات کا جائزہ تمام جہتوں کے تناظر میں لیا ہے ۔اس کے مقالہ نگاروں میں خالد عزیز، افراسیاب خٹک ، طارق کھوسہ ،افتخار اللہ بابر،طاہر خان ، اعجاز خان ،صفدر سیال، فرحان زاہد،نورین نصیر ،پیر محمد ،عمران مختار ، اعظم خان ،احمد شاہ درانی اور راحت ملک کاکازئی شامل تھے ۔اس تحقیقاتی جریدے کی سمری کا ترجمہ یہاں قارئینِ تجزیات کے لئے رقم کیا جا رہا ہے ۔(مدیر)

پاکستان اور افغانستان کے مابین براہِ راست، مسلسل اور تواتر کے ساتھ بات چیت جاری رہنی چاہئے مگر اس گفت و شنیدکا دائرہ اشتعال انگیز طالبان تک ہی محدودنہ رہے وگرنہ دوطرفہ تعلقات طالبان کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے۔ موجودہ وقت میں کئی افغانی بشمول سیاسی و فوجی قیادت اور سب سے بڑھ کر افغانی عوام پاکستان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔اس نقطہ نظر کی جڑیں دونوں ممالک کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں۔ افغانستان سے پاکستان کے اپنے شکووں پر گماں گزرتا ہے کہ جیسے دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ کی سی صورتحال ہے۔

اس تمام ترصورتحال کے باوجود ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ان کے خیالات میں تبدیلی واقع نہ ہوسکے۔ پاکستان اور افغانستان میں کئی ایک مشترکات ہیں جیسے کہ مذہب، ثقافت، زبان اور سب سے بڑھ کر سرحد، ان مشترکات کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان ، افغانستان میں اپنی ساکھ اور حیثیت مضبوط کر سکتاہے۔کیونکہ پاکستان افغانی مہاجرین کی مسلسل میزبانی کر رہا ہے اور افغانستان کو ایک اہم گزرگاہ فراہم کیے ہوئے ہے۔خیر سگالی کا یہ جذبہ سیاسی مفادات کی نظرنہیں ہونا چاہئے۔

سب سے بڑھ کر پاکستان کو اس بات کا احساس ہو نا چاہئے کہ افغانستان کے گرد بین الاقوامی فضا تبدیل ہو رہی ہے۔چین پاکستان کا دوست ہے اور اس کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ افغانستان میں عدم استحکام اس کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ایران مغرب سے تجارت کی راہیں ہموار کرنے کو ہے اور وہ کچھ حد تک پاکستان کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے افغانستان کے راستے تجارت میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔

سب سے بڑھ کر افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے پاکستان کے اندرونی استحکام پر اثر پڑتا ہے۔ عسکریت پسندی بذات خود اس عدم استحکام کی پیداوار ہے۔ پشتونوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ، ایک انسانی مسئلہ ہے جو کہ توجہ طلب ہے مگر اسے ملک کے کئی حصوں میں سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔

اہم نکات

2014ء میں اشرف غنی نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعدپاکستان کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کی جس سے اس مثبت سوچ کو تقویت ملی کہ پاکستا ن اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ دراصل، افغان حکومت بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں شریک ہے۔ 2015ء کے آخر میں چار ممالک پر مشتمل ایک مفاہمتی گروپ کی تشکیل ہوئی، جس میں چین، امریکہ، افغانستان اور پاکستان شامل تھے۔اس گروپ کا مقصد طالبان اور افغان حکومت کے مابین سہولت کارکا کردار ادا کرنا تھا۔ اس گروپ کے اب تک چار اجلاس ہو چکے ہیں۔

پاکستان اور افغانستا ن کے مابین بڑھتی ہوئی بد اعتمادی اور طالبان کے غیر یقینی ردعمل کی وجہ سے یہ اجلاس تاحال سود مند ثابت نہیں ہوسکے۔

موجودہ دور میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات 2014ء سے پہلے کی مفاہمتی فضا کی بازگشت سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔طالبان خود کو ایسی حکومت کے طور پر تصور کرتے ہیں جسے جلاوطن کر دیا گیا ہو، ایسے میں وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ اپریل 2016ء میں، انہوں نے سالانہ موسم بہار کی کارروائی کرتے ہوئے کابل پر مہلک ترین حملہ کیاجس کے نتیجے میں ایک افغان عہدیدار نے پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائیں گے۔

افغانستان اور پاکستان کے مابین مقدمہ یقینی طور پر انفرادی معاملہ نہیں ہے۔طالبان کو معزول کیے جانے کے بعد جب کرزئی اقتدار میں آئے تو پاکستان کو اطمینان حاصل ہوا لیکن بعد میں پاکستان میں ان کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات پروان چڑھے۔جب اشرف غنی نے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھایا تب مذاکرات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا مگر ان کے پیشرو کی طرح انہوں نے بھی پاکستان کے ساتھ عدم اطمینان کو بڑھایا۔

اس کے بارے میں غوروخوض ہونا چاہئے کہ مسئلہ کہاں پر ہے؟

اس مسئلے اور اس جیسے کئی اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (PIPS )نے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کی آراء اور تجزیات سے استفادہ حاصل کیا۔ پیپس نے اپنے گزشتہ کام کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اور نیشنل ایکشن پلان پر ماہرین کی رائے، تجزیات اور نتائج مرتب کیے ہیں جو کہ ذیل میں دیئے جاتے ہیں۔

طالبان کے ساتھ معاملات کیسے طے پائیں گے؟

ٌ* افغانستان، پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کو طالبان کے ساتھ پیش رفت کے تناظر میں دیکھتاہے۔ افغان، پاکستان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایسے طالبان کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جو مذاکرات نہیں کرنا چاہتے اور ایسے طالبان جو کہ مفا ہمت چاہتے ہیں پاکستان انہیں مذاکرات کی میز پر لائے۔

* منظر عام پر اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ دونوں ممالک طالبان کے موضوع پر ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں جبکہ گفتگو کہ دوسرے کئی پہلو اوجھل ہیں۔

* افغانستان کا ماننا ہے کہ مذاکرات کے لیے حقیقی کھلاڑی پاکستان ہے، طالبان نہیں۔

* اس قیاس کی بنیاد خواہ کچھ بھی ہو ،یہ قیاس اس بات کا عند یہ دیتا ہے کہ دونوں ممالک کو سفارت کاری، تجارت، معیشت، مشترکہ سلامتی کے خطرات، سرحدی سلامتی اور سماجی ،ثقافتی تبادلے جیسے کثیرالجہتی شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

* طالبان کی جانب سے امن مذاکرات رہنماؤں کے مسائل سے مشروط ہیں۔ امن مذاکرات ملا عمر کی ہلاکت کے انکشاف اور نئے سپریم کمانڈر اختر منصور کے انتخاب کے بعد متاثر ہوئے ہیں۔ اختر منصور جزوی طور پرمنقسم صفوں میں اپنی جگہ مستحکم کرنے کی جدوجہد میں مصرو ف ہیں۔ فی الحال، افغان طالبان مذاکرات کے عمل سے محتاط اور قدرے لاپروا نظر آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ اندرونی صفوں میں خلفشارہے، بعض حلقوں کے نزدیک اس کی وجہ طالبان کے سیاسی بیانات اور مؤقف ہیں جبکہ بعض خیال کرتے ہیں کہ طالبان کی کارروائیاں اُن میں فتح کا احساس پیدا کر رہی ہیں۔

* جبکہ پاکستان نے طالبان پر اثر رسوخ کا اعتراف کیا ہے مگر یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اثرورسوخ کا یہ مطلب نہیں کہ طالبان پر ان کا کنٹرول بھی ہے۔ اس اثرو رسوخ کی وجہ پاکستان میں افغان طالبان کی موجودگی ہے۔ بظاہر، پاکستان کے لیے طالبان سیاسی سٹیک ہولڈرز کی سی حیثیت رکھتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کہ وہ چار رکنی مفاہمتی کمیٹی کے اراکین کے لیے ہیں۔ انہیں مشتعل کرنے سے نہ صرف پاکستان کے داخلی معاملات عدم تحفظ کا شکار ہوں گے بلکہ افغانستان میں بھی پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ یہ امکان نہیں کہ پاکستان اپنے اس مؤقف کو جلد بدلے گا۔

بہرحال، افغانوں کو پاکستان کے عمل اور بیانات سے شکایت ہے جس کے مطابق پاکستان ان طالبان کو ہدف بنائے گا جو ملک کے اندر کارروائیاں کرتے ہیں جبکہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی جو ملک سے باہر معرکہ آرا ہیں۔

* چار رکنی کمیٹی میں اہم کھلاڑیوں کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ ایک کارآمد فورم ثابت ہوگا۔ اس کمیٹی کو صبر سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ مسئلے کے حل کے لیے متبادل طریقوں کو بھی متعارف کروانا ہوگا۔

* اس وقت افغانستان میں امن طالبان سے مذاکرات سے منسلک ہے حالانکہ اپریل میں دہشت گردی کے حملے کے بعد حکومت نے مذاکرات کے خلاف بیان دیا تھا۔ یہ معاملہ سوال طلب ہے کہ کیا صرف امن کو طالبان مذاکرات سے مشروط کرنا ایک مستحکم حکمت عملی ہے۔کچھ تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ عمل نہ صرف افغان حکومت کی پوزیشن کو کمزور بنا دے گا بلکہ امن و استحکام کے لیے وسیع اور جامع حکمت عملی اختیار کرنے میں بھی رکاوٹ بنے گا۔

* جبکہ طالبان باغیوں نے کئی حملے کئے اور کئی محاذوں پر پیش قدمی کی، اس کے باوجود وہ افغانستا ن میں کوئی ٹھکانہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

* ان تمام امکانات میں طالبان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر آ جائیں اگرچہ انہیں کچھ رعایتیں دی جائیں۔ مگر اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ رعایتیں امن کے قائم ہو جانے کے بعد دی جائیں یا پہلے،شاید مفاہمتی کمیٹی اس مسئلے پر غور کر سکتی ہے۔

جغرافیائی سیاست میں تبدیلی

* پاکستان کا بیانیہ اور اس کے افغانستان کے ساتھ تعلقات اب بھی سرد جنگ کے واقعات کی یاد تازہ کئے ہوئے ہیں حالانکہ جغرافیائی سیاست میں تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔دونوں ممالک کو پرانے خدشات لاحق ہیں جیسے کہ پشتونستان، ڈیورنڈ لائن، پراکسی جنگیں، عالمی بلا ک وغیرہ۔ یہ دونوں ریاستیں ان معاملات پر قابو نہ پا سکی تھیں اور اب پھر سے اسی عمل میں مصروف ہیں۔ بظاہرپاکستان کے مفادات افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کی وجہ سے زد پر ہیں۔ پاکستان کے اکثر خدشات سرد جنگ کے دورسے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ خدشات حالیہ افغان بھارت دوستی سے ابھرے ہیں۔یقینی طور پر پاکستان اور ایران بھی افغانستان پر زیادہ اثرو رسوخ رکھیں گے کیونکہ ان میں بہت سی مشترکات ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی حدود ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔

لیکن پاکستان کو بھارت کے لیے قابل برداشت رویہ اپنانے کی ضرورت کو دیکھنا ہوگا جس سے پاک-افغان تعلقات میں بہتری آئے گی۔

بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان، افغانستا ن میں دوستانہ یا پھر کم از کم غیر جانبد ار حکومت چاہتا ہے جو کہ بھارت کی جانب جھکاؤ نہ رکھتی ہو۔بہرحال بھارت کو تشویش ہے کہ افغانستان میں پاکستان نواز حکومت کے سبب پاکستان اپنی مشرقی سرحد(جو کہ بھارت کے ساتھ ہے) پر عسکری قوت میں اضافہ کر دے گا جس سے بھارت مخالف عسکریت پسند مضبوط ہوں گے اور بھارت کے لیے خطروں میں اضافہ ہوگا۔

2001ء میں ، آج سے دس سال پہلے چین کو افغانستان میں خاصی دلچسپی تھی مگر آج چین کی کوشش ہے کہ اسے ان چار ممالک کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر ہو جو طالبان اور افغان حکومت کے مابین ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اگر حالات نہ بدلے تو دس سال بعد چین ، افغانستان میں براہِ راست مداخلت کا جواز تلاش کرے گا۔ چین ہرگز یہ نہیں چاہے گا کہ اسلامی عسکریت پسند اس کی پشت پر اتنی طاقت حاصل کر لیں جس سے سنکیانگ کے علاقے میں موجود چین مخالف عسکریت پسند توانا ہوں۔اس زاویے سے دیکھیں تو بہت سے ذرائع یہ کہہ سکتے ہیں کہ چین کی افغانستا ن میں دلچسپی امریکہ اور بھارت کی طرز پر ہو سکتی ہے۔

مگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے توافغانستان میں چین کی موجودگی ان لوگوں کے خدشات کو کم کرتی ہے جن کا خیال ہے کہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہو اثرو رسوخ پاکستان کے لیے خدشات کا باعث ہو سکتا ہے۔ان کے نزدیک ، کم از کم چین کی موجودگی بھارت کے خلاف توازن رکھنے میں معاون ثابت ہوگی۔

بہر صورت چین کی مداخلت سے جوسٹریٹیجک تبدیلی واقع ہو گی اس کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو اپنی پالیسی از سر نو ترتیب دینی چاہیے۔ اس پالیسی میں جغرافیائی معیشت کو شامل کیا جا سکتا ہے جس کا خاکہ چین نے خود پیش کیا ہے۔چین ، افغانستان، پاکستان اور ایران کو اپنے خطے کا حصہ تصور کرتا ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا آغاز، سڑکوں کا ایک جال جو کہ مغربی چین کو وسطی ایشیا کے راستے یورپ کے خطے سے ملائے، یہ اس منصوبے کا حصہ ہیں۔

ایران، افغانستان میں داخل ہونے والا ایک اور فریق ہو سکتا ہے۔اتفاق سے پاکستان کی افغانستان میں مداخلت 1979سے ہے جس کے کچھ عرصہ بعد ایران میں انقلاب آیا۔اس کے نتیجے میں ایران کے تعلقات مغربی دنیا سے خراب ہوئے جس سے ایران پر پابندیاں عائد ہوئیں اور اس سے ایران کی تجارت متاثر ہوئی۔2016ء میں یہ پابندیاں ختم ہوئیں جس کے بعد کئی ممالک ایران سے تجارت کے خواہش مند ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے افغانستان اور پاکستان کے ذریعے ہونے والی تجارت پر انحصار کم ہو جائے گا۔ اپریل 2016ء میں ہی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں جب بھارت اور افغانستان نے ایران سے چاہ بہار بندر گاہ کے ذریعے تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔غرض، اب افغانی، پاکستان کے ساتھ تجارت میں کم دلچسپی لے رہے ہیں۔

افغانستان تجارت کے لیے دیگر ریاستوں پر انحصار کر رہا ہے اور نتیجے کے طور پر پاکستان کا حصہ اس تجارت میں کم ہو رہا ہے۔پاکستان اس رجحان کو افغانی باشندوں کی مدد کرتے ہوئے بدل سکتا ہے اور اس سے تجارت میں اضافہ ہو گا جس کا تخمینہ تقریباً پانچ ارب ڈالر ہے۔

شمال میں افغانستان کے دوسرے ہمسائے روس اور وسطی ایشائی ریاستیں ،وسطی ایشیا کے عسکریت پسندوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ یہ گروہ اب بھی طالبان کے لیے وفاداری رکھتے ہیں جن کے ساتھ وہ افغانستان کے شمالی حصے میں لڑے تھے۔ ان گروہوں کے اندر جنگجوؤں کو بھی اسلامی ریاست کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

تمام عملی مقاصد کے لیے ،ڈیورنڈ لائن دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد رہے گی ،دونوں سمجھتے ہیں کہ کون سا ملک کہاں ختم اوردوسرا کہاں سے شروع ہو رہا ہے، اس بات کے تعین کے لئے اقدامات ہو رہے ہیں۔

ابھی تک کابل کا ڈیورنڈر لائن پر مبہم مؤقف پاکستانی حکام کو پریشان کئے ہوئے ہے،اُنہیں ڈر ہے کہ افغانی شاید ابھی تک پاکستانی سردجنگ کے بچے کھچے پختون علاقے میں پناہ لینے کے عزائم رکھتے ہیں ۔

سرحد کو یقینی طور پر مناسب طریقے سے منتظم کرنے کی ضرورت ہے ،نہ صرف دہشت گردوں کو روکنے کے لیے،جس کے لیے وہ ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں ،بلکہ لوگوں کے کارگر طریقے سے نقل مکانی کے لیے بھی۔تاہم انتظامی ڈھانچے کا مقصد مسافروں کو سہولیات دینا ہو، نہ کہ اُن کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنا۔

باڑ لگانے کا کوئی بھی تصورقبائلیوں کی معیشت کو نقصان پہنچائے گا،جو کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کلیدی تاجروں میں سے ہیں اور جو پہلے ہی سیاسی منظر نامے سے باہر ہیں ۔

یہاں تک کہ قبائلی علاقہ کو جغرافیائی سیاست کے نام پر باہر نکالنا ،شاید اُلٹا اثر ڈالے،علاقہ دوہزار گیار ہ کے صدارتی حکم نامے کے اثرات دیکھ رہا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کو اجازت دی گئی کہ وہ باقی ملک کی طر ح فاٹا میں بھی کام کریں ۔2016ء میں مختلف قبائلی ایجنسیوں میں ،سیکڑوں قبائلیوں نے ،اُن جماعتوں کی کال پر سڑکوں پر مظاہرے کیے کہ اُنہیں بھی باقی پاکستانیوں کی طرح حقوق دیے جائیں بلکہ فاٹا دونوں ملکوں کے مابین پل کے طور پر خدمات دے سکتا ہے ۔

پاک افغان سرحدی علاقہ ناجائز دولت اور منشیات کا گڑھ ہے،تاہم سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ،اکیلے ہی خواہش کے مطابق نتائج حاصل کر سکتے ہیں ۔منشیات پر قابو پانے کے معاملے میں ،پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ،جو کہ دنیا کی نوے فیصد افیون پیدا کرتا ہے ،کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

پختون ،پاک افغان تعلقات کے مرکزی کردار رہے ہیں ۔

پا ک افغا ن سر حدی علا قہ نا جا ئز دو لت اور منشیا ت کا گڑھ ہے ۔ تا ہمِ سوا ل یہ ہے کہ کیا قا نون نا فذ کر نے والے اداروں کی طاقت کے ذریعے سر حدی علا قوں میں مطلو بہ نتائج حا صل کئے جا سکتے ہیں۔ مثا ل کے طور پر پا کستان کو منشیات پر قا بو پا نے میں افغا نستا ن کے سا تھ کا م کر نا چاہئے تھا کیو نکہ دنیا کی 90%افیون کے ذرا ئع افغانستان میں ہیں ۔

پشتو نوں کا ہمیشہ پا ک افغا ن تعلقات میں مرکزیت حاصل رہی ہے ۔ پاکستان میں افغا ن مہاجرین کی اکثر یتی تعدا د کا تعلق پشتو نوں سے ہے جو ملک کے اندر مقا می لو گو ں سے گھل مل چکے ہیں ۔ پشتونوں نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے علاقوں سے ہجرت کی ہے کہ پورے ملک جیسے کرا چی ، اسلام آباد اور بلو چستا ن کی ہیئت کو تبد یل کر کے رکھ دیا ہے ۔

تنازعات اور معاشی ہجرتوں کی وجہ سے پشتون جس تیزی سے ملک کے مختلف حصوں کے اندر پھیل گئے ہیں اس کو ایک علاقائی مسئلے کے طور پر تو دیکھا جا رہاہے مگر اس کو انسانی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ۔یہ ہجرت اب بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہے ۔جس کی وجوہات مختلف ضرور ہیں تاہم اس کی وجہ سے ملک کے بعض حصوں کی آبادیات میں اس قدر تبدیلیاں آئی ہیں کہ بعض مبصرین کا کہنا کہ محض اس وجہ سے مردم شماری نہیں کرائی جا رہی کہ کراچی اور بلوچستان میں پشتون آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ۔اگر یہ حقیقت سامنے آگئی تو پھر ان کو ان کی آبادی کے تناسب سے سیاسی نمائندگی بھی دینی پڑ سکتی ہے ۔

دونوں ممالک میں ایسے لوگ کثرت سے موجود ہیں جو کہ پشتونوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کا بھی خیال ہے کہ افغانستان میں غیر پشتون عناصر یہ نہیں چاہتے کہ طالبان کے ساتھ بامقصد مزاکرات ہوں۔یہی وجہ ہے کہ کئی بار طالبان کے ساتھ امن مزاکرات کو افغان سیکورٹی اشرافیہ جس پر غیر پستونوں کی اجارہ داری ہے کی جانب سے سبو تاژ کر دیا گیا۔یہی الزام افغانستان میں پاکستان پر بھی لگتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی سازی میں پنجاب کو اجارہ داری حاصل ہے اس لئے پنجابی یہ نہیں چاہتے ۔

یہا ں دو نو ں طر ف سے غیر پشتو نوں کے درمیا ن تعا ون کی انتہا ئی ضرورت ہے ۔ خا ص طور پر شمالی افغانستان اورپنجاب میں رائے سا زو ں کے لئے ،ٹریک ٹو ،ذرا ئع ابلا غ اور با ر با ر مذا کرا ت کی پا لیسی کو رواج دیا جا سکتا ہے ۔ افغا نستا ن میں پا کستان کا تا ثر کوئی اچھا نہیں ۔ افغا ن میڈیا پاکستان کے منفی کے کر دا ر کا عکس دکھا تا رہتاہے ۔ افغا ن یہ با ت پو چھتے ہیں کہ کیوں پا کستان طا لبا ن کے سا تھ نر م گو شہ رکھتا ہے ۔ بہت سے پا کستا نی بھی افغا نستان کی اس حقیقت کو نہیں جا نتے ، معلو ما ت اکٹھی کر نے کے لئے سب سے پہلے افغا نستان میں پا کستانی چینل اور بیو رو آفسز کھو لے جا سکتے ہیں ۔ پا کستان میں بہت سے افغانیوں نے بعد میں افغا نستان کا ایک اہم حصہ بننے میں حصہ لیا ، اس کے با وجود پا کستان میں افغا نوں کا انسا نی مسئلہ سلا متی سیکور ٹی کے پیش نظر دبا دیا جا تا ہے ۔ پاکستان کو مہا جرین کے لئے ایک مناسب پا لیسی بنا نی چاہئے ۔ منفی رویے میں پنا ہ گز ینوں کو ڈالنے کی بجائے پا کستان کو عا لمی برا دری اور افغا نستان سے عوامی خیر سگالی کما نے کے لئے مل کر کا م کر چاہئے ۔

دیگر اہم نکات

پا کستان کی افغا نستان پالیسی پر اسٹبلشمنٹ کی اجارہ داری ہے ۔ پارلیمنٹ چاہتی ہے کہ وہ افغان امور میں اپنا حصہ ڈالے مگر افغانستان کے بارے میں بنیادی فیصلے اس دور میں ہوئے جب پارلیمنٹ یا تو موجود نہیں تھی یا پھر اس کی حیثیت ثانوی نوعیت کی تھی۔ جب 1979 ء سے 1988ء اور 1999 سے 2008 ء تک اس محا ذ پر فیصلے کئے گئے تو اس کے کر دا ر کو سائیڈ لا ئن لگا دیا گیا ۔ چونکہ افغانستان کے بارے میں ہمیشہ ہی پالیسیاں اوپر سے آتی ہیں اس لئے کئی سال گزرنے کے باوجود بھی ان میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔

ایک فعال پار لیمنٹ یا پار لیمنٹری کمیٹیا ں خیا لا ت کے تنو ع کے سا تھ انتظا میہ کے احتسا ب کے کر دا ر کو جاری رکھ سکتی ہیں ۔ مثلاََ یہ کہ افغا ن معا ملا ت پر قا نو ن سا ز ان مفرو ضو ں پر غور کر سکتے ہیں جو مسائل کے ازالے کے لئے ضروری ہوں ۔

پاکستان اور افغانستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کے باہمی روابط ہیں اور ان کے ساتھ ایسے گروہ بھی ہیں جو فرقہ وارانہ نوعیت کے ہیں جن کو بیرونی ممالک سے بھی مدد ملتی ہے ۔ پاکستان کا فو جی آپر یشن ضربِ عضب بہت سے مقا می اور غیر ملکی عسکر یت پسندو ں کو افغا نستان اور اس کے شما ل میں جا نے پر مجبور کر چکا ہے ۔ مثا ل کے طور پر شاملی افغانستان میں ایسے عسکر یت پسندو ں نے طا لبا ن اور دا عش کے سا تھ وفا دا ر رہنے کا عہد کیا ۔

افغا نستان کے اندرو نی طر ف خا ص طو رپر پا کستان کی سر حد سے منسلک مقا ما ت میں دا عش کی موجود گی کی اطلا عا ت کی تصدیق ہو ئی ہیں ۔ حقیقت میں افغا نستان کی نسبت پا کستان میں عسکر یت پسندوں پر دا عش کی حیثیت برا ہِ را ست اثر رکھتی ہے ۔ بہت سے پا کستان دشمن عسکر یت پسنددا عش کی صفوں میں شا مل ہوئے ہیں ۔ اسی طر ح افغا نستا ن کے بر عکس پاکستان فرقو ں کے لحا ظ سے زیا دہ تنو ع رکھتا ہے ۔ داعش کا واضح شیعہ مخا لف ایجنڈا اکثر پا کستان کے دل پنجاب میں عسکر یت پسندو ں کے ہاتھوں مشتہر کیا جا تا ہے ۔ دا عش سے یا اس کے نظریے سے کسی قابلِ قیا س خطر ہ سے دو نوں مما لک کو متحد ہو کر اس کے خلاف لڑ نا چاہئے ۔

(تلخیص و ترجمہ: احمد اعجاز)