پاکستان میں مذہبی معاملات پر عمومی حساسیت میں اضافہ ہوا ہے ،جس کاا یک اظہارمذہبی عدم برداشت کی صورت میں نکلاہے ۔اس عدم برداشت کی کوئی انتہا ءنہیں ،یہ کہیں سے بھی شروع ہو ،اپنے پر پھیلاتی جاتی ہے ۔مسلکی اختلافات کو فرقہ وارانہ چپقلشوں میں ڈھال دیتی ہے ۔سماجی تعلقات کے دائرے کو محدود کر دیتی ہے ۔اظہار ِ رائے کومحدود سے محدودترکرتی جاتی ہے ،قومی اور علاقائی عصبیتوں کو بھی چاٹ کھاتی ہے ۔
اس تناظر میں یہ امرحیران کن نہیں ہے کہ مذہبی معاملات پر جذبات فوراً بھڑک جاتے ہوں اور اہم قومی معاملات پر مجموعی قومی مزاج میں لاپرواہی جھلکتی ہو۔مذہبی شناخت اہم ہے ۔مسلکی تعلق کا بھی احترام لازم ہے ۔لیکن کیا ایک معاشرہ صرف مذہبی شناخت کے سہارے کھڑا رہ سکتا ہے ؟ کیا ریاست کا معاشرے اور فرد سے تعلق بھی صرف مذہبی امور سے متعلق رہ سکتا ہے ؟
یہ بہت اہم سوالات ہیں ،جو علمائےکرام کی توجہ کے مستحق ہیں ۔ریاست، معاشرے اور فرد کا تعلق صرف مذہبی رشتے پر استوار ہو تو نہ صرف نظام ِ ریاست اور معاشرہ کمزور ہوتے ہیں بلکہ خود مذہب اور مذہبی اداروں کی بقا کے لیے بھی یہ صحت مند رویہ نہیں ہے ۔ ریاست اور اس کے اداروں پر عدم اعتماد بڑھتا ہے ، معیشت اور سیکورٹی کے معاملات کی بھی ’’پرائیویٹائزیشن ‘‘ ہوتی ہے ۔بنیادی انسانی حقوق ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ طاقتور اشرافیہ بھی ایسے رویوں کو پروان چڑھاتی ہے ۔اسے اپنا مفاد عزیز ہے اور جب تک مذہبی طبقات ان کے طبقاتی مفاد کے لیے چیلنج نہ بنیں ،اسے برداشت کرتی ہے ۔اس عمل میں ایک مذہبی اشرافیہ بھی پیدا ہوئی ہے ،جس کی اپنی حساسیت ہے ۔اس عمل میں جو چیز قربان ہوئی ہے وہ صرف قومی حساسیت ہے ۔یہ ریاست اور سماج کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔