working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

قومی منظر نامہ

عالمی حقوقِ انسانی :پاکستان کا بیانیہ

ڈاکٹر خالد مسعود

 

 

ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار نامور اسلامی مفکرین میں ہوتا ہے ۔آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ، بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل اور ہالینڈ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف اسلام کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں ۔ آج کل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے ایڈہاک ممبر ہیں ۔ تجزیات کے صفحات ان کے علمی و فکری مضامین سے مزین ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر خالد مسعود کا زیر نظر مضمون پاکستان میں انسانی حقوق کے پس منظر میں اٹھنے والے مختلف سوالات کا جائزہ لیتا ہے ۔عالمی انسانی حقوق ، اسلامی انسانی حقوق اور آئین ِ پاکستان میں دیئے گئے انسانی حقوق میں کیا کیا فرق ہے ۔(مدیر )

پاکستان کوقائم ہوئےایک سال ہوا تھا جب۱۹۴۸ءمیں عالمی حقوق انسانیکا اعلان ہوا۔ پاکستان کا شمار انملکوںمیںہوتا ہے جنہوں نے حقوق انسانی کےمیثاقپر سب سے پہلے دستخط کیے۔میثاق کی توثیق کرنے والےچالیس ملکوں میں آٹھملک مسلمانتھے۔ جن میں پاکستان پیش پیش تھا۔ اس پیش رفت کی تین وجوہات نظر آتی ہیں۔ ۱۔ نئے عالمی تناظر میںمسلمانوںمیں اقلیتکا احساس۔ ۲۔مسلم مفکرین کا اجماع کہاسلاماورحقوقانسانی میں کوئی تصادمنہیںبلکہاسلامان حقوق کا پہلا پیامبر ہے۔ ۳۔انسانی حقوق کاعالمی چارٹراپنے فلسفےمیں اسلام کے مقاصد سے ہم آہنگ لیکنبعضشقوں میں اسلامی قوانینکے خلاف ہے۔ ہم اس مضمون میں ان تیننکات پر باتکریں گے۔ تاہم تیسرے نکتے پر زیادہ تفصیل سے بات ہوگی کیونکہ بتدریج یہی پاکستانی بیانیے کامحور بنچکا ہے۔
اقلیت کا احساس
انیسویں صدی میںقوم پرست جمہوری رجحانات کے فروغ کے دورانمسلمدانشور اور ادیب یہ محسوس کر نے لگےتھے کہ عالمی سطح پر مسلماناب اقلیتبنتے جارہے ہیں۔بر صغیر میںمسلمان اشرافیہ کو شکایت ہو چلی تھی کہ ہندووں کو ان کی کثرت کی وجہ سے زیادہ توجہ ملتی ہے۔ اس صورتحال نےاقلیت کے تصور میں عددی قلت و کثرت کی جگہ مذہب سے وابستگی کوبنیادی عنصر بنا دیا۔۱۹۱۶ءمیں انہوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے الگ سیاسی تنظیم بنائی۔ انڈین نیشنل کانگرسکوجو قومیت کیسیاسی تحریک کے طورپر ہندو مسلماتحاد پر زوردے رہی تھیمسلمانوں کیایک اہم تنظیم جمعیت العلمائے ہند کی حمایتسے توقع تھی کہاقلیت کا مذہبی تصور کمزور پڑ جائے گا۔ لیکن بار بار ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے بر صغیر میںاقلیت کا مطلب مذہبیاقلیت ہی بنتا گیا۔برصغیر کے علاوہ دوسرے مسلم ملکوں میںبھی اقلیت کی تعریف زیادہ تر مذہب کے حوالےسےکی جا رہی تھی۔ انحالات میںاسلام کی تاریخایک قومی تاریخ کے طور پر پیش کی گئی۔امیر علی کی تاریخ اسلام، الطاف حسین حالی کیمسدس مدوجزر اسلاماور علامہاقبالکی مسجد قرطبہ مسلم قوم کے عروجوزوال کی داستان کے طور پر بیان ہوئیں۔
اس بیانیے میںبر صغیر، سسلی اور سپین کی تاریخ مسلم اقلیتکی تاریخقرار پائی۔ مسلم قومیتکامستقبل اسی ماضی پر قیاس کیا جانے لگا اور یوں مسلم قومیت کا احساسبطور اقلیت مضبوط ہوتا گیا۔اس احساس میں اندلس کو ایک علامتکے طورپریاد کیا گیا ۔ یہ عظمت رفتہ کی سہانی یاد بھی تھی اورمسلمدنیا کی سکڑتی سرحدوں پر تشویش کا استعارہبھی ۔ عرب دنیا میںبھی اس تشویش کا اظہا راس زمانے میں اور بھی شدتاختیار کر گیاجب مسلمانمغربی ممالک میں ہجرت کرنے لگے۔ان ممالک میں مسلمانوںکی قانونیحیثیت طےکرنے کے لیے بھی سپینکی تاریخ میں ہی نظائر ڈھونڈےگئے۔ یہ اقلیت تو تھے لیکنان کی قانونی حیثیت کے تعین کے لئے"وہ جو پیچھےرہ گئے "کے الفاظاستعمال ہوتے تھے۔ یہ حوالہسپین کے ان مسلمانوں کا تھاجودوسرے مسلم علاقوں میںہجرت نہ کر سکے اور ایکغیر مسلم ملک میں مجبوراًپیچھے رہگئے تھے۔ یورپمیں جا بسنے والے مسلمانوںکواقلیت کا نام دیا گیا جو عارضی قیام کے لیے آئےتھے اور آخر کار جنہیں اپنےوطن لوٹ جانا تھا۔مسلم اقلیتوں کےقانونی حقوقکے مسائل بذاتِخوداسلامی قانون کا مستقل موضوعبن گئے۔مسلم اقلیات کے عنوان سےبہت سی کتا بیںاس موضوع کیاہمیت کی شاہد ہیں۔
اس عالمی تناظرمیں مسلم قومیت کی تشکیلپر اقلیتکے تصورکے اثرات بہت گہرے تھے۔خصوصی حیثیت،ہنگامیصورتحال،اضطرار، عارضیحل، گنجائش،امتیازی سلوک اور دوسرےاستثنائیاصولوں کی بنیاد پردوبظاہرمتضادرجحانات رواجپائےایک تو یہکہ اقلیتوں کا تحفظ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ دوسرےیہ کہقومیت کی تشکیل مذہبی اقلیتکے تصورکی بنیاد پر ممکن ہے۔
پاکستان کے تصور کا آغازاقلیتوںکےحقوقکےتحفظکیتحریک سے ہوا۔ مسلم لیگ نے پاکستان کی تحریک کے اہدافکااعلان۱۹۴۰ءکیقراردادلاہورمیںکیا۔ اس قرار داد میں دو نکات بہت اہم تھے۔ اولمکمل آزادی کا مطالبہ اور دوم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی تحریککو مسلمانوںسمیت تمام مذہبی اقلیتوں کی تائید حاصل تھی۔ پاکستان کی جغرافیائی تشکیل میں مسیحیوں اور ہندووں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔یوںپاکستان سیاسی طور پراقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی تحریکبن گیا۔اور اسی لیے عالمی انسانی حقوق کے چارٹرکو خیر مقدممیں پیش پیش تھا۔
پاکستانمیںانسانیحقوقکوآئینیحیثیتاورتحفظحاصلہے۔ قراردادمقاصد۱۹۴۹ءمیںانسانی حقوقکوآئینکےبنیادیاصولوںکادرجہدیاگیااورابآئینکیدفعات۴اور۸تا۲۸میںانکوبنیادیاورناقابلتنسیخحقوقشمارکیاگیاہے۔انسانیحقوقکیوزارتاورسپریمکورٹمیںایکمستقلگوشہانسانیحقوقسےمتعلقدادرسیکےلیے قائمہے۔ایکغیرسرکاریادارہپاکستانکمیشنبرائےانسانیحقوقبھیموجود ہےجوملکمیںانسانیحقوقکیصورتحالکاسالانہجائزہبھیشائعکرتاہے۔
اسلام انسانی حقوق کا پیامبر
مسلم مفکرینکیاکثریتمانتیہےکہاسلامحقوقانسانیکاحامیہے۔ ان کی رائے میں اسلام اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں کوئی تضاد نہیں، اکثریت کا کہناہےکہدر حقیقت اسلام حقوق انسانی کا پیامبر ہے۔اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہاسلامہمیشہ سےانسانی حقوقکاعلمبردار رہا ہے۔اس ضمن میںسب سے اہم تو میثاق مدینہ ۶۲۲ اور خطبہ حجۃ الوداع۶۳۲کےحوالے ہیں۔ڈاکٹر حمیداللہ میثاق مدینہ کو دنیا کا پہلا تحریری دستور مانتے ہیں ۔ یہ میثاقمتعدد معاہدوں کا مجموعہ ہے جو رسول اللہﷺ نےمدینہ اور گردو نواح میں بسنے والےلوگوںسےہجرت کے فوراً بعدکیے۔ان معاہدوں میں مدینہ کے یہود اور مشرکین بھی فریق تھے ان کو مسلمانوں کے ساتھ ملا کرمجموعی طور پر ایک امت قرار دیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ میثاق ظلم،نا انصافی،بدعنوانی اور جنگوں کے خلاف اتحادکامعاہدہ تھا جو ایکنظم نو کے تحت قانون کی حکمرانی اور باہمیدفاع پر اتفاق کا اعلانتھا۔ تاہم اس کی سب سے نمایا ں خصوصیتحقوقاورفرائضکے ذکر کے ساتھمعاشی اور مذہبی آزادی کی ضمانت تھی۔
خطبہحجۃالوداعکومولانامودودی’’ حقوقانسانیکامنشور‘‘بتاتےہیںاورکہتےہیںکہ’’یہمیگناکارٹاسےقدیمترہےاورملت ِسلامکےلیےاعتقاد،اخلاقاورمذہبکیحیثیتسےواجبالاتّباعبھی۔یہقرآنکریمکیتعلیماتکاخلاصہبھیہےاورپھرانحقوقکوعملًاقائمکرنےکیبےمثلنظیریںبھیحضورپاکﷺاورخلفائےراشدیننےچھوڑیہیں"۔علامہشبلیکےنزدیکخطبہحجۃالوداعایکطویلخطبہتھاجونبیکریمﷺنےآخریحجکےدورانمختلفمقاماتپرارشادفرمایا۔اسحجمیںشریکصحابہکیتعدادبہتزیادہتھیاسلیے یہاہتمامکیاگیاتھاکہتھوڑےتھوڑےفاصلےپرصحابہکرامکومقررکیاگیاتھاجونبیﷺکےالفاظکودہراتےجاتےتھے۔علامہشبلیلکھتےہیں:
’’تکمیلانسانیکیراہمیںسبسےبڑاسنگراہامتیازمراتبتھا‘‘۔ نبیاکرمﷺنےاسخطبہمیںسبسےپہلےجاہلیتکےاندستوروںکومٹانےکااعلانکیاجنمیںنسلیاورلسانیامتیازات،خونکےانتقامکےرواج،غلاموںسےبدسلوکی،سودکےاستحصالینظام،عورتوںکےحقوقکیپامالیاوردینکےمعاملےمیںانتہاپسندیشاملتھے۔ اعلانکیا ’’ اےلوگو!بےشکتمہاراربایکہے۔ بےشکتمہاراباپایکہے۔ خبردارکسیعربیکوعجمیپر،عجمیکوعربیپر،گورےکوکالےپراورکالےکوگورےپربرترینہیں۔ برتریصرفتقویٰیعنیخداخوفیکیبنیادپرہے‘‘۔
قرآنکریممیںیہارشادکہ’’تمبہترینامتہوجولوگوںکومعروفکاحکمدیتیاورمنکراتسےروکتیہے( آلعمران۳ :۱۱۰ )یہواضحکرتاہےکہمعروفاورمنکرسےمرادوہمثبتاورمنفیاقدارہیںجنپرتمامانسانوںکااتفاقہے۔تبھیانکیدعوتدیجاسکتیہے۔ ورنہپہلےلوگوںکومعروفاورمنکرکاقائلکرناضروریہے۔ انسانیحقوقکےمعروفہونےکےبارےمیںبھیاصولاًًکوئیاختلافنہیں۔ قرآنکیآیاتمیںمثالکےطورپرانسانیکرامت ( الاسراء : ۷۰ )،قبائلیاورجنسیامتیازکیممانعت،مساواتانسانی ( الحجرات: ۱۳ )،قانونیمساوات (الحجرات: ۱۰ )اورحقوقانسانیمیںجانکیحرمت ( المائدہ : ۳۲ )،انصافکیضرورت(آلعمران : ۱۵،المائدہ :۸، النساء : ۱۳۵ ) تعاونکیاہمیت(المائدہ: ۲ ) سبمعروفاقدارہیں۔ مذہبیآزادیکامفہومواضحکرتےہوےقرآننےکہا’’دینمیںجبرنہیں‘‘اوراسکیوجہیہبتائیکہ’’ہدایتاورگمراہیمیںفرقواضحہوچکاہے‘‘( البقرہ : ۲۵۶)۔ قرآنکریمکیتعلیماتمیںذاتیآزادی ( النساء: ۵۸،النور: ۲۷،الحجرات : ۱۲)،سوچ،اظہاررائےکیآزادی ( التوبہ: ۶۷،۷۱،الحج : ۴۱ )،ضمیرکیآزادی ( یوسف : ۲۵۸ ) اورمذہبیآزادی (الانعام: ۱۰۸،العنکبوت: ۴۶) کےحقوقمعروفہیں۔
عالمی انسانی حقوق کی بعض شقیںاسلام کے منافی ہیں
بظاہر تیسرا مئوقف مذکورہ بالا دورجحاناتکا مخالف نہیں۔ جو لوگعالمی حقوق انسانیکی بعض شقوں کواسلام کے منافی سمجھتے تھےوہ بھی یہ مانتے تھےکہاسلامی تعلیمات،حقوق انسانی کی تائید کرتی ہیں۔تاہمعلمی چارٹر کی جزوی مخالفتکی وجہسے اس چارٹرکو مکمل طور پرردکرنےکا رجحانپیدا ہوا۔سعودی عرب کے مندوبیننے حقوق انسانی کے میثاقپر اس لیے دستخط نہیں کیےکہ اس کی بعض شقیں شریعت کے خلاف تھیں ۔ اس مخالفت کا اظہارتین طرح سےکیا گیا۔ ایک توحقوق انسانی کے متبادل منشوروں کے اعلانات ہیںجو اسلامی عالمی انسانی حقوق کے طور پر کیے گئے۔ دوسرےوہتحفظاتہیں جو عالمی انسانی حقوق کے خلافپیش کیےگئے۔ تیسرےانسانی حقوق کے چارٹر سےاصولیاختلافاتہیں۔
اسلامی انسانی حقوقکے تین منشور قابل ذکر ہیں۔ ایک مولانا مودودیکی کتاب’’ہیومن رائٹسان اسلام‘‘ہےجو۱۹۴۸کی ایک تقریر پر مبنی ہے۔ یہ منشورمولانا مودودی کی ذاتی تجویز ہے اس لیے اس کا تجزیہ یہاں مناسب نہیں۔ دوسرے یونیورسلاسلامک ڈیکلیریشنآفہیومن رائٹس جس کا اعلان لندن سے ۱۹۸۱میںمسلم دنیا کی معروفاسلامیسیاسی پارٹیوںنے کیا جن کی حیثیت مسلم ممالک میں زیادہ تر حزب مخالف کی تھی۔ اس منشورکو ریاستیتائید حاصل نہیں تھی۔اختصار کی خاطر ہم اسے لندن منشور کا نام دیں گے تیسرا منشور’’ کیرو ڈیکلیریشن آفاسلامک ہیومن رائٹس‘‘ ہےجواسلامی ممالککی تنظیماو آئی سی نے قاہرہ سے ۱۹۹۰ میں جاری کیا۔ہم اسے قاہرہ منشور کا نام دیں گے۔اگرچہ قاہرہ منشور کو ریاستی تائید حاصل تھی لیکن اس کی تطبیق اور نفاذنہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی لندن منشور سے مختلف نہیں۔ البتہ سیاسی اور علمی مئوقفکے اعتبار سے یہ سب منشور اہم ہیں۔عالمی انسانی حقوق کے چارٹر سے جسے ہم پیرس منشور کہیں گے کیونکہاس کا اعلان پیرس سےہوا ان دو اسلامی منشوروںکے موازنےسے بہتاہم نکاتکا پتہ چلتا ہے۔
پیرس منشورکی تیسشقوں میں سےلندن منشور کیبیس شقوں سے یعنی ۶۶ فی صد اور قاہرہچودہ شقوں سے یعنی ۴۶ فیصد متفق ہے۔ دوسرے لفظوںمیں مسلم ممالک کےسرکاری مئوقف کےمقابلے میں حزب مخالف پارٹیاںپیرس کے منشور سے زیادہ اتفاق کرتی ہیں۔ تفصیل میں جائیں تولندن اور قاہرہ منشوردونوں نےپیرس منشور کیتین شقوں پر سکوت اختیار کیا ہے یعنی قومیت کا حق، ثقافتیحقوق اوربین الاقوامینظام۔ قاہرہ منشورنے آزادی،تفتیشی تشدد،غیرجانبدارانہعدالتی کاروائی، فکری آزادی اورشخصیآزادی کی شقوں کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے۔ لندن منشورنے قومی ریاست کی اصطلاح اور تصور کی بجائے اسلامی ریاست کی اصطلاح استعمال کی ہے اور اس بنیادپردیگر تصورات کے لیے بھی مختلف اصطلا حات استعمال کی ہیں۔ مجموعی طور پرلندناور پیرس منشور میں مندرجہ ذیل امور میںبنیادی اختلافات ہیں:آزادی فکر واظہار،جان کا تحفظ،شادیاور طلاق،ریاست کے مناصب پر تقرری،صنفی مساوات، جرم اور سزا۔مختصراًً یہ کہا جا سکتا ہے کہلندن اور قاہرہ منشورمجموعی طور پر حقوق انسانی کے تصور اور پیرس کی شقوں سے متفق ہیں، تاہم ان کا شدیداختلاف انشقوں میں ہے جہاں وہ مقامیثقافت،اسلامی عائلی قوانین اور ان کے مقامیحکمرانی کے اصولوں سے ٹکراتے ہیں۔
اسی طرح کا اختلافان تحفظات کے اظہار میں بھی ملتا ہے جو مسلم ممالک نےسیڈا کی دستاویزات میں درج کیے ہیں۔ان میں بھی مسلم ممالک کی اکثریت پیرس کے منشور سے اتفاق کرتی ہے۔ ۵۷ ملکوں میں سے۳۳ نے مکمل اتفاق کیا ہے۔ ۲۴ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے ان میں سےگیارہ ممالکنے ان شقوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہےجو ان کے مطابق شریعت کے خلاف ہیں۔ تیرہ ممالک کے تحفظاتکی بنیاد شریعت کے علاوہ دوسرے امورہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہدوسرے امور کونسے ہیں جو تحفظات کی بنیاد بنے؟چونکہ یہ تحفظات حقوق انسانی کے بنیادی تصورکے بارے میں ہیں ان کا جائزہاس لیے ضروری ہےکہ ان کا تعلق حقوق انسانی کی قانونی بنیادوں یا جورسپرودنس سے ہے۔ ان میں سے ایک اہم اعتراض حقوق انسانی کی عالمی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے۔ حقوقبظاہر قانونی اصطلاح ہے اور انسانی حقوقکا اطلاق بھی قانون کے طور پر ہے۔تاہمسوال یہ ہےکہ یہ عالمی قانون کی کونسی قسم ہے؟انسانی حقوق کا قانون بین الاقوامی قانون کے زمرے میں آتا ہےتو کیا اس کی حیثیت محض معاہدے کی ہے؟۔ اگر کوئی ملکاس پر دستخط نہیں کرتا تو کیااسے مجبور کیا جا سکتا ہے؟ یا تحفظات کا اظہار کرتا ہےتو اس انکار یا تحفظات کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اس موضو عپر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔
دوسرا سلسلہ سوالاتقومی ریاست اور اس کے اقتدار اعلیٰسے تعلق رکھتاہے ۔ کیاکسی قومی ریاست کے اندرونی ملکی معاملات میں دخلاس کے اقتدار اعلیٰ کی نفی ہے؟ کیاایک فرد کی انسانی تکریماتنی اہم ہے کہ اس کے سامنے قومی اقتدار اعلیٰ کو سر خم کر دینا چاہیے ؟تیسراسلسلہ سوالاتاسی حق کے تصور کےایک دوسرے پہلو سےیوں بنتا ہے کہکیا فرد کا یہ انفرادیحق معاشرے اور ریاست کےمفاد سے بڑھ کر ہے؟ چوتھا سسلسلہء سوالاتاسلام کے حوالےسے ہے۔ کیا انسانی حقوق عطا کرنے کا اختیار انسانی اداروں کو ہے یا یہ مصدرانسان سے بڑھ کر مقتدر ہستی کا ہونا چاہیے؟ یہاںاللہ کیحاکمیت اور شریعتکی برتریکےموضوعاتسامنے آتے ہیں۔ یہ تحریریں اس باتکا تقاضا کرتی ہیں کہ انسانی حقوق کی الگ سے جورسپروڈنس تشکیل دی جائے۔
ان تحریروںمیں بنیادی طور پردوبحثیںبہتاہم ہیں۔ ایک بحثانسانی حقوق کی عالمی نوعیت سے ہے،دوسری کاانسانی حقوق کی قانونی حیثیت سے۔ پہلی بحث میںایک اہم سوال قومی ریاستوں کے اختیار و اقتدارکا ہے۔کیاعالمگیر قانون اس اختیار کو کمزور نہیں کرتا۔ دوسرا سوالثقافتوں اور مذاہب کے اختلافات کا ہے۔ کیا عالمگیرقانونان اختلافات کو نظر اندازکر سکتا ہے؟ قانونی نوعیت کے حوالے سے بحث ہے کہ انسانی حقوق کی حیثیت معاہدے پر مبنی ہونے کی وجہ سےاخلاقی اور اختیاری ہے،اس کی خلاف ورزی پر سزا یاپابندیاں کیسے لگائی جا سکتی ہیں۔ یہ سوالات عام طورپر قانونی اثباتیتاور اینے لیٹیکل جورس پروڈنسکی مقلد سوچنے اٹھائے ہیں جو قانوناور اخلاقیات کو دوالگ صوبوںمیں تقسیم کرتیہے۔ یہ سوچ قومی ریاست کے بلا شرکت غیرے اقتدار کے حوالےسے تو ممکن تھی لیکنگلوبل دنیا میں یہ تصوربے معنی ہوتا لگتا ہے۔
ان مسائل کے حل کے لیے ایک نئی جورسپروڈنس کی تشکیلکی ضرورت ہے لیکن عام طور پران اختلافات کو انسانی حقوق کی سیاست کا نامدے کران پیچیدگیوں سے فرار کا راستہ اختیار کیا جاتاہے۔ ایک جانب مسلم مفکرین کو شکایت ہے کہ مغربی ممالکاپنی سیادت اور غلبہکےلئےانسانی حقوق کا سہارا لیتے ہیں تو دوسری جانب مغربیمصنفینیہ دعوی ٰکرتے ہیں کہ مسلمریاستیں اپنے شہریوں کےبنیادیحقوق کی خلاف ورزیوںکوچھپانےکے لیے شریعت کا بہانہ کرتی ہیں ۔
پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ۲۰۱۴کےجائزے میںکمیشن نے ’’عسکریت پسندی اور تمام مظاہر کے خلاف‘‘ریاست اور اس کے مختلف اداروں کےعزمکو سراہا ہےوہاں’’مذہبی عقیدہ کی بنیاد پر حملوں‘‘،’’ معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کے خلافپہلے سے کہیں زیادہ لرزہ خیز تشدد کے واقعات‘‘،’’خواتین کے خلاف حملوں کے واقعات‘‘ میں اضافے،’’نظام انصاف کی سست روی‘‘ اور’’ماورائے عدالت قتل، غیر قانونی اور من مانی حراست اور حراست میں تشدد اور جبری گم شدگیوں ‘‘کے جاری رہنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
 انسانی حقوقکے حوالے سے فقہی تعبیراتپر نظر ثانی کی ضرورت ہے
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںاصولی طور پر ملک میں حکمرانی کیبنیادیکمزوری کی عکاس ہیںجوکمزور اور مظلوم کو انصافکی ضمانت نہیں دے سکتیں۔ لیکن خواتین اور اقلیتوںپر تشدد اور مذہبیعقیدہ کی بنیاد پر حملوں کےحوالےسے یہ تلخ پہلو بھی سامنےآتا ہے کہبعض حلقوں کی جانب سےملکی قانوناور شرعی قوانینمیں فرق پر زور کی وجہ سے قانون کی حکمرانیبھی کمزور پڑ رہی ہے ملک میںریاستی قانونکی عملداری کا تصور مشکوک ہوتا جارہا ہے۔مثلاً عائلی قوانین میںعدالتینظام کے متوازی فتاویٰ اور غیر ریاستی شرعی عدالتوں کا نظام قائمہو چکاہے اور خواتین کے حقوق خصوصاًطلاق کے مسائل میں اکثر لوگ عدالتوں کی بجائے مفتی حضرات سے رجوع کرتے ہیں۔ اللہ کی حاکمیتاور شریعتکا نفاذ جو اسلامی ریاستکے بنیادی اصول ہیں انہیں قومی ریاست کے ڈھانچے میں ڈھالنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
علامہ اقبال نےاپنےخطبات میںاسلامی فقہ کی تشکیل نو پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قدیمفقہ اور اس کے اصولان مسائل کے حل میں مدد نہیں دے رہے۔ ان کےنزدیک دور جدید میںخلافتاور اجتہاد کی نئی تعبیر کی ضرورت ہے۔ اب خلافتکسی فرد یا شخصی حکومتمیں محدود نہیںرہ سکتی۔ انہوں نے ترکی میں خلافت کی جگہ ریپبلک کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوے اسےترک گرینڈ اسمبلی کا اجتہادقرار دیا تھا۔ ’’حکومت کی جمہوری ہیئت اسلام کی روحسے مطابقت رکھتی ہے‘‘۔اجتہاد کے بارے میں بھیانکی رائے یہی تھی کہ اب انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد ضروری ہو گیا ہے اور اس کی بہترین صورت پارلیمنٹ ہے۔ علامہ اقبال نےجدید دور کیانضرورتوںکے لیے اسلامی بنیادیں تلاش کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔علامہ اقبال کے نزدیک اسلامی جدیدیت ختم نبوتکےمفہوم سے مربوط ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ
ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر اسلامقدیم اور جدید دنیا کے وسط میںتشریف فرماہیں۔وحی کےمنبعکے لحاظ سےان کا تعلق قدیم دنیا سے ہےاور اس وحی کی روح کے لحاظ سےوہ جدید دنیاسے تعلق رکھتے ہیں۔ آپﷺ کی سیرت سےزندگیکوعلم کے دوسرے ذرائع کا علم حاصل ہوتا ہے جو اس کی نئی سمت کے لیے مناسب ہیں۔ اسلام کی آمد استقرائی عقلکی دریافت ہے۔اسلام میں نبوتمکمل ہوتی ہےاور اس کمال سے ہیاسکےاختتامکی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے لیے اس بات کا گہرا ادراک درکار ہے کہزندگی کو ڈوریوں سے کھینچ کر نہیں رکھا جا سکتا جیسے بچوں کو چلنا سکھاتے ہیں اور یہ کہخود آگاہی میں کمال کے لیے انسان کے لیے لازمیہےکہ وہ اپنے وسائلپر انحصار کرے۔ اسلاممیں مذہبی پیشوائیت اور موروثی بادشاہت کا خاتمہ،قرآن کریم میں بار بارعقل اور تجربےکی دعوت، اور اس بات پر زور کہتاریخ اور عالم طبیعیات انسانی علمکے ذرائعہیں،یہ سبختم نبوت کے تصور کے مختلف پہلو ہیں‘‘ ۔
عقل استقرائیکےحوالے سےعلامہ اقبالکا کہنا تھا کہ اسلامی روایت خصوصاً عقائد اور قانون کی نشو و نمامیںیونانی مابعد الطبیعیات کی اسیر ہوتی چلی گئی۔ اس کی وجہ سے فلسفے میں عالم مثال، فقہ میں قیاس اور قرآن کی تعبیر میں لفظی معنی پراصراربڑھتا گیا۔ اسلام نے فکری آزادیاور اجتہاد کی جو راہیں کھولیتھیں اس کے دروازے بند کر دیے گئے۔انسانی حقوق کی اسلام سےعمومی مطابقتپر تو اتفاق موجود ہے۔لیکنان حقوق کی اسلامی بنیادیںفراہم کیے بغیرمسلمان اس میدانمیں فعال کردار ادا نہیں کر سکتے۔ حق، آزادی، قانون،شہریت،مساوات اور انصاف میں عدمامتیاز،اسلامیریاست میںغیر مسلم کے حقوق وغیرہکی اسلامی بنیادیںمتعین کرنے کے لیے مقاصد شریعت کیاساس پر انسانی حقوق کی ایک نئی فقہ کی تشکیلضروری ہے۔قدیم فقہ کیتقلیدنےفرقہ واریتکی تنگنائیوں میںقید کر دیا ہے۔
تقلید کی اس انتہا پسندی نے ہیعلامہاقبال کو اجتہاد کے موضوع کی طرف متوجہ کیا تھا۔ حنفی فقہ میںمفقود الخبر یالاپتہ خاوند کی بیویکو خواہ پچاس سال انتظار کر نا پڑےوہ اس وقت تک کوئی قدم نہیں اٹھا سکتیجب تک خاوند کی موت کا یقیننہ ہو جائے۔اسی طرح چاہےخاوندآئے دن مارتا پیٹتا ہو، نفقہ نہ دیتا ہویا اور ظلم کرتا ہوحنفی فقہ کی رو سے مسلمانعورت خاوند سے طلاقکے لیے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتیتھی۔۱۹۲۰ کی دہائی میںایسے کئی واقعات پیش آئے جن میں مسلمان عورتوں نے عدالت میں جاکرعیسائی ہونے کا دعویٰ کرکےنکاح منسوخ کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبہ اجتہاد میں امت مسلمہ کو اس کی طرف توجہ دلائی۔ علما نے اس بات پر غور کیا اور آخر کار مولانا اشرف علی تھانوینے فتویٰ دیاکہ مالکی فقہ میں جن بنیادوں پرمسلمان عورت کو طلاقکے لیے عدالت سےرجوع کرنے کا حق دیاگیا ہے وہ حنفی فقہ میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۳۹ کا قانون تنسیخ نکاحانہی کوششوں کا نتیجہ تھا ۔
علامہ اقبال نے اپنے خطبہ اجتہاد میںابو اسحاق الشاطبیکا حوالہ دیا جن کا کہنا تھاکہ شریعت کا مقصدانسان کے مصالح کی حفاظت ہے اور یہ مصالحپانچ بنیادیحقوق ہیں یعنی دین، جان، عقل، نسل،اور مالکا تحفظ۔مقاصد شریعتکا نظریہ انسانی حقوق کے لیے ٹھوس اسلامی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔قرآن و سنت کے استقرائی اور مجموعی مطالعےسے مقاصد شریعت کا علم حاصل کرکےدور جدید کے مسائل کو حل کرنا بہتر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی معاشیات اور مسلماقلیتوں کے مسائلکےحل کے لیے بھیمقاصد شریعتنے بہتراسلامی بنیادیں فراہمکی ہیں۔عبد الوہاب عبدا لعزیز شیشانیکی حقوق الانسانو حریات الانسانیہفی النظام الاسلامی والنظم المعاصرہ اورراشدغنوشی کیالحریات العامہفی الدولۃ الاسلامیہ اس کیبہترین مثالیں ہیں۔
پاکستان میںبھی مقاصد شریعتکی سمت پیش قدمی ہوئی ہے۔قرار داد مقاصد میں جواب تمہید کی شکل میں دستور کا حصہ ہے،اللہ کی حاکمیت،عوام کے اختیارات،جمہوریتاور اسلام کے قانون حکمرانی کو ایک دوسرے سے مربوطکر دیاگیا ہے۔اللہ پوری کائنات کا حاکم مطلق ہے۔اس نےحکومت کا اختیار عوام کوبطور امانت سونپاہے۔ عوام ایک سیاسی نظم قائم کرکے یہ اختیار اپنے منتخب نمائندوں کےذریعے استعمال کرتے ہیں۔ریاست کایہنظمجمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانیکے اصولوں پر مبنی ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹنے ایک تفصیلی فیصلے میںقرار داد مقاصدکی آئینیحیثیت پر بحث کیہے جس سے یہ تصورات مزید واضح ہوئے ہیں۔عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاکستانی پارلیمانبالا سے۳نومبر ۲۰۱۵ کے خطاب میںمندرجہ ذیلنکات میںاللہ کی حاکمیت، عوام کے اختیارات اورریاست کے تصوراتپر روشنی ڈالی ہے:
۱۔         چیف جسٹس کی نظر میں قرار داد میں مذکور نظمدر اصل ’’نظم نو‘‘ اور اس سے مرادمملکت پاکستان ہےجس کا قیام عوام کی مرضی سے ہوگا۔ یہ نظم ایسے سماج کیتشکیلکا نام ہے جو مساوات کے اصولوںپر مبنی ہو، جہاں بنیادی حقوق کی ضمانت ہو اور جہاں ریاست کے باشندوں کو سماجی اور معاشی انصاف ملے، زندگی میں فکرو عمل، اظہار رائے، اجتماع اور مذہبی آزادی حاصل ہو۔
۲۔         آئین کے مطابقاللہکی حاکمیت اعلی ٰسے مراد اخلاقی اورحتمیحاکمیت اعلیٰ ہے۔
۳۔         سیاسی اقتدار اعلیٰکے مالک عوام ہیں جو اپنے منتخب نما ئندوں کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔
۴۔         منصفانہ ریاست کے قیامکا تصورمحض قانون اور ضابطے کی کاروائی نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کے قیام کا قانونی جواز ہے جس کے پس پشت یہی قوی مذہبی اور اخلاقی سوچ کار فرما ہے۔
۵۔         ریاست کا تشکیل کردہ نظام انصاف جامعاور وافی ہو نا چاہئے۔پاکستان میں اسی فی صد تنازعات کا تصفیہ جرگہ اور پنچایت جیسے غیر منظم اور بے ضابطہذرائع سے ہو رہا ہے۔یہ صورت حال نظام قانون سے دوری اور ریاست کی عملداری کیکمزور ی کی ہی نہیں،بلکہ سماج، عوام اور ریاست میں بڑھتے ہوے فاصلوں کی عکاسی بھی کر رہی ہے۔

جہاں تک دوسرے مسئلے یعنی نفاذ شریعتکا تعلق ہے اسکے بارے میں بھی پاکستان میں واضح پیش رفت ہوئی ہے۔ آئینمیں واضح لائحہ عمل تجویز کرتے ہوےدفعہ ۲۲۷ کے تحتاسلامی نظریاتی کونسل کو پاکستان میں موجود اور مروج قوانین پرنظرثانیکا کام تفویض کیا گیا تھا۔ اور یہاصول طے کیاگیا تھاکہ ایسے قوانین کی نشاندہی کی جائے جو قرآن اور سنت کے احکام کے منافی ہوں۔ کونسل یہ کام مکمل کرکے ۱۹۹۷ میں حتمی رپورٹ پیش کرچکی ہے۔ اس رپورٹکے لحاظ سے موجودہ قوانین میں قرآن و سنت کےمنافی قوانین کی تعداد ۵ فیصد یا اس سے بھی کم تھی۔دوسرے الفاظ میں پاکستان کے بیشتر قوانین میں ترامیمکی ضرورت نہیں۔ اس مسئلے میں ابہام کیوں پیدا ہوا۔ اس کی ایک وجہ دفعہ ۲۲۷میںوہ وضاحتیترمیمہوسکتی ہے جو ۱۹۸۵ میں کی گئی۔ اس ترمیممیں واضح کیا گیا کہ قرآن اور سنت سے مرادقرآن اور سنت کی وہ تعبیرہے جو کسی فرقے نے کی ہو۔ اس سے نہ صرف شریعتکے نفاذمیں ابہام پیدا ہو گیا بلکہ فرقہ واریت کوآئینی تحفظ بھی ملا۔ یہ ترمیم عدالتوں کی رہنمائی کے لیے تو مفید ہوسکتی ہے لیکن قانون سازیمیں ابہامکا با عث ہوئی ہے

Muhammad Khalid Masud. 2003. “Il Culto della Spagna nei paesi Musulmani d’area Mediterranea”, in Valentina Colombo e Gustavo Gozzi (Eds.,) Tradizioni culturali, sistemi giurdici e dritti umani nell’area del Mediterraneo (Bologna: Società editrice il Mulino, 2003), pp. 127-140.

Aziz Ahmad. 1962. “Islam d’Espagne et d’Inde musulmane moderne”, in Études d’orientalisme dediés a memoire de Levi-Provençal (Paris, 1962) ii, 461-70. Aziz Ahmad. 1976. “The Shrinking Frontiers of Islam”, International Journal of Middle Eastern Studies, Vol.7: 145-159.

65. Muhammad Khalid Masud, 2005. “Islamic Law and Muslim Minorities”, WLUML Dossier 27 (December 2005): 59-62.

Muhammad Hamidullah. 1975. The First Written Constitution in the World: An Important Document of the Time of the Holy Prophet, Lahore: Ashraf Press, 3rd. ed. 1975.ڈ اکٹر حمیداللہ نے یہ مقالہ پہلے ۱۹۴۱ میں شائع کیا۔

  https://web.archive.org/web/20130927221000/http://unyear book.un.org/1948-49YUN/1948-49_P1_CH5.pdf, p. 528

مثالکےطورپرملاحظہہو Abdullahi A. An-Na ‘im, 2002. “Islam and Human Rights: Beyond the Universality Debate”, in ASILProceedings of the 94th Annual Meeting, April 5-8, 2000, 95-101. RyanGoodman. 2002.“Human Rights Treaties, Invalid Reservations, and State Consent”, The American Journal of International Law, Vol. 96 (2002), 531-560; Abdullahi A. An-Na ‘im, 2002. “Islam and Human Rights: Beyond the Universality Debate”, in ASILProceedings of the 94th Annual Meeting, April 5-8, 2000, 95-101.

ملاحظہ ہو Aat Emile Vervoorn, 2005. Re orient: Change in Asian societies, Oxford University Press, 2005; Tim Dunne and Nicholas J. Wheeler (eds.). 2004. Human Rights in Global Politics. Cambridge University Press, 1999); Martti Koskenniemi, “International Law and Hegemony: A Reconfiguration”, Cambridge Review of International Affairs, Volume 17, Number 2, July 2004.197-218; Anthony J. Langlois, "The politics of justice and human rights." Asia Pacific Journal on Human Rights and the Law 2 (2001): 138-143; Arati Rao, "The Politics of Gender and Culture in International Human Rights Discourse," Women’s Rights, Human Rights: International Feminist Perspectives (1995): 167-175.

عبداللہبنعبدالمحسنبنعبدالرحمان الترکی، حقوق الانسان فی الاسلام ( ریاض: وزارۃ الشوؤن الدینیہ، ۱۴۱۹ ھ )

Ibid. and Sayyid Abu’l A’la Mawdudi. 1995. Human Rights in Islam. Lahore: Islamic Publications, 1995.

Ann Elizabeth Mayer. 2006. “Clashing Human Rights Priorities: How the United States and Muslim Countries Selectively Use Provisions of International Human Rights Law”, in Satya Nilayam, Chennai Journal of Intercultural Philosophy 9, 44-77.

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق، پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال ز۲۰۱۴ لاہور ۲۰۱۵

Allama Muhammad Iqbal. 1986 [1930].The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Lahore: Institute of Islamic Culture, 1986, p. 100-101.

Muhammad Khalid Masud. 2003. Iqbal’s Reconstruction of Ijtihad. Lahore: Iqbal Academy, 1995. 2nd Edition 2003, pp. 155-174.

ریاض: الجامعیہ الاسلامیہ الملکیہ، ۱۹۸۰۔

بیروت: مرکز دراسۃ الوحدۃ العربیہ، ۱۹۹۳۔

Const. P. 12 0f 2010.