working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

فیچر

بھول بھلیوں کا بھگت۔۔کالا خان بابا

انجینئر مالک اشتر

کالا خان کا مزارحسن ابدال کے نواح میں ہے ۔سابق صدر ایوب کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے ،حالیہ دور کے ا س صوفی کی زندگی کے گوشوں کو اس فیچر میں مالک اشتر خوبصورتی سے سامنے لائے ہیں ۔ان کا انداز تحریر سادہ اور دلکش ہے جو قاری کو ایک صوفی کی زندگی کے ساتھ ساتھ تصوف کو سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے ۔(مدیر)

مٹھی بھر افراد پر مشتمل سخی آباد(نکو)نامی آبادی ایک دلچسپ محل وقوع کی حامل ہے اس کے مشرق میں بہوٹی اور دھمرا کی ندیاں بہتی ہیں۔شمال مغرب سے دریائے ہرو گزرتا ہے جو گندگر کے پہاڑی سلسلے کے چرن چھوتا ہوا اٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے ۔گندگر کا پہاڑ پنجاب کی لوک کہانیوں کے ایک لافانی کردار راجا رسالو سے منسوب دل کش روایت کا حصہ ہے۔ شمال میں ایبٹ آباد سے آنے والی سڑک کبھی شاہراہ ریشم کا جزو رہی جبکہ جنوب میں حسن ابدال کے قصبے کی حفاظت پر مامور چوکی،لنڈا اور کھیڑی مار کے حسین پہاڑی سلسلے ہیں ۔اطراف سے بہہ کر آنے والے ندی نالوں نے مذکورہ بستی کو مدھ بھرے خوشنما پیالے میں بدل دیا ہے اس پر مستزاد یہ کہ اطراف کے لینڈ سکیپ آنکھوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
جغرافیائی طور پر سخی آباد(نکو) اٹک،راولپنڈی اور ہری پور کے اضلاع کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے مختلف ثقافتوں کا امین ہے یہاں قدم رکھتے ہی ایک ایسے خوابوں کے جزیرے کا گماں گزرتا ہے جہاں ایک طلسماتی دنیا آباد ہو یا پھر آدمی ایک سیارے کی کشش ثقل سے نکل کر کسی اجنبی سیارے کی مقناطیسی حدود میں پہنچ جائے۔
وینس(اٹلی) اپنی آبی گزرگاہ نما گلیوں(Lagoon) کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے اسی طرح یہ منفرد بستی بھی زمین دوز گھر اور گلیوں کی تعمیر کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے باسی چیونٹیوں کی طرح زیر زمین بنی ہوئی کالونی میں رہتے ہیں اور یہ کالونی کسی طور پر بھی بھول بھلیوں (Labyrinth) سے کم نہیں لگتی۔
نچلی تہ پر قدم رکھتے ہی ایک دم ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے دائیں بائیں بنے ہوئے کمروں کے دروازے نیم محرابی شکل میں تراشی ہوئی گلیوں میں کھلتے ہیں اور گلیاں ایک دوسرے کو قائمہ زاویہ پر کاٹتی ہوئی گزرتی ہیں۔درودیوار مٹی سے تراشے گئے ہیں اس وجہ سے فضا میں ہر وقت سوندھی سوندھی سی خوشبو پھیلی رہتی ہے۔ان کمروں کی تعمیر میں کوئی اینٹ گارا یا سیمنٹ استعمال نہیں ہوا تاہم حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیواروں پر سفیدی پھیر دی گئی ہے جس سے ماحول قدرتی طور پر روشن ہوگیا ہے۔مویشیوں کےلئے الگ سے زیر زمین فارم بھی موجود ہے جہاں گائے بھینس اور بکریاں چارہ کھاتی نظر آتی ہیں۔
مہمان خانے کی جانب چلیں تو سامنے پختہ اینٹوں کے برآمدے پر نظر پڑتی ہے لیکن برآمدہ عبور کرکے جونہی اندر داخل ہوں تو مٹی کے ٹیلے میں کھدے زمین دوز کمروں سے سامنا ہوتا ہے فرش پر گھاس کی چٹائیاں بچھی ہیں جنہیں کمروں کی لمبائی چوڑائی کی مناسبت سے خاص طور پر بنایا گیا ہے۔دیواروں پر کہیں کہیں تصویریں آویزاں ہیں یا اسلامی خطاطی کے نمونے جھول رہے ہیں اور سامنے جلی حروف میں لکھا ہے”یہاں خواجہ غریب نواز کا سکہ چلتا ہے“۔
” کالا خان بابا‘ کو چشتی سلسلے سے نسبت ہے۔وہ اپنی روحانی سلطنت کے بے تاج بادشاہ تھے۔یہ خوابیدہ شہر اور اس کا طرز تعمیر انہی کی ذہنی اختراع کا ثمر ہے۔کالا خان بابا کا اصل نام محمد یامین چشتی تھا وہ وادی گندگر کے ایک تاریخی گاﺅں”سلم کھنڈ“ میں پیدا ہوئے ان کا تعلق علاقے کے معزز قبیلے”طاہر خیل“ سے تھا۔سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان آپ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
آپ کے والدین ایک طویل عرصے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے جس کا انہیں شدید قلق تھا ایک روز عزیز و اقارب کے سمجھانے بجھانے پر اولاد نرینہ کی خواہش دل میں لئے اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضر ہوئے ۔آپ کی والدہ کو خواب میں تین بیٹوں کے پیدائش کی بشارت دی گئی۔جن میں سے ایک لڑے کو خدا کی راہ میں منتخب کرلینے کا عندیہ دیا گیا۔خداوند کریم نے ان کی دیرینہ خواہش پوری کی اور ان کی جھولی اولاد جیسی نعمت سے بھر دی۔ محمد یامین سب سے چھوٹے تھے ان کی رنگت خاندان کے دیگر افراد کے برعکس عنابی اور قدرے سانولائی ہوئی تھی چنانچہ انہیں بچپن سے ہی پیار سے کالا خان کہا جانے لگا اور پھر رفتہ رفتہ یہی نام ان کی پہچان بن گیا۔
محمد یامین کو دنیا میں آئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ان کی والدہ ماجدہ دارالبقا کی جانب کوچ کرگئیں ،ماں کی آنکھیں بند ہوتے ہی خاندان والوں نے ان کے والد کو دوسری شادی پر مجبور کردیا چنانچہ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری دادی ماں نے سنبھال لی اس طرح اوائل عمری میں ہی زندگی نے اپنے اصل رنگ دکھانے شروع کردیئے۔
محمد یامین بچپن سے ہی خداداد طور پر ذہین تھے انہوں نے غضب کی یادداشت پائی تھی۔اگر کوئی سبق ایک بار سن لیتے تو حرف بحرف ازبر ہو جاتا پرائمری کے درجے تک انہوں نے اپنے گاﺅں میں ہی تعلیم حاصل کی تاہم وظیفے کا امتحان ہری پور میں کامیابی کے ساتھ مکمل کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی پھر مزید تعلیم کےلئے انہیں ہری پور میں ہی خالصہ ہائی اسکول میں داخلہ مل گیا۔
مڈل کے درجے میں کامیابی کے بعد مزید تعلیم کی غرض سے والد صاحب انہیں اپنے ساتھ بمبئی لے آئے اور اعلیٰ درجے کے انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرادیا۔اسکول کے پرنسپل پارسی مذہب کے پیروکار تھے اور ان کے والد کے دوست بھی،اس طرح نیا آنے والا طالب علم جلد ہی اساتذہ کی توجہ کا محور بن گیا۔
شروع کے ایام میں محمد یامین اپنی دادی ا ماں سے جدائی برداشت نہ کر پائے اور ان کی محبت میں دن رات تڑپتے رہتے پھر جب ممتا بھری دیسی گھی کی چوریاں اور موتی چور کے لڈو جو بے جی نے پردیس جاتے وقت ساتھ باندھ دیئے تھے،ختم ہوگئے تو رفتہ رفتہ وہ بھی کتابوں کی نئی دنیا میں گم ہوگئے۔دیر سے داخلہ لینے کے باوجود انہوں نے خوب محنت کی اور ان کا شمار اسکول کے ہونہار طلباءمیں ہونے لگا۔
اسکول میں دو ایرانی طالب علم احمد اور محمد زر نگار پڑھا کرتے تھے وہ محمد یامین کی سادگی اور شرافت سے بے حد متاثر تھے یوں ان کی دوستی پکی ہوگئی اور اس رفاقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ محمد یامین کو فارسی پر بھی یدِطولیٰ حاصل ہوگیا انہوں نے فارسی میں اشعار کہنے شروع کردیئے جب دوستوں کی محفل میں شعر سناتے تو انہیں خوب داد ملتی۔ان اشعار میں روحانی قواعد کو محلوظ خاطر رکھ کر طبع آزمائی کی جاتی اور بُنت کے اعتبار سے غمِ جاناں،ہجرِ یار اور عشقِ حقیقی کا پَر تو جھلکتا۔ ان کا انگریزی زبان کا لہجہ بھی اس قدر شستہ تھا کہ انگریز بھی ان کی زبان دانی کے معترف نظر آتے اور ان سے گفتگو کے مشتاق رہتے۔
میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد انہوں نے اسماعیل کالج میں داخلہ لے لیا۔قدرے دوری کی وجہ سے انہیں کالج تک ٹرین پر جانا پڑتا تاہم واپسی پر مسٹر ای۔وی۔بوب نامی پروفیسر جو کہ ان کی قابلیت کا مداح تھا اپنی کار پر گھر تک چھوڑنے آتا۔ محمد یامین نے کئی بار کسرِ نفسی کا اظہار کرتے ہوئے منع بھی کیا مگر پروفیسر صاحب کسی صورت بھی ان کے تنہا جانے پر راضی نہ تھے اور اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے۔
کالج کا عرصہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا انہوں نے گریجویشن کے مساوی تعلیم حاصل کی۔اسی دور ان ان کے والد ملازمت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر گاﺅں واپس آگئے ان کے چلے جانے سے محمد یامین بھی خود کو اکیلا محسوس کرنے لگے۔مجبوراً انہیں مزید تعلیم کا سلسلہ ختم کرنا پڑا۔دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر رختِ سفر باندھا اور والد گرمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گھر کی راہ لی اور اپنی خالہ کے ہاں خیر باڑہ تشریف لے آئے اب ان کا مزید ارادہ یہیں قیام کرنے کا تھا۔ گاﺅں میں ان کی آبائی زمینیں اور جائیداد تھی اور عزیز و اقارب بھی کثرت سے آباد تھے۔
ان دنوں درس و تدریس کا شعبہ معاشرے میں خاصی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور محمد یامین کا مزاج بھی کچھ ایسے ہی پیشے کا متفاضی تھا چنانچہ سول سروس میں شمولیت کےلئے دباﺅ کے باوجود انہوں نے محکمہ تعلیم میں ملازمت کو ترجیح دی اور یوں عملی زندگی کا باقاعدہ آغاز خیر باڑہ گاﺅں کے ہی ایک اسکول میں معلم کی حیثیت سے کیا۔
ان کے پڑھانے کا انداز دیگر اساتذہ سے قطعاً مختلف تھا وہ کردار سازی پر زیادہ زور صرف کرتے ،حقوق اور فرائض کی اہمیت اجاگر کرتے۔آوارہ گھومنے والے بچوں کو زبردستی پکڑ دھکڑ کر اسکول میں داخل کرا دیتے جو تنخواہ ملتی نادار بچوں کی کفالت کی نذر ہو جاتی۔
اسی دور ان ان کے ساتھ ایک دلچسپ اور عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی کا رخ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ہوا یوں کہ انہوں نے ہاتفِ غیبی کی آواز سنی جیسے کوئی ان کا نام پکار کر کہہ رہا ہے کہ اے فرزند تمہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خاتونِ جنت حضرت فاطمة الزہرہ اپنے خاص قرب سے نوازنا چاہتی ہیں لیکن تمہارے پہلو میں ناپاک اور پلید کتا ہے پہلے اس سے چھٹکارا حاصل کرو اور اپنا تزکیہ نفس کرو۔
محمد یامین نے فراست سے فوراً بھانپ لیا کہ کتے سے مراد ان کا نفس ہے جو لامحدود خواہشات کا غلام ہے۔اس غیبی اشارے نے ان کی زندگی میں ہل چل پیدا کردی وہ ہر وقت اس سوچ میں پریشان رہنے لگے کہ اپنے من کی صفائی کیسے کی جائے۔اسی دوران ان کے دل میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے دربار میں حاضر ہونے کی امنگ انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی۔
دراصل ہوا یوں کہ گاﺅں میں دیس راج نامی ایک ہندو دکاندار تھا ۔محمد یامین چشتی اکثر اس کے پاس جا کر بیٹھ رہتے اور مختلف معاملات میں مشاورت کرتے۔چنانچہ ہم جلیس ہونے کے ناطے رویا والا واقعہ بھی دیس راج کے گوش گزار کردیا تاکہ اس گتھی کو بطریق احسن سلجھایا جاسکے۔اس طرح یہ طے پایا کہ مذکورہ راز کی تشہیر کی بجائے پہلی فرصت میں ہی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مزار پر حاضری دی جائے۔بس پھر کیا تھا وہ کسی بسمل پرندے کی طرح وہاں جانے کےلئے تڑپنے لگے۔
اس سے پیشتر تنہا سفر کی نوبت نہیں آئی تھی وہ نہ ہی وہ سفر کی صعوبتوں سے کماحقہ آگاہ تھے بہرحال انہوں نے زادِ راہ ساتھ لیا اور بالآخر ایک روز کوچہ یار کی سمت نکل کھڑے ہوئے۔لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضری دی۔ریلوے اسٹیشن سے ٹکٹ خریدا اور اجمیر جانے والی ٹرین پر سوار ہوگئے۔شومئی قسمت سفر کے دوران ان کی جیب سے تمام پیسے کہیں گر گئے۔اب ایک نئی افتاد آن پڑی۔ اجنبی شہر،انجان لوگ اور منزل کا کچھ اتا پتا نہیں۔ادھر یار سے ملنے کی تڑپ تھی کہ بے کل کئے دے رہی تھی۔آخر گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی آخری آرام گاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔خانقاہ میں قدم رکھا تو سفر کی تمام تکان اور تکالیف جاتی رہیں یوں لگا جیسے انہیں کسی ہمدم دیرینہ نے اپنی محبت بھری آغوش میں سمیٹ لیا ہو اور پھر وہ عشق کے بحر بے کراں میں ڈوبتے چلتے گئے۔
ایک روز وہ گم سم سے اجمیر کی گلیوں میں گھوم رہے تھے کہ ایک مجذوب کی ان پر نظر پڑی اس نے ایک نعرہِ مستانہ لگایا اور”پنجاب کا راجا“ کہہ کر ان سے لپٹ گیا پھر اس نے اپنا جوٹھا موٹھا ان کے منہ میں ڈالا اور زور زور سے چلاتا ہوا آگے نکل گیا۔بابا کالا خان کو یوں محسوس ہوا جیسے ان کا جسم ہلکا پھلکا ہو کر ہوا میں تحلیل ہوگیا ہو۔ وہ اپنے آپ کو بے حد لطیف محسوس کررہے تھے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھتا چلا گیا اور ان کا دل لذت آشنائی سے سرشار ہوگیا۔انہیں اپنے تن بدن کی ہوش نہ رہی اور ہو بے خودی میں جھومنے لگے۔ بڑی تگ و دو کے بعد انہوں نے اپنے حواس پر قابو پایا اور پھر خواجہ صاحب کی چوکھٹ پر سر جھکا کر خاموش بیٹھ گئے۔
اب واپسی کا مرحلہ درپیش تھا۔جیب پیسوں سے خالی تھی۔ایک نیا امتحان سر پر منڈلا رہا تھا۔خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ایک روز ڈاکیا ان کا نام پکارتا ہوا وہاں پہنچ گیا اور کہنے لگا کہ گاﺅں سے ان کے اہل خانہ نے منی آرڈر ارسال کیا ہے پیسے وصول کرتے ہی انہوں نے واپسی کا قصد کیا پس مردہ دل کے ساتھ شیخ کی چوکھٹ کا آنکھوں سے بوسہ لیا اور گھر لوٹ آئے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ہر روشن ضمیر شخص کے گرد روشنی کا ایک ہالہ ہوتا ہے اس کے نزدیک جانے سے دل خود بخود روشن ہو جاتے ہیں ۔محمد یامین کی باطنی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی جب سے درویش نے انہیں بھینچ کر اپنے گلے سے لگایا تھا ان کے خیالات میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں۔ان میں غصے کی جو ذرا برابر رمق باقی تھی وہ بھی جاتی رہی ،ان کا دل پگھل کر موم کی طرح نرم گیا۔عشقِ حقیقی کی چنگاری بھڑک کر ایک شعلے کی صورت اختیار کرگئی۔اجمیر میں اچانک ملنے والے اس مردِ خدا نے انہیں مست الست کہہ کر جھنجھوڑا تھا اب یہ مستی رفتہ رفتہ ان کے رگ و پے میں سرایت کرتی جارہی تھی۔
انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اندر روحانی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی ہیں۔وہ پہاڑوں کی جانب نکل جاتے جنگل میں گھومتے۔زمین و آسمان کی وسعتوں میں غوطہ زن ہو جاتے،چاند ستاروں کی بناوٹ پر غور و غوض کرتے خدا کو لباسِ مجاز میں دیکھنے کی خواہش دل میں مچلتی تو کائنات کے پنہائیوں میں گم ہو جاتے۔
راتوں کو جاگ کر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔دل و دماغ میں ہر وقت خدا کے نام کی چکی گھمر گھمر گھومتی اور دانہ دانہ پستا۔گھر والے ان کے اندر کی نئی تبدیلی سے خاصے متفکر تھے۔سوالات پوچھنے پر مختصر جواب دے کر چپ سادھ لیتے،کبھی عشقِ حقیقی کی لذتوں سے آشنا ہونے کا درس دیتے اور دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ ہوتا۔
کسی نہ کسی طرح وہ ایک سال تک تدریسی شعبے سے جڑے رہے مگر انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ اس قومی امانت کا مزید بوجھ اٹھانا اب ان کے بس کی بات نہیں رہی۔قدرت کو ان سے کچھ اور کام لینا مقصود ہے۔چنانچہ انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔نوکری سے سبکدوش ہوتے ہی انہوں نے سکون کا سانس لیا اور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے۔
وادی گندگر کے اطراف کے کئی گاﺅں کالا خان کے خاندان کی ذاتی جاگیر میں شمار ہوتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہاں کے رو¿ساءدیہاتی لوگوں پر اپنا مصنوعی رعب و دبدبہ قائم کرنے کےلئے ظالمانہ اقدامات سے گریز نہ کرتے۔
محمد یامین کو یہ امتیازی معاشرتی رویے ایک آنکھ نہ بھاتے یہی وجہ تھی کہ ان کی اپنے رئیس رشتہ داروں کے ساتھ ہمیشہ سرد جنگ جاری رہتی۔
تقسیم ہند سے قبل کے انتخابات کا ذکر ہے کہ ان کے چند قریبی عزیز خانگی حجرہ میں اپنے مزار عین کے ساتھ بیٹھے انتخابی معاملات طے کررہے تھے خواتین کے ظاہری جاہ و جلال سے نخوست ٹپک رہی تھی جبکہ گاﺅں کے دیگر لوگ غلاموں کے انداز میں زمین پر بیٹھے گردنیں ہلا کر ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔محمد یامین کی ان پر نظر پڑی تو انسانیت کی اس تذلیل پر ان کا دل بہت ملول ہوا۔وہ سوچ رہے تھے کہ کوئی ایسی سبق آموز چال چلی جائے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اسی دور ان انہوں نے ایک گدھے کو اپنی جانب آتے دیکھا وہ جھٹ سے کمرے میں داخل ہوئے اور اندر سے اپنے موزے اور بوٹ نکالے اور کھینچ تان کر گدھے کی ٹانگوں پر چڑھا دیئے۔ پھر اپنا کوٹ اور واسکٹ بھی اس کی پیٹھ پر لپیٹ دی حتیٰ کہ پیچ دار پگڑی بھی گدھے کے سر پر سجا دی گئی۔
لوگوں نے جب نکٹائی لگے سوٹڈ بوٹڈ گدھے کو شانِ بے نبازی سے گھومتے دیکھا تو خوب محظوظ ہوئے ۔کالا خان بابا نے آگے بڑھ کر لوگوں سے استفسار کیا کہ کیا گدھے کو قیمتی لباس پہنا دینے سے اس کی عقل یا شان میں کوئی اضافہ ہو جاتا ہے جب تمام حضرات نے نفی میں سر ہلایا تو انہوں نے اپنے قبیلے کے رﺅسا اور معززین کو مخاطب کیا اور کہنے لگے کہ تم لوگ مال و دولت کی کثرت اور قیمتی پہناووں پر اتراتے ہو،ریشم و کمخواب کے بستر پر کروٹیں بدلتے ہو۔خود تو انواع و اقسام کے لذیز کھانوں سے پیٹ بھرو اور غریب کے منہ سے روٹی کا سوکھا نوالہ بھی چھین لو۔ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے۔ انتظامیہ سے تعلقات کے زعم میں نادار لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہو اور ان کی ماں بہنوں کی عزت سے کھیلنے سے بھی نہیں چوکتے۔تمہارے یہ کرتوت،تکبر کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔تمہیں اس لئے تو حاکمیت نہیں دی گئی کہ لوگوں پر کھلے عام ظلم کرتے پھرو۔ گزری ہوئی قوموں کے واقعات سے سبق حاصل کرو ورنہ خدا تمہیں آنے والی نسلوں کےلئے نشان عبرت بنا دے گا۔
ان کی اس تمثیلی کارروائی نے خواص کے دلوں میں ہلچل برپا کردی تاہم یامین کے منطقی استدلال کے سامنے وہ خاصے بے بس نظر آئے۔گاﺅں کے امراءکی نظر میں مزارعین کا مقام نہایت حقیر تھا اور وہ انہیں اپنا زر خرید غلام سمجھتے تھے ان کے روبرو اپنی عزت خاک میں ملتی دیکھ کر وہ سیخ پا ہوئے اور پاﺅں پٹختے،دانت پیستے ہوئے اٹھ آئے اور یامین کے گھر والوں سے سخت انداز میں احتجاج کیا۔
طبیعت کی بے کلی نے محمد یامین کو خیر باڑہ میں تادیر سکون سے نہ بیٹھنے دیا۔جب بے چینی حد سے بڑھی تو ایک روز اپنے بھائی امیر سے ملنے اسلامیہ کالج پشاور چلے آئے،شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا چنانچہ انہوں نے رات مسافر خانے میں بسر کی وہاں ایک نامعلوم شخص نے ان کی خوب آﺅ بھگت کی اور ہر طرح کے آرام کا خیال رکھا۔محمد یامین نے بمشکل تمام اس سے رخصت چاہی اور بھائی سے ملنے ہاسٹل پہنچ گئے یہاں بھی آپ کے گرد طلباءاور اساتذہ کا جمگھٹا لگا رہتا چنانچہ آپ وہاں سے بھی بھاگ نکلے پھر پھوپھی زاد بھائی زین العابدین کے ہاں ایبٹ آباد چلے آئے مگر یہاں بھی آپ کا جی نہ لگا تو شکستہ دل کے ساتھ کسی نامعلوم منزل کی طرف نکل کھڑے ہوئے اس طرح یہ راہ نور دشوق سفر طے کرتا ہوا حسن ابدال کے راستے گجرات پہنچ گیا۔ اب ان پر مجذوبانہ رنگ غلبہ حاصل کرنے لگا تھا انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔چادر کا تہ بند بنالیا جوتے بھی اتار پھینکنے اور پابرہنہ ہوگئے۔بھوکے پیاسے چلتے رہے،کبھی بچے پیچھے ہو لیتے کسی نے چور کہہ کر آوازہ کسا،عجیب و غریب واقعات پیش آئے مگر ان کا سفر خاموشی سے جاری رہا۔چلتے چلتے راستے میں ریلوے اسٹیشن پلیٹ فارم پر موجود ایک درویش نے ان کے کان میں سرگوشی کی وہ بغیر ٹکٹ ہی ٹرین پر سوار ہوگئے۔سفر ختم ہونے تک ایک فوجی جوان ان کی خدمت میں پیش پیش رہا۔
پھر وہ اجمیر شریف پہنچ گئے۔بے چین روح کو جیسے قرار آگیا۔دو تین ر وز تک وہ چپ چاپ پڑے رہے پھر ایک روز جب انہوں نے پلکیں اٹھائیں تو ان کے اردگرد لوگوں کا جمِ غفیر تھا اور سامنے کھانے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔انہوں نے پہلو بچانے کی کوشش کی مگر عین دربار کے سامنے ان کا بستر لگا دیا گیا اور کسی نادیدہ قوت کے زیر اثر ایک صاحب اور اس کے ملازم نے خود کو خدمت پر بھی مامور کردیا۔پردیس میں اللہ کے احسانات دیکھ کر محمد یامین چشتی کی آنکھوں میں ساون کی گھٹائیں امڈ آئیں اور وہ بے اختیار رو دیئے۔
ایک روز جنتی دروازے کے قریب سے گزرتے ہوئے ان کی نظر چند معذور لوگوں پر پڑی تو ان کا دل بہت رنجیدہ ہوا اور دل ہی دل میں خدا سے تکرار کرنے لگے۔پھر جب ان کا مذکورہ حضرات کے ناشائستہ رویے سے پالا پڑا تو فوراً رحمان اور رحیم خدا کے حضور سربسجود ہوگئے۔
اجمیر سے واپسی کا سفر بھی پیدل ہی شروع کیا۔ننگے پاﺅںچلنے سے پاﺅں میں چھالے پڑ گئے۔رطوبت خارج ہوتی رہتی ذرا آرام ملا تو پھر چل پڑتے۔گھٹنوں کے بل چلنے کی نوبت بھی آئی۔اس طرح سفر کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد گردش دوراں انہیں اپنے گاﺅں میں واپس لے آئی۔
محمد یامین کی ملکیت میں ایک گرامو فون بھی تھا رات کی تاریکی میں نہایت مدہم آواز میںسنگیت سنتے جب گھر والے گہری نیند سو جاتے تو چپکے سے مصلیٰ اٹھاتے اور اپنے گھر کی چھت پر یاد خدا میں مشغول ہو جاتے یوں رات بھر مالک حقیقی سے راز و نیاز کا سلسلہ جاری رہتا۔
خیر باڑہ میں ایک برساتی نالہ ہے جو مُلاکسی کہلاتا ہے۔کنارے سے متصل ایک چٹان ابھری ہوئی ہے یامین اکثر اوقات وہاں چلے جاتے اور کئی کئی گھنٹے تک استغراق کی کیفیت میں بیٹھتے۔بعض دفعہ ایسی بے خودی طاری ہوئی کہ جسم پر محض لنگوٹ کے سوا کوئی کپڑا باقی نہ رہا۔اس موج و مستی کے عالم میں اشعار الاپتے۔ قرب الٰہی کی تڑپ جب شدت اختیار کرتی تو کپڑے اتار پھینکتے اور وجد و جنون کی کیفیت غالب آجاتی۔دھوپ میں تپتی ہوئی چٹان کے ساتھ اپنی ننگی پشت ٹکا دیتے۔پسینہ قطرہ قطرہ گھلتا اور جسم پر چھالے بن جاتے۔درد کی کسے پرواہ تھی یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا وہ تو اپنے آپ سے بھی بے خبر تھے۔لوگ آپ کے سامنے دودھ اور چھاچھ دھر جاتے،کبھی نوشِ جاں کرلیا وگرنہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کےلئے آنے والے مہمان چائے پانی سے مستفید ہوتے۔کوئی نہ کوئی خادم خود کو ان کی بے لوث خدمت کےلئے وقف رکھتا اور مہمانوں کےلئے کھانے پینے کا بندوبست کرتا۔محمد یامین جو اب کالا خان بابا کے نام سے مشہور ہو چکے تھے ان سے ملنے والوں کا ہر وقت تانتا بندھا رہتا اس طرح رفتہ رفتہ یہ گھاٹی ایک تکیہ کی شکل اختیار کرگئی اور پریشان حال لوگوں کو ایک گوشہ عافیت میسر آگیا۔
آپ مجاہدہ اور باطنی تربیت کےلئے اکثر ویرانے میںنکل جاتے۔قلبی واردات کے دوران علامہ اقبال،مولانا روم،عرفی اور حافظ شیرازی کے اشعار الاپتے۔سخی سلطان باہو کا عارفانہ کلام اور ولیم ورڑزورتھ کو اونچے سروں میں گاتے جب طبیعت زیادہ مکدر ہوتی تو بانسری سے دل بہلا لیتے۔ پائیڈ پائپر کی طرح وہ آگے آگے ہوتے اور عقب میں عقیدت مندعاجزی سے جھومتے ہوئے پیچھا کرتے۔عشق و محبت کے یہ لازوال واقعات ان پہاڑیوں کی پرپُیچ پگڈنڈیوں پر آج بھی رقم ہیں اور ان کی بو باس سے فضا مہک رہی ہے۔
کالا خان بابا کی نشست برخاست میں ہونے والی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے محسوس کیا جانے لگا تھا۔ کیونکہ چند ایسے محیر العقول واقعات پیش آئے جس نے لوگوں کو کچھ اور سوچنے پر مجبور کردیا۔ان کی باتیں سچ ثابت ہوتیں۔دعائیں قبولیت کی سند تسلیم کی جاتیں۔وہ اپنے اور پرائے میں تمیز کئے بغیر ہمیشہ دیانتداری اور سچائی کا سبق دیتے۔تھوڑے سے نفع کی خاطر ایمان کا سودا کرنے سے منع کیا۔آفاقی اصولوں کی پاسداری کرنے پر ان کے کرشماتی نتائج کا مشاہدہ بھی دیکھنے میں آیا۔
کالا خان بابا کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے جب انہوں نے ظالم لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے آڑے ہاتھوں نہ لیا ہو یہی وجہ تھی کہ ان کے رئیس اقرباءہمیشہ ان سے نالاں نظر آئے اور عموماً مخالفت پر کمر بستہ رہتے۔
لوگ آپ کے پاس آکر خوانین اور رﺅسا کے ظلم و ستم کے واقعات بیان کرتے تو ان کا دل بہت ملول ہوتا۔اگر کسی خان سے آمنا سامنا ہو جاتا تو اسے ظلم سے باز رہنے کی تلقین کرتے جب ان کی تنبیہ حد سے بڑھی تو گاﺅں کے خوانین اور عزیز و اقارب مخالفت پر اتر آئے اور حیلے بہانوں سے کام لیتے ہوئے ان کی راہ میں طرح طرح کے روڑے اٹکانا شروع کردیئے مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی شرعی ذمہ داریوں سے کبھی روگردانی نہ برتی بلکہ شد و مد سے برائی کے خلاف کمر بستہ رہے۔مگر جب آپ کے خیر خواہوں کا عرصہ حیات بھی تنگ کردیا گیا تو کالا خان بابا نے ہجرت کر جانے میں ہی عافیت جانی اور بالآخر ایک روز خیر باڑہ کو خیر آباد کہہ دیا۔
اب آپ کی اگلی منزل جھامرہ تھی۔
جھامرہ گاﺅں خیر باڑہ سے چند کوس دور مشرق کی جانب کوہِ گندگر کے قدموں میں واقع ہے یہ قصبہ بھی صدیوں سے آباد ہے جبکہ لوگوں کی گزر اوقات کھیتی باڑی سے وابستہ ہے۔خیر باڑہ کے اکثر زمیندار جھامرہ کی زمین پر بھی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔یہ1944,45 کا ذکر ہے۔
کالا خان بابا کی جھامرہ کی جانب نقل مکانی کی اطلاع پھیلی تو ان کے عقیدت مندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔گاﺅں سے ملحقہ چھوٹی پہاڑی کا انتخاب ہوا اور تکیہ کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔اپنی مدد آپ کے تحت جگہ ہموار کی گئی ،تعمیراتی سازو سامان ڈھو کر لایا گیا اس طرح عارضی قیام گاہ کا بندوبست ہوگیا۔
کالا خان بابا کی آمد کی خبر جنگل کی آگ کی طرح چاروں جانب پھیل چکی تھی گاﺅں کی عورتیں جوق در جوق دودھ کے مٹکے اٹھائے ہوئے لاتیں۔انواع و اقسام کے کھانے بھی تیار ہونے لگے اس طرح مساکین اور غرباءکو سر چھپانے کا سامان میسر آگیا۔
جھامرہ میں اپنی آمد کے ابتدائی دنوں میں کالا خان بابا کا یہ وطیرہ رہا کہ وہ اکثر مضافات کے جنگل میں نکل جاتے ۔چلہ کشی کرتے،تپتی چٹانوں پر کئی کئی روز بیٹھے رہتے۔آخر کار اس کھٹن تپسیا کا مرحلہ بھی مکمل ہوا اب انہوں نے باقاعدہ طور پر تکیے پر بیٹھنا شروع کردیا تھا۔لوگ دور دور سے کسبِ فیض کےلئے حاضر ہونے لگے۔مسائل بیان کیے جاتے۔بابا انہیں دعاﺅں سے نوازتے پند و نصائح فرماتے اور پریشانی پر صبر کی تلقین کرتے۔حرام اور حلال کے معاملے پر ان کا موقف نہایت سخت تھا،معمولی سے معمولی مسئلے کو انصاف کے میزان پر جانچنا ان کا اصول تھا۔کسی غیر شخص کی ملکیتی زمین سے اس کی اجازت کے بغیر مسواک کاٹنے،پھل توڑنے اور ایندھن کےلئے سرکنڈے تک کاٹ کر لانے کی ممانعت تھی۔خود ان کا یہ عالم تھا کہ اپنے پاس کوئی جمع پونجی نہ رکھی بلکہ ایک ایک پائی غرباءمیں تقسیم کرکے دم لیا۔
انہیں مُلائیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے دین پر خاصے تحفظات تھے۔جھامرہ میں اپنے قیام کے دوران ایک روز گاﺅں کی مسجد کا مُلا ان سے ملنے آیا اور اپنی بساط میں شرعی حدود پھلانگنے کی نشان دہی کی۔آپ نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور یہ عبادت خانوں کے احاطے تک ہرگز محدود نہیں۔مسجد میں تو بہشتی کا گدھا بھی دن بھر میں کئی مرتبہ چکر لگاتا ہے مگر اس پر کوئی فلسفہ اثر انداز نہیں ہوتا؟اصل مزا تو جب ہے کہ فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا کے کام آنا چاہیے تاکہ دین اور دنیا دونوں باہم مربوط ہو جائیں۔
اور پھر اقبال تو انہیں ویسے ہی ازبر تھا
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کےلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
جب مولانا نے معنی خیز نظروں سے سرہانے پڑی بنسری کی جانب اشارہ کیا تو خان سائیں بھڑک اٹھے۔ انہوں نے بلبل کے نغمے،کوئل کی کوک اور کلیوں کے چٹخنے کا جواز پوچھا۔جھرنوں کی موسیقی سے اس کی روح کو روشناس کرایا۔بنسری کی لے کو مولانا روم کے آہنگ میں پیش کیا۔حضرت داﺅد علیہ السلام کی خوش الحانی کا تذکرہ کیا جب پہاڑ بھی ان کے ساتھ گنگناتے تھے۔رباب،نفسیری اور بربط کے تاروں سے پھوٹنے والی موسیقی کا خالص عربی رس اس کے کانوں میں انڈیلا۔
خشک تار و خوشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست
سنا ہے کہ موصوف جب کالا خان سے مل کر پہاڑی سے نیچے اتر رہے تھے تو ان کے پاﺅں دم مست قلندر کی تھاپ پر تھرک رہے تھے۔
جھامرہ آکر بھی کالا خان بابا کو سکون میسر نہ آیا۔گاﺅں کے ارباب دولت نے اپنی ظالمانہ روش ترک نہ کی ۔ادھر بابا کو بھی ان چالبازوں سے نمٹنے کا ڈھنگ خوب آتا تھا۔ہر ناانصافی پر کلمہ حق بلند کرتے،خوانین یوں تو کالا خان کے رشتہ دار تھے مگر انہوں نے مال و دولت کے نشے میں چور ہو کر ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا تھا۔غریبوں کا خدا کے سوا کوئی پرسان حال نہ تھا۔لوگ زخموں کا مداوا تلاش کرنے پہاڑی کا رخ کرتے جہاں انہیں صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تاکید کی جاتی۔بابا انہیں ہر قسم کی مدد کا یقین دلاتے،انہی ناانصافیوں کی وجہ سے گاﺅں کے خواص کو کالا خان بابا کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا تھا۔امراءرشتہ داری کے زعم میں ان سے جانب داری کی امید رکھتے مگر جب ان سے ملتے تو یکسر ہی مختلف صورتحال کا سامنا ہوتا جس سے لوگوں کے سامنے انہیں خاصی سبکی اٹھانا پڑتی۔یہی وجہ تھی کہ جھامرہ میں بھی کالا خان بابا سے جان چھڑانے کےلئے سازشیوں نے ان کے چاروں جانب جال بننا شروع کردیئے۔دولت کے بل بوتے پر گاﺅں کے لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ بابا جی سے میل جول نہ رکھیں اور ان سے ہر قسم کا قطع تعلق کرلیں۔
کالا خان بابا اپنی نجی محافل میں اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی منزل کہیں اور ہے اور وہ مناسب وقت کے انتظار میں ہیں جب کوچ کا نقارہ بجے گا تو وہ اپنی راہ لیں گے۔آخر فیصلے کی وہ گھڑی آن پہنچی۔جھامرہ میں ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ اب وہاں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی عین قرین عقل تھا۔
اس روز آپ صبح سے ہی خاموش تھے بے چینی چہرے سے مترشح تھی۔کبھی ٹہلتے ہوئے ادھر نکل جاتے تو کبھی ادھر۔پھر آپ نے اپنے دیرینہ خدمت گار جعفر بابو کو اپنے پاس بلایا اور تکیہ جھامرہ کے تمام حقوق و ذمہ داریاں اس کو سونپ دیں اور خود خالی ہاتھ جھٹک کر نیچے پگڈنڈی پر ہولئے جہاں ان کےلئے اب ایک نئی دنیا منتظر تھی۔
آپ کا قافلہ نکو آکر رکا۔یہ گاﺅں گندگر کے پہاڑی سلسلے کے دوسری جانب مشرق میں آباد ہے۔حسن ابدال سے ہری پور کی جانب جاتے ہوئے موہڑہ چوک سے راستہ بدلتا ہے نکو کا قصبہ حسن ابدال سے چار کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
ان دنوں1970ءکے قومی انتخابات کا دور دورہ تھا اور سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں آپ کے چاہنے والوں کوجب نکو میں تشریف آوری کی اطلاع ملی تو ایک دم خلق خدا امڈ آئی اور ایک تازہ بستی بسانے کی باتیں ہونے لگیں۔ اس طرح اجمیر میں ملنے والے مجذوب کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی اور پنجاب کا راجا کالا خان بابا تخت ہزارہ عبور کرکے پنجاب کے سرحدی گاﺅں نگو میں نئے آستانے پر رونق افروز ہوگیا۔
نکو کے مضافات میں ایک جگہ اونچے نیچے ٹیلے تھے نہایت سوچ بچار کے بعد تکیے کی تعمیر کےلئے اسی مقام کا چناﺅ کیا گیا۔زمین ہموار کی گئی۔سب سے پہلے ایک گھروندا کھودا گیا۔ پھر اس کے بعد تو زیر زمین کمروں پر مشتمل ایک منفرد شہر آباد ہوتا گیا۔خواتین کے لئے علیحدہ حصے کی کھدائی ہوئی،جائے استراحت بھی بنائی گئیں۔خواتین زائرین کے حصے میں جانے کی سخت ممانعت تھی مہمانوں کے آرام کا خیال رکھنے کےلئے علیحدہ کمرے کھودے گئے۔بھس ملی مٹی سے دیواروں کی لپائی کی گئی پھر ان پر سفیدی ہوئی۔لکڑی کے دروازے اور کھڑکیاں بنیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے بجلی بھی آگئی۔آبادی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے دور افتادہ پانی کا ایک چشمہ تھا زیر زمین پانی کی سطح پہنچ سے باہر تھی۔بابا جی نے مخالفت کے باوجود ایک جگہ کنواں کھدوانا شروع کیا۔خدا کی قدرت دیکھئے چند دنوں میں ہی پانی آگیا۔بیسیوں رضا کار دن رات کام میں مگن تھے اور بغیر کسی اجرت کے اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہے تھے لوگوں کی سہولت کےلئے پختہ سڑک بھی تعمیر ہوگئی۔کالا خان بابا خود ٹریکٹر پر بیٹھ کر کام کی نگرانی کرتے۔سڑک کےلئے زمینداروں نے مفت زمین فراہم کی،سڑک بن جانے سے اردگرد کا بنجر علاقہ بھی آباد ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سرسبز و شاداب کھیت لہلہانے لگے۔ قبرستان دریا کے پار ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ خاصی مشکلات سے دوچار تھے۔کالا خان بابا نے زمین کا ایک وسیع رقبہ خرید کر قبرستان کےلئے وقف کردیا۔ایک کمرے کو لڑکیوںکے اسکول میں بدل دیا گیا تاکہ سرکاری اسکول کی دوری کی وجہ سے ناخواندہ رہ جانے والی بچیاں استفادہ حاصل کرسکیں بعد ازاں پختہ عمارت کی تعمیر کے بعد یہ اسکول وہاں منتقل کردیا گیا۔
اشتمال کے ذریعے تقریباً250 کنال کا رقبہ اکٹھا کیا گیا اور وہاں مختلف اقسام کا اناج اور سبزیاں کاشت ہونے لگیں اس طرح لنگر کا باقاعدہ نظام وجود میں آگیا۔انواع و اقسام کے کھانے تیار ہونے لگے۔صبح دوپہر شام دستر خوان سجتا،کھانے چنے جاتے اور ہر شخص پیٹ بھر کر کھانا تناول کرتا۔یقینا یہ خداوند کریم کی رحمت کا ہی ثمر ہے کہ مفت قیام اور طعام کا یہ سلسلہ آج تک باقاعدگی سے جاری و ساری ہے۔
احباب کی محفلیں جمنے لگیں،ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگرام ترتیب پاتے۔کافیاں اور لوک گیت سنائے جاتے،کالا خان بابا کبھی کبھی خود بھی ستار سنبھال لیتے اور کبھی وجد طاری ہوا تو انگلیاں فگار ہو جاتیں اور ستار کے تار،تار تا ر ہو جاتے۔عزیز میاں قوال بھی گاہے گاہے آجاتے اور اپنے ہمنواﺅں کے ہمراہ قوالیاں سنا کر داد وصول کرتے۔کالا خان بابا نے مشہور کمپیئر طارق عزیز کے ٹی وی پروگراموں کو بھی رونق بخشی۔پشاور ٹی وی سنٹر نے بھی ان کی زندگی کے حوالے سے مختلف پروگرام پیش کئے۔نامور ادیب ممتاز مفتی کا بھی آنا جانا رہا۔بابا جی ان سے راز و نیاز کی باتیں کرتے۔ان کی معنی خیز اور روحانی گفتگو کئی کئی گھنٹے طویل ہو جاتی اور کھانے پینے کا ہوش نہ رہتا۔آپ کی گفتگو کے سحر میں سامعین بھی اس طرح مبہوت ہوتے کہ اگر ذرا سی حرکت کی تو گویا ان کے سروں پر بیٹھے پرندے پُھر سے اڑ جائیں گے۔
کالا خان بابا25نومبر1992ءکو تقریباً80برس کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملے ان کی انتقال پرملال کی خبر ریڈیو اور ٹیلی وژن سے نشر ہوئی تو لوگوں کا ایک سیلاب سخی آباد(نکو) میں امڈ آیا۔ ہر شخص آپ سے آخری ملاقات کےلئے تڑپ رہا تھا چنانچہ جنازے کی نماز دوسرے روز سہ پہر تک موخر کردی گئی۔آپ کا گلاب چہرہ تروتازہ پھول کی مانند کھلا ہوا تھا یوں لگتا تھا جیسے فیض احمد فیض کو پڑھتے ہوئے ابھی ابھی ان کی آنکھ لگی ہو
میرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
خدا اور خلق خدا کے درمیان کالاخان بابا ایسے سینڈوچ بنے کہ پھر انہیں شادی کرنے کا خیال ہی نہ آیا اور ان کی تمام عمر مظلوموں کی داد رسی اور ظالموں کے خلاف علم جہاد بلند کرتے گزر گئی۔جب ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا اور فساد کا خطرہ سر پر منڈلانے لگتا تو وہ کسی دوسری سمت ہجرت کر جاتے۔ان سے محبت کرنے والے پیروکار ان کے نقش پا کریدتے ہوئے ہر بار انہیں کھوج نکالتے اور زندگی اپنے تمام تر رنگوں اور حشر سامانیوں سمیت پھر سے جلوہ فگن ہو جاتی مگر جب نکو سے وہ اپنے آخری سفر پرروانہ ہوئے تو پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے ان کے عشاق آج بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آخر ایک روز وہ انہیں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے چاہے اس کےلئے قیامت تک ہی انتظار کیوں نہ کرنا پڑے۔
بابا کالا خان کے مزارپرُ انوار پر سرخ گلابوں کی مہک اور وسط ایشیائی عما رتوں کے اسلامی طرز تعمیر کا عکس گھل مل گیا ہے۔مخروطی میناروں کے جھرمٹ میں گھری یہ دل کش خانقاہ دور سے کسی وسیع و عریض صحرا میں گل لالہ کے خود رو پودے کی مانند لگتی ہے اور فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں کے غول امن و آشتی کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔