working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

تبصرہ کتب

بیانئے کی جنگ(یاسر پیرزادہ)

عاطف محمود ہاشمی

”بیانئے کی جنگ“ یاسر پیرزادہ کے کالموں پر مشتمل ان کی تیسری کتاب ہے، اس سے قبل ان کے دو مجوعے "ذرا ہٹ کے " کے نام سے منظر عام پر آکر داد و تحسین سمیٹ چکے ہیں،اس مجموعے میں ان کے جنوری 2011ءسے دسمبر 2015ءتک پانچ سالہ عرصہ میں شائع ہونے والے کالم یکجا کر دیئے گئے ہیں۔
یہ وہ دورانیہ تھا جب دہشت گردی کے حوالے سے عوام کنفیوژن کا شکار تھی اور غالب اکثریت دہشتگردوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی تھی ،اور سیاسی رہنما و¿ں کے مذمتی بیانات بھی"اگر مگر" کے پردوں میں لپٹے ہوتے تھے، ان حالات میں صرف چند ہی آوازیں تھیں جو طالبان کو ببانگ دہل دہشتگرد قرار دے رہی تھیں،ان میں سے ایک توانا آواز یاسر پیرزادہ کی تھی،انہوں نے کھل کر دہشت گردوں کی نشاندہی کی اور ریاست سے ان کا مقابلہ کرنے اور شہریوں کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا۔پھر 16 دسمبر 2014 کا وہ المناک دن آیا کہ جب وقت نے کروٹ لی اور پوری عوام کو ہم آواز بنا دیا۔
دہشتگری کے رد پر لکھے گئے ان کی تحریروں کے مرکزی الفاظ : جنگ،غیرت مند،اپنے لوگ،شہید،دہشت گرد،مذمت معصوم،مذاکرات،ریاست اور سازش ہیں جوکہ جابجا ان کے کالموں میں ملتے ہیں،اور جنہیں بڑی مہارت کے ساتھ انہوں نے اپنے کالم "دہشتگردی کا قاعدہ "میں جمع کر دیا ہے،مذکورہ الفاظ کی تشریح میں موصوف نے پاکستان میں دہشتگردی کی حالیہ تاریخ کو انتہائی دلچسپ انداز میں سمو دیا ہے۔اس کالم کو اگر کتاب کا خلاصہ کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
یاسر پیرزادہ کو اللہ نے لکھنے کا ایک خاص سلیقہ اور ایساملکہ عطا کیا ہے کہ خشک موضوعات پر بھی اتنے دلچسپ اسلوب میں لکھتے ہیں کہ قاری کو بوریت بالکل محسوس نہیں ہوتی،آپ بڑے البیلے انداز میں تحریر کے ظاہری محاسن کو برقراررکھتے ہوئے طنز،تعریض اور فکاہت کو بیک وقت اپنے کالم میں جمع کر لیتے ہیں۔نمونہ کے طور پر ان کے اسلوب کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے، اور بریکٹوں میں بند تعریض کا حظ اٹھائیے اور دیکھیے کہ مذکورہ مرکزی الفاظ اس ایک پیراگراف میں انہوں نے کس طرح برتے ہیں۔وہ صفحہ 127 پر لکھتے ہیں :
" سازش : جب آپ کسی بھی کام میں ناکام ہو جائیں،آپ کی نالائقی ثابت ہوجائے ،نااہلی سر چڑھ کر بولے تو ایسی صورت میں اصلاح احوال پر توجہ دے کر وقت ضائع کرنے کی بجائے ناکامی کا جواز گھڑنا اور اسے کسی بیرونی قوت کا شاخسانہ قرار دینا سازش کہلاتا ہے۔مثلا اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں چھ سال تک بمع اہل و عیال قیام ایک سازش تھی،اس کا امریکیوں کے ہاتھوں مارا جانا اور بھی بڑی سازش تھی(ویسے اسامہ ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے ہی مر چکا تھا،یہ آپریشن کوئی اور سازش تھی،اسے اسامہ کی ہلاکت سے کنفیوز نہ کریں)ملک میں ہونے والے خودکش حملے ایک سازش ہیں (اسے اپنے لوگوں کے انتقام اور "غیرت" کے نتیجے میں ہونے والے حملوں سے کنفیوز نہ کریں،وہ اور بات ہے)دہشتگردوں سے "مذاکرات" کو ڈرون مار کر ایک سازش کے تحت سبوتاژکیا گیا ("اپنے لوگوں" نے "مذاکرات" سے پہلے فوج کا جرنیل مارا تھا،وہ اور بات تھی،اس سے بھی کنفیوز نہ ہوں) جن بم دھماکوں میں پاکستانی شہری مارے جاتے ہیں وہ سی آئی اے اور بلیک واٹر اور را اور موساد اور کے جی بی کی "سازش" ہوتی ہے("اپنے لوگ" اگر ان کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو وہ اور بات ہے اس سے بھی کنفیوز نہ ہوں)۔
اس سبق کے بعد بچے اور بڑے اس قابل ہو جائیں گے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو امریکہ کی جنگ کہیں،ڈرون حملوں کے خلاف "اپنے لوگوں "کی آواز میں آواز ملائیں،بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کی فقط "مذمت "کر کے آگے نکل جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ "غیرت مندانہ "طریقے سے سر اٹھا کر جی سکیں۔"
عام طور پر صحیح وقت پر سچ نہیں لکھا جاتا،سچ اس وقت ہی زیر قلم اور زیر لب آتا ہے جب وہ اپنی افادیت کھو چکا ہوتا ہے،مگر موصوف کالم نگار بڑی دیانت داری کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز پر سچ کو صحیح اور مشکل وقت پر لکھنے کے لیے اپنے قلم و قرطاس سے پورا انصاف کر رہے ہیں،جس کا بین ثبوت "بیانئے کی جنگ" ہے۔
اپنے کالم"دہشتگردوں کے حامیوں کے سات دلائل" میں انہوں نے حامیوں کے دلائل کو روند کر رکھ دیا اور مضبوط دلائل سے ان کی تردید کی،تاہم دہشگردوں کے اہداف کیا ہیں؟اور اس دہشتگردی کے پیچھے اگر وہ عوامل نہیں ہیں جو ان کے حامی بیان کر رہے ہیں تو آخر کچھ تو عوامل ہوں گے ہی،زیر نظر کتاب میں ان کی تفصیل راقم کی نظر سے نہیں گزری،حالانکہ حقیقی عوامل کو تلاش کرنا بھی ہمارے دانشوروں کی ذمہ داری ہے۔یاسر پیرزادہ نے اپنے حصہ کا کام تو کردیا،اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے حصے کا کام کریں اور ملک کو دہشتگردی کے عفریت سے نجات دلائیں۔
ماضی کو بہت جلد فراموش کر دینے والی قوم کے لیے300 صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جسے "دوست پبلی کیشنز" نے شائع کیا ہے ، یہ کتاب ٹائٹل ‘کمپوزنگ ‘کاغذ اور اس میں شامل مواد سمیت تمام پہلوو¿ں سے معیار ی ،خوبصورت اور جاذب نظرہے۔ البتہ کہیں کہیں پروف کی غلطیاں پائی جاتی ہیں جو کہ امید ہے دوسرے ایڈیشن میں درست کر لی جائیں گی۔