working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

از طرف مدیر

عسکریت پسندوں کی واپسی

محمد عامر رانا

دہشت اور انتہا پسندی ایک مشکل چیلنج ہے ۔اس کا علاج صرف طاقت نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف سیاسی عمل سے ختم ہو سکتی ہے ۔انتہا پسندی کی کئی شکلیں ،سطحیں اور جہتیں ہیں اور اس کے نتیجے میں جو چیلنج ابھرتا ہے اس کی جوابی حکمت عملی بھی جامع اور متنوع ہونی چاہیے ۔
گزشتہ چند مہینوں سے کالعدم تنظیموں کی مرکزی دھارے میں شمولیت کی بات ہو رہی ہے ۔اس بحث کا آغاز اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت کالعدم جماعت الدعوۃ پر نئی پابندیوں کے بعد ہوا ہے ،جب اس جماعت نے عندیہ دیا کہ وہ بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہونا چاہتی ہے ۔کچھ تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے اس پر مختلف آراء کا اظہار کیا ۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے یہ سمجھنے کے لئے کہ کیا ایسے گروہوں کی مرکزی دھارے میں واپسی ممکن ہے ،ایک مزاکرے کا اہتمام کیا ۔سیکورٹی امور کے ماہرین اور دانشور اس عمل کوممکن سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کے مخصوص تناظر میں تحفظات بھی سامنے آئے ۔جس میں سر فہرست یہ تھاکہ آپریشن رد الفساد کے نتیجے میں ان تنظیموں پر جو دباؤ بڑھا ہے یہ تنظیمیں ایسی بحثوں اور عمل کو اپنے اوپر سے دباؤ ختم کرنے کے لئے استعمال کریں گی ۔دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے حکمتِ عملی کیا ہو اور یہ کون کرے ؟
پاکستان کے تناظر میں سب سے پہلے پیچیدہ عسکری منظر نامے کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہو گا۔یہ بات طے ہے کہ یہ عمل بلا تخصیص اور عام معافی کے اصول پر نہیں ہو سکتا ۔جو تنظیمیں ریاستِ پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں وہ مختلف جواب کی متقاضی ہیں لیکن وہ کالعدم تنظیمیں جو ایک وقت میں مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں ریاستی اداروں کا اثاثہ رہی ہیں اور وہ فرقہ ورانہ تنظیمیں جو ان کی معاون رہی ہیں ،پاکستان میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور نفرت کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتی رہی ہیں لیکن اب اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کے لئے تیار ہیں،ان کے ساتھ یہ عمل شروع کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے دہشت گرد تنظیمیں ان کے کارکنوں کو بھرتی کرنے کے لئے آسان ہدف سمجھتی ہیں اور یہ تنظیمیں بھی ان کے لئے نظریاتی اور سیاسی ماحول فراہم کرتی رہی ہیں ۔لیکن یہ کام صرف پارلیمنٹ کی مرضی اور نگرانی میں ہونا چاہئے ۔ماہرین یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایسی تنظیموں کی درجہ بندی کی جائے اور جن گروہوں میں واپسی کے امکانات زیادہ ہیں انہیں اس عمل کا حصہ بنایا جائے ۔
ابھی یہ بحث شروع ہوئی ہے اور آنے والے مہینوں میں صورتحال مزید واضح ہو گی ۔ تجزیات کے قارئین کو اس سے باقاعدگی سے آگاہ کیا جاتا رہے گالیکن تجزیات کی خواہش ہے کہ قارئین بھی اس اہم اور سنجیدہ بحث کا حصہ بنیں اور اپنی آراء سے ہمیں آگاہ کریں ۔ہم ان کی آراء کو تجزیات کے صفحات یا آن لائن ایڈیشن پر شائع کریں گے ۔