working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

دہشت گردی کی جڑ اور تاریخی نظیر(حصہ دوم)

نتاشا شاہد

نتاشا شاہد کے مضمون کی دوسری قسط حاضر ہے ا س میں انہوں نے مسلمان ملکوں میں دہشت گردی کی نظیر کا جائزہ تاریخی حوالوں سے لیا ہے ۔حشاشین کون تھے کہاں سے آئے تھے ؟ وہ کیا چاہتے تھے ؟ کیا ان کا تقابل القاعدہ ، داعش اور طالبان سے کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ نتاشا شاہد کے ادراک نے یہ کھوج لگانے کی کوشش کی ہے ۔ان کے استدلال سے دہشت گردی کی حالیہ روش کو سمجھنے میں مدد ملی ہے ۔(مدیر)

’’یہ حسن بن صباح تھا جس نے قتل و غارت گری کو فنون لطیفہ کی سی ایک شکل دے دی تھی، حشاشین ایک غیر روایتی انداز سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے اور عام شہریوں سے زیادہ فیصلہ سازوں کو نشانہ بناتے، سیاسی مہم جوئی کے لیے صدیوں پہلے وہ یہ طریقہ اختیار کرتے تھے۔ "یہ بات ایک امریکی مصنف اور کالم نگار جیمز واسرمین نے اپنی کتاب " دی ٹمپلر اینڈ دی حشاشین" میں لکھی ہے۔ واسرمین کے الفاظ اگر درست ہیں تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حسن بن صباح نے قتل کو فن میں بدل دیا تھا تاکہ تھوڑا نقصان کر کے سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے۔ امریکی مصنف کی رائے ایک طرف مگر یہ تصور دنیا میں نزاری اسماعیلیوں سے صدیوں پہلے حتیٰ کہ اسلام سے پہلے بھی موجودتھا۔ شاید واسرمین کی مراد یہ ہو کہ ابن صباح نے انسانی جان کے ضیاع کو معمول کا عمل بنا دیا۔ 
ڈاکٹر فرہاد دختری سمیت بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ انگریزی لفظ "اساسین " درحقیقت حشاشین کی ہی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے جو کہ نزاری اسماعیلیوں کے لیے ان کے معاصرین استعمال کرتے تھے۔ مزید یہ کہ حسن بن صباح اور اس کے ساتھیوں کو ان کی دلیری اور بہادری پر بھرپور سراہا جاتا، ابن القلانسی جو دو مرتبہ دمشق کا گورنر رہا اپنی کتاب "المذیل فی تاریخ دمشق" میں لکھتا ہے کہ " یہ قاتل گروہ اپنی مہم جوئی کے لیے کافی شہرت رکھتا تھا۔ اسی بات نے قلاینی کے مترجم "ایچ۔ اے آرگب" کو مجبور کیا کہ وہ حشاشین کا ترجمہ ’’مشہور تحریک باطنیہ‘‘ کرے، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اکثر مؤرخین حشاشین کے مخالف تھے۔ 
اس طرح یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حشاشین اور قتل و غارت گری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر ایک سوال ضرور ذہن میں باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ یہ حشاشین کون لوگ تھے؟لوگوں کو کیوں اور کیسے قتل کرتے تھے؟ ان کے مقاصد کیا تھے اور وہ انہیں حاصل کیسے کرتے تھے؟ خوش قسمتی سے تاریخ کے بنیادی اور ثانوی مآخذ میں ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے، آئیے اس معاملے کو بہ نظر غائر دیکھتے ہیں۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے (مورخ جوینی بھی اسی کی تائید کرتا ہے)کہ حشاشین کا پہلا شکار نظام الملک طوسی تھا جو کہ مشہور سلجوقی وزیر تھا، بعد کے مؤرخین جن میں ابن خلدون بھی شامل ہیں قتل کی اس واردات کی تو تصدیق کرتے ہیں لیکن نظام الملک کو پہلا شکار نہیں مانتے۔ ابن الاثیر جو کہ ایک اور ہم عصر مؤرخ تھا اس مؤذن کو ان کا پہلا مقتول مانتا ہے جس نے ابتدائی سالوں میں نزاریوں کی اپنے عقیدے کی طرف دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔ لیکن شواہد سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ "اعزاز" نظام الملک کو ہی حاصل ہوا۔ 
جوینی نے اپنی کتاب " تاریخی جہاں گوشے" اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔ 
"حسن بن صباح نے کچھ اس انداز سے اپنی دہشت پھیلائی کہ لوگ اس کی طرف خوف سے دیکھنے لگے۔ حسن بن صباح نے اپنی شاطر چالوں اور مکارانہ شعبدہ بازیوں سے فدائیوں کی داغ بیل ڈالی۔ ابو طاہر نامی ایک شخص جو ایرانی النسل تھا اس نظام الملک کے گھناؤنے قتل میں ملوث تھا۔ ایسے واقعات جو قرون وسطیٰ میں مسلم دنیا میں رونما ہوئے مؤرخین کو صرف حشاشین کو مورد الزام ٹھہرانے سے باز رکھتے ہیں۔ 
حشاشین کی جانب سے کی گئی قتل و غارت کی بڑی وارداتوں میں سے ایک واردات 1135ء میں عباسی خلیفہ المستنصرشد باللہ ابو منصور کا قتل تھی، جس کا ذکر عطا ملک جوینی، ابن اثیر اور ابن خلدون جیسے تمام معاصر مؤرخین نے کیا ہے۔، خلیفہ کو پہلے ایک خیمہ میں محصور رکھا گیا، اسی حصار کی حالت میں 29 اگست 1135 ء کو 24 حشاشین خیمہ میں داخل ہوئے اور خلیفہ پر 20 وار کیے جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔ اس کی ناک اور کان کاٹ دیے گئے اور اس کی لاش کو برہنہ چھوڑ دیا گیا(یہ الفاظ ابن الاثیر کے ہیں)، یہ پہلا دہشت گرد حملہ تھا، خلیفہ کو صرف مار ڈالنا ہی بہت تھا لیکن ناک اور کان کاٹ کر اور پھر اسے ننگا چھوڑ کر جانے سے دہشت کی فضا پیدا کی گئی۔ 
اس قتل کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ خلیفہ نے کبھی ان حشاشین کی کوئی مخالفت نہ کی تھی، اور نہ ہی راقم الحروف کے علم میں کوئی ایسا محاذ ہے پھر قتل کی کیا وجہ بنی؟ کیا سلجوقی سلطان نے خود ہی حشاشین کو خلیفہ کے قتل کے لیے استعمال کیا؟یا کچھ اور وجہ تھی؟ہم کسی صورت یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ (خلیفہ کو قتل کرنے کی) اصل وجہ کیا تھی۔ ابو جعفر ابن المشاط جو کہ شافعی مسلک کے جید عالم تھے بھی 1104ء میں حشاشین کا نشانہ بنے۔ 
شہاب الدین غوری کا نام اکثر جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں کے لیے اجنبی نہیں ہے، ان کے قتل میں ممکنہ طور پر بہت سے لوگ ملوث ہو سکتے ہیں، ان ممکنہ لوگوں میں حشاشین بھی شامل ہیں۔ ابن الاثیر رقمطراز ہیں :
" جب وہ اپنے خیمہ میں اکیلا رہ گیا ۔ کھوکھروں کا یہ گروپ حرکت میں آیا اور شہاب الدین کے ایک محافظ کو مارا، وہ چلایا تو باقی محافظ اپنی اپنی پوسٹوں کو چھوڑ کر اس کی طرف بھاگے، بہت سی جگہیں خالی ہو گئیں، کھوکھروں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہاب الدین غوری پر 24 وار کیے اور اسے قتل کر دیا۔ 
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ قاتل اسماعیلی تھے جو اس کی جنگی مہم جوئیوں سے خائف تھے۔ اس کی باقاعدہ فوج تھی جس نے ان کے ایک قلعہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ شہاب الدین غوری کا قتل حشاشین ہی کر سکتے تھے، وہ ایک خطرناک سیاسی حریف تھا اور خراسان میں نزاری اسماعیلیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ 
یہ غور طلب ہے کہ غوری کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ نماز پڑھ رہا تھا، روائتی طور پر اسلام کسی کو ایسے وقت میں قتل کرنے سے منع کرتا ہے جب وہ نماز پڑھ رہا ہو، کیونکہ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا، اور یقیناًمسلم دنیا میں یہ ایک شرمناک حرکت تھی۔ اگر یہ حقیقت ہے کہ یہ فعل حشاشین کا تھا تو یقیناًانہوں نے اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اور مذہب کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے کیا۔ 
فاطمی خلیفہ ابوعلی بن المستعلی جو نزار المستعلی کا بھتیجا تھا کو بھی اسی طرح نزاریوں کی سازش سے قتل کیا گیا۔ ابن الاثیر نے یہ کہتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ خلیفہ کو اس کی رعایا سے بدسلوکی کی پاداش میں قتل کیا گیا، جبکہ دوسری جانب ابن القلانسی اسقطہ کا ذکر تک نہیں کرتا۔ قتل کا محرک مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ نزاریوں کو خلیفہ کی رعایا سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ کو اپنے حلقہ میں ہی قتل کیا گیا ہے تو حشاشین پر الزام اور بھی کمزور پڑ جاتا ہے، بہرحال حق یا ناحق حشاشین کو خلیفہ کے قتل کا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ 
حشاشین کی صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کی کوشش ناکام سمجھی جاتی ہے، اس مشہور مسلمان سپہ سالار پر دو نزاریوں نے اس وقت حملہ کیا جب 1176ء میں وہ حلب کے تقریباً 50 کلومیٹر شمال میں واقع قلعہ ازاز پر قبضہ کر چکا تھا۔ اگر ابن الاثیر پر بھروسہ کیا جائے تو اس دن صلاح الدین کی قسمت ہی تھی جس نے اسے مرنے سے بچایا۔ 
صلاح الدین کا سوانح نگار بہاؤالدین شداد اپنی کتاب " النوادرالسلطانیہ و المحاسن الیوسفیہ" میں اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے:
" اس دن صلاح الدین قلعہ کو اپنی عملداری میں لینے گیا، یہ 571 ہجری اور 1176ء عیسوی کا واقعہ ہے۔ اسماعیلیوں نے اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی مگر خدا نے اسے بچا کر اسماعیلیوں پر برتری عطا کی۔ "
کانرڈ اول جس کا تعلق یروشلم سے تھا اس کے قتل پر بھی مغربی دنیا میں حشاشین ہی کو یاد کیا جاتا ہے۔ ابن الاثیر اس قتل پر لکھتے ہیں:
" صلاح الدین نے شام میں اسماعیلیوں کے سربراہ جس کانام سنان تھا سے رابطہ کیا اور اسے اپنے کسی کارندے کے ذریعہ انگلستان کے بادشاہ کو قتل کرنے پر ابھارا اور لالچ دیا کہ جو مارکیز کو قتل کرے گا اسے دس ہزار دینار ملیں گے، سنان کو اس میں کچھ فائدہ نظر نہ آیا اور وہ بادشاہ کو قتل کرنے میں ناکام رہے۔ 
صلاح الدین شاہ فرنیک کی طرف سے بے فکر نہیں رہ سکتا تھا لہٰذا وہ شدت سے اس کے قتل کا خواہاں تھا۔ اس نے دو آدمیوں کو پادریوں کے روپ میں بھیجا جو بادشاہ کے قریب ہو گئے، دونوں اپنے زہد وتقویٰ کا لبادہ اوڑھے چھ ماہ تک محل میں رہے۔ حتیٰ کہ بادشاہ نے ان پر اعتبار کرنا شروع کر دیا۔ ایک روز مارکیز نے ان کے ساتھ کھانا کھایا، اس کے بعد شراب پی اور چلا گیا۔ دونوں باطنیوں نے اس پر ہلہ بول دیا جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا، ان میں سے ایک بھاگ کر گرجا گھر میں جا گھسا، اتفاق سے مارکیز کو اسی گرجا گھر میں پٹی کی غرض سے لے جایا گیا، وہیں حشاشین نے دوبارہ حملہ کر کے اسے قتل کر دیا اور بعد میں دونوں باطنی خود بھی مارے گئے۔ 
فرینک کے قتل میں ملوث مشکوک شخص خود انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اوّل تھا جو شام تک اپنا اقتدار بڑھانا چاہتا تھا۔ اگر ابن الاثیر کی روایت درست مان لی جائے تو بہت سے نکات نکالے جا سکتے ہیں۔ 
اول یہ کہ اگر یہ قتل صلاح الدین کے قتل کا بدلہ تھا تو حشاشین ہی ایسا کر سکتے تھے۔ دوسرے ان کا عمل دخل بہت گہرا تھا کیونکہ بادشاہ تک پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا، تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کرائے کے قاتل اتنے مضبوط اور مستقل مزاج تھے کہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ہدف حاصل کر لیا کرتے تھے۔ 
نتیجہ: قتل کے طریقے اور محرکات
مؤرخین کو قرونِ وسطیٰ کا جن باتوں کے لیے شکرگزار ہونا چاہیے ان میں سے وہ تفصیلی بحث بھی ہے جس میں قتل کے انداز اور محرکات کا سراغ لگایا جا سکتا ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حشاشین کے کرائے کے قاتل ہونے میں کس قدر حقیقت اور کتنا افسانہ ہے۔ بہرحال جب ایک سے زائد مؤرخین ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو وہ بات تقریباً مستند ہوتی ہے، یا کم از کم اتنی مستند ہوتی ہے جتنی ایک ہزار سال پرانی بات ہو سکتی ہے۔ 
قتل کے اہداف اور انداز تو ہزاروں ہیں مگر حشاشین کے کرائے کا قاتل ہونا مسلمہ امر ہے، قتل کے ہتھیار بھی تاریخ نے ذکر کیے ہیں اور بتایا ہے کہ چھوٹا چاقو سب سے پسندیدہ ہتھیار ہوتا تھا۔ مزید یہ کہ فدائی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے تھے، اس طرح ان قاتلوں کو آج کی زبان میں "خودکش بمبار" کہا جاسکتا ہے۔ 
ان حشاشین کا سب سے اہم ہتھیار بھیس بدلنا تھا، مجذوب سے فقیر تک کسی بھی روپ میں آسکتے تھے، حتیٰ کہ عیسائی پادریوں کا حلیہ بھی اختیار کر لیتے تھے، یہ امر بھی قابل ملاحظہ ہے کہ انہیں آج کے دہشت گردوں کی طرح باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ نزاری ان کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیار رہتے تھے جو ان کے ہم عقیدہ نہ ہوں۔ مزدقانی جو کہ حشاشین کے اوّلین ارکان میں سے تھا عقیدہ میں حشاشین سے کافی مختلف تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا، بلکہ بنیادی محرک پیسہ ہوا کرتا تھا۔ اور اسی غرض سے انہوں نے شیعہ، اہلسنت اور عیسائیوں سب کو قتل کیا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قتل و غارت زیادہ تر سیاسی اور دفاعی ہوتی تھی اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ محض ایک تخریب کار جماعت تھی۔ 

ترجمہ و تلخیص : عاطف محمود