مالی بحران کے باوجود سعودی شاہی خاندان کی شاہ خرچیاں
نیکولس کلش، مارک مارٹی
سعودی عرب کے شاہی خاندان کی شاہ خرچیاں عالمی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔یہ مضمون بھی نیویارک ٹائمز میں چھپا ۔ سعودی عرب جس کی مسلم دنیا کے لئے حیثیت نہایت معتبر ہے مگر وہاں اب سب کچھ اچھا نہیں ہے ۔شاہی خاندان کئی طرح کے مسائل میں گھر چکا ہے۔ ملک کی سیکورٹی اور معاشی صورتحال روز بروز بگڑ رہی ہے مگر اس کے باوجود شاہی خاندان پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں ۔ زیر نظر مضمون میں اس حوالے سے نہایت اہم معلومات دی گئی ہیں ۔(مدیر)
شاہی خاندان کے اخراجات میں کوئی کمی نہ آسکی۔
طنجہ 150مراکش :۔ ایک بلند وبالا دیوار جس میں سیکورٹی کیمرے نصب ہیں اور جس کی حفاظت پر مراکش کے فوجی جوان مامور ہیں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے ساحل اطلس پر واقع پچھلے موسم گرما میں تعمیر ہونے والے نئے محل کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
عین اس وقت جب سعودی حکومت اندرون ملک پچیس ارب ڈالر مالیت کے منصوبہ جات کو مالی بحران کی وجہ سے ختم کرنے کا اعلان کر رہی تھی مراکش میں نیلے رنگ کی روشنیوں سے جگمگاتے ہیلی پیڈ کی تیاری اور دیو ہیکل خیمے کی تنصیب پر دن رات کام جاری تھا تاکہ بادشاہ سلامت کی اپنے دربایوں کے ساتھ چھٹیوں سے لطف اندوز ہونے اور محفلیں جمانے کا انتظام کیا جا سکے۔
شاہی خاندان کے مال ودولت کے ذرائع 75 سال پہلے شاہ سلمان کے والد شاہ عبد العزیز بن سعود کے دور میں دریافت ہونے والے تیل کے کنویں ہیں۔ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سالانہ کھربوں ڈالر، پبلک سیکٹر میں اہم ترین عہدے اور دیگر امتیازات شاہی خاندان کے لیے مختص ہیں جن سے شاہی خاندان کے افراد لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر فرانس اور سعودیہ میں بڑے بڑے محلوں کے مالک ہیں ان کی دولت سوئس اکاؤنٹس میں ہے اور ان کی عورتوں نے اپنی پوشاکوں کے اندر مہنگے ترین زیورات اور ملبوسات زیب تنکیے ہوئے ہیں اور دنیا کے مہنگے ترین جہازوں پر سیر سیاحت کا لطف اٹھاتی ہیں۔
شاہ سلمان پر شاہی خاندان کی معروف غیر روایتی فاؤنڈیشن جس کا نام آل سعود فاؤنڈیشن ہے کے امور کو چلانے کی ذمہ داری بھی آن پڑی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی آمدن کی کمی پر منتج ہوئی ہے اور ان سوالات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے کہ کیا ہزاروں افراد پر مشتمل شاہی خاندان جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بیک وقت پر تعیش زندگی گزارنے کی روش اور ملکی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں کامیاب ہو سکے گا؟
سعودی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شہزادے خالد بن فرحان جو شاہی خاندان کو خیرباد کہہ کر آج کل جرمنی میں مقیم ہیں کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی حالیہ املاک ماضی کے مقابلے میں قدرے کم ہیں جبکہ شاہی خاندان کی املاک جوں کی توں ہیں۔ اور ملک کے مال ودولت کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے ملک کے بجٹ میں شامل نہیں کیا جاتا اور اس کے بارے میں فیصلے کا حق صرف بادشاہ سلامت کو حاصل ہے۔
اسیّ سال کی عمر کے بادشاہ جو بجا طور پر سعودی عرب کے بانی بادشاہ کے چھ بیٹوں میں سے آخری بادشاہ ہوں گے اور جنہیں کم از کم ایک بار دماغ کا دورہ بھی پڑ چکا ہے ان کے ماتحت سعودی شاہی خاندان کے افراد انتہائی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ سو ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اقرباء کے ایک گروہ پر جو خوشحال ہونے کے ساتھ ساتھ کھرب پتی بھی ہے اور بچپن سے عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے کا عادی بھی ،پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔
اپنے دو سالہ دور حکمرانی کے دوران شاہ سلمان نے اپنے بھائیوں کو نظر انداز کرکے نئی نسل خصوصا اپنے بھتیجے اور بیٹے کو بادشاہت کے امیدواروں کی فہرست میں شامل کرنے کی خاطر اپنے اسلاف کی تقلیدی وموروثی سیاست کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ شاہ سلمان نے شاہی خاندان کی دیگر شاخوں سے تعلق رکھنے والی بہت سے اہم شخصیات کو ان کے عہدوں اور وزارتوں سے برطرف کر دیا ہے اگرچہ اپنے اس اقدام سے شاہ سلمان نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے لیکن ان کے اس اقدام نے شاہی خاندان جس کی صفوں کو متحد رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے میں شدید غم وغصہ پیدا کر دیا ہے۔
اگر شاہی خاندان کو حاصل امتیازات کو ختم نہ کیا گیا تو ایک طرف سعودی عرب اپنی سرحدوں کے باہر یمن کی جنگ ،عراق و شام میں پرتشدد واقعات اور سعودی عرب کے روایتی حریف ایران کے توسیع پسندانہ اقدامات جیسے مسائل درپیش ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب میں مالی بحران عوام کے جذبات کو بھڑکا سکتا ہے۔ شاہی خاندان کے بہت سے افراد اپنی ثروت کے بے نقاب ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں کیوں کہ اگر ایسا ہو گیا تو شاہی خاندان کو سخت عوامی تنقید کا سامنا ہو گا۔
چونکہ سعودی آئل کمپنی آرامکو کو سعودی حکومتی اخراجات میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت حاصل ہے چنانچہ نائب ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے آرامکو کو جزوی طور پر پرائیویٹائز کرنے کی تجویز کو شاہی خاندان کے بعض افراد نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ لندن اور نیو یارک کی سٹاک مارکیٹوں میں اندراج کے لیے نئے سرے سے کمپنی اکاؤنٹس کا آڈٹ ہوگا اور ممکن ہے اس سے حکومتی آمدن اور شاہی خاندان کے خزانوں میں جانے والی رقم کا پردہ چاک ہو جائے۔
شاہی خاندان کے بعض بزرگ ان اندیشوں کے سبب پرائیویٹائزیشن کے متبادل ایسے حل تلاش کرنے پر مجبور ہیں جن میں کم خطرات ہوں اگرچہ بعض سعودی ذمہ داران کے مطابق ابھی تک پرائیویٹائزیشن کی تجویز زیر غور ہے۔
بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے حکومت نے پبلک سیکٹر میں تنخواہوں اور سبسڈی میں کمی کی ہے جس کے نتیجے میں بجلی، گیس اور پانی کی قیمتوں میں اضافہ ہو ا ہے۔ اسی طرح حکومت نے داخلی اور خارجی قرضے بھی لینے شروع کر دیے ہیں۔ مزید براں حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں کمی بھی کی ہے اگرچہ سعودیوں کی اکثر تعداد سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام نے نوجوان نسل کو نوکری نہ ملنے کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
وزات ثقافت و اطلاعات کے ترجمان انس القیصر کے مطابق جنہوں نے سعودی شاہی خاندان کی املاک میں کمی کا عندیہ دیا ہے اس بحران کے اثرات شاہی خاندان کے افراد پر بھی پڑے ہیں۔ البتہ شاہی خاندان کے چند حاشیہ نشین سعودیوں کے مطابق اس کے باوجود شاہی خاندان کے بعض افراد ایسے ہیں جن کی املاک میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوئی۔
لندن کالج آف اکنامکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سٹیفن ہیرٹوج اپنی کتاب ’’امراء، مڈل مین (رابطہ کار) اور بیوروکریسی‘‘ میں سعودی معیشت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: یوں لگتا کہ جیسے امراء شاہ سلمان کے دور حکومت میں مزید مالی امتیازات کے مزے لوٹ رہے ہیں او ر شاہی خاندان کے الاؤنسز کے بنیادی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
دولت کا بے دریغ خرچ تاحال سعودی شاہی خاندان کا وطیرہ ہے۔ فرانسیسی بیل دیمور ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ریئل اسٹیٹ کے ایجنٹ دانیا سینو کے مطابق گزشتہ سال سعودی شاہی خاندان کے افراد کی ایک بڑی تعدادپیرس میں جائیداد خریدنے کے لئے فرانس کا رخ کیے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں مشہور شاہراہ اوکٹاؤ فیولٹ پر واقع 11000 مربع فٹ پر مشتمل ایک اپارٹمنٹ ایک سعودی شہزادی کو 30 ملین امریکی ڈالرز کے عوض فروخت کیا ہے۔
شاہ فیصل بھی فرانس میں کافی بڑی جائیداد کے مالک ہیں وہاں کے پراپرٹی ریکارڈ کے مطابق شاہ سلمان پیرس میں مجموعی طور پر 16 شاندار اپارٹمنٹس کے مالک ہیں جن کی مالیت تقریبا 35 ملین ڈالر ہے اس کے علاوہ فرانس میں ان کے دو عالی شان محلات بھی ہیں جن میں سے ایک کوٹ دازور میں جبکہ دوسرا فرانسیسی دیل سول کے ساحل پر واقع ہے۔
باشاہ سلامت کی ان جائیدادوں کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ ان کو اپنے ملک کے اندر جائیداد بنانے کے مواقع حاصل نہیں ہیں بلکہ ان کے پاس ماربل کے ستونوں پر مشتمل محلات کا ایک سلسلہ ہے جو کہ ملک کے اطراف میں واقع بحیرہ احمر سے لے کر خلیج فارس تک پھیلا ہوا ہے۔ البتہ لگتا یوں ہے کہ موجوہ وقت میں بادشاہ سلامت کی ترجیحات کا محورطنجہ میں واقع ان کا محل ہے۔
پچھلے سال طنجہ کے محل کے دورے کے موقع پر سعودی فرمانروا کے استقبال کے لیے سو کے قریب سیاہ رنگ کی مرسیڈیز ورانج کاریں اور رینج روور انتظار میں تھیں تاکہ بادشاہ سلامت کو شہر کا دورہ کرایا جا سکے۔طنجہ میں واقع محل میں نہ صرف طبی سہولیات کا خصوصی انتظام موجود ہے بلکہ شاندار قسم کے ہوٹل بھی موجود ہیں جن میں فرانس سے برآمد شدہ پرتکلف کھانوں کرکند، کافیار اور کمات کا انتظام موجود ہے۔
محل کی تصاویر منظر عام پر آ جانے کے خوف کی وجہ سے محل میں کام کرنے والوں پر پابندی ہے کہ وہ اپنے موبائل ساتھ لے کر محل میں نہیں جا سکتے۔ البتہ ٹویٹر پر موجود مجتہد نامی ایک اکاؤنٹ نے ماضی میں انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے متابعین (فالوورز) کو جن کی تعداد 1.77 ملین ہے شاہی خاندان کی عمارتوں، پرتعیش کاروں اور فائیو سٹار ہوٹلوں کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔ اگرچہ وزارت ثقافت اور اطلاعات کے ترجمان مسٹر قیصر نے اپنے ایک تحریری بیان میں وضاحت کی تھی کہ ان اشیاء پر آنے والی لاگت حکومتی خزانے سے نہیں بلکہ بادشاہ سلامت نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کی تھی۔ شاہی خاندان کے بعض گھریلو ملازمین نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ان کی خدمات کا بہترین صلہ دیا گیا ہے اور انہیں خصوصی کارڈز کے ذریعے مفت میں حج بھی کروایا گیا ہے۔
تیل کے ذخائر سے مالا مال سلطنت
سعودی عرب کے قیام کے وقت شاہی خاندان اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے تیل سے حاصل ہونے والا منافع طرفین کے درمیان تقسیم ہو گا۔ اور عوام کو ملکی انتظامات آل سعود کے حوالے کرنے پر ملکی وسائل میں حصہ دیا جائے گا۔ لائف میگزین کے ایک رپورٹر جنہوں نے 1943ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا شاہ عبدالعزیز کا قصہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شاہ عبدالعزیز سٹرک کنارے اپنی گاڑی کا ٹائر تبدیل ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ پاس سے اونٹنی پر سوار ایک چرواہا گزرا تو شاہ نے اسے سونے کے کئی ٹکڑے دیئے۔ اسی طرح ریاض میں ایک ہوٹل جو غریبوں میں کھانا تقسیم کیا کرتا تھا کے اخراجات شاہ عبدالعزیز برداشت کیا کرتے تھے ،رپوٹر کے مطابق ہوٹل کا تنور اتنا بڑا تھا کہ پوری اونٹنی اس میں بھونی جا سکتی تھی۔
سلمان بن عبدالعزیز 1935ء میں اس وقت پیدا ہوئے جب ان کے والد کی طرف سے نئی سلطنت کی بنیاد رکھنے کے اعلان کو تین سال گزر چکے تھے۔ نئی سلطنت اور قانون کی بنیاد دو بنیادی ستونوں شاہی خاندان اور اس کے حلفاء پر رکھی گئی جن کا تعلق متشدد وہابی مسلک سے تھا۔ اور 1938ء میں سلطنت کے مشرق میں دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر طرفین کی آمدن کا دائمی ذریعہ قرار پائے۔
شاہ سلیمان کے مطابق ان کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب وہ نوجوان شہزادے تھے تو ان کا خاندان سال کا ایک حصہ خیموں میں رہا کرتا تھا ،اس بات کا ذکر انہوں نے امریکی وزیر خارجہ جون کیری سے کیا۔ اس نوجوان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ اپنے والد کی سلطنت کا حکمران ہو گا۔ شاہ عبد العزیز نے کئی شادیاں کی تھی تاکہ وہ عربی قبائل کو اپنا حلیف بنا سکیں اور ان کے ساتھ تعلق مضبوط رکھ پائیں۔ ان کی 17 بیویاں تھیں جن میں سے ان کے 36 بیٹے تھے۔
سعودی شاہی خاندان جو حجم میں کافی بڑا ہے اور اس میں اقتدار کی منتقلی دائمی طور پر وراثت کے اصولوں کے مطابق عمل میں نہیں آتی شاہ عبد العزیز کے پچیسویں بیٹے شاہ سلمان اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں شاہی خاندان میں ایک مقام حاصل ہے۔ ان کی والدہ ’’حصہ السدیری "شاہ عبد العزیز کی لاڈلی بیویوں میں سے ایک تھیں اور شاہ سلمان اپنے سات سگے بھائیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ’’سدیری سیون‘‘ کے نام سے ایک مضبوط بلاک بنا رکھا تھا۔
شاہ سلمان آج کل جو روایتی لباس اور عمامہ زیب تن کرتے ہیں اس کے برعکس جوانی میں وہ مغربی طرز کا لباس پہنا کرتے تھے۔ وہ تقریباً نصف صدی ریاض کے گورنر رہے اور اس عرصے میں انہوں نے ریاض کے صحرائی علاقے کو فلک بوس عمارتوں، وسیع شاہراؤں اور شاہی محلات سے مزین کرکے ملک کے دار الخلافہ کا درجہ دیا۔
1973ء کا تیل پر پابندی کا واقعہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا موجب بنا ،پھر تیل کی فروخت کے ذریعے سعودیہ میں ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی اور عوام پر ایک مخصوص طرز کا متشدد اسلام لاگو کرنے کے باوجود سعودی شہزادے مونٹ کارلو جیسے خوشحال اور رنگین دار الخلافوں کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
دی نیوز ٹائم نے سفارتکاروں، معاشی ماہرین اور ذمہ داروں، پراپرٹی ایجنٹوں، ٹریول ایجنسیوں، ڈیکوریشن انجینیئروں اور خاندان آل سعود کے افراد سے بیسیوں ملاقاتوں کے ذریعے عدالتی ریکارڈ اور پراپرٹی کی دستاویزات کی چانچ پھٹک کے بعد سعودی شاہی خاندان کے افراد کی شاہ خرچیوں کی تفصیلات کو یکجا کیا ہے۔
شاہی خاندان کی ثروت و املاک جنہیں مختلف بر اعظموں میں پھیلے رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے کو پوشیدہ رکھنے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جس کے باعث ان املاک کا باریک بینی سے احاطہ مشکل ہے۔ اسی طرح فنڈنگ میکنزم اپنے ہیت کے اعتبار سے مبہم ہے اور اس بات کا کوئی پتہ نہیں دیتا کہ ملک کے بجٹ سے کتنی دولت شاہی خاندان کے خزانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ شاہی خاندان کے افراد بھی شاہی خاندان کے کل اثاثہ جات کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں۔
اگرچہ بیرون ملک نشر ہونے والی عدالتی اور میڈیا رپوٹس نے شاہی خاندان کے اثاثہ جات کو پوشیدہ رکھنے کے اہتمام کے باوجود کسی حد تک ان سے پردہ اٹھایا ہے۔ البتہ شاہی خاندان کے افراد اپنے اثاثہ جات کو 30 ملین افراد پر مشتمل عوام سے پوشیدہ رکھنے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے محلات کے گرد بلند وبالا چار دیواریاں تعمیر کروائی ہیں، بیرون ملک جعلی کمپنیوں میں اثاثہ جات خریدے ہیں، ایجنٹوں کی مدد سے بڑی بڑی سرمایہ کاریوں کے معاہدات کیے ہیں، ملازمین سے معاہدوں پر دستخط کروائے اور ان سے اس بات کا اقرار لیا کہ وہ اس بات کو صیغہ راز میں رکھیں گے۔
گزشتہ اپریل میں منظر عام پر آنے والے پانامہ پیپرز نے شاہ سلمان کے لکسمبرگ اور ورجین برطانوی جزیروں کی آف شور کمپنیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق شاہ سلمان ایک بحری جہاز اورلندن میں جائیداد کے مالک ہیں جس کی مالیت کئی ملین ڈالر ہے، اورمے فیئرکے علاقے ہائیڈ پارک کے قریب واقع اس جائیداد میں ایک شاہی محل بھی ہے جو ایک وسیع وعریض لان پر مشتمل ہے۔
فی کس آمدنی کے اعتبار سے سعودی عرب ،تیل اور گیس کی دولت سے مالامال کویت اور قطر کے مقابلے میں زیادہ خوشحال نہیں ہے کیونکہ کویت اور قطر کی آبادی سعودی عرب کی آبادی سے کافی کم ہے۔ (اگرچہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے کویت اور قطر بھی مثاثر ہوئے ہیں)۔ ایک مضبوط سماجی تحفظ جس میں مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات شامل ہیں کے باوجود سعودیوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی زندگی بسر کرتی ہے اور درمیانی طبقے کے افراد بمشکل ضروریات زندگی کا انتظام کر پاتے ہیں۔
سعودی شہزادوں اور شہزادیوں کو کئی طرح کے امتیازات حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے لئے مخصوص ہسپتالوں کا انتظام موجود ہے جن کی سجاوٹ محلات جیسی ہے اور جن میں فائیو سٹار ہوٹلوں کی خدمات مہیا ہیں۔ اور ایئر پورٹس پر شاہی ہال موجود ہیں جن کی چھتیں قیمتی فانوسوں سے، دیواریں نقش ونگاری سے اور فرش عمدہ قالینوں سے مزین ہیں۔ خود شاہی خاندن کے بالواسطہ وارثین اور بلا واسطہ وارثین کے درمیان نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ کچھ شہزادے ریاض کی حدود سے باہر واقع جدید طرز کے وسیع وعریض گھروں جو کیلیفورنیا کے مضافات میں واقع گھروں کی مانند ہیں، میں رہتے ہیں اور رینج روور اور مرسیڈیز گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ ان کے دولت مند چچا زاد لندن کے مشہور علاقے ناسٹربریج میں لمبورگیٹی اور بوجاٹی گاڑیوں پر ریس کرتے نظر آتے ہیں۔
شاہی خاندان کے افراد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، سعودی عرب کے بانی بادشاہ کے کئی بیٹے اور پوتے ہیں، سعودیہ کے دوسرے بادشاہ شاہ سعود کے53 بیٹے ہیں۔ ایک امریکن ڈپلومیٹ 2009 ء کی ڈائری میں لکھتے ہیں آل سعود جن کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ان کو صرف اور صرف کسی بڑے سٹیڈیم میں ہی اکھٹا کیا جا سکتا ہے۔
شاہی خاندان کے اقرباء کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لیکن اس بارے میں مختلف آراء ہیں جن میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جوزیف کیشی شیان جنہوں نے تیس سال تک سعودی شاہی خاندان کے معاملات کا مطالعہ کیا اور ایک کتاب ’’سعودی عرب میں خلافت‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ ان کے اندازے کے مطابق اس وقت سعودی شہزادوں کی تعداد 12000 سے 15000 تک ہے اور اتنی ہی تعداد شہزادیوں کی بھی ہے۔ پانچ سال قبل سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود نے بتایا کہ سعودی شاہی خاندان کے افراد کی تعداد لگ بھگ 15000 ہے۔
البتہ سعودی وزارت ثقافت کے سرکاری ترجمان قیصر کے مطابق آل سعود کی تعداد 5000 ہے اور شاہی خاندان کے افراد کی تعداد میں فرق کی وجہ دیگر رشتہ اور وہ خاندان ہو سکتے جنہوں نے موجودہ بادشاہ شاہ سلمان کے والد سے قبل سعودیہ پر حکمرانی کی ہے۔
اے اینڈ ایم یونیورسٹی آف ٹکساس کے بش کالج فار پبلک اینڈ گورنمنٹ سروسز میں شرق الاوسط کے امور کے ماہر جوجری جاوس تھری کے مطابق شاہی خاندان کے افراد میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا آئے کہ ان تمام افراد کی کفالت ممکن نہ رہے، اور شاہی خاندان کی بعض شاخوں کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔
ملکی خزانے کا استعمال
شاہی خاندان کا انحصار الاؤنسز، سرکاری ملازمتوں اور بزنس میں ان کی پوزیشنوں پر ہے، شاہی خاندان سے منسوب ہونے کی وجہ سے حاصل ہونے والا معاشرتی مقام اور تعلقات سرکاری ملازمتوں، الاؤنسز اور بزنس میں اعلیٰ پوزیشنوں کے حصول میں ان کا معاون ثابت ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کے علم میں نہیں ہے کہ سنیارٹی کے معیار کے بالائے طاق رکھتے ہوئے ان اختیارات اور امتیازات کی تقسیم کیسے عمل میں آتی ہے۔ ریاض میں واقع کنگ فیصل سنٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈیز میں کام کرنے والے ریسرچ سکالر مسٹر کیشی شیان نے اپنے ایک انٹر ویو میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو بات ہمیں معلوم ہے وہ یہ ہے کہ بادشاہ شاہی خاندان کے افراد کے درمیان ’’جیب خرچ‘‘ تقسیم کرتے ہیں اور وہ اس کو اپنے پروجیکٹوں، بزنس اور روزمرہ کی ضرویات پر صرف کرتے ہیں۔
شاہی خاندان کی مالی بے قاعدگیوں کی مزید وضاحت اس وقت ہوئی جب ریاض میں واقع امریکی سفارتخانے کے ایک ذمہ دار کو 1996 میں سعودی منسٹری آف فائنانس آفس فار ڈسین اینڈ رولز تک غیر معمولی رسائی حاصل ہوئی امریکی ذمہ دار کے مطابق دفتر ایسے خادموں سے بھرا ہوا تھا جو اپنے آقاؤں کیلیے رقم لینے آئے تھے۔ اس ذمہ دار کے مطابق اس وقت سعودیہ کے بانی بادشاہ کے بیٹوں کا ماہانہ مشاہرہ دولاکھ ستر ہزار ڈالر تھا جبکہ بادشاہ کے پوتوں اور پڑ پوتوں کا مشاہرہ آٹھ ہزار ڈالر ماہانہ تھا۔ جبکہ بعض شہزادوں کو ایک سے تین ملین امریکی ڈالر کے وظائف شادی اور محلات کی تعمیر کی مد میں ہدیہ کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ پانچ سال قبل وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق مذکورہ ذمہ دار کی ڈائری کے مطابق ملک کا کل بجٹ جو کہ چالیس ارب ڈالر تھا میں سے دو ارب ڈالرکے دیگر الاؤنسز سلطنت کے دوسرے خاندانوں کو دیے جاتے تھے جو کہ کل بجٹ کا پانچ فیصد بنتا ہے۔
سعودی حکومت کے سرکاری ترجمان کے مطابق سالانہ مالی الاؤنسز دس کھرب سعودی ریال یا 2.7 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ الاؤنسز کا بڑا حصہ شاہی خاندان کے افراد کو نہیں بلکہ قبائل اور صوبائی زعماء کو دیا جاتا ہے۔
قیصر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جو لوگ سعودیہ کے معاشرتی نظام سے واقف ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ قبائلی اور صوبائی زعماء ان الاؤنسز کا بڑا حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ان لاکھوں لوگوں پر خرچ کرتے ہیں جن پر خرچ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
امریکی یاداشت کے مطابق کھرب پتی شہزادے ولید بن طلال نے امریکی سفیر کو بتایا کہ لاکھوں بیرل تیل کی فروخت پر حاصل ہونے والا یومیہ منافع آف بجٹ پروجیکٹ پر خرچ کیا جاتا ہے اور اس کے فیصلے کا اختیار بادشاہ سلامت یا پھر اہم شہزادوں کو حاصل ہے۔
امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ درجہ کے ذمہ دار اور سعودی شاہی خاندان کے کئی افراد کے ہاں مشیر کی خدمات سر انجام دینے والے ایک شخص نے سعودی حکومت کی ناراضگی کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سعودی عرب میں آف بجٹ پروگرام ابھی تک جاری ہیں اگرچہ ان پر آنے والی لاگت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ مسٹر قیصر کا کہنا ہے کہ ارامکو کے ذریعے حاصل ہونے والے منافع کو ملکی خزانہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔
کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو سرکاری خزانے کو شاہی خزانے سے جدا کر سکے۔ کئی امریکی ذمہ داران نے کئی یاداشتوں میں بڑی بڑی زمینوں کی بادشاہ کے بیٹوں اور پوتوں کے نام منتقلی کا ذکر کیا ہے۔ بلکہ کئی زمینوں پر تو قبضے بھی کیے گئے ہیں مثلاً ایک شہزاے نے اپنی زمین کے گرد لگی باڑ کو پھیلاتے پھیلاتے قرب میں واقع 30 مربع میل زمین پر قبضہ جما لیا۔
ایک امریکی ڈپلومیٹ نے 2007 ء کی یاداشت میں لکھا کہ ایک لمبے عرصہ تک امریکہ میں سفیر رہنے والے شہزادہ بندر بن سلطان اور سابق بادشاہ کے چہیتے بیٹے عبد العزیز بن فہد نے جدہ کے شمال میں ایک بڑے شہر کی زمین جس کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا اور جس کی تعمیر ابھی تک جاری ہے کو بیچ کر کروڑوں ڈالر بنائے۔ 2011ء میں ایک ٹی وی چینل پر انٹر ویو کے دوران شہزادہ بندر نے ملک میں کرپشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ :
"اگر آپ یہ کہیں کہ ملک کو مکمل طور پر تعمیر کرنے اور 400 کھرب ڈالر میں سے 350 کھرب ڈالر ملک پر خرچ کرکے پچاس کھرب ڈالر میں ہم نے کرپشن کی ہے تو میرا جواب ہو گا کہ ہاں ہم نے ایسا کیا ہے البتہ میں پھر کسی وقت اس بات کو دہراؤں گا۔"
شاہی خاندان کے کئی افراد نے سعودی عرب میں کام کرنے والی بیرون ملک کمپنیوں کے لیے خصوصی ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے بزنس میں کامیابی حاصل کی جبکہ بعض دیگر افراد نے ایسے پروجیکٹس شروع کر رکھے ہیں جن کا انحصار حکومت کی طرف سے اعزا واقارب کو دی جانے والی رقم یا پھر حکومت کی سرکار کی جانب سے بھاری امداد پر ہوتا ہے۔ امریکی سفارت خانے نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ شاہی خاندان کے افراد سعودی عرب کو آل سعود کی قائم کردہ فاؤنڈیشن سمجھتے ہیں۔ اور شہزادے اور شہزادیاں بھاری بھرکم الاؤنسز اور گاہے بگاہے حکومتی خزانے سے دولت کے حصول کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ شاہی خاندان کے حجم اور سعودی عرب کی آبادی میں اضافے کے پیش نظر بعض مبصرین کے مطابق الاؤنسز کی تقسیم میں توازن برقرا ر رکھنا پہلے کی بہ نسبت کہیں زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اٹلانٹک کونسل میں گلوبل انرجی سنٹر کے ماہر جین فرانکوئس سزنک کا کہنا ہے کہ سعودی شاہی خاندان اس بات سے آگاہ ہو چکا ہے کہ انہیں عوام کو بھی کچھ نا کچھ دینا پڑے گا وگرنہ وہ ان کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔ اگر آپ عوام سے حکومتی خزانہ بھرنے کے لییربانی کی اپیل کریں تو کسی ایک گروہ کے لیے معاشرے کے تمام حقوق غصب کرنا ممکن نہیں رہتا۔
خطرے کی گھنٹی
2005ء میں جب شاہ سلمان کے سوتیلے بھائی شاہ عبد اللہ نے تخت سنبھالا تھا تو انہوں نے کافی حد تک شاہی خاندان کے افراد کی شاہ خرچیوں میں کمی لانے کی کوشش کی تھی ،چنانچہ انہوں نے شہزادوں اور شہزادیوں کے زیرِاستعمال ہزاروں کی تعداد میں فری موبائل فون بند کرا دیے تھے، اسی طرح قومی ایئر لائنز پر کئے جانے والے لا تعداد سفروں میں بھی کمی کی تھی تاکہ اعزا و اقارب کی بڑی تعداد کے فری سفر اور منافع کے حصول کے لئے ٹکٹوں کی دوبارہ فروخت کا راستہ روکا جاسکے۔
حکومت نے سال ہا سال سے جدہ کے ہوٹلوں کے اخراجات برداشت کرنے کی روش کو بھی ترک کر دیا تھا۔ اسی طرح شاہ عبد اللہ نے زمینوں پر قبضہ کرنے اور بیرون ملک سے آنے والے عاملین کو ویزا فراہم کرنے کے نظام کی بیخ کنی کی بھی کوشش کی کیوں کہ بعض شہزادے فری ویزے حاصل کرکے انہیں باورچیوں، معماروں اور خاکروبوں کو بیچ کر منافع حاصل کرتے تھے۔
ڈپلومیٹک پیغامات کے مطابق شہزادہ سلمان اور اس کے حقیقی بھائی شہزادے نائف سے شاہ عبد اللہ کی جانب سے شاہی خاندان کی شاہ خرچیوں میں کمی کی مخالفت کی گئی تھی مگر ان کے بڑے حقیقی بھائی اور شاہ عبد اللہ کے جانشین شہزادہ سلطان نے ا نہیں متنبہ کیا کہ بادشاہ کی مخالفت خطرے کی گھنٹی ہے اور خاندان میں پھوٹ سب کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
سعودی شاہی خاندان کے بزرگ اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ داخلی خاندانی جھگڑوں کے سبب انیسویں صدی میں ملک پر ان کا قبضہ پہلے کی طرح مضبوط نہیں رہا۔ 1964 ء میں شاہ سعود کی معزولی کے بعد اس کے بھائی شاہ فیصل نے مملکت کی بھاگ ڈور سنبھالی پھر شاہ فیصل اپنے ہی بھتیجے کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
ریاض پر حکمرانی کے دوران شاہ سلمان فیملی کی نگرانی کیا کرتے تھے بلکہ جیل میں اپنی حدود سے تجاوز کرنے والے شہزادوں کا محاسبہ بھی کیا کرتے تھے۔ سابق امریکی سفیر چس ڈبلیو فریمین جے آر جن کا تعارف شاہ سلمان سے ریاض میں ہوا کہتے ہیں کہ جب خاندان میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا یا خاندان کا کوئی فرد غلط رویہ اختیار کرتا تو سلمان وہ واحد شخص تھا جس کو اختلاف ختم کروانے اور مسئلہ حل کرنے کیلیے بلایا جاتا تھا۔
شاہ سلمان کے بیٹوں کا شمار کامیاب بزنس مینوں اور حکومتی ذمہ داروں میں ہوتا ہے اور پہلا مسلمان خلانورد ان کا بیٹا ہی ہے جس نے امریکن سپیس شٹل ڈسکوری پر سفر کیا۔ شاہ سلمان کے ایک بیٹے احمد بن سلمان ہیں جنہوں نے گھڑ دوڑ کے مقابلے کنٹکی ڈربی میں کامیابی حاصل کی ،اس کے علاوہ وہ ایک بڑی میڈیا آرگنائزیشن ’’سعودی گروپ برائے مارکیٹنگ اینڈ ریسرچ‘‘ کے صدر بھی رہے ہیں جس کا مقصد شاہی خاندان کے امیج کاتحفظ تھا۔
شاہی خاندان کے افراد کے بیرون ملک ہونے والے سکینڈل سعودی عوام تک نہیں پہنچ پاتے اور اس کی مثال اس شہزادی کا واقعہ ہے جس نے پیرس میں 20 ملین ڈالر کا بل ادا کرنے سے راہ فرار اختیار کی تھی ،یہ سکینڈل سعودی عوام تک نہیں پہنچ سکا کیوں کہ سعودی ذرائع ابلاغ شاہی خاندان کے زیر تسلط ہیں جو مخالف آوازوں کو یا تو دبا دیتے ہیں یا پھر پابند سلاسل کر دیتے ہیں۔
سعودی عرب کے پڑوسی ممالک میں چلنے والی تحریکوں کے پس منظر میں شاہ عبد اللہ نے 130 ارب ڈالر تنخواہوں اور دیگر معاشرتی پروجیکٹوں کی شکل میں عوام پر خرچ کرتے ہوئے اپنے والد کے طریقے کو زندہ کیا جو کہ عوام میں سونے کے سکے تقسیم کیا کرتا تھا، مگر اب کی بار یہ کام وسیع پیمانے پر کیا جا رہا تھا۔
شاہ سلمان جنوری 2015ء میں شاہ عبد اللہ کے بعد تخت نشین ہوئے اور تقریبا 32 ارب ڈالر عوام پر خرچ کیے، تمام گورنمنٹ ملازمین کو دو ماہ کی اضافی تنخواہیں دیں، اگرچہ اس وقت تیل کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی مگر اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ تیل کی قیمتیں اس قدر گر جائیں گی۔
آمدہ نسل
تخت نشین ہونے کے تین ماہ بعد شاہ سلمان نے اپنے بھتیجے شہزادہ محمد بن نایف جن کی عمر 57 برس ہے کو ولی عہد اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان جن کی عمر 31 سال ہے کو نائب ولی عہد مقرر کیا۔ بادشاہ سلامت نے اپنے بیٹے کو وسیع تر اختیارات سونپتے ہوئے اپنے درباریوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بادشاہ سلامت نے اپنے بیٹے کو وزیر دفاع، اقتصادی کمیٹی کا چیئرمین اور آرامکو کمپنی کا ذمہ دار مقرر کیا۔ اس کے علاوہ بہت سارے شہزادوں کو ان کے اعلیٰ سرکاری مناصب سے برطرف کر دیا۔
اس پر سابق امریکی سفیر فریمین کا کہنا تھا کہ شاہی خاندان کی دیگر شاخوں میں اچانک مناصب چھن جانے کی وجہ سے شدید غصہ پایا جاتا ہے۔
گزشتہ سال سعودی فرمانروا کے بھتیجے کی طرف منسوب ایک گم نام خط انٹر نٹ پر شائع ہوا تھا جس میں اس نے اپنے چچاؤں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے بھائی شاہ سلمان کو ان کے عہدے سے برطرف کریں، دو ہفتے بعد اسی شہزادے نے ایک اور خط نشر کیا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ نئے بادشاہ کے بیٹوں کو 100 ارب ڈالر عطا کیے گئے جبکہ یومیہ 2 ملین بیرل تیل کی آمدن پر نائب ولی عہد کو اختیار حاصل ہے۔ سعودی حکومت کے آفیشل ترجمان قیصر کے مطابق ان معلومات میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ الفاظ کا کھیل ہے۔ اور درحقیقت یہ خط شاہی خاندان کے علیحدگی اختیار کرکے لندن میں رہنے والے ایک فرد کا لکھا ہوا ہے۔
شاہی خاندان کے افراد میں ملکی ترقی کی حکمت عملی خاص طور پر محمد بن سلمان کی معاشی اصلاحات اور ان کی قیادت میں ہونے والی یمن جنگ سے متعلق شکوک و شبہات کے حوالے سے تا حال اختلافات پائے جاتے ہیں۔
ایک برزگ شہزادے اور سابقہ بادشاہوں کے بیٹے جس نے شاہی خاندان کی دشمنی کے خوف سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شاہی خاندان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پریشان ہونے کے باوجود ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا خواہاں رہا ہے۔
حقیقت یہ کہ کہ شاہی خاندان پر تنقید خطرے سے خالی نہیں۔ شاہ سلمان کے برسر اقتدار آتے ہی بیرون ملک رہنے والے تین شہزادے جنہوں نے سعودی پالیسیوں پر تنقید کی تھی لاپتہ ہیں۔ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ تینوں آج کل سعودی عرب میں ہیں جہاں انہیں مخالفت کا اختیار حاصل نہیں۔سعودی آفیشل ترجمان کے مطابق نہ توہ وہ جیل میں ہیں اور نہ ہی نظر بند۔
ماہ اکتوبر میں حکومت نے ایک شہزادے کے حوالے سے قتل کے جرم میں سزائے موت کے نفاذ کا حکم دیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عوام کے لیے پیغام ہے کہ کوئی بھی قانون کی دسترس سے باہر نہیں۔ جبکہ بعض دوسروں کے نزدیک یہ شاہی خاندان کے افراد کے لیے پیغام ہے کہ انہیں اپنے کارناموں کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اگرچہ شاہی خاندان کے افراد کئی دہائیوں سے بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے رہے لیکن گزشتہ دو سالوں کے دوران بیرون ملک گھر خریدنے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ اردوان امیر اصلانی جو کہ فرانس میں جائیداد کی خریداری کے حوالے سے سعودی شہزادوں کے مشیر رہے ہیں کے مطابق شاہی خاندان کے افراد چاہتے ہیں کہ صورتحال بگڑنے کی صورت میں ان کے پاس آپشن موجود ہو، ایسی جگہ دستیاب ہو جہاں وہ منتقل ہو سکیں اور اپنے اثاثہ جات رکھ سکیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اپنا سرمایہ محفوظ کر رہے ہیں بلکہ اپنی آمدہ زندگی کے تحفظ کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔
گزشتہ جولائی میں ماہ رمضان کے اختتام کے بعد شاہی خاندان کے کئی افراد نے بحر متوسط کا سفر کیا اور گزشتہ گرمیوں میں سابق کنگ شاہ فہد کے بیٹے شہزادہ عبد العزیز کو سپینش جزیرے فورمینٹیرا میں 500 فٹ لمبے جہاز پر جہاز رانی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
لاس اینجلس میں واقع لالا کوکس فیشن سٹائلنگ فرم کی بانی چیف ایگزیٹو نیکول پولارڈ بائمی کے مطابق گزشتہ گرمیوں کے دوران اس کے سعودی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے گاہکوں نے مگر مچھ کی کھال سے بنے ،ہیرے اور سونے سے مزین ہرمس ہمالاین مارکہ برکن بیگ اور مہنگے ترین ملبوسات لاکھوں ڈالر کے عوض خریدے۔ اس نے مزید کہا کہ سعودی معیشت کو مسائل کا سامنا ہے لیکن شاہی خاندان کی شاہ خرچیاں جوں کی توں ہیں۔
جزمنی میں رہاش پذیر جلا وطن شہزادے خالد کا کہنا ہے کہ نائب ولی عہد جنہوں نے کفایت شعاری کی منصوبہ بندی کی ہے اگر وہ تخت نشینی کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کے لیے با اثر حمایتیوں پر دباو ڈالنا مشکل ہو گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک بادشاہ نہیں بن سکتے جب تک انہیں شاہی خاندان کی حمایت حاصل نہ ہو۔
سعودی خاندان کے درمیان تفرقہ اور اقتدار پر ان کی گرفت کے کمزور ہونے کی خبریں گزشتہ کئی دہائیوں سے گردش میں ہیں، البتہ شاہ سلمان نے سعودی عرب میں سابق امریکی سفیر اور مڈل ایسٹ پالیسی کونسل کے موجودہ سربراہ فورڈ فریکر کے مطابق شاہی خاندان گزشتہ تین دہائیوں سے داخلی اختلافات کو ختم کرنے کا خواہاں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ان کے جینز میں یہ بات شامل ہے کہ اکھٹے جیئیں گے یا اکھٹے مریں گے۔
(یہ رپورٹ نیکولس کلش نے طنجہ سے اور مارک مازتی نے واشنگٹن سے تیار کر کے بھیجی ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں ہک مائلز نے قاہرہ سے، بن ہبرڈ نے ریاض سعودی عرب سے، ملن سکریور نے پیرس سے، ایلیانا مگرا نے میکونس یونان سے اور ڈیوڈ ڈی کرکپٹرک نے لندن سے حصہ لیا ہے۔)
(بشکریہ نیویارک ٹائمز، ترجمہ عاطف محمود ہاشمی )
ترجمہ : عاطف محمود