working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

نصاب میں تبدیلی، سیکولر بنگلہ دیش کے لیے خطرے کی گھنٹی

ایلن بیری، ذولفقار علی منکجان

بنگلہ دیش کئی طرح کی تبدیلیوں کی زد میں ہے ۔وہاں بھی شدت پسندی ایک بڑے مسئلے کے طور پر سر اٹھا رہی ہے ۔ بنگلہ دیش میں مذہبی جماعتیں کس طرح وہاں کے سیکولر ازم کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہیں اس کا ایک ثبوت وہاں نصابِ تعلیم میں حالیہ تبدیلیاں ہیں ۔ یہ مضمون نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا جس کا ترجمہ قارئینِ تجزیات کے لیے شائع کیا جا رہا ہے ۔(مدیر)

ڈھاکا، بنگلہ دیش:۔ بنگلہ دیش کی وزارت تعلیم کی جانب سے بنگالی درسی کتب کا ایڈیشن 2017ء ابھی طباعت کے مرحلے میں تھا کہ ایک قدامت پسند مذہبی گروہ کے علماء نے 17 نظموں اور کہانیوں کو الحاددہ قرار دیتے ہوئے نصاب سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ 
یکم جنوری کو مقررہ وقت پر درسی کتب سکولوں میں تقسیم کی جاچکی تھیں اور 17 نظمیں اور کہانیاں حکومت کی طرف سے کسی وضاحت کے بغیر چھپ چکی تھیں کہ نصاب میں مزید تبدیلیوں کی بات سامنے آگئی۔نصاب میں دیگر تبدیلیوں کے ساتھ پہلی جماعت کو حروف تہجی کی تعلیم میںO for Owlکو ختم کر کےO for Orna پڑھانا شروع کردیا گیا ہے۔یعنی وہ سکارف جو دیندار گھرانوں کی مسلمان لڑکیاں بلوغت کی عمر کو پہنچ کر اوڑھنا شروع کرتی ہیں۔ 
اسی طرح چھٹی جماعت کی کتاب میں شامل ایک سفرنامے کی روداد " ہندو اکثریتی علاقے نارتھ آف انڈیا کا دورہ" کو بدل کر "مصر کا دریائے نیل " کر دیا گیا ہے۔
نصاب میں کی گئی ان تبدیلیوں کی عوام کو شاید خبر نہ ہی ہوتی لیکن بنگلہ دیش کے دانشوروں نے انہیں چوکنا کر دیا ہے،انہوں نے محسوس کیا کہ اس طرح حکومت میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے جس سے وہ بنیاد پرست اسلام کی طرف بڑھ رہی ہے۔بنگلہ دیش نے حالیہ برسوں میں انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں جیسا کہ نام نہاد اسلامی عسکریت پسندوں نے سیکولر ادباء اور مفکرین کو نشانہ بنایا،لیکن اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ اس طویل دورانیے میں عوام میں تبدیلی آ رہی ہے،حجاب اوڑھنے والی خواتین اور دینی مدارس میں داخلہ لینے واے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 
مذہبی تنظیمیں اب درسی کتب میں بھی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں جو ان کی برسوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے،جس سے ان کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کا پتہ چلتا ہے، حالانکہ اقتدار میں عوامی لیگ پارٹی ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر اپنے آپ کو سیکولر قرار دیتی ہے۔یہ ایسی تبدیلی ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی پریشانی میں اضافہ کر رہی ہے، حالانکہ بنگلہ دیش 1971ء میں پاکستان سے الگ ہوا تھا اور اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں اس نے خود کو سیکولر اور جمہوری ریاست ڈیکلیئر کیا تھا۔
کئی سالوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کو شدت پسندی کی طرف جانے سے روکے رکھنے میں یہی نظریہ ہی کارفرما تھا،اور بین الاقوامی جہادی نیٹ ورکس جن کی نشو ونما افغانستان اور پاکستان میں ہوئی کو غریب مسلم آبادی اور غیر محفوظ سرحدوں والے ملک بنگلہ دیش کی زمین سے زرخیزی کے باوجودخاطرخواہ افرادی قوت میسر نہیں آ سکی ۔
لیکن گزشتہ چند سالوں میں، ملحد بلاگروں اور دانشوروں پر انتہا پسندانہ حملے معمول بن گئے ہیں اور سیکولر سوچ کی بھی بنگلہ دیش کے عوامی حلقوں میں تیزی سے کمی آئی۔ تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ اسلامی تنظیمیں پروپیگنڈا کرنے میں بہت ماہر ہیں کیونکہ اب حکومت کے لیے ان کے مطالبات رد کرنا مشکل ہے خصوصا جبکہ 2019ء کے عام انتخابات آنے والے ہیں۔
دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک بڑی اسلامی تنظیم حفاظت اسلام نے پہلے 2013ء میں بڑی بڑی ریلیوں میں درسی کتب میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تھاتنظیم کے جوائنٹ جنرل سیکرٹری مفتی فیض اللہ نے کہا:
"ہم اعلیٰ حکومتی عہدے داروں تک گئے،اور حکومت کو احساس ہوا کہ واقعی،مسلمانوں کو یہ نصاب نہیں پڑھنا چاہیے،اس لیے انہوں نے اس میں ترمیم کی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ اس میں وہ تمام پارٹیاں شریک ہوں جو عوام میں اپنی مقبولیت چاہتی ہیں۔"
وزارتِ تعلیم کے ترجمان نے تبدیلیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، قومی نصاب و ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین نرایان چندرا ساھا نے کہا کہ نصاب میں کی جانے والی تبدیلیاں کسی کے مطالبے پر نہیں کی گئیں بلکہ یہ معمول کی کارروائی تھی، انہوں نے کہا کہ :" اگر حفاظت اسلام یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ تبدیلیاں ان کے مطالبے کی وجہ سے کی گئی ہیں تو میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔" 
نصاب میں تبدیلی کے خلاف اتوار کو ٹیکسٹ بک بورڈ آفس کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں چند سو طلباء اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی،لیکن عوامی لیگ کی جانب سے اٹھائے گئے کسی بھی متنازعہ اقدام پر شور ڈالنے والی اپوزیشن کی اہم جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی طرف سے اس معاملے پر کوئی تنقید سامنے نہیں آئی۔ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر آمنہ محسن نے کہا ہے کہ :'یہ ایسا ہے جیسے حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے درمیان ان مسائل پر کامل اتفاق رائے ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ "اکثریتی جمہوریت میں آپ کو عوامی مفاد مدنظر رکھنا ہوتا ہے"۔
بنگلہ دیش کے اسلام پسندوں اور سیکولرز کے درمیان خلیج میں تیزی سنہ 2013ء میں اس وقت آئی جب ہزاروں کارکن جن میں اکثریت صوبائی مدارس کے طلباء کی تھی ڈھاکہ کے مرکز میں مطالبات کی ایک فہرست لے کر امڈ آئے۔ان کے مطالبات یہ تھے:
1: ملحد بلاگرز کو سزا دی جائے۔
2: مجسموں کو تباہ کر دیا جائے۔ 
3: دینی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ 
4: اور درسی کتابوں میں مجوزہ تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں۔
گورنمنٹ نے تصریح کی کہ وہ 2014ء میں شروع کی جانے والی نصاب میں اصلاح کی اپنی ہی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے،تعلیمی حکام کو ملک کے000، 10 رجسٹرڈ مدارس کی ضرورت ہے جن میں آٹھویں جماعت تک سرکاری معیاری درسی کتب پڑھائی جائیں تاکہ قدامت پسند پس منظر رکھنے والے نوجوانوں کی مجموعی بہتری کی امید کی جاسکے۔صدیق الرحمن جو کہ مدارس کے لیے تیار کی جانے والی درسی کتب پر نظر ثانی پر مامور ریٹائرڈ ٹیچر ہیں کا کہنا ہے کہ ؛" ہمارا مقصد انہیں عمومی تعلیم کی طرف لانا تھا۔ عقائد،سوچ اور رویوں میں ایک وسیع خلیج موجود ہے،ہم سڑک پر لوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنے کی سعی کر رہے ہیں،یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں‘‘۔
اس کے لیے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کئی سمجھوتوں کی ضرورت تھی،مدرسہ رہنماؤں نے تعلیمی حکام سے تحریری سفارشات میں یہ درخواست کی کہ :"مدارس کی کتابوں سے ہندو،مسیحی اور غیر ملکی ٹون والے تمام ناموں کو تبدیل کر کے ان کی جگہ خوبصورت اسلامی نام رکھے جائیں" ان کے مطابق "اسلامی توحید کے علمبرداروں کا یہ اہم حق ہے"۔
انہوں نے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہر طرح کے مکالمے حذف کرنے کی درخواست یہ کہتے ہوئے کی کہ :" اسلام میں کسی دوشیزہ سے بلاوجہ گفتگو کرنا کبیرہ گناہ ہے"۔ 
یہی نظر آ رہا ہے کہ حکام نے اس پر بالکل آمادگی ظاہر کر دی تھی جس کے نتیجہ میں:
1: مدارس کے لیے ترتیب دی گئی انگریزی کی درسی کتابوں سے تمام ہندو،مسیحی اور غیرملکی ٹون والے ناموں کو اسلامی ناموں سے بدل دیا گیا ہے۔
2: لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان مکالمے حذف کر دیے گئے ہیں۔
3: لڑکیوں کی ننگے سر بنی ہوئی تصویروں میں ترمیم کر دی گئی ہے۔
4: لڑکیوں کی جسمانی نشو ونما سے متعلق استعمال ہونے والا لفظ "پیریڈ(ماہواری) " ایک سیکشن سے ختم کر دیا گیا ہے۔
5: ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین جو کہ ایک ہندو پروفیسر ہیں کا نام مخفی رکھا جاتا ہے۔ 
صدیق الرحمان نے کہا کہ ؛"حکومت نے اس سلسلے میں لچک کا مظاہرہ کیا،کیونکہ زیادہ اچھے کے حصول کے لیے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے۔
قومی نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈ کے دو افسران نے صحافیوں سے بات کرنے کے مجاز نہ ہونے کی وجہ سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ؛" نصابی اصلاح کی نگرانی پر مامور حکام نے ابتدائی طور پر حفاظت اسلام کی طرف سے 20000 ہائی سکولوں اور مدرسوں میں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں سے 17 نظموں اور کہانیوں کو نکالنے کامطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ 
حفاظت اسلام کے رہنماء مفتی فیض اللہ نے کہا کہ انہیں بیوروکریسی کی طرف سے اعلیٰ حکام کے پاس جانے پر مجبور کیا گیا۔اگر حکومت یہ مطالبہ منظور کرنے کے لیے تیار ہے تو افسر شاہی کی طرف سے رکاوٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتی،انہوں نے کہا کہ " ہم اس مقصد کے لیے وزارت تعلیم کے پاس گئے اور گورنمنٹ کے حکام بالا کے پاس بھی گئے ہیں۔" 
گزشتہ انتظامیہ کے تحت وزارت تعلیم کی سرکاری مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والی ایک سرگرم کارکن "راشدہ کے چودھری " کا کہنا ہے کہ " یہ واضح نہیں ہے کہ اسلام پسندوں کی طرف سے اصلاحات کا مطالبہ کس نے منظور کیا ہے،کسی کو بھی اس بارے میں معلومات نہیں ہیں،نہ ہی کوئی اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہے، والدین مجھ سے آکر پوچھتے ہیں کہ ؛" کیا ہم اپنے بچوں کے لیے گھروں میں تعلیم کا بندوبست کر لیں؟"
دریں اثناء حفاظت اسلام کے رہنماء تبدیلیوں کے اگلے مرحلے کے لیے بھی سفارشات دینے کے لیے بے تاب ہیں۔ حفاظت اسلام کی مرکزی کمیٹی کے ایک ممبر عبداللہ واصل کا کہنا ہے کہ " فنون لطیفہ اور دستکاری کے کورسز میں بچوں کو صرف خوشخطی سکھائی جائے،جاندار چیزوں کی عکسبندی و مصوری کی تعلیم نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ اسلام میں ممنوع ہے۔"
یہ تنظیم فزیکل ایجوکیشن کی درسی کتب میں مختلف قسم کی ورزشیں دکھانے کے لیے دی گئی لڑکیوں اور خواتین کی تصاویر بھی ختم کروانا چاہتی ہے، مولانا فیض اللہ کا کہنا ہے کہ:" جو لڑکے کرتے ہیں وہ لڑکیاں نہیں کر سکتیں،میں درخت پر چڑھ سکتا ہوں لیکن میری بیوی یا بہن ایسا نہیں کر سکتی،تصویروں میں لڑکیوں کو ورزش کرتے ہوئے دکھانا ضروری نہیں۔" 
انہوں نے کہاکہ بڑا مقصد تو درسی کتب سے بھی بڑھ کر ہے،وہ پر امید ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں مخلوط تعلیم پانچویں جماعت سے ختم کر کے مکمل علیحدہ کلاسز کی صورت میں آگے بڑھائی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ درسگاہوں میں جنسی اختلاط کے یہ نتائج سامنے آرہے ہیں کہ جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ شادی سے قبل جسمانی تعلقات قائم کرنے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے قومی نصاب و ٹیکسٹ بک بورڈ کی تو اس سلسلہ میں حفاظت اسلام نے حکومت کو درخواست دی ہے کہ وہ بورڈ کے تمام ممبران کو فارغ کرے اور اس کی ابتدا بورڈ کے چیئرمین ساھا سے کرے جو کہ ہندو ہے۔ 
مولانا فیض اللہ نے کہا:"
میں یہ سوال اٹھانا چاہتا ہوں ( اور یہ میں خود نہیں کہہ رہا،میں تو اس کا مخالف ہوں) کہ کیا اس ملک میں کوئی بھی ایسا مسلمان نہیں ہے جو ٹیکسٹ بک بورڈ کا چیئرمین بن سکے؟تنظیم نے یہ درخواست دی ہے کہ مسٹر ساھا کو تبدیل کر کے کسی ایسے محب وطن کو یہ منصب دیا جائے جو بنگلہ دیش کے عوام کی روح اور جذبات کو سمجھتا ہو"
انہوں نے مزید کہا کہ’’ :You can not expect to grow jackfruit from a mango tree‘‘

ترجمہ :عاطف محمود