دہشت گردی کی روک تھام میں میڈیا کا کردار نہایت اہم ہو سکتا ہے عرب ٹی وی کی ڈرامہ سیریل سمر قند اس حوالے سے بہت مقبول ہو چکی ہے ۔پاکستان میں اس پس منظر میں کوئی نمایاں کام نہیں ہو سکا ۔یہ مضمون پڑھیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی جیسے عفریت سے نمٹنے کے لیے ٹی وی اور فلم کے میدان میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس مضمون کے لکھاری عاطف محمود ہاشمی ہیں ۔جو تجزیات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہیں ۔(مدیر)
مشرق وسطیٰ میں ٹی وی انڈسٹری دہشتگردی کے فروغ کے اسباب اور اس کی روک تھام کے لیے اختیار کی جانے والی تدابیر سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے گزشتہ ایک دہائی سے کام کررہی ہے اور عرب چینلز کی جانب سے متعدد ایسے پروگرام اور ڈرامے سامنے آئے جن میں مختلف انداز سے دہشتگردی کو موضوع بنایا گیا،اس ضمن میں سعودی رائٹر عبد اللہ بن بجاد کے تحریر کردہ "حور عین" شام کے اسام الحمد کے تیار کردہ "الانفجار(دھماکہ)" جیسے ڈراموں کا نام لیا جا سکتا ہے۔
ان کے علاوہ دو تاریخی سلسلے بھی پیش کیے گئے جو اپنی مثال آپ ہیں،دونوں کا تعلق گیارہویں صدی عیسوی سے ہے جو ایک ہی شخصیت " حسن بن صباح "کے گرد گھومتے ہیں۔ایک ڈرامہ مصری ٹی وی نے "امام غزالی "کے نام سے پیش کیا جبکہ دوسرا اردن ٹی وی نے "سمرقند" کے نام سے،زیر نظر مضمون میں ہم مؤخر الذکر کو ہی موضوع بحث بنائیں گے۔
’’سمرقند‘‘ ایک ناول
’’سمرقند‘‘ بنیادی طور پر معروف لبنانی مصنف امین معلوف کے ناول کا نام ہے جو انہوں نے فرانسیسی زبان میں لکھا تھا،جس کے بعد میں انگریزی اور عربی سمیت متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے،اس عالمی شہرت یافتہ ناول کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے جسے حال ہی میں جمہوری پبلیکیشنز نے لاہور سے شائع کیا ہے۔
اردنی پروڈیوسر ایا الخزوز نے موجودہ دور کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی ناول کے ایک حصے کو لے کر بڑے خوبصورت انداز میں اسے ڈرامائی شکل دی ہے اور یہ دکھایا ہے کہ دہشتگرد کیسے تیار ہوتے ہیں؟ دہشتگردی کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں؟ فرقہ واریت اور دہشتگردی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ تخریب کاروں کوافرادی قوت کہاں سے میسر آتی ہے؟اور وہ کون سے عناصر ہیں جو کسی بھی معاشرے میں امن کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں؟
ڈرامہ سیریل ’’سمرقند‘‘
محمد البطوش کا تحریر کردہ تاریخی ڈرامہ سیریل "سمرقند " رمضان 2016ء میں متعدد عرب چینلز پر دکھایا گیا،سمرقند کی پہلی قسط ٹیلی کاسٹ ہوتے ہی عرب دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی اور 2016 ء میں الجزائر،کویت،سعودی عرب اور اردن کے ناظرین کے یہاں اسے ریٹنگ میں پہلا نمبر ملا۔
محمد البطوش کے ڈرامہ کی بنیادی فکر اگرچہ امین معلوف کے ناول سے ہی اخذ کی گئی ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ امین معلوف کے ناول کو ہی اس سیریل میں ڈرامایا گیا ہے۔ بلکہ شاید یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ناول اور ڈرامے میں صرف نام اور زمانہ کی ہی مماثلت ہے کہ دونوں کا نام "ثمرقند"ہے اور دونوں میں ایک ہی عہد یعنی گیاہویں صدی کی تاریخ کو موضوع بنایا گیا ہے۔
ناول اور ڈرامے کے مرکزی خیال میں چنداں یکسانیت نہیں ہے،ناول میں عمر خیام کو بحیثیت شاعر پیش کیا گیا ہے اور وہی پوری کہانی کا مرکزی کردار ہے اگرچہ حسن بن صباح اور نظام الملک بھی اہم کرداروں میں شامل ہیں،اس کے برعکس ڈرامہ سیریل "سمرقند" کی مرکز ی شخصیت حسن بن صباح ہے،اور پورے ڈرامے میں ابن صباح کے طریقہ واردات،اس کی قتل و غارت اور دہشت کودکھایا گیا ہے،عمر خیام کو شاعر سے زیادہ ماہر فلکیات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
جہاں ناظرین کی طرف سے سمرقند کو بہت سراہا گیا وہاں بعض حلقوں کی جانب سے اس تاریخی سیریل پر تنقید بھی سامنے آئی جس میں اسے ترکی ڈراموں کی نقالی اور تاریخ مسخ کرنے کی کوشش قرار دیا گیا،ناقدین کے مطابق عمر خیام کی شخصیت کا نمایاں پہلو شاعری تھا ،نہ کہ علم الریاضی۔اس تنقید کے جواب میں ڈرامہ کے پروڈیوسر ایاد الخزوز نے اعتراف کیا کہ یہ ڈرامہ مکمل تاریخی نہیں ہے بلکہ سکرپٹ رائٹر ڈاکٹر محمد البطوش کی خیال آرائی ہے جسے تاریخ کا ٹچ دیا گیا ہے۔سکرپٹ رائٹر کی اس تصریح کے بعد ڈرامے کا تاریخی استناد دم توڑ جاتا ہے اور تاریخ مسخ کرنے کی کوشش والی بات کو محض الزام نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اس تاریخی ڈرامہ کے مرکزی کردار چار ہیں: بادشاہ ملک شاہ، اس کا وزیر نظام الملک طوسی،معروف فارسی شاعر اور ریاضی دان عمر خیام اور حسن بن صباح ، ذیل میں ہم پہلے چاروں کرداروں کا تعارف تاریخی حوالے سے درج کریں گے اور پھر ساتھ ہی "سمر قند" میں پیش کیے گئے ان کے رول کا تذکرہ کیا جائے گا۔
عباسی خلافت کا زوال اورسلطنت سلجوقیہ
یہ گیارہویں صدی عیسوی کی ابتدا ہے۔ عباسی خلافت میں کمزوری راہ پا چکی ہے اور زوال کے خیمے گڑھ چکے ہیں۔ خلافت چھوٹی چھوٹی ولایتوں میں بٹ چکی ہے اور یہ ولایتیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں،اندلس میں ایک زمانے سے بنوامیہ کا اقتدار قائم ہے،مصر میں اخشیدیوں کے استقلال کا علم لہرارہا ہے ،شمال مغربی افریقہ میں فاطمی خلافت قائم ہے، حلب اور سرحدی علاقوں میں حمدانی قابض ہیں،عراق پر ویلمیوں کا قبضہ ہے،یمامہ بحرین ،عمان اور اندرونِ بصرہ میں قرامطہ کی عملداری ہے،اہواز اورفارس میں آل بویہ برسراقتدار ہیں ،خراسان اور ماوراء النہر سامانیوں کے پاس ہے جبکہ سبکتگین کی اولاد ہندوستان اور افعانستان کے تخت پر متمکن ہے۔
ادھر دیکھیے! یہ حسن بن صباح ہے جو فارس کے عوام بالخصوص اسماعیلیوں کی نمائندگی کر رہا ہے، اور اپنے ہم اعتقاد لوگوں کی قوت کو مجتمع کر رہا ہے،وہ فارسی علاقوں سے ترک سلجوقوں کے اثرونفوذ کوزائل کر کے ایک خودمختار اسماعیلی ریاست کے قیام کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اوّل اوّل مظلوموں کی مدد اور عوام کے ساتھ مساوات کا سلوک کر کے اپنے پیروکاروں میں اضافہ کرتا ہے اور پھر اقتدار کو اپنے قریب دیکھ کر اندھا ہو جاتا ہے اور بالآخر قلع الموت میں اپنی حکومت قائم کر کے اسے اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔مختصر یہ کہ عباسی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے اس کا دائرہ اثر سکڑتا چلا جا رہا ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جب سلاجقہ اقتدار کی طرف بڑھ رہے تھے اور انہوں نے گیارھویں تا چودھویں صدی عیسوی کے درمیان مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا میں ایک مسلم بادشاہت قائم کر لی تھی۔ سلجوق نسلا اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں سلجوقی سلطنت کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرہ روم اور دوسری جانب عدن سیلے کر خوارزم و بخارا تک پھیل گئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا عہدِ زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔
سلطان ملک شاہ اور وزیر نظام الملک
الپ ارسلان اپنے چچا طغرل بیگ کے بعد سلجوقی سلطنت کے تخت پر بیٹھا اور اس نے 1064ء میں آرمینیا اور جارجیا کو سلطنت میں شامل کرلیا۔ وہ ایک بہت بیدار مغز اور بہادر حکمران تھا۔ مشہور مدبر نظام الملک طوسی کو اپنے باپ چغری بیگ کی سفارش پر وزیر سلطنت مقرر کیا۔ اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوئیں۔ پہلے ہرات اور ماوراء النہر کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ پھر سلطنت فاطمیہ کے حکمران کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ منورہ کو اپنی قلمر و میں شامل کیا۔ اس سے اسلامی دنیا میں سلجوقیوں کا اثر و اقتدار بڑھ گیا۔
الپ ارسلان کے جانشیں ملک شاہ اول اور ان کے دو ایرانی وزراء نظام الملک طوسی اور تاج الملک کی زیر قیادت سلجوق سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی جس کی مشرقی سرحدیں چین اور مغربی سرحدیں بازنطینی سلطنت سے جاملی تھیں۔ ملک شاہ نے دار الحکومت ’’را‘‘ سے اصفہان منتقل کردیا۔ اس دوران نظام الملک نے بغداد میں جامعہ نظامیہ قائم کی۔ ملک شاہ کے دور حکمرانی کو سلجوقیوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ 1087ء میں عباسی خلیفہ نے ملک شاہ کو "سلطان مشرق و مغرب" کا خطاب دیا۔ ملک شاہ کے دور میں ہی ایران میں حسن بن صباح نے زور پکڑا جس کے فدائین نے نظام الملک سمیت کئی معروف شخصیات کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ 1092ء میں ملک شاہ اول کی وفات کے بعد اس کے بھائیوں اور 4 بیٹوں کے درمیان اختلافات کے باعث سلطنت تقسیم ہوگئی۔
نظام الملک ایک منجھا ہوا بوڑھا سیاستدان تھا، چونکہ یہ ملک شاہ کے والد الپ ارسلان کا معتمد خاص تھا اس لیے ملک شاہ نے بھی تمام حکومتی اختیارات اسی کو سونپ دیے تھے اور اسے باپ جیسا احترام بھی دیتا تھا،ملک شاہ کی حکومت کو اگر نظام المک جیسے مدبر سیاستدان کا سہارا حاصل نہ ہوتا تو سلجوقی سلطنت کا خاتمہ الپ ارسلان کے بعد ہی ہوجاتا لیکن نظام الملک نے سلطنت سلجوقیہ کے زوال کو اپنی تدبیر سے چند سالوں کے لیے مؤخر کیا،نظام الملک نے اپنی سیاسی زندگی کے تجربات کا نچوڑ اپنی کتاب "سیاست نامہ (سیر الملوک )" میں سمو دیا ہے۔اپنی تمام تر خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود نظام الملک دہشتگردی جیسے خطرے سے نہیں نمٹ سکا، اگرچہ اس نے ایک جنگ میں حسن بن صباح کو شکست دی لیکن وہ اسے کمزور کرنے میں ناکام رہا اور بالآخر حسن بن صباح کے کارندے کے ہاتھوں ہی قتل ہوا۔
"سمرقند" میں سلطان ملک شاہ کو شکار کے دلدادہ اور لونڈیوں کے رسیا کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کی حکومت اس کا بااختیار وزیر ،معاملہ فہم اور مدبر سیاستدان نظام الملک چلاتا ہے، جبکہ تاج الملک ایک انتہائی کم عقل اور عاقبت نااندیش وزیر ثابت ہوتا ہے جس کو ملک شاہ ناراض ہو کر ایک مرتبہ محل سے بے دخل کردیتاہے۔ وزیر نظام الملک کا سفر کی حالت میں بغداد کے قریب اچانک قتل ہو جانے کا صدمہ ملک شاہ کے لیے جانکاہ ثابت ہوتا ہے اور وہ خود بھی اسی سفر میں راہی آخرت ہو جاتا ہے۔
حسن بن صباح
ابن صباح تاریخ کا سب سے طلسماتی کردار ہے، مختلف تاریخی حوالوں میں اسے ایک انتہا پسند ،دہشتگرد اور سازشی آدمی کے طورپر پیش کیا گیا ہے جو مخالفیں کی سرکوبی کے لیے ہرجائز وناجائز طریقوں کو بروئے کارلاتا تھا،ایک دہشت پسند اور خفیہ جماعت حشاشین(جسے فرقہ باطنیہ بھی کہاجاتا ہے ) کا بانی حسن بن صباح مشرقی ایران کے شہر قم میں پیدا ہوا۔ باپ کوفے کا باشندہ تھا۔ 1071ء میں مصر گیا اور وہاں سے فاطمی خلیفہ المستنصر کا داعی بن کر فارس آیا۔ اور یزد، کرمان، طبرستان میں فاطمیوں کے حق میں پروپیگنڈے میں مصروف ہوگیا۔
مشہور ہے کہ حسن بن صباح ،نظام الملک اور عمر خیام ہم سبق تھے،امین معلوف کے ناول میں بھی ایک ہی زمانے کی ان تین مشہور شخصیات کو ہم مکتب کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے لیکن محمد البطوش کے ڈرامہ "ثمرقند" میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ عمر خیام یا نظام الملک ابن صباح کو پہلے سے جانتے ہوں۔
سیاست اور ملٹری اسٹریٹجی میں ابن صباح کو کمال مہارت حاصل تھی اور اپنی کرشماتی پرسنالٹی کی وجہ سے اسے اپنے پیروکاروں کی غیر مشروط حمایت اور محبت حاصل تھی ،اس نے 1090ء میں کوہ البرز میں الموت کے قلعے پر قبضہ کر لیا جو قزوین اور رشت کے راستے میں ہے۔ کئی دوسرے قلعے بھی اسماعیلیوں کے قبضے میں میں آگئے۔
1094ء میں ابن صباح نے مصر کے اسماعیلیوں سے قطع تعلق کرلیا اور قلعہ الموت کے پاس کے علاقے میں چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کر لی۔ پھر اپنے پیرؤوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو اسے "شیخ الجبل" کہنے لگے۔ رقتہ رفتہ اس کے پیرؤوں نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی جس کے فدائی بہت مشہور ہیں۔ فدائیوں کا کام تحریک کے دشمنوں کو خفیہ طور پر خنجر سے ہلاک کرنا تھا۔
بہت سے مسلمان اور عیسائی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ دہشت انگیزی کی یہ تحریک اتنی منظم تھی کہ مشرق قریب کے سبھی بادشاہ اس سے کانپتے رہتے تھے۔فدائیوں کی ان دہشت انگیز کاروائیوں کی ثمر قند میں خوب منظر کشی کی گئی ہے اور دہشتگردی کی جدید شکلوں سے متاثرہ ناظرین نے ہزار سال پہلے کی خوف و دہشت کی پھیلی ہوئی فضا کو محسوس کیا ہے۔ حسن بن صباح نے طویل عمر پائی اور اس کے بعد بزرگ امیر اْس کا ایک نائب اس کا جانشین ہوا۔ اس جماعت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ جس نے قلعہ الموت کو فتح کرکے حسن بن صباح کے آخری جانشین رکن الدین کو گرفتار کرلیا اور ہزاروں فدائیوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔
حشیش اور جنت: کتنی حقیقت کتنا افسانہ؟
مشہور ہے کہ حسن بن صباح نے الموت قلعہ میں اپنے پیروکاروں کی برین واشنگ کے لیے منشیات کا اہتمام کر رکھا تھا اور کسی بھی مشن پر روانہ کرنے سے پہلے فدائیین کو حشیش پلا دیا کرتا تھا جس کے زیر اثر وہ اپنی جان پر بھی کھیل جاتے تھے۔اپنے فدائیوں کو حشیش پلا کر بے ہوش کر دیتا تھا اور پھر انھیں فردوس کی سیر کراتا تھا۔ جہاں پر خوبصورت عورتوں کو حوریں بنا کر ان فدائیوں کے سامنے پیش کرتا۔ وہ حوریں ان کو حسن بن صباح کے حکم پر فدا ہونے کا کہتیں اوروعدہ کرتی کہ تم جلد ہمارے بیچ ہمیشہ کے لیے پہنچ جاؤ گے۔
حسن وہ پہلا شخص تھا جس نے حشیش کو دہشتگردانہ کاروائیوں کے لیے استعمال کیا، ثمر قند میں اس کے حشیش پلانے اور پھر جنت کی سیر کرانے کی بھر پور نقشہ کشی کی گئی ہے،ثمر قند میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ابن صباح نئے سپاہی کو بھرتی کر کے بھنگ پلا کر اپنی جنت میں بھیجتا تھا جہاں وہ نشے میں مست ہو کر اس باغ میں رہنے والی سفید لباس میں ملبوس حسین لڑکیوں (حوروں) سے ملتا،ان کے ساتھ باغ کی سیر کرتا ،اعلی قسم کے میوہ جات اور پھل کھاتا اور عیش و عشرت سے بھرپور وقت گذارتا،آخر میں اسے "مشروب جنت "کے طور پر بھنگ پلائی جاتی جس کے بعد وہ پھر بے ہوش ہو جاتا،آنکھ کھلنے پر اپنے آپ کو حسن کے قدموں میں پا کر خوشی محسوس کرتا اور "الجنہ ، الجنہ‘‘ کے نعرے لگاتا، جنت پانے کی خوشگوار سوچ اسے بے چین کر دیتی جس پر حسن اسے فدائی حملے کے بعد دوبارہ اسی جنت میں بھجوانے کا لالچ دیتا اور یوں وہ اسے بخوشی قبول کر لیتا۔
جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ ایسے خودکش حملہ آوروں کو خاص ماحول میں رکھ کر ہپناٹز کیا جاتا ہے اور دماغ کو مفقود رکھنے کے لیے خصوصی ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور یہ ثابت شدہ ہے کہ گھر سے لاپتہ معصوم بچے ،یا بے گھر بچوں کو اغوا کرکے ایسے مقامات میں خصوصی تربیت دی جاتی ہے جس کو وقت آنے پر استعمال کیا جاتا ہے۔متعدد ایسے واقعات اور ایسے خودکش نوجوان منظر عام پر آچکے ہیں، جن کے انکشافات سے علم ہوا ہے کہ تخریب کار اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آلہ کار بننے والوں کو منشیات کا عادی بنا دیتے ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر زیر استعمال نشہ کی مقدار میں اضافہ کر کے ٹارگٹ کی طرف روانہ کر دیتے ہیں۔
اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ماضی میں حشاشین کے حشیش کے استعمال کو جو بعض لوگوں نے "مخالفین کامن گھڑت افسانہ "بتایا ہے(جیسا کہ کیرن آرم سٹرانگ نے "اسلام :آ شارٹ ہسٹری " میں دعویٰ کیا) یہ بالکل بے وزن دعو یٰ ہے اور حشیش کا استعمال کوئی من گھڑت افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
البتہ جنت والی بات حقیقت سے زیادہ افسانہ ہی معلوم ہوتی ہے،سوچنے کی بات ہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر واقع قلعہ میں طرح طرح کے میوہ جات کہاں سے آتے تھے؟ اور دودھ و شراب کی نہر جاری کرنے کے لیے اتنی وافر مقدار میں مطلوبہ اشیاء کیونکر اس تک پہنچتی تھیں ؟ حالانکہ وہ قلعہ محصور تھا اور ہر وقت سلجوقیوں کی چڑھائی اکا امکان رہتا تھا، اگر ساری دنیا سے منقطع حسن بن صباح اس بے سروسامانی میں جنت بنا سکتا تھا تو آج کے جدید دور میں بڑی سے بڑی سپر پاورز اس طرح کی جنت بنانے سے کیوں قاصر ہیں؟جن مؤرخین نے قلعہ الموت کا تذکرہ کیا ہے ان کی تصنیفات اس افسانوی جنت کے ذکر سے کیوں خاموش ہیں؟ اس کی تصدیق کسی تاریخی ماخذ سے کیوں نہیں ہوتی؟یہ وہ سوالات ہیں جو "صباح کی جنت" کو مخالفین کی طرف سے گھڑا گیا افسانہ قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔
عمر خیام، علماء کے حقیقی کردار کا عکاس
عمرخیام کے کئی تعارف ہیں،آپ فارسی کے معروف شاعر،پائے کے ریاضی دان اور ماہر فلکیات تھے،مشہور ہے کہ سلطان ملک شاہ جب شکار کے لیے نکلنا چاہتے یا کسی خاص تقریب کا اہتمام کرتے تو مہینہ بھر پہلے موسم اور مطلع سے متعلق عمر خیام سے رائے لے کر فیصلہ کرتے تاکہ بارش یا موسم کی خرابی کی وجہ سے تقریب میں خلل واقع نہ ہو،ایک دفعہ ایسے ہی بادشاہ شکار کے لیے نکلے تو بادل آ گئے، بادشاہ کو تامل ہوا،ساتھ جانے والے درباری بھی عمر خیام پر ہنسے کہ آج ان کے علم کی جو دھاک بیٹھی ہوئی ہے وہ اب جاتی رہے گی ،لیکن عمر خیام نے آگے بڑھ کر کہا: بادشاہ سلامت !آپ اطمینان کے ساتھ شکار کے لیے جائیے،یہ بادل آن کی آن میں چھٹ جائیں گے،اور پھر ایسا ہی ہوا۔
ثمرقند ناول میں عمر خیام کو ایک شاعر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور پورا ناول ان کی رباعیات کے گرد گھومتا ہے جبکہ ثمرقند ڈرامہ میں عمر خیام کوشاعرسے زیادہ ایک سائنسدان کے طور پر دکھایا گیا ہے۔فلکیات اور نجوم پر تحقیق کے لیے خیام نے وزیراعظم الطوسی سے ایک رصد گاہ کا مطالبہ کیا تھا جو خطیر رقم کی لاگت سے نظام الملک نے مہیا کر دی،اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظام الملک کے تعاون کے بغیر خیام کی سائنسی تحقیقات ناممکن تھیں، اور کوئی بھی سلطنت اس وقت تک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتی جب تک کہ اہل علم کو سہولتیں میسر نہ کرے۔
اس ڈرامہ میں عمر خیام کی انسانیت دوستی عیاں کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ ایک حقیقی عالم کس طرح ضرورت کے وقت عوام کی بہتری کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنا کردار ادا کرتا ہے،نمونے کے طور پر ہم یہاں عمرخیام کا ابن صباح کے ساتھ الموت قلعے میں ہونے والے مکالمے کا ترجمہ پیش کرتے ہیں جو کہ ثمرقند کی اٹھائیسویں قسط میں دکھایا گیا ہے۔:
عمر خیام اور حسن صباح کا مکالمہ
(عمر قلعے کے دروازے پر پہنچ کر دربان سے کہتا ہے کہ حسن سے کہو عمر خیام ملنا چاہتا ہے،حسن دروازے پر آجا تا ہے)
حسن: کہو خیام کیسے آنا ہوا؟
عمر: اندر آنے کا نہیں کہو گے؟
حسن: چلو۔۔۔۔۔۔ (مشروب پیش کرتے ہوئے) خیام تمہاری شجاعت پر رشک آتا ہے کہ تم میرے قلعہ میں کس طرح چلے آئے؟
عمر: تم کیا سمجھتے ہو کہ مجھے بھی نظام المک کی طرح قتل کر دو گے؟
حسن: (ہنستے ہوئے) تمہارے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟
عمر: میں صرف یہ جاننے کے لیے آیا ہوں کہ تم نے نظام الملک کو کیوں قتل کیا؟ کوئی ایک وجہ ہی بتا دو؟
حسن: تمہارااس سے کیا تعلق؟
عمر: میرا تعلق وہی ہے جو ان لاکھوں لوگوں کا ہے جو نظام الملک کو رو رہے ہیں اور اس کی جدائی کا انہیں صدمہ ہے۔اگر مجھے کسی وجہ سے بھی اس دنیا میں کوئی شخص قتل کرنا پڑتا تو میں اس مقصد کے لیے اپنی ماں یا باپ کو نظام الملک پر ترجیح دیتا۔ مجھے بتاؤ حسن کہ تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ کیا جب تم اس کے محل میں ہوتے تھے تو اس نے تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا؟کیا اس نے تمہیں کوٹھی،وظیفہ،غلام اور ایک باندی نہیں دی تھی؟بولو
حسن: بالکل،اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔
عمر: (گرجدار آواز میں ) تو پھر تم نے ایسا کیوں کیا؟
حسن: میں چاہتا تھا کہ سلاجقہ کو معلوم ہو جائے کہ ان کی سلطنت کا سب سے بڑا شخص بھی میری دسترس میں ہے۔وہ سلطنت جس کی فوج دنیا کی سب سے بڑی فوج سمجھی جاتی ہے۔
عمر: اگر یہ بات تھی تو تم نے امیر جیش سپہ سالار کو کیوں نہیں قتل کیا؟اس سے بھی تمہیں شہرت مل سکتی تھی۔(اس کے جواب میں حسن مسکرا دیتا ہے،عمر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے) تمہیں پتا ہے کہ تم نے انسانیت کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیا؟نظام الملک غریبوں پر خرچ کرتا،مظلوموں کی مدد کرتا اور علم و علماء کا قدردان تھا۔وہ خود بھی ایک بڑا عالم تھا لیکن تم نے دنیا کو اس سے محروم کر دیا۔یہ تم نے ایک شخص کانہیں بلکہ پوری امت کا قتل کیا ہے۔
حسن: اگر میں تمہیں بھی ابھی قتل کر دوں تو یہ قتل دوسری امت کا قتل ہو گا۔
عمر: حسن مجھے اتنا بتا دو کہ تم نے اپنے آدمی کو قتل کرنے پر کیسے آمادہ کیا؟
حسن: انہیں میں جنت میں بھیجتا ہوں۔
عمر: جنت میں؟ایک بے قصور آدمی کو بلاوجہ قتل کرنے والے کو کیونکر جنت میں بھیجتے ہو،کیا تم واقعی یہ سمجھتے ہو کہ تم انہیں جنت میں بھیجتے ہو جبکہ تم ڈاکے ڈالتے ہو اور خون کی ندیاں بہاتے ہو،مجھے یقین ہے کہ نظام الملک کا قاتل اس وقت جہنم میں ہے
حسن: عمر تم کب سے علام الغیوب بن گئے ہو؟
عمر: میں غیب نہیں جانتا لیکن ان کے چہرے کے آثار اور چھائی ہوئی اداسی سے یہی سمجھ میں آتا ہے۔لیکن کیا تم جنتیوں کی صفات جانتے ہو؟
حسن: وہ صفات اور نشانیاں کیا ہیں؟
عمر: جو محبتیں بانٹے،خوشیاں پھیلائے،امن اور عدل وانصاف قائم کرے وہ جنت میں جائے گا،میرا یہی عقیدہ ہے۔
حسن: اگرچہ وہ کافر ہو؟
عمر: کافر وہ کرتا ہے جو تم کر رہے ہو۔دن کو تو عبادت گاہوں کے چکر لگاتے ہو اور رات کو لوگوں کو اذیت پہنچاتے ہو۔کفر ایک پورے رویے کا نام ہے جس پر تم عمل پیرا ہو۔
حسن: اے عمر، تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ تم بہت باتونی ہو گئے ہو؟
عمر؛ (مسکراتے ہوئے) تم نے مجھے بتایا نہیں کہ ایک عقلمند شخص کو تم نے کس طرح قائل کر لیا کہ اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا؟یا پھر تم نے کسی پاگل یا ایسے شخص کو بھیجا تھا جو نشے کی حالت میں تھا؟
( یہ سن کر حسن اپنے مصاحب فیروز کو بلا کر کہتا ہے کہ کسی نوجوان کو کمرے میں لے کر آئے،ایک نوجوان آتا ہے جس سے حسن بن صباح پوچھتا ہے کہ وہ پاگل یا حالت نشہ میں تو نہیں؟ جس کا جواب وہ نفی میں دیتا ہے۔حسن اسے کہتا ہے کہ مجھے آسمان سے ایک اشارہ ملا ہے جس میں تمہارے لیے جنت کی بشارت ہے۔ تم قلعے کی فصیل سے نیچے چھلانگ لگا دو،فرشتے آ کر تمہیں اٹھا لیں گے، وہ فوراً ہی جنت ،جنت کا نعرہ لگاتے ہوئے اس بلندی سے چھلانگ لگادیتا ہے اور موقع پر ہی دم توڑ جاتا ہے، عمر حیرت سے یہ منظر دیکھتا ہے اور کہتا ہے)
عمر: اللہ کی قسم تم انسان کی شکل میں ایک شیطان ہو۔
حسن : ( اٹھتا ہے اورخیام کی جانب متوجہ ہو کر کہتا ہے کہ )میں نے اس بار تمہیں معاف کر دیا ہے لیکن آئندہ میرے قلعے میں مت آنا۔
محروم طبقہ (غلاموں اور لونڈیوں) کے ساتھ بدسلوکی اور اس کے نتائج
ماضی میں غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی منظر کشی بھی اس سیریل میں خوب کی گئی،اور دکھایا گیا کہ کس طرح ان کی خرید و فروخت کابازار لگتا تھا،اور منڈیوں میں حیوانوں کی طرح انہیں ٹٹول کر خریدا جاتا،ثمرقند کی ابتداء ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ سوق النخاسہ (لونڈیوں کی منڈی) میں چند لونڈیاں پابہ زنجیر فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں،لونڈیوں کا مالک ایک گاہک سے سے بھاؤ تاؤ میں مشغول ہوتا ہے کہ ایک لڑکا (جو بعد میں عمر خیام کا مصاحب بن جاتا ہے) نرمین نامی ایک باندی کو زنجیر سے آزاد کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، نرمین کسی طرح شاہی محل میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور اپنی سمجھ بوجھ اور دانشمندی کی وجہ سے ملکہ ترکان کی خاص کنیزوں میں اپنا مقام بنا لیتی ہے اور بعد میں عمر خیام کے عقد میں آ جاتی ہے۔
سلطان ملک شاہ کی بیٹی آتون خاتون جیسی شہزادی کو بھی گردش ایام سوق النخاسہ میں پہنچا دیتی ہے جہاں اسے بھی راہزن لونڈی بنا کر فروخت کر دیتے ہیں اور اسے بھی لونڈیوں پر روا رکھے جانے والے مظالم سہنا پڑتے ہیں۔ثمر قند کا وہ سین انتہائی تکلیف دہ اور المناک ہے جس میں باندیوں کو بازو پر گرم لوہے سے نشان لگایا جاتا ہے،اس نشان کی بھی وہی حیثیت ہوتی ہے جو آج کل کسی خاص کمپنی کے نشان کی ہے، جس باندی کے دونوں بازؤوں کے ساتھ گردن پر بھی یہ نشان لگ جاتااس کی قیمت بہت گر جاتی تھی،کیونکہ اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ باندی میں کوئی ایسا عیب ہے جس کی وجہ سے مالک اسے آگے فروخت کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔
یہ مناظر دیکھنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی تاریخ ہے اور واقعی لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ اس طرح کا بہیمانہ برتاؤ کیا جاتا تھا تو اسلام نے اس کی اجازت کیسے دی؟ کیا اسلام میں آزاد اور غلام کے حقوق میں تفاوت پایا جاتا ہے؟ اگر تفاوت ہے تو کس حد تک ؟اور کیوں؟
اسی سے ملتے جلتے ایک سوال جس میں آزاد اور غلام کی سزا میں تفاوت سے متعلق دریافت کیا گیاکا جواب معروف سکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اپنی کتاب "اسلام کا قانون بین الممالک" میں ان الفاظ کے ساتھ دیا ہے:
’’تفاوت موجود ہے۔غلام کی سزا آدھی ہے آزاد کی مکمل۔قرآن میں ہے (النساء 4:25) اس کی وجہ یہ ہے کہ جو غلام ہے وہ بذات خود ایک سزا میں گرفتار ہے کہ غلامی خود ایک سزا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس کے معاشرتی معیار کے مطابق تالیف قلب بھی مطلوب ہے۔سزاؤں کا مقصد اسلام میں اصلاح ہے،سزاؤں میں حتی المقدور اس بات سے بچا گیا ہے کہ سزا پانے والا اسلام سے دور ہو جائے یا اس سے بدظن ہوجائے۔
۔۔۔ایک شخص جو غلام ہے اس کو غلام ہونے کی سزا اس لیے بھی دی گئی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو توڑنے کی عملی کوشش کی تھی۔ایک شخص جو غلام ہو اسے کسی کے چارج میں دے دیا جاتا ہے۔اسے آپ قید بامشقت یا جبری مشقت کی ایک شکل کہہ سکتے ہیں۔یہ قید بامشقت کی وہ قسم ہے جس میں قیدی کو چند پابندیوں کے ساتھ مسلم ملک یا معاشرے میں رہنے کی اجازت دے دی جاتی ہے،مدت غلامی پوری کرنے کے بعد (دس سال ہو یا بیس یا کم وبیش) یہ کوشش کی گئی ہے اور کی جاتی ہے کہ وہ مسلم معاشرے میں رچ بس کر مسلم معاشرے کا ایک معزز اور آزاد شہری بن جائے،جیسا کہ ابتدائی دور میں اس بات کی ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں مثالیں ملتی ہیں کہ جنگی قیدی غلام بنائے گئے اور یہ غلام اسلام کے قوانین جنگ اور احکام قید کی بدولت علم و حکمت کی بلندیوں اور حکومت کے اعلی عہدوں پر پہنچ کر معاشرے کے ایک باعزت شہری بن گئے۔
غلاموں کے ساتھ بھی حیوانوں جیسا سلوک ہی کیا جاتا تھا،ابن صباح کا معتمد خاص اور پہلا پیروکار فیروز بھی ایک پسا ہو ا غلام ہی تھا،اس کے بعد پے درپے صباح کے قافلے میں شامل ہونے والوں کی اکثریت غلاموں اور معاشی تنگدستی سے متاثرہ افراد کی تھی، معاشی طور پر بدحال شخص جب اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو بھوک سے ایڑیاں رگڑتا دیکھتا ہے تو آسودہ حال مترفین کو دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگتا ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کمزوروں نے طاقتوروں سے مقابلے کیلئے کبھی بھی اپنی جان کی پروا نہیں کی۔
غربت اور معاشی بد حالی ڈرون حملوں سے زیادہ خطرناک ہے ،ہمیں فدائیین کو جنم دینے والے اسباب و محرکات کا خاتمہ کرنا ہے لیبیا،شام ،عراق،افغانستان اور یمن میں جاری خانہ جنگیوں سے ان کے معاشی حالت دگرگوں ہوچکے ہیں، نوجوانوں کو اپنے مستقبل کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا،ایسے میں حسن بن صباح کبھی مرتا نہیں ہے۔
محل کے اندر کی سازشیں
ترکی کی جانب سے بنائے گئے تاریخی ڈرامے صرف محل میں بنی جانے والی سازشوں تک ہی محدود ہوتے ہیں،لیکن "سمرقند" اس حوالے سے کافی مختلف ہے،اس میں محل کے اندر ملک شاہ کی دونوں بیویوں ملکہ زبیدہ اور ملکہ ترکان کے درمیان ہونے والی گہری سازشوں کو بھی دکھایا ہے لیکن بنیادی طور پر ان کا تعلق حسن بن صباح سے بھی بنتا ہے،ملکہ زبیدہ وزیر نظام الملک کے قریب تھیں اس لیے ملکہ ترکان کی وزیر سے عداوت بھی بدیہی بات تھی،اور وزیر سے جان چھڑانے کے لیے ملکہ ترکان نے ہی حسن بن صباح کے پاس یہ پیغام بھجوایا تھا کہ وہ نظام الملک کو قتل کر دے،اس طرح شاہی محل کے اندر چلنے والی سازشوں کا تعلق ملکی سیاست سے بھی بن جاتا ہے اور یوں پورا ڈرامہ اس عہد کی سیاسی تاریخ پر مرتکز نظر آتا ہے۔
سمرقند کا اختتام اور دہشتگردی کی شکار ریاست کاانجام
دہشتگردی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ڈرامے سمرقند کے بارے میں توقع تھی کہ اس کااختتام حسن بن صباح کی شکست پر ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا،بلکہ اختتامیہ میں اسے فاتح جیسا دکھایا گیا جس سے امن کے متلاشیوں کو جھٹکا لگتا ہے اور مایوسی طاری ہوتی ہے۔لیکن تاریخی حقائق بھی یہی ہیں کہ سلجوقی سلطنت ابن صباح کا خاتمہ نہیں کر سکی تھی بلکہ ابن صباح کے ہاتھوں نظام الملک کے قتل سے سلجوقی سلطنت کے سیاسی زوال کا آغاز ہو گیا اور اہلیان یورپ نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بیت المقدس کو مسلمانوں سے واپس لینے کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔ اس طرح اْن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش 200 سال مسلمانوں پر مسلط رہیں۔
ان جنگوں کے آغاز پر یورپ سے بیت المقدس کے راستے میں عیسائیوں کا سب سے اولین ٹکراؤ اناطولیہ میں سلجوقی مسلمانوں کی حکومت سلاجقہ روم سے ہوا۔ عیسائیوں نے پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا جبکہ اس جنگ سے قبل ہی سلجوق سلطنت فاطمیہ کے ہاتھوں فلسطین گنواچکے تھے۔ صلیبیوں اور مغول کے حملے سے سلجوقیوں کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہوکر رہ گئی اور بالآخر 1260ء کی دہائی میں منگولوں کی اناطولیہ پر چڑھائی کے ساتھ آخری سلجوقی سلطنت (سلاجقہ روم) کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
تاریخی ڈرامہ سمرقند ہمیں یہ سبق یاد دلاتا ہے فرقہ پرستی اور دہشتگردی سے داخلی طور پر کمزور ہو جانے والی سلطنت غیروں کے لیے ترنوالہ ثابت ہوتی ہے، عرب ریاستوں سمیت پوری اسلامی دنیا اس وقت سیاسی ،لسانی و مسلکی اختلافات ،امتیازی رویوں اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری و معاشی عدم استحکام کی بنیاد پرجس خانہ جنگی اور بدامنی کی صورتحال سے گزر رہی ہے اس کا انجام کیا ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے نہ کسی نجومی کی ضرورت ہے نہ چڑیا کی۔جب تک جہل مطلق، معاشی ابتری،نسلی و لسانی امتیازات اور فرقہ واریت سے عوام کی جان نہیں چھڑائی جاتی اور منبرو اسٹیج سے نفرت و تفریق کی فصل بوئی جاتی رہے گی ابن صباح پیدا ہوتے رہیں گے۔ یہی سمرقند کا حاصل ہے اور وقت کی پکار، دو عشروں سے دہشتگردی کے شکار ملک پاکستان کی ٹی وی اور سینیما انڈسٹری کو اس اہم موضوع کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے،ابتدائی طور پر پاکستانی چینلز عرب دنیا اور دیگر ممالک کی طرف سے کی گئی کاوشوں کو بھی ترجمہ اور ڈبنگ کے ذریعہ بہت کم لاگت میں پاکستانی عوام کے سامنے لا سکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے بین الاقوامی اسلامی یونیوسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ٹرانسلیشن ڈبنگ اینڈ ٹرانسلیشن سینٹر اسلام آباد جیسے اداروں کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں۔