نام کتاب : فسانہ رقم کریں
مصنف : مجاہد بریلوی
اشاعت دوئم : فروری 2017ء
ناشر: لوحِ ادب پبلی کیشنز کراچی
قیمت : 499 روپے
تبصرہ نگار : سجاد اظہر
مجاہد بریلوی کا نام اب کسی کے لیے نیا نہیں ۔بطور صحافی کے، انہیں شاید سیاست و صحافت سے وابستہ لوگ ہی جانتے ہوں گے مگر بطور اینکر کے ان کی شہرت اب چہار دانگِ عالم میں ہے ۔ان کی زیر نظر کتاب کا پہلا ایڈیشن 2009ء میں چھپا تھا تاہم فروری2017ء میں اس کا نیا ترمیم شدہ ایڈیشن چھپ کر آیا ہے ۔کتاب کا دیباچہ ان کے پرانے رفیق کار اشرف شاد جو اب آسٹریلیا میں مقیم ہیں ،نے لکھا ہے۔
کتاب میں مجاہد بریلوی نے سیاست و صحافت سے وابستہ ان شخصیات سے وابستہ یادیں رقم کی ہیں جن سے ان کا گہرا تعلق رہا ۔ان شخصیات میں محترمہ بینظیر بھٹو، خیر بخش مری ،معراج محمد خان،فوزیہ وہاب،حبیب جالب ،منہاج برنا اور ضمیر نیازی جیسی سرکردہ شخصیات بھی شامل ہیں ۔
بینظیر بھٹو سے متعلق یادیں بڑی دلچسپ ہیں ۔مثال کے طور پر ایک واقعہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ بشیر ریاض اور انہوں نے مل کر بھٹو خاندان پر ایک کتاب لکھی ۔چار سو صفحے کی کتاب جب بی بی کو پیش کی گئی تو بی بی نے ایک ہی رات میں پڑھ کر کتاب مسترد کر دی اور بشیر ریاض کو کہا کہ ’’ویل بیش بڑا اچھا کتاب لکھا ہے ۔میں تو بھول ہی گئی تھی کہ آصف جو میری انگلی کو شہد کی مکھی سے کاٹنے پر مرہم لے کر آیا تھا اور جس نے تمہارے کہنے کے مطابق قوم کی تقدید بدل دی ‘‘۔انہوں نے تیس چالیس صفحوں پر سرخ لائیں لگا کر کہا کہ کتاب دوبارہ شائع ہو گی اور جو نقصان ہوا ہے وہ میں پورا کروں گی ۔
معراج محمد خان ایک انقلابی لیڈر تھے جو انقلاب کا راستہ دیکھتے چلے گئے۔ وہ بھٹو کے جانشین بھی رہے مگر جب بھٹو کو اقتدار ملا اور بھٹو کے دور میں مزدوروں کو مار اپیٹا گیا تو انہوں نے وزارت اور جانشینی کو خیر باد ہی نہیں کہا بلکہ مزدوروں کے ساتھ پولیس سے لاٹھیاں بھی کھائیں۔ اس حوالے سے مجاہد بریلوی لکھتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات میں معراج محمد خان کو باہر رکھنے کا فیصلہ بد دیانتی پر مبنی تھا۔میں اندر کا آدمی نہیں ہوں مگر ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے ضرور چینی روسی دھڑوں کی قیادت کو اپنے ہی کمیٹڈ کارکنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے دیکھا ہے ‘‘۔پاکستان میں بائیں بازو کی تحریکیں کیوں ناکام ہوئیں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مجاہد بریلوی لکھتے ہیں کہ ’’بائیں بازوکی تحریک کی تباہی، ناکامی ایک نہیں دو تین نسلوں کو کھا گئی ۔اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل اور تحفظ کے لیے سینکڑوں نے مغربی ممالک میں پناہ لی ۔بچے کھچے کامریڈوں نے پُر آسائش ملازمتوں کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ،جو زیادہ کمیٹڈ تھے وہ نفسیاتی مریض بن کر پاگل خانوں کے ہو رہے ‘‘۔
کتاب کا سب سے دلچسپ باب حبیب جالب سے متعلق ہے ۔مجاہد کہتے ہیں جب حبیب جالب نے ایوبی آئین کے بارے میں لکھا کہ
ایسے دستور کو صبح بے نور کو ۔۔۔۔۔میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
یہ نظم اتنی مشہور ہوئی کہ ایک دن آئین کے خالق میاں منظور قادر نے ملک غلام جیلانی کو اپنی کوٹھی پر بلایا اور جذباتی انداز میں کہاکہ اب ہمارا آئین نہیں چلے گا کیونکہ نوجون شاعر نے نظم لکھ دی ہے ۔
بھٹو صاحب اور جالب کا بڑ اگہرا یارانہ تھا مگر اس کے باوجود جب بھٹو نے جالب صاحب کو پیشکش کی کہ وہ نیپ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آجائیں تو آپ کی الیکشن مہم پر سارا پیسہ میں لگاؤں گا اس پر جالب نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کبھی سمندر بھی دریا میں گرے ہیں ۔جالب صاحب حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار ہوئے تو انہوں نے بھٹو کی حکومت کے بارے میں یہ نظم لکھی :
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
بینظیر کے لیے انہوں نے مشہور نظم لکھی :
ڈرتے ہیں بندوق والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
لیکن جب بینظیر اقتدار میں آئیں تو ان کی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
یہ نظم سن کر اعتزاز احسن نے کہا کہ جب جالب نے بھی ہماری حکومت کیلیے ایسے شعر لکھ دیے ہیں تو اب ہماری حکومت کا رہنا مشکل ہے ۔
کتاب میں احمد فراز اور فہمیدہ ریاض کے ابواب بھی دلچسپ ہیں۔ یہ کتاب اگرچہ یادوں اور ملاقاتوں کے حوالے سے ہے مگر کتاب میں اتنی بھاری بھرکم شخصیات ہیں کہ ا س کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی بنتی ہے ۔یہ کتاب دراصل پاکستان میں بائیں بازو کی ایک تاریخ بھی ہے ۔جو نہ صرف اس کا ماضی بیان کرتی ہے بلکہ مستقبل کی پیشین گوئی بھی کرتی ہے ۔