کتاب کا نام : سراب
مصنف: جمال سند سویدی
طباعت: متحدہ عرب امارات
تبصرہ نگار : عاطف ہاشمی
مذہبی سیاسی جماعتیں: حقیقت سے سراب تک
مذہبی سیاسی جماعتوں پر بات کرنے سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ "اسلام" اور "اسلامی جماعتیں" ایک ہی چیز کے دو نام نہیں ہیں اور یہ دینی جماعتیں دین حنیف کی ہی دوسری شکل نہیں ہیں۔امت مسلمہ کا ہر فرد اور جماعت اسلام کا پابند ہے نہ کہ اسلام کسی فرد یا جماعت کے تابع ہے۔دین اسلام آخری سچا دین ہے جس پر چل کر ہی دونوں جہانوں کی کامیابی مل سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو فرد یاجماعت اسلام کا نام لیتی ہو اس کی فکر اور نظریہ بھی اسلامی تعلیمات اور روح کے عین مطابق ہو جس سے سرمو اختلاف نہ کیا جا سکے،بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے پاسبان کے روپ میں راہزن آ جائیں اور امن و ایمان اور سلامتی و اسلام جیسی قیمتی متاع چھین کر فرار ہو جائیں۔
اس لیے ضروی ہے کہ ہم چوکنے رہیں اور فریب نظر کے شکار نہ ہوں کہ وہم کو حقیقت کا بدل تصور کرتے رہیں۔ قرآن کریم نے اس ظاہرے کو اپنے بلیغ اسلوب میں " سراب" کا نام دیا ہے جو کہ ہماری زیر نظر کتاب کا بھی نام ہے۔اس کتاب میں مصنف نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو موضوع بنایا ہے اور ان کے پیروکاروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ جنہیں نجات دہندہ اور انقلاب آفریں سمجھ رہے ہیں کہیں وہ سراب ہی تو نہیں؟مصنف کا دعوی ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں ایسے پرفریب نعرے بلند کرتی ہیں جو قیاس و گمان سے بالاتر ہوتے ہیں تحقیق کی میزان پر کھرے نہیں اترتے۔
مرکز امارات برائے تزویراتی تحقیقات کے ڈائرکٹر جنرل جمال سند سویدی جو کہ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں کی یہ کتاب 2015ء میں عربی اور انگریزی میں شائع ہوئی۔دونوں زبانوں کے قارئین میں " سراب" کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مصنف نے اپنے پیغام کو مزید وسعت دینے کے لیے اسے اردو میں بھی شائع کرنے کا فیصلہ کیا ،اور اس طرح 2016ء کے آخر تک یہ کتاب پاک و ہند میں بھی متعارف ہو گئی۔
764 صفحات کی یہ ضخیم کتاب تمہید اور چار ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں مذہب اور سیاست میں تاریخی تعلق اور سیاسی اسلام کے نظریاتی و منہجی طریقہ کار کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسرے باب میں مصنف اپنے قاری کو نظریاتی و منہجی طریق سے تطبیقی حالات کی طرف لے جاتے ہیں اور چار فصلوں میں چار اسلامی سیاسی جماعتوں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیتے ہیں، سب سے پہلے اخوان المسلمین کا تذکرہ کرتے ہیں اور اسے خلافت کے احیاء کا ڈھنڈورا پیٹنے والی، سیاسی اسلام کی دعویدار اور تمام شدت پسند جماعتوں کی اساس قرار دیتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر سلفی جماعت کو زیر بحث لایا گیا کہ کس طرح یہ جماعت اپنے آپ کو عامل بالسنۃ سمجھتے ہوئے بدعات و خرافات کے خاتمے کا نام لے کر تکفیریت اور فرقہ واریت کا باعث بن رہی ہے۔
اس کے بعد سرور ی جماعت کا ذکر ہے جس کے بانی سرور بن نایف شام سے ریاضی کے استاد کی ( نہ کہ دینی یافقہی )حیثیت سے سعودیہ جاتے ہیں اور وہاں جا کر ایک دینی جماعت تشکیل دیتے ہیں ،اس جماعت کو اس کے بانی کی نسبت سے ہی "سروری جماعت "کہا جاتاہے۔
دوسرے باب کا اختتام ان جہادی تنظیموں کے جائزے پر ہوا ہے جنہوں نے پوری دنیا میں مسلمانوں کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے،اس میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی تشکیل ، ارتقاء اور اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
تیسرے باب میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے متعلق رائے عامہ کے رجحانات کو سروے کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے جبکہ چوتھے اور آخری باب میں مصنف نے موضوع کا مجموعی جائزہ لیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ انہوں نے کس بنا پر اس کتاب کا نام " سراب رکھا ہے۔ مصنف کے مطابق یہ دینی جماعتیں اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے سے قاصر ہیں اور دنیا بھر میں اسلام جیسے آفاقی اور امن پسند مذہب کے لیے تضحیک کا باعث بن رہی ہیں۔
ہر باب کے آخر میں اس کا خلاصہ بھی دے دیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مصنف اپنے پیغام کو کس قدر پھیلانے کے خواہشمند ہیں کہ جو پوری کتاب نہ پڑھ سکے وہ کم از کم خلاصہ ہی پڑھ کر سیاسی مذہبی جماعتوں سے متعلق ان کے نقطہ نظر کو جان لے۔
ڈاکٹر جمال سند سویدی نے زیر نظر کتاب میں مشرق وسطی میں پائی جانے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کی اپنے نقطہ نظر سے ایک تصویر پیش کی ہے جس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں، "سراب" میں زیر بحث انتہائی حساس موضوع اس امر کا متقاضی ہے کہ اس کتاب کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور پاکستان میں اس کے لیے اماراتی سینٹر فار سٹراٹیجک سٹڈیز پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز جیسے کسی ادارے کے اشتراک سے کتاب کی تقریب رونمائی کا اہتمام کرے تا کہ اگر واقعی مشرق وسطی میں پھیلی ہوئی یہ جماعتیں تضادات کی شکار ہیں تو اسلامی دنیا کو اس سراب سے آگاہ کیا جائے، اور اگر حقائق اس کے برعکس ہیں جو اس کتاب میں پیش کیے گئے ہیں تو اس سے اختلاف رکھنے والے اور اس کے برعکس نقطہ نظر کے حاملین اور مذکورہ جماعتوں کے منتسبین اپنا موقف بھی پیش کریں اور دلائل سے زیر نظر کتاب میں بیان کیے گئے موقف کی تردید کریں۔
فاضل مصنف اور انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اس بات پر بھی شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کرا کر پاکستان، ہندوستان اور اور دیگر ممالک میں اردو سمجھنے اور بولنے والوں تک اپنی فکر کی رسائی کی سبیل فرمائی، امید ہے کہ اردو داں طبقہ بالخصوص پاکستان جو کافی عرصہ سے فرقہ واریت اور دہشتگردی کا شکار ہے فاضل مصنف کے افکار سے آئندہ بھی مستفید ہوتا رہے گا اور ان کے ریسرچ سینٹر کی تحقیقات اردو قارئین کے لیے بھی پیش کی جاتی رہیں گی۔