working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

پاکستانی معاشرے میں عدم رواداری اور متبادل بیانیہ

صاحبزادہ امانت رسول

صاحبزادہ امانت رسول ادارہ فکرِ جدید کے سربراہ اور ماہنامہ روحِ بلند کے مدیر ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔مشرق و مغرب کے درمیان تفاوت کے اسباب پر ان کی گہری نظر ہے ۔مسلم معاشروں میں بالعموم اور پاکستانی معاشرے میں بالخصوص کم ہوتی ہوئی برداشت اور رواداری اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی ،آج کا سب سے اہم موضوع ہے ۔بلاشبہ اس بیانئے نے ہماری معاشرتی ، سیاسی اور تہذیبی ساخت کو بری طرح متاثر کیا ہے ایسے میں متبادل بیانئے کے احیا ء پر زور دیا جاتا ہے ۔صاحبزادہ امانت رسول نے زیر نظر مضمون میں اسی موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے ۔(مدیر)

خدائے واحد نے اس کائنات کو تنوع اوراختلاف کے اصول پہ تخلیق کیا اور اس کے حسن وجمال کو تنوع اوراختلاف کے ساتھ وابستہ کر دیا۔ انسان کے وجود، عقل اور ارادہ میں بھی اختلاف رکھا۔ قرآن مجیدمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رنگ و زبان کے اختلاف کو اپنی نشانیاں قراردیا (22/30)۔ قرآن مجید میں تقریباً سات مقام پہ مختلف انداز میں بتایا گیا ہے کہ اختلاف مشیت ایزدی ہے، ورنہ خدا تمام انسانوں کو ایک امت بنا دیتا۔ جب اختلاف خدا کی حکمت ہے تو ہمیں اس اختلاف وتنوع کو ہر حال میں قبول کرنا ہے۔ اختلاف کو قبول کرنا فطری عمل ہے اور اس اختلاف کو بالجبر ختم کرنا غیر فطری کوشش کہلائے گی۔ اگر ہم اختلاف کو تسلیم نہیں کریں گے تو ہمارے سماج کا حسن ختم ہو جائے گا۔ وہ سماج جہاں اختلاف نہ ہو وہ سب کچھ کہلانے کا حق دار ہے لیکن انسانی سماج کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ 
جب سے کائنات وجود میں آئی انسان کی تخلیق ہوئی اور مذاہب کا سلسلہ شروع ہوا تب سے اختلاف اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ موجود رہا ہے اور اب بھی موجود ہے ۔۔۔ انسانوں کے پاس اس کرّہ زمین پہ امن وسلامتی کے ساتھ رہنے کا فقط ایک طریقہ ہے اوروہ اختلاف کے ساتھ جینا ہے۔اسی کورواداری کہتے ہیں، یعنی ہم قدرت کے اس قانون کو تسلیم کر لیں کہ دوسرا انسان مجھ سے مختلف ہے۔ اس کا ظاہری اور فکری وجود مجھ سے بہت مختلف ہے، اس لییمیری سوچ اوراس کی سوچ میں اختلاف ہے۔ اس اختلاف کے باوجود ،مجھے اس کے ساتھ چلنا، رہنا اور بولنا ہے۔ ہر انسان نے اپنے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اورمیں نے اپنے مطابق ۔۔۔مجھے اس پہ اپنے خیالات Imposeکرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی مجھے اسے زبردستی اپنے نظریات پہ لانے کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو دارالعمل قرار دیا ہے۔دارالحساب آخرت کا روز ہے جب’’دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا‘‘۔
مذہبی فکر انسانی سماج اور جدید انسانی مسائل کی بنیاد ’’تنوع اور اختلاف ‘‘ کے فطری تصور پہ رکھتی ہے تو اسلام پہ اٹھنے والے اعتراضات جدید دنیا میں اپنی اہمیت برقرار نہیں رکھ پاتے ،یہ اعتراضات مزید توانائی اس وقت حاصل کرتے ہیں جب مسلمانوں کے عملی اقدامات ان کی تائید کرتے ہیں۔ اسلام کا عمومی مزاج رواداری کا ہے کیونکہ اسلام کی عمارت نسل پرستی اور گروہ پسندی پہ قائم نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے دور رسالتؐ ،دور صحابہؓ اور ان کے بعد کے ادوار میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے اختلافِ نظریہ ومذہب کے باوجود، انسانی تکریم ،برداشت اور میانہ روی میں کوئی کمی نہ کی۔ کتبِ سیرت میں ہے جب رسول اللہ ؐکے سامنے ایک یہودی کاجنازہ گزرا تو آپ اس کے لئے کھڑے ہو گئے۔ صحابہؓ نے عرض کی مرنے والا یہودی ہے، آپؐ نے فرمایا کیا وہ انسان نہیں ہے؟ 
قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا ’’دین میں جبر نہیں ہے‘‘ یہ آیت فقط یہاں پہ مکمل نہیں ہوتی اس سے آگے بھی فرمایا ،’’ہدایت گمراہی سے واضح ہو گئی‘‘۔رشدو ہدایت واضح ہونے کے باوجود فرمایا گیا’’دین میں جبر نہیں ہے‘‘یعنی انسانی ارادے پہ کوئی قدغن اورجبر نہیں ہے ،اللہ نے اپنی ذمہ داری (رسول اللہ کے ذریعے) ادا کر دی کہ ہدایت کو واضح کر دیا اس لییفرمایا ’’جو چاہے مومن بنے اور جو چاہے کافر بنے ‘‘ یہ آزادی حق واضح ہونے کے بعد دی گئی ہے۔اگر یہ آزادی نہ ہو تو جزاء و سزا حساب و کتاب کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ اگرانسان کسی گروہ یا ریاست کے ذریعے مجبورِ محض بنا دیا جائے اور اسے کسی خاص عقیدے اورنظریے پر ایمان لانے کا پابند کر دیاجائے تو جہاں آخرت میں جواب دہی کے تصور پہ سوال اٹھتا ہے وہاں اسلام کی رواداری کا سورج گہنا جاتا ہے۔حضرت عمرؓکے زمانے میں جب بنوتغلب مغلوب ہوئے تووہ اپنے قدیم مذہب کوچھوڑنے کے لییراضی نہ تھے، حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ ان پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے، اور وہ اپنے مذہب کی پیروی میں آزاد ہیں (طبری ج5خ ص2482)۔
ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے اپنی کتاب ’’Preaching of Islam ‘‘میں مسلمانوں کی رواداری کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں۔دورِ حاضر کی مورخ اورسکالر کیرن آرم سٹرانگ نے اپنی تصنیف کردہ کتب میں بھی ان واقعات کو نقل کیا ہے۔ اسی طرح برنارڈلیوس، جوزف شاخت اورباسورتھ وغیرہ نے تاریخی پس منظر میں اس موضوع پہ قلم اٹھایا ہے مثلاً برٹارڈلیوس لکھتے ہیں ’’مسلم اور یہودی مہاجرین کے علاوہ وہ منحرف عیسائی جو اپنی حکومتوں سے مذہبی اورسیاسی اختلافات رکھتے تھے ترکوں کے یہاں آ کرپناہ لیتے تھے اور ان کی رواداری اور عدل گستری سے فیض یاب ہوتے تھے۔ترکوں کے مفتوحہ علاقوں کے کسانوں کی حالت سدھر گئی، لڑائی بھڑائی اوربد انتظامی کے بجائے ملکی وحدت اورامن وامان کا دور دورہ ہوا جن کی وجہ سے اہم سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں رونما ہو ئیں (اردو ترجمہ معارف، دارالمصنفین)ایسے بہت سے واقعات فقط مسلم مورخین نے ہی نہیں بلکہ اسلام کے سخت ناقدین نے بھی نقل کئے ہیں اور اسلام کی تعلیماتِ رواداری کو تسلیم کیا ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ اسلام رواداری کامذہب ہے یا نہیں، اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں رواداری کی ایسی اعلیٰ مثالیں ناپید کیوں ہو گئیں۔ایسی اعلیٰ مثالیں جو مسلم اورغیر مسلم کے مابین تھیں، اب مسلمانوں کے فرقوں کے باہمی تعلقات میں بھی خال خال دکھائی دیتی ہیں۔ دنیائے اسلام میں فرقہ واریت کی آگ نے ’’گھر کے چراغ ‘‘ کا کردار ادا کر کے گھر کوہی خاکستر کر دیا ہے۔ عدم رواداری کے ماحول میں، مسلمان مسلمان کی گردن کاٹ رہا ہے، اپنے مسلمان بھائی کاخون بہا رہا ہے۔ شام، عراق، لیبیا، افغانستان اس کی مثالیں ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسی دین کے نام پہ ہو رہا ہے جوسراپا رحمت ہے ،جوتکریم انسانیت، رواداری اورحرمتِ دم کی تعلیم دیتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس کی ایک اہم وجہ وہ مذہبی فکر ہے۔جو حالات کے زیرسایہ پرورش پاکر جوان ہوئی ہے ہم نے اقتدار وغلبہ بواسطہ اسلام مسلمانوں کا حق قرار دیا ہے جبکہ قرآن مجید اقتدار کو مشروط عمومی اصول پہ کرتا ہے،یعنی کوئی قوم اللہ تعالی کی پسندیدہ اور لاڈلی نہیں ہے۔ نفع رسانی اور کائناتی علوم جس کا چلن ہو گا دنیامیں اقتدار کا ہْما اسی کے سر پہ بیٹھے گا۔
آج مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اقتداراور سیاسی غلبہ کے حصول میں اپنی توانائیاں صرفلیے ہوئے ہیں ،اسی خواہش نے ان کی نظر میں اپنوں کوبھی دشمن بنا دیا ہے خواہ وہ مسلم حکمران ہوںیا مسلم عوام۔رواداری کے حوالے سے جب بھی کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے تو تاریخ کے حوالے پیش کیے جاتے ہیں جس سے یہ تاثر پیدا کیاجاتا ہے کہ رواداری ایک فریضہ نہیں ہے بلکہ خیرات ہے جو مسلمان دوسروں کی گود میں احساناً ڈالتے آئے ہیں۔اگر اب بھی یہ خیرات ڈال دیں گے تو ان کی مہربانی ہو گی جبکہ رواداری خیرات نہیں ذمہ داری ہے جو مسلمان کو ہر حال میں ادا کرنی ہے۔ ورنہ دنیا میں امن سے رہنے کاجوازباقی نہیں رہتا۔
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال گزشتہ چالیس سال سے قائم سیاسی اورمذہبی فکرکا نتیجہ ہے۔ چالیس سال کے تجربہ کے بعد یہ محسوس کیاجا رہا ہے کہ اس فکر کے غلبہ اورتسلط سے پاکستانی معاشرہ اسلامی اقدار میں زوال کا شکار ہوا، اس میں انسانی ذات Ignorہوئی ہے۔ مجموعی طور پر معاشرہ رواداری اوربرداشت سے خالی ہوا ہے۔ چونکہ مذہبی فکرتفریق و تقسیم پہ قائم ہے۔ اس کے ہاتھ میں طاقت و سرمایہ نے اس تفریق و تقسیم کومزید گہرا کیا کہ آج کسی فرقے والے کی جان محفوظ نہیں ہے۔ متبادل بیانیہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا نام ہے جو ریاست کو طاقت ور کرتا ہے، جس کے مطابق مذہبی مقامات کو عوام کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لییاستعمال کیا جائے ،ناں کہ فرقہ وارانہ مقاصدکے لیے۔۔۔ایسے لٹریچر کی ترویج و اشاعت پہ پابندی ہو جس نے بھائی کوبھائی کا قاتل بنا دیا ہے۔سزا ؤں کا اختیار فقط عدالتوں کے پاس ہوناں کہ افراد معاشرہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو کراپنی مرضی کے فیصلے صادر کر تے پھریں ،جس کے مطابق سزا فقط توہین مذہب کے مرتکب کو ہی نہ ملے بلکہ تہمت و الزام لگانے والا بھی سزاوار ہو۔اقلیتیں، اقلیتیں نہیں بلکہ پاکستانی اور برابر کے شہری ہوں۔ مساجد کا مکمل کنٹرول ریاست کے پاس ہو، مدارس کے نظام تعلیم و تدریس کی نگران ریاست ہو۔۔۔کوئی جتھا ،جہاد و قتال کے نام پہ قائم نہ ہونے پائے، اگر کسی ملک کے ساتھ جغرافیائی وسیاسی اختلاف ہوں تو اس کاحل ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سفارتی اور سیاسی انداز سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈے۔ عوام کی جذباتی بلیک میلنگ نہیں ہونی چاہیے۔ جب ہم معاشرہ، ریاست اور فرد کے تعلقات کو اسلامی اصولوں، اجتہاد اور جدید ریاستی تصور کی روشنی میں قائم کریں گے تو پاکستان میں رواداری ،مساوات اوربرداشت جیسی اعلیٰ اقدار غلبہ پائیں گی۔