working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

پاکستان میں عسکریت پسندوں کا بدلتاہوا منظر نامہ

محمد عامر رانا

عامر رانا پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور تجزیات کے مدیر ہیں ۔ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے ایک توانا آواز ہیں ۔ گزشتہ کئی سالوں سے تحقیق و تصنیف سے منسلک ہیں ۔ان کی کتابوں کی شہرت چہار دانگِ عالم میں ہے ۔ انگریزی روزنامہ ڈان میں تواتر کے ساتھ کالم لکھتے ہیں۔ان کا زیر نظر کالم جیو ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع ہوا جس کا اردو ترجمہ قارئینِ تجزیات کے لیے شائع کیا جا رہا ہے ۔(مدیرمنتظم)

جماعت الاحرار نے اپنے قیام 2014ء سے ہی پاکستان بھر میں وحشیانہ حملوں کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ بہت مہلک دہشت گرد گروہ ہے۔اس کے زیادہ تر رہنما افغانستان میں قیام پذیر ہیں مگر باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں میں اس کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے جبکہ اس کے مددگار پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ عسکری گروہ کے سرغنہ عمر خالد خراسانی ہیں ۔یہ بڑے پر عزم قسم کے طالبان کمانڈر ہیں جو پاکستانی طالبان کی شوریٰ کے ممبر بھی رہے انہوں نے اس وقت طالبان سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے جب انہوں نے حکومت سے امن مذاکرات شروع کیے تھے ۔
اگست 2014ء سے تاحال اس گروپ نے پاکستان بھر میں 116دہشت گرد حملے کیے جن میں سیکورٹی فورسز پر حملوں سمیت اقلیتوں اوردیگر فرقے بھی شامل ہیں۔
گزشتہ سال الاحرار نے آپریشن ’’الرعد ‘‘ (طوفان)کا آغاز کیا ۔اس کے فوراً بعد ہی اس نے چارسدہ یونیورسٹی، لاہور میں ایسٹر کے موقع پرمسیحی کمیونٹی پر ،کوئٹہ کے سول ہسپتال اورمردان کے سیشن کورٹ اور مہمند ایجنسی میں ایف سی کیمپ پر حملے کر دیے ۔گزشتہ ماہ کے آغاز میں اس نے ’’آپریشن غازی ‘‘ شروع کر دیا اور اس کے بعد سے اس نے فائرنگ اور بم کے آٹھ حملے کیے ہیں۔
گروپ کی حکمت عملی دیکھی جائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ لمبا عرصہ خاموش رہنے کی بجائے ایک کے بعد فوراً دوسرا حملہ کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس پھیلایا جا سکے ۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستانی طالبان کی کم ہوتی ہوئی صلاحیتوں کی وجہ سے جماعت الاحرار کو تقویت ملی ہے ۔کیونکہ اس گروہ میں نئی فکر، سیاست اور نئے آپریشنل رجحانات کو سمونے کی صلاحیت موجود ہے ۔
قبائلیوں کی طالبان تحریک میں خالد خراسانی کی حیثیت نظریہ ساز کی سی ہے ۔وہ طالبان کے سہ ماہی میگزین ’’احیائے خلافت ‘‘ کے مدیر بھی رہ چکے ہیں اور پاکستانی عسکریت پسندوں کے کئی گروہوں کا حصہ بھی رہے ہیں جن میں کالعدم حرکت المجاہدین اور جیشِ محمد شامل ہیں۔
جواں سال شدت پسند رہنماؤں کیلیے لال مسجد کا محاصرہ نقطہ عود ثابت ہوا۔(حتیٰ کہ اس نے2007میں اپنے آبائی گاؤں غازی آباد مہمند ایجنسی میں واقع مسجد کانام تبدیل کرکے لال مسجدرکھ دیا)۔
جیسے ہی خراسانی نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے توا س نے2008ء میں افغان طالبان کے حمایتی کمانڈر شاہ خالد کو قتل کر دیا ۔
داعش اور الاحرار ایک ہی بیانیے کی پیداوار ہیں۔خراسانی اور اس کے قریبی رفیق عمر عاصم جو بعد ازاں القاعدہ برِ صغیر کے سربراہ بنے وہ دونوں علاقائی اور عالمی سطح پر عسکری رہنماؤں کی حکمت عملیوں سے متفق نہیں تھے ۔یہ دونوں ابو بکر ناجی اور ابو معصب الصوری کے ساتھ ابو معصب الزرقاوی کی شدت پسند حکمت عملی سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔ناجی کی شائع شدہ تحریروں جن میں ’’بربریت کا انتظام ،امت کیلیے سب سے بڑا چیلنج‘‘جس میں وہ پہلے کی انتہا پسند تحریکوں کے تجربات بیان کرتے ہوئے مستقبل کی تحریکوں کے رہنما اصول بیان کرتے ہیں۔جبکہ صوری کی 1600صفحات پر مشتمل کتاب’’مسلمانوں کی عالمی مزاحمتی تحریک کی ضرورت ‘‘ اس کو بھی دونوں رہنماؤں نے مطالعہ کر رکھا تھاجس میں بغیر مرکزی رہنماؤں کے جہاد کرنا اور انفرادی لوگوں کو بھرتی کرکے ان سے خطرناک حملے کرانا شامل ہیں ۔
2014ء میں جب داعش نے عراق اور شام میں نام نہاد خلافت قائم کی تو الاحرار کے بارے میں خیال تھا کہ وہ شاید پہلا گروہ ہو گا جو اس کے ساتھ اتحاد کا اعلان کرے گا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ایساابھی تک نہیں ہوا۔حالانکہ اورکزئی ایجنسی سے کئی طالبان کمانڈروں نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اگرچہ یہ کمانڈر الاحرار کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے تھے مگر یہ زیادہ فرقہ وارانہ رجحانات رکھتے تھے اس لیے یہ ان کے لیے موزوں تھا کہ وہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی طالبان کا گروپ اندرونی خلفشار کا شکار تھا عالمی سطح پر ایک ایسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہو جائیں جو فرقہ واریت کی جانب زیادہ رجحان رکھتی ہے۔
بعد ازاں یہ محسوس کیا گیاکہ جماعت الاحرار کی لیڈرشپ ،افغان طالبان، القاعدہ اتحاد اور داعش کے درمیان تذبذب کا شکار رہی ۔یہ الاحرار کے لییمشکل تھا کہ وہ بیک وقت القاعدہ اور داعش جیسے دو مخالفین کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر سکتی ۔لیکن اسی دوران القاعدہ اور داعش دونوں کی حمایت افغان طالبان کو حاصل رہی ہے ۔
اسی عرصے میں اورکزئی کے طالبان کمانڈروں نے داعش کے ساتھ اتحاد کاا علان کر دیا تاکہ وہ مجاہدینِ خراسان کا لبادہ اوڑھ سکیں ۔اسسے قبل یہ لبادہ الاحرار نے اوڑھ رکھا تھا جو یہ دعویٰ کرتی تھی کہ وہ اسلامی ریاست خراسان کا ہراول دستہ ہیں ۔وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ علاقے میں اسلامی ریاست کے قیام کا وقت آ چکا ہے جس میں وسطی ایشیا، ایران، پاکستان اور افغانستان کے حصے شامل ہوں گے ۔
خراسانی کی یہ خواہش رہی کہ ا س کا گروپ خراسان تحریک کا حصہ رہے ا سی لیے الاحرار کسی ایک دہشت گردگروپ کے ساتھ منسلک نہیں رہنا چاہتی ۔وہ اگرچہ داعش کے قیام کی حمایتی ہے مگر ا س کے ساتھ وہ ایمن الظواہری کے اس خیال کی حمایت بھی کرتی ہے کہ القاعدہ کو بر صغیر میں فروغ حاصل ہونا چاہیے یہی وجہ ہے کہ عاصم کی زیر قیادت ا س نئے گروپ کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔
خراسانی نے چونکہ خود کو لاقاعدہ بر صغیر اور داعش سے الگ رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے عسکری گروہوں کے حلقوں میں ا س کی آزاد شناخت سامنے آئی ہے ۔اگرچہ فی الوقت اسے عسکری گروہوں میں ایک ایسے رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ منتشر گروہوں میں اتحاد کا باعث بن سکتا ہے۔
(بشکریہ جیو نیوز ڈاٹ ٹی وی، ترجمہ سجاد اظہر )