working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

2016میں سی پیک سیکورٹی پیش رفت

صفدر سیال

صفدر سیال پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں اور Conflict and peace studies جرنل کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں۔انہوں نے Dynamics of taliban insurgency in fata and radicalization in pakistan جسی کتب بھی لکھی ہے ۔ان کی پاکستان اور خطے میں رونما ہونے والے واقعات پر گہری نظر ہے اور اس حوالے سے ان کے مضامین دنیا کے مؤقر جریدوں کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ وہ دقیق سے دقیق مسائل کا بھی عمیق مطالعہ رکھتے ہیں ۔ان کا یہ مضمون چین پاکستان اقتصادی راہداری کا جائزہ سیکورٹی کے تناظر میں لیتا ہے ۔(مدیر)

5.1 سپیشل سیکیورٹی ڈویژن
5.2 نیوی کی ٹاسک فورس
5.3 دیگر اقدامات
5.4 چیلنجز اور مسائل 107
2016ء میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC) کیلئے بھی بہتر ہے تاہم اسلام پسندوں اور فرقہ وارانہ مسلح گروہوں کی بلوچستان میں بڑی کارروائیوں نے راہداری کے مختلف منصوبوں پر کام کرنے والوں کی تشویش بڑھا دی ہے کیونکہ گوادر کی بندرگاہ بلوچستان میں ہونے کے سبب اس صوبے کو سی پیک منصوبے میں اہم حیثیت حاصل ہے۔
2016ء میں کم از کم دو بڑے دہشت گرد حملے بظاہر ان چینیوں پر کیے گئے جو سی پیک سے متعلقہ پراجیکٹس میں مصروف تھے۔پہلا حملہ کراچی میں اور دوسرا اندرون سندھ روہڑی میں ہوا۔30مئی کو ایک چینی انجینئر ،اس کا ڈرائیور اور نجی محافظ نیشنل ہائی وے پر بم حملے میں زخمی ہوئے۔یہ حملے ایک قدرے غیر معروف سندھو دیش انقلابی آرمی نے سی پیک کی مخالفت میں کیے۔روہڑی(سکھر) میں ایک پٹرول پمپ کے احاطے میں ٹائر شاپ پر ایک قدرے کم طاقت کا بم پھٹا۔بم ایک سائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ بم کا نشانہ ایک چینی انجینئر کی گاڑی تھی جو اس حملے میں محفوظ رہا۔بتایا جاتا ہے کہ دو افراد اس موقع پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن پولیس اس دعوے کو مسترد کرتی ہے۔
تاہم مجموعی طور پر جنوبی وزیرستان،خیبر ایجنسی اور کراچی کے علاوہ بلوچستان کے کچھ حصوں میں ہونے والی ملٹری آپریشنز کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک اور عملی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے۔ثانیاً2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ جس میں100سے زائد بچے مارے گئے،کے وقت سے صوبائی او وفاقی حکومتیں زیادہ مستعدی سے عسکریت پسندوں کی نگرانی کررہی ہیں۔تیسرا حکومت نے2015 ء کے آغاز میں نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا ہے جو اگرچہ جزوی طور پر نافذ ہوا ہے لیکن اس کی وجہ سے ملک میں انتہا پسند اور جنگجو گروہوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
اس آرٹیکل میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے2016ء کے اقدامات اور سی پیک پراجیکٹس اور اس پر کام کرنے والے تمام لوگوں بشمول چینی باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔
5.1 سپیشل سیکیورٹی ڈویژن(SSD)
نئے سال کے موقع پر اپنے پیغام میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے سی پیککے لیے کیے گئے انتظامات کو2016ء میں پاک فوج کی بڑی کامیابی کے طور پر بیان کیا۔یہ کامیابی ضرب عضب کے فوجی آپریشن اور مختلف میزائلوں کے تجربے کے علاوہ تھی۔ اس پیغام نے واضح کیا کہ سی پیک پر عملدرآمد اور اس کے تحفظ کے لیے سپیشل سیکیورٹی ڈویژن اور ٹاسک فورس 88کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس نے کامیابی حاصل کی۔
چینی انجینئروں،پراجیکٹ ڈائریکٹرز،ماہرین اور پاکستان میں چین کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں پر کام کرنے والوں کے تحفظ کے لیےSSD کے قیام سے پاک فوج نے اس منصوبے میں مرکزی مقام حاصل کرلیا ہے۔SSD کا منصوبہ بنیادی طور پر2015ء میں بنایا گیا تھا۔اس کا مقصد15,500 فوجیوں والی6 انفنٹری بریگیڈ پر مشتمل فورس بنانا تھا جس میں ہر بریگیڈ میں تین انفنٹری یونٹ ہوں گے۔اس کے علاوہ ایک خصوصی انٹیلی جنس یونٹ کا منصوبہ بھی بنایا گیا جو محضSSD کے لیے کام کرے گا۔
اپنے پیشرو کی طرح نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ سی پیککے لیے فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور یہ کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جاری پراجیکٹس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے ہر ممکن’’تعاون‘‘ بھی فراہم کیا جائے گا۔
تاہم آئی ایس پی آر کے پیغام میں بیان کیے گئے کئی مقاصد میں کامیابی کے باوجود2016ء میںSSD کی تشکیل اور تعیناتی کا بڑا اور مرکزی ہدف حاصل نہ ہوسکا۔اس کا بنیادی تعلق متعلقہ مسائل سے تھا۔سی پیک میں چھوٹے صوبوں کے حصے پر ان کے تحفظات نے ایس ایس ڈی کی ترقی اور تعیناتی،انفراسٹرکچر/لاجسٹکس،ہتھیار،سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے مختلف حصوں کی شرکت اور کوشش کیلئے درکار پیسوں کو متاثر کیا ہے۔
منصوبے کے مطابقSSD کی متوقع بھرتی دوسرے مرحلے پر32,000 تک بڑھانی تھی جس میں 2016ء میں13,000 سے زائد فوجیوں کی شمولیت بھی شامل تھی۔باقی تعداد کو دوسرے علاقوں کی دوسری فورسز سے پورا کیا جانا تھا۔(2015ء میں ان یونٹوں کی تشکیل پر کام شروع کیا اور2016ء میں بھی جاری رہا)۔ان فوجیوں کی بھرتی پیرا ملٹری ایف سی کے بارہ ونگز سے5500 فوجی پیرا ملٹری، رینجرز سے تاحال تعداد کا اعلان نہیں کیا گیا)،پولیس کے کاؤنٹر ٹیرر ازم یا سپیشل یونٹوں سے3000،لیویز سے1000 اہلکار،قراقرم فورس سے400 اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن سے12یونٹس ہونی تھی۔
اس دوران مختلف صوبوں میںSSD کی تشکیل اور سرگرمیاں مختلف ہوں گی۔بلوچستان میں ایف سی آرمی،پولیس اور لیویز کا مرکزی کردار ہوگا۔سندھ میں رینجرز بنیادی فورس ہوگی جو فوج اور پولیس کی مدد سے کام کرے گی۔پنجاب میں پولیس فوج کی مدد سے اپنی خدمات انجام دے گی اور خیبرپختونخوا میں پولیس کی مدد سے فوج مرکزی کردار ادا کرے گی اور گلگت بلتستان میں بھی فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی۔
2ستمبر کو قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے ڈاکٹر شاہدہ رحمانی کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزارت داخلہ کی ایک سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے سی پیک سے جڑے پراجیکٹس کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیےSSD قائم کی ہے۔ میڈیا پر جاری کی گئی دستاویز کے مطابق 9 انفنٹری بٹالین اور6سول آرمڈ فورسز ونگز پر مشتملSSD کی تشکیل2.3 بلین سے زیادہ کی لاگت سے کی گئی ہے جس کی سربراہی میجر جنرل عابد رفیق کریں گے۔’’حکومت نے سویلین مسلح فورسز جس میں چاروں صوبوں میں کم از کم4502 سیکیورٹی اراکین ہوں گے تشکیل پر5.8بلین خرچ کیے ہیں‘‘۔مزید تفصیلات یہ ہیں۔
’’حکومت نے2190 نفری پر مشتمل پنجاب رینجرکے تینSSD ونگز اور خیبرپختونخوا میں852 سیکیورٹی اراکین پر مشتمل ایف سی کا ایک ونگ بنایا ہے۔اسی طرح ایف سی بلوچستان کا730 افراد پر مشتمل ایک ونگ اور730 پر مشتمل سندھ رینجرز بنائی ہے۔6300 سے زائد نفری پنجاب میں176 چھوٹے بڑے پراجیکٹس میں مصروف تقریباً3800 چینیوں کی سیکیورٹی پر مامور ہے۔خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں19 پراجیکٹس پر مصروف700 سے زائد چینیوں کی سیکیورٹی پر2000 سے زائد سیکیورٹی اہلکار کام کررہے ہیں۔بلوچستان میں8 پراجیکٹس میں مصروفِ کار600 چینیوں کی سیکیورٹی پر3200 جبکہ سندھ میں103 منصوبوں میں مصروف1140 چینیوں کی سیکیورٹی پر2640 اہلکار مامور کیے گئے ہیں۔اسلام آباد میں6 میگا پراجیکٹس میں مصروف900 چینی انجینئروں کی سیکیورٹی پر439 پولیس جبکہ15 پراجیکٹس میں مصروف1700 چینی کارکنوں کی حفاظت پر1270 اہلکار مامور ہیں۔ فاٹا میں سالوں پہلے شروع ہونے والے منصوبوں پر مصروفِ عمل13 چینی کارکنوں کی حفاظت667 اہلکار کررہے ہیں‘‘۔
تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتیں اکتوبر2016ء تک سی پیک کی حفاظت کیلئے حتمی ٹی او آرز پر متفق نہیں ہوسکیں۔اس مہینے میں آنے والی ایک نیوز رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر کا بیان پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ سی پیک کی سیکیورٹی کےSSD کی تعیناتی اس ہفتے فائنل ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق پلاننگ ڈیویلپمنٹ ریفارم کے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں ہونے والا ایک اجلاس جو سی پیک کی ڈیویلپمنٹ پر بریفنگ کے سلسلے میں ہوا،وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ’’ٹی او آرز کے مسئلے پر پنجاب حکومت کا جواب بھی واضح نہیں‘‘۔اس سلسلے پر صوبائی تعاون کی بھی ضرورت ہے کیونکہ سی پیک سیکیورٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں دونوں کی ذمہ داری ہے۔
تاہم ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہSSD کے کام کرنے کے ٹی او آرز پر فوج اور وفاقی حکومت میں اختلافات ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ یہ اختلافات مجوزہ ٹی او آرز میں فوج کے متوقع کردار پر پیدا ہوئے۔’’جس کے متعلق حکومت کا خیال ہے کہ دو قانون نافذ کرنے والے اداروں پر فوج کی اثر اندازی سویلین انتظامیہ کی اتھارٹی پر اثر انداز ہونے کی حد تک پھیل سکتی ہے‘‘۔
نیوی کی ٹاسک فورس۔88
13 دسمبر کو سی پیک پر ایک انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس گوادر میں ہوئی تاکہ سپیشل’’ٹاسک فورس88‘‘بنائی جاسکے۔یہ فورس گوادر پورٹ اور اس کی سمندری حدود کے روایتی اور غیر روایتی خطرات کے خلاف تحفظ کے لیے بنائی گئی۔بحری جہاز،تیزمار کرافٹ،سپیڈ بوٹس،ہوائی نگرانیکے لیے جہاز اور ڈرونز ٹاسک فورس88 کا حصہ ہیں۔گوادر کے اردگرد نگرانی اور سیکیورٹی آپریشنز کے لیے آبدوزیں اس کے علاوہ ہیں۔
قبل ازیں نومبر میں چوتھی پاک چائنا نیول مشقیں کی گئیں تاکہ سی پیک سیکیورٹی کو درپیش خطرات کا مکمل مقابلہ ہوسکے۔ پاکستان نیوی نے ایک کوسٹل سیکیورٹی اور ہاربر ڈیفنس فورس بھی قائم کی ہے’’جو ساحل کے ساتھ خطرات سے نمٹے گی اور ایک فورس پروٹیکشن بٹالین چینی ورکروں کی حفاظتکے لیے گوادر میں متعین کی جائے گی‘‘۔
5.3 دیگر اقدامات
24 دسمبر کو ایک چینی وفد سے ملاقات میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ نے صوبے میں چینی ورکروں کے تحفظ کے2010 ء سابقہ فوجیوں پر مشتمل ایک سپیشل فورس قائم کررہی ہے۔فارن منسٹری ڈائریکٹر جنرل برائے خارجی تحفظ لائی گوانگ یون کی سربراہی میں آئے وفد کو انہوں نے بھرتی کیے گئے4000 پولیس والوں کا معائنہ بھی کروایا جنہیں سی پیک منصوبوں پر مصروف چینیوں کے تحفظ کے لییفوج کی نگرانی میں تربیت دی جارہی تھی۔تھر انرجی پراجیکٹ پر کام کرنے والے800 چینیوں کے تحفظ کے لیے150 پولیس والوں کو پہلے ہی متعین کیا جا چکا ہے۔
اسی طرح پنجاب حکومت نے سپیشل پروٹیکشن یونٹ(SPU) قائم کیا ہے تاکہ صوبے میں سی پیک،اس کی تنصیبات اور مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والی افرادی قوت اور غیر ملکی ماہرین کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔آئی جی پولیس مشتاق احمد سکھیرا نے23 ستمبر2016 ء میںSPU اور پنجاب کانسٹیبلری ٹریننگ سکول روات کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اس کا اعلان کیا۔
’’اکتوبر میں میڈیا نے رپورٹ جاری کی کہ ’’سپارکو ‘‘سی پیک کی مانیٹرنگ اور دہشتگردی،مجرمانہ سرگرمیوں کی زد میں آسانی سے آنے والے علاقوں کی حفاظتکے لیے سیٹلائٹ سروس مہیا کرے گاجبکہ سپارکو پہلے ہی گوادر اور خنجراب(پاک چین سرحد) تک پوری راہداری کی مکمل نگرانی کررہا ہے‘‘۔
قبل ازیں ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان اور چین سی پیک /راہداری کی نگرانی کے لیے سیٹلائٹ بنا رہے ہیں۔سندھ کے وزیرِ ٹرانسپورٹ سید ناصر حسین شاہ نے سپیس سائنس اور ٹیکنالوجی کی چوتھی قومی کانفرنس سے خطاب میں یہ اعلان کیا کہ جو کراچی کی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس اینڈایلمنٹری آسٹرو فزکس یونیورسٹی نے منعقد کی تھی۔
5.4 چیلنجز اور مسائل
پاکستان اور چین دونوں ہی کو اس بات پر تشویش ہے کہ کچھ بیرونی عناصر خصوصاً ایک ہمسایہ ملک سی پیک سے جڑے منصوبوں پر عمل درآمد اور سیکیورٹی کیلئے سنجیدہ چیلنج ہے۔پاکستان کے سویلین اور فوجی رہنماؤں نے بار بار ان خدشات کا اظہار کیا ہے اور کچھ بڑے دہشتگرد حملوں کو ان بیرونی عناصر سے منسوب بھی کیا ہے۔مثال کے طور پر اوائل ستمبر میں گلگت بلتستان میں سی پیک سیمینار میں سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے ملک اور اس منصوبے کو غیر مستحکم کرنے والے بیرونی عناصر کو سخت متنبہ کیا،ساتھ ہی چینی سفیر کے ہمراہ دورہ بلوچستان کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے اس پیغام کا اعادہ بھی کیا تھا۔اسی طرح میڈیا پر وفاقی وزیر احسن اقبال کا یہ بیان بھی دسمبر میں چلا تھا کہ’’ایسے اکا دکا واقعات کے لیے پاکستان کے باہر سے امداد دی جاتی ہے تاکہ سی پیک کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جائے‘‘۔
کچھ ایسے مسائل اور ابہام ہیں جو نہ صرفSSD اور دیگر فورسز جنہیںSSD کا حصہ بننا ہے کے تعین میں تعطل کا سبب بن رہے ہیں بلکہ یہ کام کی رفتار اور باہمی تعاون کو بھی متاثر کررہے ہیں۔سب سے پہلا مسئلہ توSSD کی کمانڈ اور کنٹرول کا ہے کیونکہ اسے مختلف فورسز اور مقامی فوجوں سے تشکیل دیا گیا ہے اور جو صوبوں کی عملداری میں آتی ہیں۔اگرچہ وفاقی سطح پر ایک انٹیلی جنس یونٹ کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے،ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مطلوبہ انٹیلی جنس سے کم ہوگا اور مقامی سطح پر خطرات کا اندازہ لگانے کے لیے ناکافی ہوگا۔اس سے صوبائی سطح کے سیکیورٹی سٹرکچرز کے ساتھ انٹیلی جنس یونٹ کی رابطہ کاری کا مسئلہ بڑھے گا،پھر ایسی فورسز اور ان کے آپریشن کے لیے درکار موثر بحالی کے راستے میں مالی اور بجٹ کے مسائل بھی رکاوٹ پیدا کریں گے۔
پاکستان کے خصوصاً سی پیک کے لییمخصوص سیکیورٹی انفراسٹرکچرکے لیے چین کا اعتماد حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔کچھ چینی کمپنیوں نے اپنے سیکیورٹی انتظامات کی تجویز بھی دی ہے جو پاکستان نے سیاسی،سماجی،ثقافتی اور بیوروکریسی کے مسائل کی بناء پر رد کردی ہے۔اسی طرح ایک بڑے بیرونی میڈیا ہاؤس نے حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ’’ چینی کمپنیوں کے بیرون ملک منصوبوں میں چینی سیکیورٹی کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر چینی ماہرین میں بھی تشویش رہی ہے‘‘۔ایک ممتاز چینی تھنک ٹینک کی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان میں جاری منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کو اپنے سیکیورٹی مسائل خود حل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔تاہم وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق یہ چینی سیکیورٹی کمپنیوں کے اپنے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں داخل ہوں کیونکہ اگر وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے میں ملوث پائے گئے تو ان کی موجودگی متنازع بن سکتی ہے‘‘۔تاہم چینی حکومت نے سی پیک سے جڑے منصوبوں اور افراد کی سیکیورٹی کے لیے پاکستانی حکومت کے اقدامات پر بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔
پھر سی پیک پر سیکیورٹی انتظامات پر بتدریج بڑھتے اخراجات کا مسئلہ ہے۔ستمبر میں فنانس منسٹر اور آرمی چیف کے درمیان ایک خصوصی میٹنگ میں سی پیک سیکیورٹی کے لیے قائم کی گئی دو ڈویژنوں کی فنڈنگ کا معاملہ زیر بحث آیا۔کچھ دن بعدECC کی میٹنگ میں وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ سی پیک سیکیورٹی فورس پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے سی پیک کے زیر تعمیر پاور پراجیکٹس کی بنیادی لاگت کے پی سی ون میں شامل کردیا جائے اور نیپرا کو یہ ٹاسک دیا جائے کہ وہ ان پلانٹس کو دیئے گئے ٹیرف میں اس لاگت کو بھی شامل کرے تاہم نیپرا نے اس تجویز پر اعتراض کیا۔
سیکیورٹی اخراجات محض ایک بار ہونے والے اخراجات نہیں،نہ ہی یہ زیادہ دیر تک چل سکتے ہیں۔اسلییان کو پورا کرنیکے لیے مستحکم انتظامات کی ضرورت ہے۔پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے بھی اپنی بہترین کوشش کرنی چاہیے اور بارڈر پر سیکیورٹی اور کوآرڈینیشن کے لیے مشترکہ میکانزم نافذ کرنا چاہیے۔پاک افغان بارڈر پر عدم تحفظ سی پیک منصوبوں اور کارکنوں کے لیے شدید خطرات پیدا کرسکتا ہے۔