working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
01 April 2017
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

بلوچستان میں خون ریزی

شہزادہ ذولفقار

شہزادہ ذولفقارکوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز صحافی ہیں ۔انہیں حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے صحافتی خدمات پرپرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا ہے ۔شہزادہ ذولفقار کوئٹہ پریس کلب کے صدر بھی ہیں ۔ ان کازیر نظر مضمون بلوچستان میں جاری شورش اور فرقہ وارانہ تصادم کی مختلف حرکیات کا جائزہ لیتا نظر آتا ہے ۔ (مدیر)

حکومت بلوچستان کے صوبے میں بحالی امن اور دہشتگردانہ سرگرمیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے دعوؤں کے برعکس پورے2016ء میں دہشت گرد کارروائیاں جاری رہیں۔
اگرچہ نیشنل ایکشن پلان کی بدولت علیحدگی پسند باغیوں کی پرتشدد کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن کالعدم فرقہ وارانہ اور دیگر مسلح گروہوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔اس میں بے شمار ہلاکتوں والے خصوصاً خود کش حملے شا مل ہیں جن میں8اگست کو سینڈے مین پراونشل ہسپتال(کوئٹہ) میں وکلاء پر حملہ،24 اکتوبر کو پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے کیڈٹوں پر حملہ اور12نومبر کو شاہ نورانی کے مزار(خضدار) پر حملہ شامل ہیں۔ان تینوں حملوں میں180 لوگ جن میں وکلاء اور پولیس والے شامل ہیں ہلاک ہوئے جبکہ300 سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔
بلوچستان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں سرگرم مسلح گروہ بھلے انتہا پسند ہوں یا علیحدگی پسند باغی،ان کی سرپرستی بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی را اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیNDS کررہی ہے۔اپنی پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر داخلہ نے ان درجن بھر افغانیوں کے اعترافی بیانات کی ریکارڈنگ بھی دکھائی ہیں جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا تھا۔ان بیانات میں افغانیوں نے اعتراف کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے ان کی تربیت کی ہے اورNDS نے انہیں پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں مثلاً ٹارگٹ کلنگ اور صوبے کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں کیلئے بھیجا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ فرقہ وارانہ جماعت کالعدم لشکر جھنگوی کے ترجمان ابو سفیان عرف امیر معاویہ کی محفوظ پناہ گاہ افغان سرحدی قصبے سپن بولدیک میں ہے جہاں سے وہ پاکستان میں ہندوستان اور افغانی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے دہشتگرد کارروائیاں کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت کو20نکاتی نیشنل ایکشن پلان اختیار کیے ہوئے دو سال ہوگئے ہیں جس کا بنیادی مقصد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
NAP کی تشکیل سے پہلے بھی انٹیلی جنس کی بنیادوں پر بلوچستان میں عسکریت پسندوں کیخلاف کارروائیاں ہوتی رہی تھیں لیکن25جنوری2016 کے بعد ان کا امن سکون ختم ہوگیا۔2016 ء میں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی بغاوت میں کافی حد تک کمی ہوئی لیکن مذہبی بنیادوں پر انتہا پسندی باقی رہی۔خیبرپختونخوا میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملٹری آپریشن سے صوبے میں ان کے پھلنے پھولنے کے امکانات اتنے کم ہوگئے ہیں کہ اب ان میں سے کچھ نے اپنی توجہ بلوچستان کی طرف مبذول کرلی ہے جہاں اس دوران سیکیورٹی اقدامات اتنے اچھے نہیں رہے تھے۔
شیعہ کمیونٹی پر کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے حملوں میں کمی آئی ہے۔یہ شاید عسکریت پسندوں کی حکمت عملی کا حصہ ہو یا وہ اپنی کمین گاہوں میں چھپ گئے ہوں یا اس دوران ان علاقوں میں اپنے پاؤں مضبوط کررہے ہوں جہاں آپریشن جاری ہے یعنی کوئٹہ کے اردگرد کے علاقے یا ضلع مستونگ۔تاہم فرقہ وارانہ دھڑوں سے چھوٹے گروہوں میں شیعہ کمیونٹی پر چھوٹے چھوٹے حملے جاری رہتے ہیں۔
بلوچستان کے32 میں سے24 اضلاع میں علیحدگی پسند باغی سرگرم رہے ہیں۔2016 ء میں ان کی سرگرمیوں میں کمی تو آئی ہے لیکن ان کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔وہ سیکیورٹی فورسز،سویلین اور حکومتی تنصیبات پر لورا لائی،موسیٰ خیل،ہرنائی اور بلوچستان کے مشرقی اور مغربی حصوں میں حملے کرتے رہے ہیں۔حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکزی باغی کمانڈر جسے بلوچ لبریشن فرنٹ کے ڈاکٹر اللہ نذر،یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے عبدالنبی بنگل زئی اور بلوچ لبریشن آرمی کے اسلم اچھو انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والے آپریشن میں ہلاک کردیئے گئے تاہم اللہ نذر اور بنگل زئی کے ویڈیو پیغامات یکے بعد دیگرے سوشل میڈیا پر سامنے آئے جبکہ بلوچ لبریشن آرمی نے بھی دعویٰ کیا کہ اچھو زندہ ہے۔یکم جنوری سے12 نومبر 2016ء تک145 مبینہ حملوں میں400سے زائد افراد ہلاک ہو چکے تھے جن میں سویلین،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور ایف سی کے جوان شامل ہیں البتہ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں طالبان اور فرقہ پرست گروہوں مثلاً لشکر جھنگوی العالمی کے حملوں میں واقع ہوئیں تاہم بلوچ علیحدگی پسند باغیوں کے گروپ چھوٹی سطح کے حملے کرنے میں کامیاب رہے۔جن میں عام آدمیوں کو سیکیورٹی ایجنسیوں کے ایجنٹ قرار دے کر مار دیا گیا ۔یہ بھی دراصل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری تنصیبات پر حملے ہی کی کوشش تھی۔بلوچستان کے وسطی اور مغربی اضلاع میں جہاں باغیوں نے امن و امان کی صورتحال کافی خراب کردی تھی۔2016ء کے آخر تک ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ساحلی مکران کے کچھ اضلاع میں البتہ علیحدگی پسند باغی گروہ البتہ اس وقت بھی فعال تھے البتہ سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے بعد ان کی سرگرمیاں محدود محسوس ہوتی تھیں۔
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ سے متعلقہ اقتصادی سرگرمیوں کے تناظر میں حکومت خطے میں امن و امان کی بحالی کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔پاکستان کے لیے سی پیک کی سٹریٹیجک اور اقتصادی اہمیت کے پیش نظر اس منصوبے کی تکمیل کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔گوادر سے سی پیک روٹ اور گوادر ٹاؤن میں باقاعدہ فوج اور ایف سی اہلکاروں کی اچھی خاصی تعداد میں تعیناتی کی گئی ہے۔مکران کوسٹ کے اردگرد کے پانیوں کی نگرانی اور تحفظ کے لیینیوی کا ایک سپیشل ونگ بھی تعین کیا گیا ہے۔
باغی گروپ بلوچ لبریشن فرنٹ کے رہنما جو بلوچستان کے مغربی اور وسطی اضلاع میں سرگرم تھے اب کمین گاہوں میں جا چکے ہیں خواہ یہ کمین گاہیں ایرانی سرحد کے قریب ہوں یا افغانستان اور ایران بارڈر کے اندر۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابقBLA نے2016ء میں تقریباً25 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بلوچ ری پبلکن آرمی کے مسلح رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے مشرقی اضلاع خصوصاً بگٹی کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں سیکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں جبکہ ان کا لیڈر براہمداغ بگٹی خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہا ہے۔یہ علیحدگی پسند باغی گروہ2016ء میں ہونے والی 30سے زائد کارروائیوں اور حملوں کی ذمہ د اری قبول کر چکا ہے۔
اسی طرح کوہلو مری کے علاقے میں علیحدگی پسند رہنما نواب خیر بخش مری کے وفادار جو بلوچستان لبریشن آرمی کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے اوراب سندھ کے دیگرعلاقوں بشمول کراچی میں منتقل ہو چکے ہیں۔کوہلو اور بلوچستان بھر میں کارروائیوں میں ملوث یہ گروہ2016ء میں ہونے والے70سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔بلوچستان لبریشن آرمی البتہ بلوچ باغی گروہوں میں سب سے پرانی اور موثر ہے۔مرحوم نواب خیر بخش مری نے اپنے بڑے بیٹے ہربیار مری کی لاتعلقی کے بعد ضماران عرف مہران مری کو نامزد کیا جس نے ایک اور باغی گروپ یونائیٹڈ بلوچ آرمی کی بنیاد رکھی۔ہربیار جو اب بلوچ لبریشن آرمی کا سربراہ ہے اور مہران جو لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہا ہے۔یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے2016ء میں مستونگ،قلات اور بولان کے اضلاع میں ہونے والی درجن بھر کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔اس کا دائرہ عمل انہی علاقوں تک محدود دکھائی دیتا ہے۔
ایک بلوچ رہنما سردار عطاء اللہ مینگل کے بڑے بیٹے جاوید مینگل کی قیادت میں کام کرنے والا ایک اور باغی گروہ لشکر بلوچستان بھی2016ء کے دوران تقریباً20 حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔
2016ء میں حکومت کی عام معافی کی سکیم کے تحت500 بلوچ باغی متحارب افراد حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔انہوں نے بغاوت چھوڑنے اور پاکستان سے وفاداری کا عہد کیا ہے۔
بلوچستان میں نام نہاد دولت اسلامی عسکریت پسند گروہ داعش کے حق میں وال چاکنگ کے باوجود حکومت،صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ اور صوبے کا گورنر صوبے میں داعش کی موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن2016ء میں دو بڑے دھماکوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تو حکومت کو اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہونا شروع ہوا۔کالعدم مذہبی جماعتیں ٹی ٹی پی،لشکر جھنگوی،لشکر جھنگوی العالمی اور جماعت الاحرار صوبے میں کافی وقت سے فعال رہی ہیں۔ان میں ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی قدیم ترین ہیں۔
ٹی ٹی پی بلوچستان کے شمالی علاقوں افغانستان اور فاٹا سے ملحق سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتی رہی ہے اور سیکیورٹی فورسز نے ان غیر قانونی تنظیموں کیخلاف نیشنل ایکشن پلاف سے پہلے اوربعد میں کارروائیاں کی ہیں۔ٹی ٹی پی حکومتی اور این جی اوز اراکین کے اغوا برائے تاوان میں ملوث رہی ہے۔لشکر جھنگوی نے سپاہ صحابہ کی جگہ لے لی ہے جو کالعدم قرار پانے سے پہلے صوبے میں فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث تھی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لشکر جھنگوی ہی مختلف کارروائیوں میں جیش الاسلام،لشکر جھنگوی العالمی اور جماعت الاحرار کا نام استعمال کرتا ہے تاکہ یہ تاثر دے سکے کہ صوبے میں کئی دہشت گرد تنظیمیں کام کررہی ہیں۔
سینڈی مین ہسپتال میں خود کش حملہ
8اگست کو جماعت الاحرار کے عسکریت پسندوں نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال قاضی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔جب وکلاء اس ہسپتال میں اکٹھے ہوئے جہاں قاضی کی لاش لائی گئی تھی تو ایک خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جہاں قریباً200 وکلاء جن میں بلوچستان کی وکلاء برادری کے تمام مرکزی رہنما شامل تھے۔اس دھماکے میں72 افراد جن میں56وکیل شامل تھے مارے گئے جبکہ112زخمی ہوئے۔زخمیوں میں سے متعدد افراد خون زیادہ بہہ جانے یا صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال میں سہولتیں نہ ہونے کے سبب انتقال کرگئے۔خود کش دھماکے کے گھنٹوں بعد بھی ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف ہسپتال میں موجود نہیں تھا۔اس دھماکے کی ذمہ داری داعش اور جماعت الاحرار نے قبول کرلی۔پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس دھماکے کا ماسٹر مائنڈ جہانگیر بدینی اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ5 دسمبر کو ضلع پشین میں ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
پولیس کی تحقیقات میں پتہ چلا کہ اس حملے کے لیے0.7 ملین روپے افغانستان سے لائے گئے اور سرحدی قصبے چمن میں جہانگیر کے حوالے کیے گئے۔خود کش بمبار کی شناخت بطور29 سالہ احمد علی اعوان سے ہوئی۔احمد علی ایک وکیل کا کلرک تھا اور غربت کے سبب رکشہ بھی چلایا کرتا تھا۔اس کا ایک بھائی افغانستان میں سیکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا اس کا خاندان کوئٹہ کے کلی دیبا میں آباد تھا۔ایسا لگتا ہے کہ احمد علی کا ہمسایہ ہونے کے ناطے جہانگیر ہی نے اسے خود کش بمبار کے طور پر تیار کیا تھا۔وہی اعوان کے لیے حملے کے دن نئے کپڑے اور جوتے لایا تھا۔جہانگیر اور اس کے دو ساتھی ہی بلال قاضی کے قاتل تھے اور وہی اعوان کو ہسپتال تک لانے والے سہولت کار بھی تھے۔یہ سب مبینہ طور پر بعد میں پولیس مقابلے میں ہلاک کردیے گئے۔خود کش بمبار کے پھٹنے سے چند منٹ قبل جہانگیر اور اس کے ساتھی وہاں سے غائب ہوگئے۔یہ پہلا بڑا واقعہ تھا جس کے تمام مرکزی کرداروں کا سراغ لگانے میں پولیس کامیاب ہوئی اور ماسٹر مائنڈ سمیت انہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔
پولیس ٹریننگ کالج
24اکتوبر کی رات تین مسلح افراد نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج کی دیوار پھلانگی۔وہ سوئے ہوئے غیر مسلح زیر تربیت یافتہ کیڈٹوں کے کمروں کی طرف گئے اور ان پر گولیاں برسانی شروع کردیں۔ ملٹری کے کمانڈوز،ایف اہلکار اور پولیس کو کیڈٹوں کے ریسکیو کیلئے بھیجا گیا۔چار گھنٹے فائرنگ کے تبادلے میں ایک آرمی کیپٹن اور ایک کمانڈو سمیت61لوگ مارے گئے جبکہ117 زخمی ہوئے۔دو حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ ایک کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مار دیا۔
8اگست کے ہسپتال سانحے سے سبق سیکھتے ہوئے حکومت نے ڈاکٹر،پیرا میڈیکل سٹاف اور دوائیاں مہیا کیں تاکہ زخمیوں کا علاج ہوسکے۔پولیس نے بتایا کہ تینوں حملہ آور افغان تھے اور انہیں افغانستان ہی سے ہدایات موصول ہورہی تھیں۔لشکر جھنگوی العالمی اور داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
شاہ نورانی مزار پر حملہ
پولیس ٹریننگ کیمپ حملے کے بمشکل تین ہفتے بعد خود کش حملہ آوروں کو بلوچستان کے دور دراز علاقے میں ایک آسان ہدف مل گیا۔خضدار کے علاقے وڈھ میں ایک صوفی مزار پر بمباری ہوئی۔زائرین جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی سے تھا شاہ نورانی مزار کے احاطے میں شام کی دھمال میں اکٹھے تھے جب خود کش بمبار نے خود کو مجمعے کے درمیان دھماکے سے اڑا لیا۔ اس میں52 لوگ ہلاک جبکہ102 زخمی ہوئے۔متعدد افراد زخموں کی تاب نہ لاسکے اور کئی اس لیے ہلاک ہوئے کہ ان کے لیے کئی گھنٹوں تک طبی سہولیات کا انتظام نہ کیا جاسکا۔حب میں زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دی گئی اور بعد میں انہیں کراچی شفٹ کردیا گیا۔اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش اور لشکر جھنگوی العالمی دونوں نے قبول کی۔
عورتوں کی ٹارگٹ کلنگ
بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلح عسکریت پسندوں نے چار عورتوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔4اکتوبر کو ہونے والے کوئٹہ کے مضافات میں اس حملے میں چار عورتوں کو نشانہ بنایا گیا۔بس کے زنانہ ڈبے میں سوار چار عورتوں میں سے تین شیعہ جبکہ ایک سنی تھی۔ایک مسلح آدمی ڈبے میں سوار ہوا اور فائر کھول دیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے نزدیک وہ چاروں ہی شیعہ تھیں۔حملہ آور بعد میں فرار ہوگیا۔لشکر جھنگوی العالمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور شیعہ خواتین کی ہلاکت کو شام میں سرکاری افواج کے ہاتھوں سنی عورتوں اور بچوں کی ہلاکت کا انتقام قرار دیا۔
جوڈیشل کمیشن رپورٹ
کوئٹہ میں8اگست کی بڑے پیمانے پر ہونے والی وکلاء کی ہلاکتوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کمیشن قائم کیا۔کمیشن نے تحقیقات میں ہسپتال اور پولیس ٹریننگ سکول کی سیکیورٹی ناکافی ہونے کا ذمہ دار حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو قرار دیا جنہوں نے ان حملوں کو روکنے کیلئے مناسب اقدامات نہیں کیے تھے۔کمیشن نے سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری اداروں میں اقربا پروری،پسندیدہ لوگوں کو نوازنے، اصولوں سے رو گردانی اور سیاسی مداخلت کی مثالیں بھی پیش کرتے ہوئے گورننس کی خامیوں کی نشاندہی کی۔
کمیشن کی رپورٹ نے صوبائی وزیراعلیٰ،وزیر داخلہ اور حکومتی ترجمان کو غلط دعوؤں کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے ہسپتال کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا جس سے عوام کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیقات میں بھی رکاوٹ آئی۔کمیشن نے سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لییتجاویز بھی دیں جن میں سرکاری ملازمین خصوصی انتظامیہ کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں سیاسی عمل دخل سے گریز اور قوانین پر بلا امتیاز عملدرآمد شامل ہیں۔