از طرف مدیر |
پاکستان میں حقوق کی صورتحال مختلف مذہبی، سماجی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر پیچیدہ اور تشویشناک ہے۔ لیکن ان میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور معاشرہ شاید ابھی تک انسانی حقوق کے اس تصور کا مکمل طور پر قائل ہی نہیں ہوپایا جس کا ابلاغ اور ترویج زیادہ تر مغربی دنیا کی طرف سے ہوتا ہے۔ایک طرح سے حقوق کی جدوجہد کو پاکستان میں اسی طرح کی مشکل درپیش ہے جس کا سامنا ایک مذہبی رجحانات رکھنے والی جدید قومی ریاست کو ہوسکتا ہے۔ |
فکر نظر |
ڈاکٹر سید جعفر احمد
ڈاکٹر سید جعفر احمد سماجی علوم کے ممتاز سکالر ہیں۔ وہ 1974سے جنوری 2017 تک پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی سے وابستہ رہے۔ اس طویل رفاقت کے آخری سترہ برسوں میں وہ ادارے کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ ان دنوں وہ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ (IHSR)کے ڈائریکٹر ہیں۔ڈاکٹر سید جعفر احمد نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے سماجی و سیاسی علوم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔جامعہ کراچی میں تین عشروں سے زیادہ عرصے تک انہوں نے پاکستان کی سیاسیات بالخصوص وفاقیت، آئینی ارتقا، انسانی حقوق، تعلیمی مسائل اور مناہجِ تحقیق جیسے مضامین کی تدریس کی۔ تاریخ، سیاسیات اور ادب پر مجموعی طور پر پچیس کتابیں تصنیف اور مرتب کر چکے ہیں جو اپنی معروضیت اور سائنسی طرزِ فکر کے حوالے سے ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل بھی ہیں ۔ان کا حالیہ مضمون پاکستان کے علمی و فکری منظر نامے اور اس سے جڑے تعلیمی مسائل کا نمایاں طور پر احاطہ کرتا ہے (مدیر) |
ڈاکٹر خالد مسعود
ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار دنیا میں اسلامی فقہ کے چند بڑے ماہرین میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل اورہالینڈ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف اسلام کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔وہ عدالتِ عظمیٰ کے شریعت اپیلنٹ بنچ کے ایڈہاک ممبر بھی ہیں۔ڈاکٹر خالد مسعود سہ ماہی تجزیات اور تجزیات آن لائن میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ ان کا حالیہ مفصل مضمون اردو ادب میں سفرنامہِ حج کی روایت اوراس کے جدید اسالیب سے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے۔ یوں تو یہ تحریر ملک کے معروف اخبار نویس محمود شام کے سفرنامہِ حج ’’رحمان کے مہمان‘‘ پر تبصرے کے طور پر لکھی گئی ہے تاہم اسے خالد مسعود صاحب کے قلم کا اعجاز کہیے کہ یہ ایک مکمل مضمون کی صورت قاری کو سفرنامہِ حج ، جو اردو ادب کی باقاعدہ صنف کے طور پر اپنی پہچان قائم کرچکا ہے،کی مکمل تاریخ سے روشناس کرواتا ہے اور ان سفرناموں کے متنوع اسالیبِ تحریر،منفرد تخیلات و رجحانات اور قدیم و جدید دور کے تغیر پذیر سماجی ، سیاسی اور مذہبی تناظر میں فکر و نظر کی کشاکش کے نتیجے میں ان سفری رودادوں میں وارد ہونے والے تغیرات سے قاری کو متعارف کرواتا ہے۔ ان کا یہ مضمون اپنی جامعیت کے اعتبار سے بلا شبہ منفرد حیثیت کا حامل ہے جسے ’تجزیات ‘ میں بصد ناز شائع کیا جا رہا ہے۔(مدیر) |
خورشید ندیم
خورشید ندیم کا شمار دورِ حاضر کے معروف دانشوروں میں ہوتا ہے ۔کالم نگار اور اینکر ہونے کے ناطے ان کے ابلاغ کا دائرہ وسیع تر ہے ۔آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں اور اس سے پیش تر کونسل کے جریدے ’’اجتہاد ‘‘ کے مدیر بھی رہ چکے ہیں ۔آپ ادارہ تعلیم و تحقیق کے سربراہ ہیں اور کئی علمی و تحقیقی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ قارئین تجزیات کے لیے وہ باقاعدگی سے لکھتے ہیں ۔ان کا حالیہ مضمون انتہائی اہم موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔ انسانی سماج بالخصوص مسلمانوں کو ہر دورمیں فرقہ واریت کا سامنا رہا ہے ۔اس کی جڑیں خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دورِ قدیم کی سیاسی عصبیتوں میں پیوست ہیں۔مسلم سماج میں فرقہ واریت کا موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے سبب مسلم معاشرے افراتفری و باہمی خون ریزی کا شکار رہے ہیں۔ فرقہ واریت کی تاریخ اور اس کے جدید تناظرکے حوالے سے تحریر شدہ ان کا یہ مضمون ایک منفرد نقطہِ نظر کا حامل ہے۔ (مدیر) |
عمار خان ناصر
عمار خان ناصرماہنامہ ’’الشریعہ‘‘کے مدیر ہیں اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں درس و تدریس سے منسلک ہیں ۔’’امام ابو حنیفہ اور عمل باالحدیث ‘‘آپ کی پہلی کتاب تھی جو1996ء میں شائع ہوئی ۔اس کے بعد ’’حدود و تعزیریت ،چند اہم مباحث‘‘دوسری کتاب تھی جو ’’المورد‘‘نے شائع کی ۔آپ کا شمار مذہبی مفکرین کی نئی اور توانا آوازوں میں ہوتا ہے۔آپ کا زیر نظر مضمون مقدس شخصیات کی توہین کے حوالے سے عالمی سطح پر جاری بحث کے حوالے سے ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی حال ہی میں معروف قانون دان احمر بلال صوفی کو اپنا مشیر نامزد کیا ہے جنہیں عالمی سطح پر کسی ایسے چارٹر کی منظوری کا ہدف دیا گیا ہے جس کے بعد مقدس شخصیات کی توہین کو آزادی اظہار رائے سے ہٹ کر دیکھا جائے ۔اس پس منظر میں عمار خان ناصر کایہ مضمون سوچ کے کئی در وا کرتا ہے ۔(مدیر)
|
ثاقب اکبر
ثاقب اکبر جامعہ قم سے فارغ التحصیل اورعلمی و فکرے ادارے ’’البصیرۃ‘‘کے صدر نشین ہیں۔ مسالک کے درمیان ہم آہنگی اورملی یکجہتی کے لیے کوشاں ہیں، اس حوالے سے کئی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ نوجوانوں کے نام پیغام سے عبارت ہے کیونکہ مولانا انہیں ہی نئے زمانوں کا امام تصور کرتے ہیں ۔ثاقب اکبر کا یہ مضمون بھی علامہ کے اس پیغام کا جائزہ لیتا نظر آتا ہے ۔آپ تعلیمی اداروں میں فکر اقبال کی مزید ترویج کے خواہاں ہیں۔(مدیر )
|
قومی منظر نامہ |
محمد عامر رانا
محمد عامر رانا تجزیات کے مدیر اور اسلام آباد میں قائم معروف تحقیقی ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیزکے بانی ڈائریکٹر ہیں ۔علاقائی اور عالمی سطح پر شدت پسندی کی تحریکوں کی بدلتی حرکیات پر ان کی خاص نظر ہے اس حوالے سے نہ صرف عالمی سطح پر کئی کانفرنسوں میں نمائندگی کر چکے ہیں بلکہ ان کا شمار انسدادِ شدت پسندی کے چنیدہ ماہرین میں کیا جاتا ہے۔ کئی کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات ،پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کا ایک معتبر حوالہ ہیں ۔ان کی کتاب” ”The Militantپر انہیں 2016ء میں جرمن پیس پرائز سے نوازا گیا ۔عامر رانا پاکستان اور پاکستان سے باہر کئی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے فیلو اور ایڈوائزری بورڈزکے ممبر بھی ہیں ۔آپ پاکستان کے مؤقر انگریزی اخبار ڈان کے مستقل کالم نگارہیں ۔اس کے علاوہ آپ انگریزی جریدے Conflict and Peace Studiesکے بھی مدیر ہیں۔ان کا زیر نظر مضمون تحریک لبیک پاکستان کے قائد مولانا خادم حسین رضوی کا پروفائل ہے جس میں مولانا کی اٹھان کا پس منظر اور پیش منظر بھی دیا گیا ہے۔(مدیر معاون)
|
رمشہ جہانگیر
یہ ابلاغ کی دنیا ہے یہاں سچ بھی دلیلوں کا محتاج ہے۔ اکثر اوقات سچ کے متوازی ایسی ایسی دلیلیں دی جاتی ہیں کہ جھوٹ پر بھی سچ کا گمان ہوتا ہے ۔یہ سب کچھ کبھی میڈیا کے ذریعے ہوتا تھا مگر اب سوشل میڈیا نے مین سٹریم میڈیا کی ہیئت ہی بدل کر رکھ دی ہے ۔دنیا میں اب ہر فرد جس کا سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ ہے وہ دنیا کے سچ اور جھوٹ پر برابر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آنے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں میں اس میڈیا کاکردار سب سے نمایاں ہے ۔ امریکی انتخابات سے پاکستانی انتخابات تک ،اصل معرکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ہو رہا ہے، اس لیے بعض نادیدہ قوتیں بھی اپنے مخصوص مفادات کیلیے پوری طرح متحرک ہیں ۔بہت سے اکاؤنٹ فرضی ہیں جہاں سے خبریں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ مطلوبہ اہداف حاصلکیے جا سکیں ۔پاکستان کے پس منظر میں رمشہ جہانگیر نے اس کا نہایت دقیق جائزہ لیا ہے ۔یہ مضمون ہیرالڈ کے دسمبر 2018ء کے شمارے میں شائع ہوا جس کا اردو ترجمہ قارئینِ تجزیات کے لیے دیا جا رہاہے ۔(مدیر)
|
تصوف/ثقافت/تہذیب |
پی لنگ ہانگ
مصنفہ پی لنگ ہانگ ہارورڈ یونیورسٹی میں میوزیکل ایتھنولوجی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ ان کا یہ مضمون ہیرالڈ میں شائع ہوا۔اس مضمون میں انہوں نے سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر بیٹھے راگی فقیروں کے حالات کا تذکرہ کیا ہے یہ راگی کون ہیں ؟ کہاں سے آتے ہیں اور کن منزلوں کے مسافر ہیں ؟ اس کا جائزہ اس فیچر میں لیا گیا ہے۔ شاہ لطیف کے کلام میں سرمست یہ راگی جب گاتے ہیں تو روح میں جلترنگ بج اٹھتے ہیں مگر ان کی اپنی روحیں کس قدر چین میں ہیں ؟ان کے اپنے خاندان کس حال میں ہیں ؟یہ جاننے کیلیے یہ فیچر معلومات افزا ہے ۔(مدیر )
|
معاشرت /مہاجرت |
نجود علی
نجود علی یمن سے تعلق رکھنے والی ایک بچی ہے جس کی شادی اس کے بچپن میں کسی ادھیڑ عمر شخص سے کردی جاتی ہے جو بجائے خود ایک ظلم ہے مگر اس پر مستزاد یہ کہ اس کو شوہر کی جانب سے کام کاج اور دیگر امورِ خانہ داری سے ساسس سسر کی خدمت تک کی سبھی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ مزید یکہ اس پر ظلم و زیادتی اور تشدد کو بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس ظلم و نجبر سے نجات کے لیے گھر سے نکلنے اور طلاق لینے میں کامیابی تک کے مراحل کو آپ بیتی کی صورت میں ایرانی نژاد فرانسیسی صحافی اور مصنفہ ڈلفن مینوئے (Delphine Minoui)نے”I’m Nujood: Age 10 and Divorced” کے نام سے تحریر کیا ہے۔ نجود علی جبری اورکم عمری کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہیں اوران کی آپ بیتی کااب تک تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔اردو میں اس کتاب کا ابھی تک کوئی ترجمہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے سماج میں بھی جبری و کم عمری کی شادی اور گھریلو تشددایک المیے کی صورت موجود ہے۔ ایک باہمت کم عمر لڑکی کی آپ بیتی یقیناًہمارے ذہنوں کو ضرور جھنجھوڑے گی۔ سہ ماہی تجزیات اس کتاب کا اردو ترجمہ قسط وار شائع کرنے کا ارادہ رکھتاہے جس کی پہلی قسط آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ (مدیر)
|
مطالعہ کتب |
فرانسس فوکویاما
یہ مضمون فرانسس فوکویاما کی کتابIdentity: The Demand for Dignity and the Politics of Resentment کے پہلے باب The Politics of Dignity کا ماخوذ اردو ترجمہ ہے۔ ان کی یہ کتاب ستمبر 2018ء میں منظر عام پر آئی ہے ۔فرانسس فوکویاما Freeman Spogli Institute for International Studies (FSI)میں سینئر فیلو ہیں ۔جان ہاپکننزیونیورسٹی اور جارج میسن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد رہ چکے ہیں ۔اس سے قبل 1992ء میں ان کی کتاب The End of History and the Last Man کے دنیا کی بیس سے زائد زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔(مدیر )
|
سباستیان جنگر
مغربی سماج کی بنیادیں انفرادی حقوق کے احترام پر استوار ہیں۔ بغیر کسی بیرونی دباؤیا مداخلت کے انفرادی خواہشات ا ورعزائم کی آزادانہ تکمیل یہاں کی اہم سماجی قدروں میں سے ایک ہے۔اگرچہ یہ چیزدنیا کو ایک بہترجگہ بناتی ہے تاہم پھر بھی کچھ حدودو قیود لاگو ہوتی ہیں۔جان وین کے عجیب و غریب کرداروں کی طرح انفرادیت پسندی بھی پردہِ سیمیں پرجتنی خوشنما نظر آتی ہے اتنی حقیقتاً نہیں ہے۔ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ نمو پانے اور پنپنے کے لیے ’’میں‘‘ کی بجائے ’’ہم‘‘ ہونا لازم ہے اور یہیں سے ہی تمام مسائل کے سوتے پھوٹتے ہیں۔سباستیان جنگر اپنی تصنیف ’’قبیلہ‘‘ میں اسی رائے کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔اولین نو آبادیاتی امریکہ کے تاریخی حوالوں، قدرتی تباہ کاریوں کی سماجیاتی علل اور افغان جنگ میں خود ان کے ذاتی تجربات کی بنیاد پر وہ اس بات سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ ’’ہم‘‘انسانی آسودگی کے لازمے کے طور پر دراصل کیسے دکھائی دیتے ہیں۔
|
رپوتاژ |
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کے لیے فکری و علمی مکالمے کا اہتمام جاری رکھے ہوئے ہے ۔اسی سلسلے میں دسمبر 2018ئمیں ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان ’’پاکستان میں مسلکی تفہیم کی حرکیات‘‘ تھا۔ جس میں نامور مفکرین نے شرکت کی ۔پاکستان میں جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ وہ اپنے سفارتی دورانیے میں آٹھ سال عراق ، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک میں تعینات رہے ہیں جہاں انہوں نے مسلکی تشدد کے مظاہردیکھے ہیں۔ ہمارا ملک، جرمنی بھی ایسے حالات سے دوچار رہا ہے جہاں یہودیوں کے خلاف ہولوکاسٹ ہوئی، ہم نے نسلی تعصب کی بنیاد پر فرانس سے جنگیں لڑیں ،پہلی اور دوسری جنگ عظم میں قائدانہ کردار ادا کیا تاہم بعد ازاں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ نفرت اور تشددکو ختم کر کے ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ جذباتی لیڈر شپ عوام میں نفرت کے بیچ بوتی ہے اور غربت محدود مواقع کو جنم دیتی ہے جس کے بعد معاشرے میں تعصب پھیلنے لگتا ہے ۔پاکستان میں اقدار کا بھی بحران ہے ۔اسلام روشن اقدار کا مذہب ہے علما عوام میں اسلام کی اصل اقدار اجاگر کریں ۔عوام ایک ایسے میثاق پر عمل پیرا ہوں جہاں کسی کو اس کی نسل ،مذہب ، مسلک یا عقیدے کی بنیاد پر تعصب کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ |
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز 2006ء سے معاشرے میں عدم برداشت ، قیام امن، انتہا پسندی کے خاتمے جیسے موضوعات پر مکالمہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔اس سال بھی کالج اور یونیورسٹی اساتذہ کے ساتھ ’’سماجی ہم آہنگی مذہبی رواداری اور تعلیم ‘‘کے موضوع پر 28اور 29اکتوبر 2018ء کو ایک دوروزہ ورکشاپ اسلام آباد میں منعقد ہوئی ۔ورکشاپ کا آغا ز محمد اسماعیل خان نے موضوع کے تعارف سے کیا انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے دس مکالمے کئے جن کے بعد سامنے آنے والی تجاویز کو’’ محفوظ اور ہم آہنگ پاکستان ‘‘کے نام سے شائع کیا گیا۔پاکستان مذاہب اور نسلوں کے حوالے سے ایک متنوع ملک ہے یہاں شدت پسندی کی وجوہات کئی ایک ہیں تاہم تعلیم اور انتہا پسندی کا باہمی تعلق بھی ہے اس حوالے سے اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہے۔ |
تبصرہ کتب |
پاکستان میں لسانیات کے حوالے سے ڈاکٹر طارق رحمان ایک معتبر نام ہے۔ آپ سماجی لسانیات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان میں ”پاکستان میں انگریزی ادب کی تاریخ” (1991)، ”پاکستان کی لسانی سیاست” (1996) اور ”زبان، نظریہ اور اقتدار: پاکستان اور شمالی ہندوستان میں زبان کی تعلیم” (2002)، ”ہندی سے اردو تک: سماجی اور سیاسی تاریخ” (2011) آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہیں۔ ”جنوبی ایشیا میں جہاد کی تعبیر کی علمیاتی تاریخ” ان کی تازہ تصنیف ہے جو امریکہ کی معروف یونیورسٹی پرنسٹن اور ڈی خروئٹرکے اشتراک سے شائع ہوئی ہے۔ یہ اشتراک اعلی معیار کی علمی تحقیقات کو عالمی سطح پرمتعارف کرانے کے لیے قائم ہوا ہے۔ |
سعدیہ تحریم صدیقی
’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ زاہد حسن کی کہانیوں کا نیا مجموعہ ہے جو حال ہی میں شائع ہو ا ہے۔ زاہد حسن پنجابی فکشن لکھتے ہیں، چارناولوں؛ عشق لتاڑے آدمی، غلیچا انن والی، قصہ عاشقاں اور تسّی دھرتی سمیت اس افسانوی مجموعہ کو ملا کر اب تک ان کی دس کتب شائع ہو چکی ہیں۔ اردو اور پنجابی میں تحقیق، ترجمہ اور شاعری پر ان کا کام اس کے علاوہ ہے۔ کسی بھی زبان اور کسی بھی صنف میں لکھتے ہوئے اپنی بنیادی پہچان بنانا پہلا کام ہے جو کسی بھی لکھنے والے کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اسلوب، تکنیک، موضوعات اور زبان و بیان کے حوالے سے منفرد حیثیت حاصل کرنا دوسرا کام ہے جو بہت کم لکھنے والوں کے نصیب میں آتا ہے۔ تاہم ’’انفرادی حیثیت کا حامل ‘‘ اور ’’منفرد لکھنے والا‘‘ جیسے یہ وہ صیغے اور سابقے اور لاحقے ہیں جو عام طور پر ہمارے یہاں ہرلکھنے والے کو کمال مہربانی کے ساتھ عطا کر دئیے جاتے ہیں اور انھیں حاصل کرنے والے لکھاری بھی اس پر فرحاں و شاداں رہتے ہیں اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی آئندہ کی تخلیقات کو بھی ان کی نظر کرتے چلے جاتے ہیں۔ |