برطانیہ کے ایک کنزرویٹو سیاست دان نے مزاح کے انداز میں ایک بار کہا تھا کہ ”وہ ملک جو اپنی تاریخ سے دور ہورہا ہو، اُس بوڑھے آدمی کی طرح ہے جو اپنی عینک کھو دیتا ہے، جس کی نظر خاصی کمزور ہو، وہ یکلخت غیریقینی صورتحال اور تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔“ یہ خاص طور پر یہ کہنے کا خوش نما طریقہ نہیں تھا کہ وقت کا سفر کسی کے لیے رکتا نہیں ہے، جو اپنی تاریخ سے سیکھنے کے بجائے تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں، یہ انہیں تاریخ کے کوڑادان میں ڈال دیتی ہے۔ پاکستان میں تاریخ کی تعلیم دینا، تحقیق کرنا اور تاریخ لکھنا مستقل طور پر بحث و مباحثے کی وجہ بنا ہے۔ تاریخ ایک ایسا شعبہ ہے جس کی بنیاد تنقیدی تجزیے کے مختلف محنت طلب تحقیقی طریقوں پر ہے۔ تاریخ کا ایک شعبے کے طور پر غائب ہوجانا اورایک نظریے کے طور پر احیاء جس کو مختلف حکومتوں نے تشکیل دیا ہو اور جو شخصی سیاست کو فروغ دے، اس نے پاکستان میں تنقیدی دانش کی روایت کو بڑھنے سے روک دیا ہے۔ تنقیدی طرزِ فکر کے فروغ میں رکاوٹیں حائل ہیں اور تاریخ کے شعبے میں تحقیق کے لیے انتہائی بنیادی ڈھانچے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ متنوع موضوعات اور علمی مواد سے آراستہ قومی آرکائیو، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ لائبریریاں، اس کے ساتھ ہی تحقیقی ادارے، ایک آزاد اور متنوع قومی تاریخی فکر کی تشکیل کے عمل کو موزوں بناتے ہیں۔ اس صورتحال نے تاریخ کو بطور موضوع تباہ و برباد کیا ہے۔
تاریخ کو تشکیل دینے، آگے بڑھانے، یادوں کو عادت کے طور پر یا عوام کی خدمت کے لیے یاد رکھنے اور تاریخ کا بیان بطور حقائق کی بازیافت، تحقیق اور پیشہ ور مؤرحین کی جانب سے لکھی گئی تاریخ میں فرق ہے۔ پاکستان میں طالب علموں کو نظریات کے جذبات سے بھرپور اسباق پڑھائے جاتے ہیں، جن میں مخصوص حقائق کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے، جو کہ اذہان کو کھولنے کے بجائے تیزی میں تشکیل دی گئی قومی داستانوں کی ’سچائی‘ کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور جبکہ یہ داستانیں لوگوں کے تاریخی تخیل میں اہمیت کی حامل ہیں، یہ اُسی صورت میں بامعنی ہیں جب یہ حقیقی تاریخ سے مماثلت رکھتی ہوں۔تاریخ کو مسخ کرکے داستانوں میں رہنے والے لوگ اس طرح ہیں۔ افسانوی لوگ جن کے تصورات اور سرگرمیاں غیر معتبر اور حقائق سے عاری ہیں، وہ مایوس اور ناکام لوگ ہیں۔بہترین طریقے سے تشکیل دی گئی سرکاری قوم پرستی سے قطع نظر، پاکستان اپنی تقسیم کے بعد سے افسانوی دنیا اور حقیقت کے درمیان دھندلکے میں منزل کی تلاش کرتا رہا ہے۔
نئی آزاد ہونے والی ریاست میں کچھ بھی نیا واقعہ ہونے کے بارے میں یقین نہیں پایا جاتا، اس کی وجہ تعلیمی معیار میں کمی آنا ہے، میڈیا پر بندشیں ہیں، ہرچند کہ اس کی حال ہی میں کمرشلائزیشن ہوئی ہے، جس کے باعث مسخ شدہ حقائق کا پرچار ہوا ہے۔ براہِ راست اور بالواسطہ فوجی اقتدارکے دوران آزادی اظہار پر بے رحمانہ پابندیوں کا سامنا کیا گیا ہے۔ پریس واضح نہیں تھا اور اسے تابعداری کے لیے نوازا گیا تھا۔ تاریخ کو سرکاری حملوں کے ذریعے مسخ اور بار بار دہرائے جانے والی روایات کے مجموعے سے غیر معتبر کیا جا چکا ہے، اس کا مقصد یہ رہا کہ پاکستان کے بہت زیادہ تشہیر کئے گئے اسلامی نظریہ کے غلط تصورات کی زیادہ سے زیادہ تشریح کی جاسکے۔ سرکاری سچائیوں کو قبول کرنے پرمجبور کیا گیا۔ ملک کے پڑھے لکھے شہریوں کی اکثریت نے لاعلمی سے حاصل ہونے والی تشفی، تشکیک کی عادات اور ان سب سے زیادہ پریشان کن، سازشی نظریات پر یقین کی وبا کو اپنایا ہے۔
بہت سارے لوگ تاریخ کے مضمون کو ناموں، جگہوں، واقعات اور تاریخوں کو دہرانا سمجھتے ہیں۔ کچھ ہی آگاہ ہیں کہ تاریخ کا لفظ یونانی لفظ Historiaسے نکلا ہے، جس کے لغوی معنی حقائق کی تحقیق کے ذریعے بازیافت ہے۔ اس کے بجائے کہ طالب علم کی مسائل کو دریافت کرنے اور ان میں فرق کرنے کی تنقیدی نوعیت کے سوالوں کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے، پاکستانی نظام تعلیم سب کا یکساں قومی شعور تشکیل دینے کے لیے رَٹے کو فروغ دیتا ہے۔ جیسا کہ قابلِ رسائی سرکاری اور نجی آرکائیوز نہ ہونے کے برابر ہیں، جہاں سے معلومات حاصل کی جا سکیں، یہ تاریخ لکھنے اور تحقیق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ باوجودیکہ آزادی اظہار آرڈیننس2002ء کے تحت پیشہ ور مؤرخین کے استفادہ کرنے کے لیے کچھ ریکارڈ موجود ہیں۔ اگر یہاں کچھ ایساغلط ہے، وہ اس اَمرکا ثبوت ہے کہ جومیں کہتی ہوں کہ آرکائیو معدوم ہور ہے ہیں؛ دستاویزات کو پٹ سن کی بوریوں میں رکھا گیا ہے جو کہ مقامی اور صوبائی آرکائیوز سے غائب ہو رہی ہیں، جبکہ قومی آرکائیوز کا بنیادی تعلق قومی تحریک کی کامیابیوں کی دستاویز کوترتیب دینے سے ہے۔
ایک متحد ریاست بنانے کے لیے تاریخ کو استعمال کرنے کی ضرورت ابتدا میں ہی محسوس کر لی گئی تھی۔ بدقسمتی سے جو طریقے استعمال کئے گئے، وہ قومی اتحاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ جب پاکستان کے اسلامی ریاست کے تاثر کو ہندو اکثریتی بھارت سے الگ کرنے کے لیے جرات کے ساتھ اُبھارا گیا، کوئی بھی واضح نہیں تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا آغاز درست طور پر کہاں سے کیا جائے۔ کیا اس کا آغاز اس کے قیام 1947ء سے ہونا چاہیے، یا اس سے پیچھے ماضی میں اور، اگر ایسا کیا جائے، تو ماضی میں کتنا پیچھے جایا جائے؟ تحریک پاکستان کے دوران قربانیوں سے متعلق معاملہ یکساں طور پر پیچیدہ اور زیادہ بحث کا باعث بنا ہے۔ کون ہمارے ہیرو اور شہداء تھے اور کن افراد کو قومی بیانئے میں ولن اور غدار کہا جائے؟ یہ سرکاری کارپردازیاں بلاحجت نہیں گئی تھیں۔ لیکن تاریخ کے بجائے سماجی ناموافقت اور مزاحمت کے لیے ترجیحی طریقہ کار صحافت اور ادب تھے۔ تاریخ کی کسی متبادل مضبوط روایت کے بغیر ریاستی اجارہ داری کے باعث قوم اور قوم پرستی کے سرکاری بیانیے بڑے پیمانے پر اصولی چیلنجز سے محفوظ رہے۔
ستر کی دہائی تک پاکستان اپنی اسلامی شناخت اور ہندو اکثریت کے انڈیا سے الگ نظر آنے پرتوجہ مرکوز کرنے کے باجود نسبتاً روشن خیال ملک رہا تھا۔ حکومت نے سکولوں اورکالجوں میں تاریخ کی نصابی کتابوں کو پڑھانے کی اجازت دے رکھی تھی، جن میں پاکستان کی اسلام سے قبل کی تاریخ کے بارے میں بھی ابواب شامل تھے
کچھ جگہوں پر تاریخ کے سرکاری بیانیے کو شک و شبہہ اور ناراضگی کے ساتھ دیکھا گیا۔ پاکستان کا تاریخ کی جامع بنیادوں پر متفق نہ ہونا اور قومی اور اس کے برعکس مقصد کے لیے قربانیوں پر بحث اور اس موقع پرہونے والے آلام نے بھی قومی منظرنامے کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے اپنا اظہار کئی طرح سے کیا ہے، لیکن یہ زیادہ قوت کے ساتھ متوازن قومی تاریخ کی راہ میں حائل ہوا۔ معتبر تاریخ کے بغیر لوگ تاریخی شعور تشکیل نہیں دے سکتے۔ تاریخ کو سیاسی اور نظریاتی وجوہات کی بنا پر کم تر کرنے کی وجہ سے، پاکستان کے لیے قومی شناخت کو نمایاں کرنا مشکل ہوا ہے جو کہ اس میں بسنے والے مختلف النسل لوگوں کو جذباتی طور پر اس سے وابستہ کرسکتی ہے۔ الگ ریاست بننے کے ستر برس بعد بھی پاکستان اپنی قومی شناخت کے اندرونی اور بیرونی نقش و نگار سنوارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پیچیدہ صورتحال ملک کے قیام کے وقت کے تاریخی حالات کے بارے میں پریشان کن سچائیوں کو قبول کرنے سے انکار سے پیدا ہوئی ہے۔ قبول نہ کرنے کی عادات ملک کے بہت سارے موجودہ مسائل کی وجہ بنی ہے، جب پاکستان کے وجود کو اس کے اپنے مسلمانوں سے زیادہ خطرات لاحق ہیں، بہ نسبت اُن خطرات کے جو اسے 1947ء میں دشمن غیر مسلم قومیتوں سے لاحق تھے۔
اس کے علاوہ ستر کی دہائی تک پاکستان اپنی اسلامی شناخت اور ہندو اکثریت کے انڈیا سے الگ نظر آنے پرتوجہ مرکوز کرنے کے باجود نسبتاً روشن خیال ملک رہا تھا۔ حکومت نے سکولوں اورکالجوں میں تاریخ کی نصابی کتابوں کو پڑھانے کی اجازت دے رکھی تھی، جن میں پاکستان کی اسلام سے قبل کی تاریخ کے بارے میں بھی ابواب شامل تھے۔ اگرچہ اس میں شامل ابواب خاص نوعیت کے تھے اور تشریخی معیار سے عاری تھے، جن کی تاریخ کی کتابوں میں توقع کی جاتی ہے، لیکن یہ معقول طور پر درست اور ہٹ دھرمی سے قدرے محفوظ تھیں جو کہ اسی کی دہائی کے دوران نصابی کتابوں کا معیار بن گئی تھی۔ اسلام کے نام پر نظریاتی یلغار کی ابتداء جنرل ضیاء الحق(1977-1988ء)کے دور اقتدار میں ہوئی، اور اسے بعدازاں اُس کے نظریاتی پیروکاروں نے جاری رکھا، جسے اُس نے پروان چڑھایا تھا، یہ تاریخ کی تعلیم دینے اور اشاعت کے لیے ہولناک ثابت ہوا۔ پہلے سے ہی نظرانداز ہونے والے نظام تعلیم، جس میں تاریخ پر تحقیق اور تنقید ی تجزیے پر بے دلی سے توجہ دی گئی تھی، اسے رفتہ رفتہ نقصان پہنچایا گیا اور ریاست کی جانب سے تشکیل پانے والا اسلامائزیشن کا نیا ڈاکٹرائن پاکستان کی تاریخ پر ہونے والے تمام بحث مباحثوں کا معیار بن گیا۔
بجائے اس کے کہ تنوع اوراس کی آزادی کے لیے قربانی کے دعوؤں کو تسلیم کیا جاتا، پاکستان کے قومی نظریہ کے سرکاری خالق ریاست کی سالمیت کو لاحق شدید نوعیت کے خطرات کے پیشِ نظر علاقائی پہچان کے مقابل طرزِ فکر کو دیکھنے لگے۔ستر کی دہائی کے اوآخر میں ضیاء کی ریاستی سرپرستی میں اسلامائزیشن اور جمہوری عمل کی معطلی نے مرکزاور خطے کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کر دیا۔اُس وقت سے اتحاد کے معروف ذریعے کے طور پر اسلام بحث کا ذریعہ بنا ہے۔ غیر پنجابی صوبوں میں شدت پسندی بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف 1973ء کا آئین، بلکہ 1940ء کی قراردار اپنے وفاقی مفہوم کے ساتھ، جس میں متوقع اسلامی ریاست کے آئینی یونٹوں کو زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزا قسم کی خودمحتاری دینے کی بات کی گئی تھی، بے اثر ہوگیا۔ پاکستانی قوم کی تصور کی گئی تاریخی بنیادوں اور تشکیل دی گئی افسانوی داستان کے ذریعے یہاں موجود تقسیم اور اس کے عہدِ حاضر کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دھندلے اُفق پر سراب کے تعاقب کے بجائے، پاکستانی بہتر طور پر پیش آسکیں گے، اگر انہیں پڑھایا جائے کہ وہ اپنی تاریخ کی کھلے دماغ کے ساتھ چھان بین کریں، اورغیر جانبدار ہوکر حقائق کی بازیافت کریں، یہ حقیقی فکر کی بنیاد ہے۔ صرف اُسی صورت میں 17کروڑ سے زائد آبادی کا یہ ملک افسانوی داستانوں، واہموں اور سازشوں سے اپنی معمول کی بیزار کن گہری وابستگی سے گریز کا آغاز کر سکتا ہے۔
ماضی کی تنقیدی آگہی حاصل کرنے کے لیے طریقہ کار کی تشکیل کے طور پر تاریخ کی بنیادوں کی جانب واپسی، پاکستانیوں کو شاید اُن کے مشکل حال سے نکال سکتی ہے، صرف تاریخ کے تناظر میں ہی نہیں، بلکہ زیادہ اہم اُن کے آدرشوں کا اُن کے مستقبل کے ساتھ ہم آہنگی کا حصول ہے۔
بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز
فیس بک پر تبصرے