عزم و جدوجہد کی روشنی
آج بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا 144 واں یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔ قائد نے اِس خطے کے مسلمانوں کے لیے پرامن و باوقار زندگی کے حصول کی خاطر جدوجہد کی اور انہیں ایک الگ ملک دلانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ عظیم نعمت قوم کو اس کے بانی کی یاد دلاتی ہے۔
ہر سال قائداعظم کے یومِ پیدائش پر عوام یہ دن احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہاں ان کی شخصیت وہ واحد ذات ہے جس پر کسی کو اختلاف نہیں، ہم سب ان کے عزم و جدوجہد کے لیے یکساں احترام رکھتے ہیں۔ تاہم یہ جذبہ اب ایک روایتی عمل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور مقاصد فراموش ہوگئے۔ یہ سرزمین بطور قوم ایک پرامن و باوقار زندگی گزارسکنے کے لیے حاصل کی گئی تھی۔ یہ خطہ ارضی اب ایک معین جغرافیہ تو رکھتا ہے لیکن اس پر بسنے والے تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، ناکامیوں سے دوچار ہیں اور آزادی کے باوجود آزادی کی رُوح سے آشنا نہیں۔
قائداعظم کی تمام عمر کچھ اصولوں کی مجسم تصویر تھی انہوں نے ہمیشہ ان کی بات کی، جس کی گواہی سب دیتے ہیں۔ وہ قوم کو اتحاد، ایمان، تنظیم جیسے سبق دے کر گئے۔ وہ اپنی تمام تقاریر میں جمہوریت، بھائی چارے اور سماجی انصاف کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ ان کا پیغام اور مقاصد بالکل واضح تھے۔ مگر ہم نے یہ سب پسِ پشت ڈال دیا۔ بانی پاکستان کو یاد تو کیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کو نمونہ بنانے کی نصیحت بھی دہرائی جاتی ہے لیکن اس میں غوروفکر وعمل سے گریز کیا جاتا ہے۔
بانی کستان نے کہا تھا ’ناکامی کا لفظ میرے لیے اجنبی ہے‘ مگر اس شخصیت کو رہنما ماننے والی قوم ناکامی کی دلدل میں پھنسی ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کا علم بھی ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا حل کیا ہے لیکن وہ عزم نہیں ہے اور جدوجہد کی وہ لگن مفقود ہے جو قائد کی زندگی کا خاصہ تھی اور جو حقیقت میں ہمارے لیے انفرادی واجتماعی سطح پر کامیابی کا سرچشمہ ہے۔
فیس بک پر تبصرے