جنرل قاسم سلیمانی کے بعد مشرق وسطیٰ کس سمت جائےگا؟
عراق کے دارلحکومت بغداد میں آج علی الصبح ایران کی سرکاری پیراملڑی فورس القدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔ ان کے ہمراہ دیگر افراد میں عراق میں دولت اسلامیہ کے ساتھ برسرپیکار کتائب حزب اللہ جسے پاپولر موبلائزئشن فورسسز بھی کہا جاتا ہے، کے سربراہ ابومہدی المہندس بھی اس ڈرون حملے کا نشانہ بنے ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات پر مشرق وسطیٰ میں تعینات امریکی افواج کی پیشگی حفاظت کی خاطر یہ اقدام دفاعی طور پر اٹھایا گیا۔ امریکی حکومت نے پہلے ہی جنرل قاسم سلیمانی کی القدس فورس سمیت ایرانی کی سرکاری افواج کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کررکھاہے۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں عراق میں ہونے والے امریکہ مخالف مظاہروں اور امریکی سفارتخانے سمیت امریکی افواج پر حملوں میں جنرل قاسم سلیمانی ہی ملوث تھے۔
جنرل سلیمانی پر قاتلانہ حملےکا فیصلہ مستقبل میں امریکی افواج کو ان کی جانب سے متوقع حملوں سے بچانے کے لئے کیا گیا۔ امریکی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں اپنے شہریوں اور افواج کی حفاظت کے لئے ایسے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ جنرل سلیمانی کی موت سے یہ خطرہ بہت بڑھ گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ شروع ہوگی اور ایران اور اس کے حمایتی عسکری گروہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کردیں گے۔ گزشتہ ہفتے امریکی افواج میں نے شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے والی ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔
امریکی حکومت نے کہا تھا کہ یہ حملے عراق میں ایک امریکی اڈے پر ہوئے راکٹ حملے کی جوابی کاروائی ہے جس کے لئے امریکہ نے کتائب حزب اللہ کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ امریکی کاروائی میں کتائب حزب اللہ کے 25 ارکان مارے گئے تھے۔ عراقی وزیر اعظم نے امریکی ہوائی حملوں کو عراقی سالمیت کی خلاف وزری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے گی۔ کتائب حزب اللہ کے سربراہ ابو مہدی المہندس نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ عراق میں امریکہ کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔ امریکی کاروائی میں مارے جانے والے ان ارکان کی نماز جنازہ کے بعد عراق کے دارلحکومت بغداد میں ایک بڑا احتجاج شروع ہوا تھا جس میں مظاہرین شہر کے حساس علاقے میں واقع امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا اور عمارت پر قبضہ کرلیا۔ اس واقعے میں کوئی امریکی اہلکار ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا ۔ تاہم امریکی صدر نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے قبضے کو ایرانی جارحیت قرار دیا۔
پاکستان میں تعینات رہنے والے امریکی سفیر ریان سی کروکر کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی کو محض ایک فوجی جرنیل سمجھنا غلطی ہوگی وہ ایک اسٹیٹس مین کی حیثیت سے کام کرتے تھے
آج مارے جانے والے قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ میں ایرانی عسکری کاروائیوں کا ماسٹرمائنڈ سمجھے جاتے تھے۔ انہیں ایرانی عوام سمیت عراق اور شام میں بھی عوامی حلقوں میں پسندیدگی حاصل تھی۔ وہ ایرانی پیراملٹری فورس القدس کے سربراہ تھے جو براہ راست ایرانی سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جوابدہ ہے۔ ایرانی عوام انہیں ہیرو کا درجہ دیتے تھے اور انہیں آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے ’’امر شہید‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ جنرل سلیمانی یمن ، بحرین ، عراق، لبنان اور شام سمیت ایسے تمام ممالک میں جہاں ایران کی مذہبی حکومت کے براہ راست مفادات تھے وہاں وسیع تر اسٹریٹیجک تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ ایرانی فوج میں القدس فورس کی ذمہ داری ایرانی سرزمین کے باہر انقلاب اسلامی ایران کے مفادات کا تحفظ ہے اور یہ براہ راست سپریم کمانڈر کے ماتحت کام کرتی ہے۔ جنرل سلیمانی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ سپریم کمانڈر کا آہنی ہاتھ ہیں اور سپریم کمانڈر انہیں مستقبل میں ایران کے سربراہ کے طور پر دیکھتے تھے۔
سال 2003ء میں جب امریکی قیادت میں صدام حکومت کو ختم کرنے کے لئے جنگی کاروائی مکمل ہوئی تو القدس فورس کی عراق سمیت مشرق وسطیٰ میں مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں۔ ایرانی حکومت کے ایماء پر خطے میں بہت سے ممالک میں القدس فورس کی مدد سے وہاں کی عوام کو اپنے حکمرانوں کے خلاف ابھارا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عسکری و ٹیکنالوجیکل معاونت بھی فراہم کی گئی۔ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں ایرانی حکومت کی پراکسی کاروائیوں کی ذمہ دار بھی القدس فورس ہے۔
رواں سال امریکہ نے القدس فورس اور ایرانی ریوولیوشنری گارڈز کو غیرملکی دہشتگرد ادارے قراردیا تھا۔ جواب میں ایران نے بھی خطے میں موجود امریکی افواج کو دہشتگرد قراردیا۔ امریکہ اور ایران کا ایک دوسرے کی افواج کو دہشتگرد قرار دینا عالمی تعلقات میں اپنی طرز کی ایسی پہلی پیش رفت تھی جب دو ملکوں نے ایک دوسرے کی افواج کو دہشتگرد قراردیا ہو۔
سال 2001ء سے 2006ء تک برطانیہ کے وزیر خارجہ کے طور پر کام کرنے والے جیک سٹرا اور افغانستان و پاکستان میں تعینات رہنے والے امریکی سفیر ریان سی کروکر ، کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی کو محض ایک فوجی جرنیل سمجھنا غلطی ہوگی وہ ایک اسٹیٹس مین کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے جنرل سلیمانی کی موت کے بعد خطے میں ممکنہ انتشار کے لئے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کی موت کو امریکی حکومت کی دہشتگردانہ کاروائی قرار دیا ہے جبکہ ایرانی سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جنرل سلیمانی سمیت دیگر ’شہدا‘ کی موت کا بدلہ لیا جائے گا۔
فیس بک پر تبصرے