اٹک کی عالمی شہرت یافتہ سرنگیں

5,992

پنجاب کا ضلع اٹک اسے خیبر پختونخواہ سے الگ کرتا ہے۔ کالا چٹا کا پہاڑی سلسلہ اسلام آباد سے دریائے سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ جب ٹرین اٹک شہر سے اس پہاڑی سلسلے میں داخل ہوتی ہے تو یہاں ایک ساتھ سات سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ یہ سرنگیں اب تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جن کا جائزہ مالک اشتر نے اس فیچر میں لیا ہے ۔ مالک اشتر پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں مگر ورثے کی کھوج کرید کا جذبہ رکھتے ہیں۔

1757ء سے1947ء تک تقریباً دو صدیوں کی مسافت بنتی ہے، اس عہد میں برصغیر پاک و ہند،سلطنت برطانیہ کی عملداری میں رہا، غلامی کے اس دور سے یقینا ًجہاں تلخ یادیں وابستہ ہیں وہاں اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ترقی کے لحاظ سے یہ خطے کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ برصغیر کے نو آبادیاتی نظام میں ترقیاتی ڈھانچے کی تشکیل کی گئی جدید محکموں کی بنیاد رکھی گئی زرعی اصلاحات ہوئیں۔ نہروں، سڑکوں اور ریل کا جال بچھایا گیا۔ اس طرح ملک ترقی کی جدید ڈگر پر گامزن ہوا۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے جاتے تو یقینا ًیہاں بھی قبائلی نظام کی خامیاں موجود ہوتیں اور لوگ قانون اور علم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے سماجی مسائل کا شکار ہوتے۔

دیگر محکموں کی نشوونما کے ساتھ ساتھ ملک کے طول و عرض میں ریل کی پٹڑی بچھا کر سفر کو آسان اور تیز رفتار بنایا گیا۔ اس سلسلے میں دریاﺅں اور ندی نالوں پر آہنی پلوں کی تعمیر کی گئی اور فاصلے گھٹانے کےلیے پہاڑوں کو کاٹ کر لمبی لمبی سرنگیں بنائی گئیں اور وہ کام جو صدیوں پر محیط ہوتا، تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچا اس میں صنعتی ترقی، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ مقامی لوگوں کی شبانہ روز محنت کا نمایاں کردار ہے۔ اس حوالے سے اٹک کی جغرافیائی حدود میں واقع کالا چٹا پہاڑی سلسلے کی سات سرنگوں کی تعمیر سرفہرست ہے۔ یہ ریلوے انجینئروں کی فنی مہارت کا اعلیٰ نمونہ ہیں مذکورہ سرنگوں کی شہرت کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہGuiness Book of the World Record کا حصہ بن چکی ہیں اور سات کے عددی شمار کی وجہ سے انہیں Seven Sisters Tunnels کہنا بے جا نہ ہوگا۔ یہ جڑواں سرنگیں ریلوے کی شاندار عظمت کی عکاس ہونے کے علاوہ ملک و قوم کا تاریخی ورثہ بھی ہیں۔

ریلوے اسٹیشن اٹک سے بذریعہ ٹرین برانچ لائن پر سفر کیا جائے تو تقریباً سات کلو میٹر کے بعد ”کنجور“ اسٹیشن آتا ہے اور اس سے اگلا ”جھلار“ اسٹیشن ہے۔ ان دونوں کا درمیانی فاصلہ دس کلو میٹر ہے ان اسٹیشنوں کے مابین ”کالا چٹا“ نامی پہاڑی سلسلہ ہے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مذکورہ ریلوے سرنگیں انہی پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں یہ سات سرنگیں 5 کلو میٹر کے درمیانی فاصلے پر پھیلی ہوئی ہیں جس میں سرنگوں کی مجموعی لمبائی9046 فٹ یا تقریباً3 کلو میٹر ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اتنے کم فاصلے پر ریلوے کی مسلسل سات سرنگوں کا وجود نہیں ملتا اور شاید یہی وجہ مذکورہ سرنگوں کی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اندراج کا باعث بنی۔ یہ ٹنل بالترتیب 892 فٹ،1180 فٹ، 855 فٹ ،1776فٹ،1131فٹ،1616فٹ لمبے ہیں جبکہ ساتویں سرنگ کی لمبائی1596 فٹ ہے۔ ان کی تعمیر کا آغاز1896ءمیں ہوا اور یہ1898ء میں مکمل ہوئیں۔ دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ تیسری اور ساتویں سرنگ میں پانی کے قدرتی چشمے مسلسل رواں ہیں اور پانی کنارے کے ساتھ بہتا ہوا باہر کی جانب آتا ہے پھر ریل کی پٹڑی کے ساتھ بنی ہوئی نالی میں داخل ہو کر نیچے ڈھلوان کی جانب جا نکلتا ہے جہاں چرواہے اور مویشی اپنی پیاس بجھاتے نظر آتے ہیں۔

یوں تو عام سرنگیں ایک خط مستقیم میں ہیں تاہم چوتھی سرنگ سول انجینئرنگ کا کمال لگتی ہے۔ یہ واحد سرنگ ہے جو سیدھی ہونے کے بجائے گھومتی ہوئی بنائی گئی ہے۔1897ءمیں پہاڑ کے دونوں جانب سے کھدائی کا آغاز کیا گیا اور پھر مہارت سے دونوں سرے بیچ میںآکر ایک دوسرے سے جوڑ دیئے گئے اس بل کھاتی سرنگ میں اگر پیدل چلیں تو اگلا دھانہ نظر نہ آنے کی وجہ سے یوں لگتا ہے جیسے آگے بڑھنے کی بجائے ایک ہی جگہ کھڑے ہوا میں پاﺅں چلا رہے ہیں۔ جب ریلوے کے مزدور سرنگ کے اندر مرمت کا کام انجام دیتے ہیں تو وہ سورج کی روشنی کو بڑے بڑے آئینوں کے ذریعے منعکس کرکے سرنگ کے اندر پھینکتے ہیں جس سے اندرونی ماحول روشن ہو جاتا ہے۔

ریل کی پٹڑی کے بیچ میں کھڑے ہو کر اگر شمال کی جانب نظر دوڑائیں تو تین سرنگیں ایک سیدھ میں نظر آتی ہیں اور ان کے روشن دھانے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دیو ہیکل آنکھ پلک جھپکے بغیر مسلسل دیکھے جارہی ہے۔ ایسے میں ٹرین کا نظارہ بڑا دل نشین ہوتا ہے وہ کالی پتلی میں داخل ہوتے ہی کہیں گم ہو جاتی ہے اور پھر دوسرے دھانے پر دوبارہ نظر آنے لگتی ہے یہ ایک جادوئی منظر محسوس ہوتا ہے۔

ریل کی پٹڑی کے بیچ میں کھڑے ہو کر اگر شمال کی جانب نظر دوڑائیں تو تین سرنگیں ایک سیدھ میں نظر آتی ہیں اور ان کے روشن دھانے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دیو ہیکل آنکھ پلک جھپکے بغیر مسلسل دیکھے جارہی ہے ایسے میں ٹرین کا نظارہ بڑا دل نشین ہوتا ہے وہ کالی پتلی میں داخل ہوتے ہی کہیں گم ہو جاتی ہے اور پھر دوسرے دھانے پر دوبارہ نظر آنے لگتی ہے یہ ایک جادوئی منظر محسوس ہوتا ہے۔

اس علاقے میں نایاب نسل کی جنگلی تتلیوں کی بھی بہتات ہے ان کے سفیدی مائل پروں پر کالے دھبے شاید کالے چٹے پہاڑ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد یہ تتلیاں قطار اندر قطار ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ اڑتی ہوئی جب سرنگ میں سے گزرتی ہیں تو ان کے اڑان کی شانِ بے نیازی اس بات کی غماز ہوتی ہے جیسے یہ سرنگیں ان کی گزر گاہ کے طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔فضا میں اڑتی ہوئی یہ تتلیاں ایسی ہوائی ٹرین کا نظارہ پیش کرتی ہیں جو سبک خرام ہونے کے باوجود کسی صوتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی اس طرح جنگل کی دنیا کا فطرتی حسن ایک ابدی سکون کی کیفیت سے ہمیشہ سرشار رہتا ہے۔

پھلاہی اور جنگلی زیتون کے ان جنگلات میں جنگلی حیات بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔ ہرن، اڑیال،گیدڑ، بھیڑیئے، لومڑ،سور وغیرہ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ چار سو تیتر،چکور اور فاختاﺅں کی صدائیں گونجتی ہیں۔ سائبریا سے آنے والے مہاجر پرندوں میں Wood Peigon ،  ہریل طوطے ،تلیر،مرغابی، کونجیں اور بگلوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔

پہلی اور دوسری سرنگ کے درمیان بچھی ہوئی ریل کی پٹڑی پر شکردرہ پل تعمیر کیا گیا ہے جس کے نیچے سے اطراف کے پہاڑوں سے ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر آنے والا پانی گزرتا ہے۔ شکردرہ نامی گاﺅں کے قریب ندی کی گزرگاہ پر بندھ باندھ کر پانی کو روک لیا گیا اس طرح ڈیم کے وجود میں آنے سے قرب و جوار کی زمینوں کو سیراب کیا جانے لگا۔ ڈیم کی تعمیر سے اب پانی کی سطح ریلوے پل کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ تاہم ریلوے انجینئروں کی ہنر مندی کی داد دیئے بغیر نہیں  رہا جاسکتا جن کی انتھک محنت اور قابلیت کی وجہ سے ریتلے پتھروں کے استون پر ایستادہ شکر درہ پل ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مضبوطی سے پاﺅں جمائے کھڑا ہے۔ پل سے ملحقہ مغربی ڈھلوان پر ریلوے ملازمین کے چند خستہ حال مکان دکھائی دیتے ہیں جو اب تقریباً غیر آباد ہو چکے ہیں ان گھروں کے پہلو میں پانی کے کنارے کے ساتھ ساتھ زمین کی سطح نے ہموار ہو کر چھوٹے سے میدان کی شکل اختیار کرلی ہے۔  ریلوے کے ملازمین کی جانب سے آج کل یہاں ہر سال اپریل کے آغاز میں ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے اور کھانے پینے کی وافر اشیاء  مہیا کرکے مہمانوں کی آﺅ بھگت کی جاتی ہے۔ یہ دن ان ریلوے ملازمین کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے برٹش انڈیا کے زمانے میں ریلوے کی پٹڑی بچھاتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور یہ ان کی قربانی کا ثمر ہے کہ ریل آج بھی رواں دواں یہاں ان مرحومین کی ارواح کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں اور ان کی بلندی درجات کےلیے حمد اور نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔

چند مزدوروں کی قبروں کے نشان آج بھی سرنگ نمبر4 کے قریب دیکھے جاسکتے ہیں یہ انہی غریب الوطن مسافروں کا قبرستان ہے جن کے جسدِ خاکی دور ہونے کی وجہ سے ان کے پیاروں کے پاس نہ بھیجے جاسکے تھے۔ قبرستان کے ساتھ ہی ماقبل از تاریخ کی ایک غار ہے جس میں ڈھور ڈنگر بارش کی صورت میں جائے پناہ تلاش کرتے ہیں اور خاموشی سے سرجھکائے صاحبانِ قبور کو تعزیت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ غار اور قبرستان کے باہمی تعلق کی وجہ سے ضعیف العقیدہ دیہاتیوں میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوگئیں ہیں ان کے خیال کے مطابق قبرستان کے مردوں کی روحیں اس غار کے اطراف میں بھٹکتی رہتی ہیں کیونکہ اکثر یہاں سے رات کے وقت روشنی بلند ہوتے دیکھی گئی ہے اس خوف کی وجہ سے لوگ غار میں داخل ہونے سے گھبراتے ہیں تاہم مال مویشی ان دقیانوسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے اکثر جانور گرمی کی شدت سے بچنے کےلیے یہاں آنکلتے ہیں اور جی میں آئے تو بول و براز کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

شکردرہ پل سے بھی پہلے نندنا براج آتا ہے جو کہ کنجور کے ریلوے اسٹیشن سے محض ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے شکردرہ پل کی طرز تعمیر کے برعکس یہاں ستونوں کی تعمیر میں تراشے ہوئے پتھروں کے بجائے اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے سطح زمین سے گزرتی بلندی لگ بھگ100 فٹ کے قریب اگر نیچے کھڑے ہو کر پل سے گزرتی ہوئی ٹرین کا نظارہ کیا جائے تو دیو ہیکل ڈبے کھلونوں کی مانند ایک دوسرے کے پیچھے لپکتے نظر آتے ہیں جبکہ چلتی ٹرین کی کھڑکی سے نیچے جھانکنے والے مسافر اکثر اپنی آنکھیں بند کرکے سر کو کچھوے کی مانند اندر کھینچ لیتے ہیں کہ مبادہ کششِ ثقل انہیں پل سے نیچے نہ دھکیل دے۔

پل کے نیچے سے گزرنے والی صاف و شفاف پانی کی ندی ’’نندنا‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے ندی پل کے نیچے سے ایک چکر کاٹ کر گزرتی ہے اور بہاؤ کی تیزی کی وجہ سے پانی کی دلگراز تانیں واضح طور پر سُر بکھیرتی سنائی دیتی ہیں۔

نندنا دراصل آنند کا بگڑا ہوا تلفظ ہے کوہستان نمک میں اس نام کا ایک مشہور قلعہ بھی موجود ہے جو نندنا فورٹ کہلاتا ہے۔  اس قلعے کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ البیرونی نے یہاں بیٹھ کر زمین کا محیط معلوم کیا تھا یہ قلعہ آنندپال کے دور میں تعمیر ہوا جو پال خاندان کا حکمران تھا اس خطے میں جے پال کی سلطنت میں آنند پال، بھیم پال اور ترلوجن پال نے حکمرانی قائم کی ان کی حکومت کا خاتمہ گیارویں صدی عیسوی میں سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں انجام پایا۔
آنند پال ایک ذہین حکمران تھا اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کی خاطر قلعے تعمیر کیے اور رفاہِ عامہ کے منصوبوں میں دلچسپی لی اس طرح اسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی یوں تو قلعہ نندنا کی طرح یہ ندی بھی اس کے نام سے منسوب ہوگئی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ انگریزوں نے اس ندی پر پل تعمیر کرکے گویا آنند پال کو خراج دیتے ہوئے اس کے نام کی تختی بھی گاڑ دی اس طرح یہ نندنا برج کے نام سے مشہور ہوگیا۔

غار اور قبرستان کے باہمی تعلق کی وجہ سے ضعیف العقیدہ دیہاتیوں میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوگئیں ہیں ان کے خیال کے مطابق قبرستان کے مردوں کی روحیں اس غار کے اطراف میں بھٹکتی رہتی ہیں

ریلوے کی سات سرنگوں کی خوبصورت مالا کے دونوں سروں کو کنجور اور جھلار کے قدیم اسٹیشنوں نے اپنے گرد باندھ رکھا ہے مشرقی سرے پر ایستادہ کنجور کا ریلوے اسٹیشن وکٹورین عہد کی یاد دلاتا ہے۔ لق و دق میدان میں یہ پلیٹ فارم بازو پھیلائے آنے جانے والے مسافروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے کنجور کے نام کی وجہ تسمیہ چونے کی نرم قسم کا پتھر ہے جو اس علاقے میں وافر مقدار میں موجود ہے لیکن حیرت ہے کہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر میں کنجور کے پتھر کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس کی مناسبت سے محض اسٹیشن کا نام کنجور رکھنے پر ہی اکتفا کیا گیا شاید یہ بھی کچھ اس طرح کا اتفاق ہے جیسے اسکاٹ لینڈ سے منسوب اسکاچ وسکی کا وہاں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سرنگوں کے مغربی اختتامی سرے پر جھلار کا خوبصورت اسٹیشن واقع ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور جھلار نامی گاﺅں نے یہ نام اسٹیشن کو ودیعت کیا ہے۔تیس چالیس گھروں پر مشتمل یہ گاﺅں اب بے آباد ہو چکا ہے کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں تاہم اکا دکا ساربان جنگل میں سے چوری چھپے لکڑیاں کاٹتے نظر آجاتے ہیں اردو کے صاحب طرز ادیب امان اللہ خان نے اپنے ایک افسانے میں جھلار اسٹیشن کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔
”سرنگوں کے اس پار جھلار کا ریلوے اسٹیشن اپنے ازل پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ ’سن1880‘ اپنے وجود کی تاریخ کی تختی عمارت نے اپنے گلے میں لٹکا رکھی تھی۔ اس کی عمر کے گزرے سال آس پاس بکھرے پڑے تھے۔سامنے پہاڑی ٹیلے پر رکھی پانی کی ٹینکی رنگوں کے سینکڑوں لیپ اوڑھ کر سوئی ہوئی تھی۔ندی کنارے قطار میں بیٹھے ریلوے کے کوارٹر ایک ایک کرکے اپنی گزری عمر کی کنکریاں ندی میں پھینک رہے تھے بڑے بڑے اسٹیل گارڈ والا ریل کا پل سات سرنگیں، ہر ایک نے اپنی عمر کا حساب اپنے ماتھے پر لکھ رکھا تھا“۔

”اس برانچ لائن پر شمال اور جنوب سے آنے والی گاڑیاں اس پہاڑی ریلوے اسٹیشن پر چند لمحوں کےلیے رکتیں اور سیٹیاں بجاتی ہوئی سرنگوں کے اس پار چلی جاتیں۔ انجن کا دھواں دیر تک ٹنل سے رستا رہتا“۔

جھلار کی راتوں کا طلسم سر چڑھ کر بولتا ہے فضا مکمل طور پر آلودگی سے پاک ہے۔ دور دور تک ستاروں کے جھرمٹ اور کہکشائیں واضح دکھائی دیتی ہیں،چاندنی راتوں کے علاوہ بھی ستاروں کی جھلملاہٹ سے پگڈنڈیاں اور وادیاں دمکتی نظر آتی ہیں آسمان کی وسعتوں میں نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے جیسے رات کے چوکیدار لالٹین اٹھائے گشت کررہے ہیں اور ایسے میں الوﺅں کی آوازیں بھی”جاگتے رہنا“ کا تاثر پیش کرتی ہیں۔

کالے چٹے پہاڑ کی یہ عجوبہ سرنگیں سات جڑواں بہنوں کی مانند ہیں جنہوں نے وادی کے ابدی حسن کو چار چاند لگا رکھے ہیں یہاں جنگلی حیات ہمیشہ اپنے جوبن پر رہی ہے پہاڑوں کے بیچوں بیچ ندی بہتی ہے۔پہاڑ اور جنگل خوبصورت مناظر پیش کرتے ہیں ڈیم کا پانی واٹر سپورٹس کے لیے دستیاب ہے اگر یہاں سیاحوں کو مدعو کیا جائے تو یقینا لوگ اس چھپی ہوئی سیرگاہ کا سراغ پا کر خوشی سے جھوم اٹھیں گے یہاں ہوٹل اور ریستوران کھولے جائیں۔طلباءکو ترغیب دے کر سالانہ واک کے مقابلے کرائے جاسکتے ہیں اس طرح اپنے ملک کے تاریخی ورثے سے آگاہی حاصل ہونے میں مدد ملے گی۔امن و آشتی کا ماحول میسر آنے سے سیاحت بھی فروغ پائے گی اور محکمہ ریلوے کی آمدنی میں بھی معقول اضافہ ہوگا۔

حوالہ جات : صباءگل، آرٹیکل، روزنامہ دی نیشن اسلام آباد،9مارچ2009

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...