برکت کیوں اُٹھ گئی ہے؟

770

ہم یہ جملہ اکثر لوگوں سے سنتے ہیں ’آج وقت اور پیسے میں برکت نہیں رہی‘۔ کچھ لوگ یہاں تک کہہ جاتے ہیں ’یہ قربِ قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے کہ قرب قیامت میں پیسہ اور وقت دونوں میں برکت نہیں رہے گی‘۔ اس سوچ کا تجزیہ کریں تو بات اس سے مختلف نظر آتی ہے۔ برکت کا تعلق اخلاص، ایمانداری اور اتفاق سے ہے۔

ان (اخلاص،ایمانداری اور اتفاق) خوبیوں کو پیدا کرنے والا فرد ہو یا معاشرہ خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، وہ برکت سے کبھی محروم نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم یہود کا ذکر قرآن مجید میں بار بار کیا ہے۔ اس قوم میں وہ تمام خرابیاں در آئی تھیں جو ایک قوم کے زوال اور ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ صرف قوم یہود کا فرد ہونا کافی ہے۔ اس سے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا جنت میں صرف ہم جائیں گے، ہم خدا کے پسندیدہ  ہیں۔ گویا انہوں نے مذہب کو نسلی تفاخر پہ قائم کر لیا تھا یعنی نجات اسی کی ہوگی جو یہودی ہوگا۔ اب ہم مسلمانوں کا خیال بھی یہی ہے کہ ہم جیسے ہیں لیکن مسلمان ہیں اور ہمارے وقت اور دولت میں برکت کے لیے اتنا ہونا کافی ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر برکت نہیں ہے تو یہ قربِ قیامت کی علامت ہے۔

قرآن مجید نے کم تولنے اور ماپنے سے منع کیا۔ یہ بات اس طرح سمجھائی ہے کہ اگر  کوئی تمہیں کم ماپ یا تول کردے تو تم کبھی نہ لو بلکہ فرمایا ’ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے، جب لوگوں سے ماپ کرلیں تو پورا لیں اور جب انہیں ماپ کر یا تول کردیں تو کم کردیں‘ قرآن مجید میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا ذکر ہے جو کم تولتی تھی، حضرت نے انہیں منع فرمایا لیکن وہ قوم باز نہ آئی تو ان پہ خدا نے دردناک عذاب نازل کیا۔ ترازو ایک عدل کا استعارہ ہے جسے قرآن مجید نے قائم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں تجارت، عدالت، معاشرت، معیشت اور سیاست شامل ہے۔ ترازو کا توازن بگڑ جائے تو پورا معاشرہ غیر متوازن ہوجاتا ہے، اس کے اجتماعی مسائل میں عدل اور انصاف کا قتل ہوجاتا ہے۔

وقت اور پیسے میں برکت انہی معاشروں میں ہوتی ہے جہاں عدل و انصاف کا ترازو قائم رہتا ہے

جب معاشرے کا چال چلن ایسا ہو جائے تو پھر برکت کیسے رہے؟ برکت احکام الٰہی کی پابندی میں ہے، اس ذات کی فرمانبرداری میں ہے جس نے اس دنیا کو ڈیزائن کیا ہے۔ اس کے ڈیزائن کے برعکس زندگی گزارنے سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص بدعنوانی کرتا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھے کہ میرے ایسا کرنے سے کیا نقصان ہے؟ اس کے ایسا کرنے سے دوسرے شخص سے زیادتی ہوئی ہے۔ وہ متأثرہ شخص بے یقینی کی حالت میں چلا گیا ہے۔ اُس کا اعتماد اپنے سماج اور نظام سے اُٹھ گیا ہے۔ نتیجتاً معاملاتِ زندگی میں ٹیڑھ پن آجاتا ہے۔ انسان کا انسان سے تعلق کمزور اور معاشرہ بے لگام ہوجاتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنی محنت کی کمائی سے خرچ کرنے کے باوجود، اپنے حق کو حاصل نہیں کرپاتا تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔ ظلم کے معاشرے قائم نہیں رہتے۔ تباہی و زوال کا علاج عدل و انصاف ہے۔ اسی سے برکت ہے اللہ کی حمایت و نصرت بھی شاملِ حال رہتی ہے۔ بےشک انسان کا رزق کم ہو لیکن تھوڑا رزق بھی قلبی سکون کا باعث بنتا ہے۔ اللہ و رسول کی فرمانبرداری مادی اور روحانی تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

اس لیے جن معاشروں میں عدل کے تقاضے پورے کیے جاتے  اور ’احسان‘ کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہاں لوگوں کی زندگیاں آسان ہو جاتی ہیں۔ یہی آسانی برکت  کہلاتی ہے جسے اللہ تعالی اپنی مخلوق کو ان کے اعمال صالحہ کے بدلے میں عطا کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ وقت اور پیسے میں برکت انہی معاشروں میں ہوتی ہے جہاں عدل و انصاف کا ترازو قائم رہتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...