میں ہوں نجود: دس سال عمر اور مطلقہ (چوتھی قسط)

1,263

نجود علی یمن سے تعلق رکھنے والی ایک بچی ہے جس کی شادی اس کے بچپن میں کسی ادھیڑ عمر شخص سے کردی جاتی ہے جو بجائے خود ایک ظلم ہے مگر اس پر مستزاد یہ کہ اس پر شوہر کی جانب سے کام کاج اور دیگر امورِ خانہ داری سے ساسس سسر کی خدمت تک کی سبھی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ مزید یکہ اس پر ظلم و زیادتی اور تشدد کو بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس ظلم وجبر سے نجات کے لیے گھر سے نکلنے اور طلاق لینے میں کامیابی تک کے مراحل کو آپ بیتی کی صورت میں ایرانی نژاد فرانسیسی صحافی اور مصنفہ ڈلفن مینوئے (Delphine Minoui)نے”I’m Nujood: Age 10 and Divorced”کے نام سے تحریر کیا ہے۔ نجود علی جبری اورکم عمری کی شادی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہیں اوران کی آپ بیتی کااب تک تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔اردو میں اس کتاب کا ابھی تک کوئی ترجمہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے سماج میں بھی جبری و کم عمری کی شادی اور گھریلو تشددایک المیے کی صورت موجود ہے۔ ایک باہمت کم عمر لڑکی کی آپ بیتی یقیناً ہمارے ذہنوں کو ضرور جھنجھوڑے گی۔ سہ ماہی تجزیات اس کتاب کا اردو ترجمہ قسط وار شائع کررہاہے۔ اس سلسلے کی چوتھی قسط آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

شادی کی تیاریاں، فروری: 2008ء

جب میں اور منی (مونا) ایک ساتھ شاہراہِ ہائل پر ٹہلنے نکلتیں تو وقت ایسے گزرتا کہ پتہ ہی نہ چلتا۔ خوبصورت کپڑوں کو جھانکنے کی غرض سے ہم اپنی پسند کی دکان کی اگلی کھڑکی پر ناک کو اتنے زورسے جماتیں کہ شیشے پہ بخارات بن جاتے اورکپڑے اوجھل ہو جاتے۔بارہا ایسا ہوا کہ کسی پلاسٹک کی مُورتی پر آویزاں شادی کے سفید جوڑے کو دیکھ کر میں بھی مُورت بن جاتی، کیا کہنے لباس عروسی کے! اس میں اور گلی میں چلنے والی سر سے پاوں تک سیاہ کپڑے میں ڈھکی عورتوں کے لباس میں کتنا تضاد ہے۔

’ان شاء اللہ شادی کے دن تم بھی اسی طرح کا جوڑا پہنو گی۔‘ سرگوشی کرتے ہوئے منی نے کہا۔ نقاب سے گھری اس کی آنکھوں میں چمک تھی، اور باقی چہرہ اس نقاب سے ڈھکا ہوا تھا جسے وہ گھر سے نکلتے وقت اوڑھ لیا کرتی تھی۔

منی بہت کم مسکرایا کرتی تھی، اس کی قسمت میں شادی کی خوشیاں نہیں تھیں،کیونکہ اس کی شادی جلدی میں کر دی گئی تھی اور وہ صرف ایک نیلا جوڑا ہی لے پائی تھی۔ پھر جب سے اس کا شوہر اچانک غائب ہوا وہ اپنے شادی کے جوڑے کے تذکرے کے علاوہ اس تعلق کی تفصیل میں جانے سے بھی کتراتی تھی۔ معلوم نہیں کہ وہ کہاں گیا، اس کے بارے میں کوئی بھی خبر نہیں ملی، میرا خیال تھا کہ وہ یمن سے دور کہیں سفر پر نکل گیا ہو گا، لیکن زیادہ جانچ کرید نہیں کی گئی، کیونکہ منی اس بابت زیادہ پوچھ گچھ کرنا پسند نہیں کرتی۔ وہ بس اس خواہش کا اظہارکرتی کہ مجھے ایساشوہرملے جومجھ سے پیار کرے اورعزت دے۔

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میری شادی کا دن اتنی جلدی آ جائے گا۔ مجھے شادی سے متعلق کوئی واضح آگاہی بھی نہیں تھی۔ میرے نزدیک تو شادی ایک بڑی تقریب کا نام تھا جس میں بہت سے لوگ جمع ہوتے ہیں، بہت سے تحفے، چاکلیٹس اور زیورات دیے جاتے ہیں، نیا گھر ہوتا ہے اور نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے میں اپنے کزنوں کی شادی کی تقریبات میں شرکت کر چکی تھی جن میں رقص و سرود بھی تھا اور عورتیں بالٹوس کے نیچے لمبے سیاہ کوٹ پہنے بہت خوبصورت لگتیں۔ ان کے چہروں پر نہایت خوبصورت میک اپ ہوتا، اور ان کے بال شیمپو کی بوتلوں پر بنی تصاویر کی طرح نرم و ملائم ہوتے، اور جو اُن میں سب سے زیادہ خوبصورت ہوتیں وہ اپنے بالوں پر تتلی جیسے مُو گیر (کلپ) لگاتیں۔

میں ہمیشہ ان پارٹیوں سے لطف اندوز ہوئی۔ مجھے ان دلہنوں کے ہاتھوں اور بازوؤں پر مہندی کی وہ سجاوٹ یاد آرہی ہے جس میں پھول جیسے ڈیزائن ہوتے۔ یہ مہندی بہت خوبصورت تھی،اسے دیکھ کرمیں اپنے دل میں کہتی کہ کسی دن میں بھی اپنے ہاتھوں پر ایسی ہی مہندی سجاؤں گی۔

جب میرے ابو نے اعلان کیا کہ میری شادی کا وقت آ چکا ہے تو میرے لیے یہ خبر بالکل اچانک اور غیرمتوقع تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہوا۔ پہلے تو میں خوش ہوئی کہ جو زندگی میں گزار رہی تھی اس سے فوری نکلنے کا یہی راستہ ہے کیونکہ گھر میں زندگی بہت مشکل تھی۔ جب سے ابو کی بلدیہ سے نوکری ختم ہوئی تھی انہیں کبھی کوئی کل وقتی کام نہیں ملا، اس لیے ہم گھر کا کرایہ دینے میں ہمیشہ تاخیر کر دیتے اور مکان مالک ہمیں ہر دفعہ گھر خالی کرنے کی دھمکی دیتا۔

میری امی کفایت شعاری کی عادی ہو گئی تھیں۔وہ صرف سبزی والے شوربے کے ساتھ چاول پکاتیں۔انہوں نے مجھے بھی امور خانہ داری کی تربیت دینا شروع کر دی تھی۔ میں ان کے ساتھ مل کر ”شافوٹ” بناتی۔ یہ آلو کے بنے ہوئے باریک قتلوں، ذائقہ دار دہی، لہسن اور پیاز  سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شہد سے تیار کردہ مشہور یمنی ڈش”بنت الصحن” بناتی جوکہ انتہائی لذیذ ڈش ہے۔ اگر کسی دن میرے ابو بقدر کفایت زیادہ پیسے لے کر آتے تو امی میرے بھائیوں کو مرغی لینے بھیج دیتیں اور اسے جمعہ کے دن پکاتیں،کیونکہ یہ روز ہم مسلمانوں کے ہاں چھٹی کا ہوتا ہے۔

جہاں تک سرخ گوشت (ریڈ مِیٹ) کی بات ہے تو اسے تو بھول ہی جائیے۔ وہ بہت مہنگا ہوتا ہے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ آخری مرتبہ گائے کا گوشت کسی ریستوران میں کھایا تھاجہاں ہمارے کزنوں نے عید کی دعوت کی تھی۔ اس دعوت میں ہم نے پیپسی بھی پی تھی جو کہ امریکہ سے درآمد شدہ سیاہ رنگ کا مشروب ہوتا ہے۔ جب ہم ریستوران سے نکلنے لگے تو ایک ویٹر نے بڑوں کی طرح میرے ہاتھ پر بھی عطر چھڑکا جس کی خوشبو دل آویز تھی۔

میری امی نے مجھے روٹی پکانی بھی سکھائی تھی۔جب میں آٹا گوندھ لیتی تو وہ تندور میں آگ جلاتیں، پھر آٹے کے پیڑے پھیلاتیں اور اسے پورے چاند کی شکل میں بنا کر تندور کی اندرونی دیواروں کے ساتھ چپکا دیتیں۔ تاہم انہوں نے ایک دن تندور لگانا بند کر دیا اور اسے بلیک مارکیٹ میں چند پیسوں کے عوض فروخت کر دیا۔ جب بھی ہمارے گھر میں تنگدستی ڈیرہ ڈالتی وہ کچھ سامان بیچ ڈالتیں۔درحقیقت انہیں ابو کی طرف سے کسی سہارے کی امید نہیں تھی۔

پھر وہ دن آگیا جب فروخت کرنے کے لیے کوئی خاص چیز نہیں بچی اور پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ میرے بھائیوں کو کھانا نہیں ملا تو وہ گلی میں پھیری لگانے والے بچوں کے ساتھ ہو لیے جو سرخ بتی کے قریب کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس امید کے ساتھ گاڑیوں کا سامنے والا شیشہ بجاتے ہیں کہ کوئی ان سے چیونگم یا ٹیشو پیپر کے پیکٹ خرید کر انہیں چند پیسے دیدے۔ یہاں تک کہ منی بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی لیکن وہ ایک اور مشکل میں پھنس گئی۔ اگلے دن پولیس نے اسے پکڑ کر چند دنوں کے لیے ایک حراستی مرکز کی طرف روانہ کر دیا۔ جب وہ گھر واپس آئی تو اس نے ہمیں بتایا کہ اس کوایسی عورتوں کے ساتھ رکھا گیا تھا جن پر بیک وقت کئی مردوں کے ساتھ رہنے کا الزام تھا۔اس نے یہ بھی بتایا کہ جیل میں موجود خواتین اہلکار ان کے بال پکڑ کر کھینچتیں۔ جب منی کا یہ خوف ختم ہوا تو وہ دوبارہ بھیک مانگنے نکلی،بدقسمتی سے پھر پولیس کے ساتھ اس کا ٹاکرا ہوگیا۔ دوسری قید کے بعد اس نے اپنی یہ خطرناک کام چھوڑدیا۔ اب میری اور ھیفا کی باری آئی کہ ہم اپنی قسمت آزمائیں، ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر جاتیں اور اپنے ناخنوں سے گاڑیوں کے شیشے کھرچتیں، ہمیں ڈارئیوروں کی طرف نگاہ اٹھانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ ہمیں نظرانداز ہی کرتے تھے۔ مجھے یہ پسند نہیں تھا، لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ  کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔

جن دنوں ابو چارپائی پر زیادہ دیر تک نہ پڑے رہتے وہ محلے کے کسی چوک میں جا کر دوسرے بے روزگار افراد کی طرح اس امید کے ساتھ  آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے کہ انہیں پانچ ہزار یمنی ریال (جو کہ پانچ ڈالر کے مساوی ہوتے ہیں) کے عوض کوئی مزدوری، معماری یا کسی بھی قسم کا کام مل جائے۔ ظہر کے بعد کے اوقات وہ باقاعدگی سے پڑوسیوں  کے ساتھ قات کے نشہ آورپتے چبا کر گزارتے اور کہتے کہ قات چبانے سے انہیں غمِ روزگار بھلانے میں مدد ملتی ہے۔ اب یہ ان کا معمول بن گیا تھا کہ وہ دوسرے مقامی افراد کے ساتھ آلتی پالتی مار کر مجلس جماتے اور پلاسٹک کے چھوٹے سے بیگ سے اچھے اچھے سبز پتے نکالتے اور انہیں اپنے منہ میں ایک طرف ڈال دیتے، جوں جوں بیگ خالی ہوتا جاتا ان کے منہ کا وہ حصہ پھولتا جاتا جس میں قات رکھتے۔ وہ ان پتیوں کا گولہ بنا کر انہیں گھنٹوں چباتے رہتے۔

قات کی ایک مجلس میں ہی تیس سال کی عمر کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور گویا ہوا:

’میں چاہتا ہوں کہ ہم دونوں کے کنبے ایک ہوجائیں۔‘

اس کا نام فارس علی تامر تھا۔ وہ ڈیلیوری مین کے طور پر کام کرتا تھا، اپنی موٹرسائیکل پر پارسل یہاں وہاں پہنچاتا۔ ہماری طرح اس کا تعلق بھی خارجی گاؤں سے تھا۔وہ شادی کے لیے منکوحہ کی تلاش میں تھا۔ میرے والد نے فوراََ ہی اس کی تجویز کو قبول کرلیا۔ میری دو بڑی بہنوں جمیلہ اور مونا کی شادی ہو چکی تھی اور ظاہر ہے کہ اگلا نمبر میرا تھا۔ اس شام جب ابو گھر لوٹے تو وہ فیصلہ کر چکے تھے اور کوئی بھی اس سے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔

اس شام میں مجھے ابو اور منی کے درمیان ہونے والی کچھ گفتگو سننے کا موقع ملا۔

’نجود کی ابھی شادی کی عمر نہیں، وہ بہت چھوٹی ہے۔‘ منی نے زور دے کر کہا۔

’بہت چھوٹی؟ جب حضرت عائشہ کی نبی اکرام ﷺ سے شادی ہوئی تھی تو ان کی عمر صرف نو سال تھی۔‘ میرے ابو نے اسے جواب میں کہا۔

’ہاں! لیکن وہ ان کے زمانے میں تھا۔ اب تو حالات مختلف ہیں۔‘

’سنو، یہ شادی اس کی حفاظت کا بہترین طریقہ ہے۔‘

’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘

تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میراکیا مقصد ہے۔ جلد شادی سے وہ ان پریشانیوں سے محفوظ رہے گی جو تمہیں اور جمیلہ کو پیش آئیں۔۔۔ کسی انجان سے زیادتی کا شکار ہونے اور زمانے بھر میں رسوا ہونے سے بچ جائے گی۔ یہ شخص کم از کم ایماندار لگتا ہے۔ سب محلے والے اسے جانتے ہیں۔وہ ہمارے گاؤں سے ہے۔ اور اس نے

وعدہ کیا ہے کہ جب تک نجود بڑی نہیں ہو جاتی وہ اس کے قریب نہیں جائے گا۔

’ لیکن۔۔۔‘

’میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے، ویسے بھی تم جانتی ہو کہ پورے گھرانے کو کھلانے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔اس کی شادی سے کھانا کھانے والا ایک منہ کم ہو جائے گا۔‘

میری امی منی کے ساتھ خاموشی سے بیٹھی رہیں۔ وہ افسردہ نظر آ رہی تھیں لیکن ابو کے آگے خاموش رہیں کیونکہ اکثر یمنی عورتوں کی طرح ان کی بھی ارینج میرج ہوئی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ ہمارے ملک میں مردوں کی بات ہی چلتی ہے۔ عورتوں کا کام صرف پیروی کرنا اور حکم بجا لانا ہے۔ اس لیے میرے حق میں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔

میرے دماغ میں تو اپنے ابو کی باتیں مسلسل گونج رہی تھیں۔ ایک کھانے والا منہ کم ہو جائے گا؟ تو کیا میں ان پر بوجھ ہوں کہ جس سے چھٹکارا پانے کا موقع ملتے ہی یہ جان چھڑانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں؟

مانا کہ میں عمر کے اُس حصے میں اِتنی عقلمند بچی نہیں تھی جسے وہ پیار کرتے لیکن کیا بچے کم عقل نہیں ہوتے؟ آخر میں بھی تو ان سے تمام خامیوں کے باوجود، ان کے منہ سے قات کی بو آنے کے باوجود، اور روٹی کے لیے چند پیسے کمانے کے لیے ہم سے بھیک منگوانے کے باوجود،ان سے محبت کرتی ہوں۔

’جو پریشانیاں تم نے اور جمیلہ نے اٹھائیں‘ اس سے ان کی کیا مراد ہے؟ میں تو بس اتنا ہی جانتی تھی کہ ایک ہفتہ گزرا۔ پھر ایک ہفتہ اور گزر گیا لیکن جمیلہ واپس نہیں آئی۔ وہ بھی منی کے شوہر کی طرح اچانک غائب ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے دن گننا چھوڑ دیے کہ اسے مجھ سے دور ہوئے کتنا عرصہ بیت چکا۔ وہ جو اکثر ہم سے ملنے آیا کرتی تھی اب بالکل ہی غائب ہو گئی۔ مجھے جمیلہ سے بہت محبت تھی، اگرچہ وہ بہت شرمیلی اور کم گو تھی لیکن بہت ہی اچھی اور خیال رکھنے والی تھی۔ میرے لیے کبھی کبھار مٹھائیاں لاتی تھی۔ اسی طرح منی کا شوہر بھی اس پراسرار گمشدگی کے بعد واپس نہیں لوٹا۔ آخر وہ کہاں گیا ہو گا؟ بڑوں کے یہ واقعات میرے لیے ناقابل فہم تھے۔

بیٹے کے لاپتہ ہونے کے بعدمنی کی ساس نے اپنی تین سالہ پوتی منیرہ اور ڈیڑھ سالہ پوتے ناصر کو اپنی پرورش میں لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ پہلے سے دلگیر منی نے بچوں کو اپنی پرورش میں ہی رکھنے کا مقدمہ شیرنی کی طرح لڑا تھا، جس کے نتیجے میں اسے جزوی فتح مل گئی تھی اور  بہتیرے اصرار کے بعد وہ اپنے دودھ پیتے بچے کی نرسنگ کی ضرورت کے پیش نظر اسے پاس رکھنے میں کامیاب ہو گئی۔ منی کو ہمیشہ اس بچے کے کھو جانے کا خوف دامن گیر رہتا اس لیے اسے کبھی بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی، اگروہ کبھی اس سے ذرا بھی دُور جاتا تو بھاگ کر اسے پکڑ لیتی اور اس زور سے اپنی بانہوں میں لے لیتی جیسے کہ وہ کوئی خزانہ ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

میری شادی کی تیاریاں تیزی بڑھنے لگیں اور مجھے اپنی بد قسمتی کا احساس اس وقت ہوا جب میرے مستقبل کے شوہر کے اہل خانہ نے فیصلہ کیا کہ شادی کی رات سے ایک ماہ قبل مجھے اسکول چھوڑنا ہوگا۔ اداسی کے عالم میں اپنی سہیلی ملاک کو گلے لگایا اور اس سے وعدہ کیا کہ میں جلد ہی واپس آ جاؤں گی۔

’ایک دن ہم ساتھ مل کر ساحل سمندر پر جائیں گے،‘ گلے ملتے وقت اس نے میرے بازووں کو زور سے پکڑتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہا۔

یہ ہماری آخری ملاقات تھی، اس کے بعد میں اس سے کبھی نہیں مل سکی۔

مجبوراََمجھے اپنی دو پسندید استانیوں میڈم سامیہ اور میڈم سمیرا کو بھی الوداع کہنا پڑا۔ انہیں سے ہی میں نے عربی حروف میں اپنا نام لکھنا سیکھا تھا۔: نون کی محرابی شکل، جیم کی خمیدگی، واو کا کڑا اور دال کے دو سِرے: نجود۔ میں ان دونوں استانیوں کی مقروض ہوں۔

ریاضی اور قرآن پاک میرے دو پسندیدہ مضمون تھے۔ ہم نے اسلام کے ان پانچ ستونوں کو کلاس میں زبانی یاد کیا تھا:کلمہ شہادت یا ایمان کا اعلان، یومیہ پنج وقتہ نماز، مکہ مکرمہ کا عظیم سفر حج، زکوٰۃ اور رمضان کے روزے۔ میڈم سمیرا نے بتایا تھا کہ جب ہم بڑے ہو جائیں گے تو ہم بھی روزہ رکھا کریں گے۔

میرا ایک اور پسندیدہ مضمون ڈرائنگ تھا۔ میں رنگین پنسلوں سے ناشپاتی اور پھول بناتی۔ اس کے علاوہ سبز چھتوں، نیلی کھڑکیوں اور سرخ چمنیوں والے بنگلے بناتی، اور کبھی کبھار کسی بنگلے کے مرکزی دروازے کے سامنے وردی میں ملبوس گارڈ کی تصویر بناتی کیونکہ میں نے سنا ہے کہ امیر لوگوں کے گھروں کے باہر گارڈ بھی ہوتے ہیں۔میں ہمیشہ باغ میں پھلوں سے لدے ہوئے بڑے درخت بناتی جن کے وسط میں پانی کا چھوٹا سا تالاب ہوتا۔

بریک ٹائم میں ہم چھپن چھپائی کھیلتے اور بچوں کے نغمے گاتے۔ مجھے سکول بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ میرے لیے جائے پناہ اور جائے مسرت تھا۔

شادی کی اطلاع کے ساتھ مجھے اپنے گھر سے صرف چند گز کے فاصلے پر رہنے والے پڑوسیوں کی طرف جانا بھی ترک کرنا پڑا۔ ان کے گھر میں ٹرانزسٹر ریڈیو تھا، میں اپنی چھوٹی بہن ھیفا کے ساتھ ان کے گھر ھیفا وہبی اور نانسی عجرم کی کے گانے سننے جایا کرتی تھی، یہ دونوں لبنان کی خوبصورت گلوکارائیں ہیں۔ ان کے بال لمبے اور آنکھیں اور ناک خوبصورت ہیں۔ ہم بھی ان ہی کی طرح اپنی پلکیں ہلاتیں اور ٹھمکے لگاتیں۔ ایک یمنی گلوکارہ جمیلہ سعد ہیں جو صحیح معنوں میں اسٹار ہیں۔ وہ بھی ہمیں بہت پسند تھیں۔ ان کے ایک گیت کے بول یہ ہیں:

مغرور انت کثیرا  بنفسک۔۔۔ تعتقد انک الافضل

’تمہیں خود پر بہت ناز ہے۔۔۔ تم سمجھتے ہو کہ تم جیسا کوئی نہیں‘

ہمارے پڑوسی ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جن کے پاس ٹی وی بھی تھا۔ ٹی وی دیکھ کر مجھے لگتا تھا

کہ میں کہیں سیر کے لیے نکل گئی ہوں۔ مجھے اپنے پسندیدہ کارٹون ”ٹوم اینڈ جیری” بہت اچھے لگتے تھے۔ اسی طرح میں ”عدنان اور لینا” بھی دیکھتی، جس میں دو ایشیائی دوستوں کی کہانی عکس بند کی گئی تھی جو ایک دور دراز کے جزیرے پر ملے تھے۔ دونوں کی آنکھیں سبز تھیں اور میرے خیال میں وہ جاپانی، یا شاید چینی تھے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ بھی میری طرح، اور بغیر اٹکے عربی بولتے تھے۔ عدنان ایک بہادر لڑکا تھا جو لینا کو بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا۔ در حقیقت اس نے کئی بار لینا کو ان برے لوگوں سے بچایا جو اسے اغوا کرنا چاہتے تھے۔ وہ بہت خوش قسمت تھی اور مجھے اس پر بہت رشک آتا تھا۔

عدنان کے تذکرے سے مجھے ایمن یاد آ گیا ہے جو کہ وادی قاع کا ایک لڑکا ہے۔ میں اسے کبھی نہیں بھول سکتی۔ ایک دن جب میں اپنی کچھ سہیلیوں کے ساتھ گلی میں سے گزر رہی تھی کہ اچانک محلے کے ایک لڑکے نے ہمیں روک لیا۔ اس نے ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی اور ہمیں گالیوں کی طرح کی گندی باتیں کہیں۔ وہ ہمیں خوفزدہ دیکھ کر ہمارے اوپر ہنسنے لگا۔ اتنے میں اچانک ایمن آپہنچا اور اس نے اسے ڈرایا دھمکایا:

’نکل جاؤ یہاں سے، ورنہ میں اس پتھر سے تمہارا سر پھوڑ دوں گا۔‘ ایمن نے کہا۔

اور اس طرح وہ لڑکا ڈر کر بھاگ گیا اور ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ واحد موقع تھا جب کوئی لڑکا مجھے بچانے کے لیے آیا۔ اسی لیے ایمن میرا خیالی ہیرو بن گیا تھا۔ میں اپنے دل میں سوچتی تھی کہ جب میں بڑی ہو جاؤں گی تو شاید میری قسمت میں بھی ایسا ہی شوہر ہو۔

(جاری ہے)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...