یو بی ایل لٹریری ایوارڈز کی بندر بانٹ

1,528

سو میٹر کی ایک ریس میں فقط ایک ہی اتھلیٹ نے حصہ لیا۔ اس نے مقررہ فاصلہ تقریباً دو منٹ میں طے کیا جو معیاری اتھلیٹ عموماً دس سے بارہ سیکنڈ میں طے کر لیتا ہے۔ جب نتیجے کا اعلان ہوا تو اس کی چوتھی پوزیشن آئی۔ حیران و پریشان اتھلیٹ نے ریفری سے احتجاج کیا کہ ریس میں اکیلا دوڑ کر بھی میں چوتھے نمبر پر کیسے آ سکتا ہوں؟ ریفری نے بڑی متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا کہ جنہاں نے پہلے، دوجے تے تیجے نمبر تے آنا سی، اج او آئے ای نئیں ( جنہوں نے پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنا تھا، آج وہ آئے ہی نہیں۔ )
اس دوڑ کا ریفری یقیناً یو بی ایل لٹریری ایوارڈ کے منصفین سے کہیں زیادہ دیانت دار اور اپنی زمہ داریوں سے وفادار نظر آتا ہے جس نے بد ترین حالات میں بھی معیار پر سمجھوتا نہیں کیا اور غیر مستحق کو امتیازی انعام نہ دے کر اس اعزاز کے وقار کو بچا لیا۔
لیکن قربان جائیے مسعود اشعر صاحب, کشور ناہید صاحبہ، ڈاکٹر عارفہ سیدہ صاحبہ, ڈاکٹر انوار احمد صاحب اور اصغر ندیم سید صاحب ( موصوف کو بہ وجوہ ڈاکٹر نہیں لکھا) پر کہ غیر مستحق اردو ناول نگاروں کو ایوارڈتے وقت نہ تو ان کی زبانیں لڑکھڑائیں، نہ ہاتھ کانپے اور نہ ہی ماتھوں پر عرقِ انفعال آیا:
‘ حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے’
عرصہ دراز سے مسلسل کئی نااہل افراد کو اعزازنے کے بعد, یہ حضرات شاید ان غدود ہی سے محروم ہو چکے ہیں جو انسان کی رگِ حمیت کو پھڑکنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اپنی انہی ناانصافیوں کی بہ دولت مذکوران اردو ادب میں ہمیشہ ” اچھے” لفظوں میں یاد کیے جائیں گے۔ ویسے تو بیان کردہ افراد اتنے ” خوش قسمت” واقع ہوئے ہیں کہ ان کے ” نیک اعمال” کا صلہ انہیں اپنی زندگیوں ہی میں مل گیا ہے؛ موصوفین کو ادبی حلقوں میں جن لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے ان کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ آبرو مند حضرات انھیں بھلانے کے لیے اپنے حافظے تک کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
میں نےحالیہ یوبی ایل ایوارڈ یافتہ کتب میں سے فقط اردو ناول ہی پڑھے ہیں، لیکن ان کے” عمدہ معیار” اور منصفین کے سابقہ کردار کی بنیاد پر قیاس کر سکتا ہوں کہ دیگر ایوارڈز بھی ” اعلا کارکردگی” کی بنیاد ہی پر دئیے گئے ہوں گے۔ تاہم میرے نکتہء نظر کا محور اردو ناولوں پر دئیے گئے اعزازات ہیں۔
ادبی انعامات کے منصفین کا یہ بیانیہ کہ مقابلے میں شریک ہی بری تحریریں ہوں تو پھر مجبوراً کم بری تحریر کو انعام دینا پڑتا ہے، معیار پر سمجھوتے کا کھلم کھلا اعلان ہے۔ چھانٹ اچھے اور برے کی ہوتی ہے۔ زیادہ اور کم برا بہ ہر حال بروں کے لئے مخصوص خانوں ہی میں رکھا جاتا ہے، اچھوں کی مجلس میں بٹھا کر اس کی تاج پوشی کرکے اچھے برے کی تمیز ختم نہیں کی جاتی۔ خدارا، ادبی انعامات دیتے وقت کوئی معیار تو طے کریں جس کی بنیاد پر آپ کے “فیصلوں” کی جانچ ہو سکے۔ لیکن یو بی ایل ایوارڈ ہی کیا، وطنِ عزیز میں دیگر ایوارڈز اور انعامات کی تقسیم بھی معیار کو یتیم کر کے ہوتی ہے، اس موضوع پر کبھی مفصل بات ہوگی، فی الحال مرگِ ناول کا نوحہ تو پڑھ لوں:
‘ لکھا ان ” منصفوں” نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں’
یو بی ایل ایوارڈ کے ججز کا پہلا امتحان ناولوں کو شارٹ لسٹ کرنا تھا جس میں یہ حضرات امتیازی نمبروں سے فیل ہوئے۔ حضور! اگر مقابلے کے لئے مقررہ وقت میں کوئی معیاری ناول نہیں لکھا گیا تو انعام کو مؤخر کرکے اس کی رہی سہی ساکھ بچائی جا سکتی تھی۔ لیکن نااہل افراد کو ایوارڈنے والے ان سے بھی نااہل ثابت ہوئے اور انعام کو دشنام بنا ڈالا۔ معروف ناول نگار جناب فاروق خالد صاحب کا ان ایوارڈز کی حالیہ بندر بانٹ پر تبصرہ صورتِ حال کا اصل عکاس ہے:
” غیر ممالک میں پاکستانی ڈگریوں، ڈرائونگ لائسنسوں اور دینداروں کی، ان کے کردار کی وجہ سے، کوئی عزت و آبرو نہیں ہے۔ اب وطن میں غیر مستحق لوگوں کو اسی طرح ادبی، بلکہ غیر ادبی، انعامات دیے جارہے ہیں۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے: جس طرح کھان والے، اسی طرح کوھن والے۔ یہ انعامات دینے والے بے چارے بھی کیا کریں، ان کے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ انہیں شاید خیال نہیں آیا کہ ایک چوائس ہے، اور وہ یہ کہ اس کی بجائے انعامات گٹر میں بہا دیے جائیں۔ پلیز، معیارات کا خیال رکھیں یا نئے معیارات متعارف کرائیں؟ شکریہ۔” ( دیکھیے، فاروق خالد صاحب کی فیس بک وال مؤرخہ 10 ستمبر 2020)
محولہ بالا الفاظ ایک حساس دل کا نوحہ ہیں جو اس گلشن کو اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتا دیکھ رہا ہے جس کی آبیاری اس نے اپنے خونِ جگر سے کی۔ یہی حال ہر اس سچے ادیب کا ہے جس کا لہو اس گلستاں کی تزئین میں شامل ہے۔ مسعود اشعر صاحب, کشور ناہید صاحبہ، ڈاکٹر عارفہ سیدہ صاحبہ, ڈاکٹر انوار احمد صاحب اور اصغر ندیم سید صاحب آپ کو باقاعدہ احساس ہونا چاہئیے کہ آپ نے ادیب اور ادیب نما میں فرق مٹا دیا ہے۔ اور آپ کا یہ عمل قطعاً نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی آپ علی اکبر ناطق ایسے ادیبوں کو ایوارڈ چکے ہیں جو صاف اور اغلاط سے پاک اردو میں سکول سے چھٹی لینے کی درخواست تک نہیں لکھ سکتے، لیکن آپ کی ” نظرِ التفات” نے انہیں اردو قارئین کے سر منڈھ دیا ہے۔ اور تو اور آپ کے ” فیصلوں” سے انعام وصولنے والے ادیب نما حضرات بھی مطمئن نہیں کہ کسی نہ کسی سطح پر ان کا ضمیر انھیں ضرور کچوکے لگا رہا ہے۔ انہی میں سے ایک ادیب نما 16 ستمبر 2020 کو اپنی فیس بک وال پر آصف فرخی مرحوم سے مخاطب ہیں. پوسٹ کا متعلقہ حصہ ملاحظہ فرمائیں؛
” پچھلے برس ہم نے نوبیل پرائز پر مل کر اہ و زاریاں کر لیں تھیں۔ اس بار دیکھیے یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ اردو ادبی انعامات بھی اب زوال پذیر ہیں۔ اب یہی دیکھیے ایک انعام مجھ کو بھی مل گیا ہے۔ ہم اس پر ایک مشترکہ قہقہہ لگا سکتے تھے”
موصوف اپنی تحریروں کے” معیار” سے بہ خوبی واقف ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی خبر ہے کہ ان کی لکھت اصل میں ہے کیا۔ دو روز قبل اپنی فیس بک وال پر ایک ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کرتے ہیں. متعلقہ حصہ ملاحظہ کیجئے:
” اس ناول میں البتہ اردو فکشن کا ایک مسئلہ موجود ہے اور وہ یہ کہ مصنف چوں کہ ایک طویل عرصے میں ناول لکھتا ہے سو اسے بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کردار کے بارے میں پہلے کیا لکھ چکا ہے۔ مکھی اور نرا نقاد گند پر ہی گرتے ہیں سو جس کا کام اسی کو ساجھے۔”
اس پوسٹ میں ادیب نما کی دیانت داری اور حقیقت پسندی کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ انھوں نے کم ازکم یہ تو تسلیم کیا کہ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں: وہ محض گند ہے۔ محاورے کا رسمی طور پر غلط لیکن موقعے کی مناسبت سے درست استعمال کیا گیا ہے کہ ” مکھی اور نرا نقاد گند پر ہی گرتے ہیں” حالاں کہ “مکھی گند ہی پر بیٹھتی ہے” درست محاورہ ہے لیکن صورتِ حال کے تناظر میں ” گرتی ہے” کا استعمال بالکل بجا ہے۔ گند کا تعفن برداشت سے بڑھ جائے تو پھر مکھی کے بیٹھنے کی نوبت نہیں آتی بل کہ وہ بے چاری بدبو سے چکرا کر اس پر گر جاتی ہے۔ بہ ہر حال ادیب نما کا یہ اعترافی بیان، ان کی حقیقت پسندی پر دال ہے جس کے لیے وہ بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ادبی انعامات کے اغراض و مقاصد کیا ہوتے ہیں: ادب اور ادبی سرگرمیوں کا فروغ اور اعلی ادبی معیار متعارف کروانا ( دیکھیے، یوبی ایل ایوارڈ کے مقاصد). کیا منصفینِ یو بی ایل لٹریری ایوارڈز ان سوالوں کا جواب دینا پسند فرمائیں گے: حالیہ انعامات سے قارئین کون سے اعلی ادبی معیاروں سے متعارف ہوئے ہیں؟ انعام یافتہ ناول، کیا ناول کی تعریف پر بھی پورے اترتے ہیں یا نہیں؟ ناولوں کو شارٹ لسٹ کرنے اور ازاں بعد ایوارڈنے کے لیے کون سا criteria مقرر کیا گیا؟ اگر آپ کے پاس ان سوالوں کے شافی جواب نہیں ہیں تو پھر فاروق خالد صاحب کی ان ایوارڈز کو گٹر میں بہا دینے کی تجویز انتہائی معقول ہے۔
نااہل منصفین کے غیر مستحق افراد کو نوازنے کے عمل نے اس انعام کو الزام بنا دیا ہے۔ “ثالثوں” کی طرف سے ادیب نماؤں کو زبردستی پہنائی گئی، معیار کے خون سے رنگی ہوئی ڈھیلی انعامی دستاریں، عبائیں اور قبائیں ان کی خوش نمائی نہیں بل کہ جگ ہنسائی کا باعث بنی ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ پوشاکیں ان کے ناپ کی نہیں۔ “عدل گستروں” نے نااہل افراد کو انعام کے چار حرف عطا کر کے اصل میں معیار پر چار حرف بھیجے ہیں۔ اندھوں کے ریوڑیاں بانٹنے کا سنا کرتے تھے آج دیکھ بھی لیا۔ ان حالات میں مبارک باد کے پیغامات وہی لکھتے ہیں جن کے پاس لکھنے کو اور کچھ نہیں ہوتا۔
مسعود اشعر صاحب, کشور ناہید صاحبہ، ڈاکٹر عارفہ سیدہ صاحبہ, ڈاکٹر انوار احمد صاحب اور اصغر ندیم سید صاحب ایسے رہبرانِ ادب کی مسلسل ” مہربانیوں” نے ادبی ماحول کو کمزور، زرد، مرکھنا اور بیمار بنا دیا ہے۔ ہمارا اندر کا کھوکھلا پن اصل میں وہ خوف ہے جو ہمیں سچ بولنے سے روکتا ہے، راہِ عدل سے بھٹکاتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرنے سے روکتا ہے۔ سرکار ! اچھے برے کی پرکھ سلامتی کی دیواروں کے بیچ بیٹھ کر نہیں خوف و خطر کے بھنور میں اتر کر ہوتی ہے۔ موجِ ہوا میں ہلکی سی خنکی بڑھنے پر، اثرات کے خوف سے لرزنے والوں سے عدل کی توقع رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ ڈولتی ٹانگیں اور کانپتے ہاتھ حالات بدلتے نہیں، حالات کے سپرد ہوتے ہیں۔
قحط الرجال کی اس سے بڑھ کر بھیانک صورت اور کیا ہوگی کہ منصفین کی فوج ظفر موج میں سے ایک بھی اختلافی نوٹ نہ دے سکا۔۔۔۔ فقط ایک منصف سرکار۔ ہر سال متفقہ فیصلے اس امر کی شہادت ہیں کہ یہ منصفین نہیں جتھے دار ہیں۔ کاش! گیس اور تیل کے زخائر کی طرح شرم اور حیا کے زخائر بھی دریافت ہوتے تو ان جتھے داروں میں ان کی کمی پوری کی جا سکتی۔ فی الوقت تو اردو ناول کی قبر کھود دی گئی ہے۔

‘ ناول کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ‘

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...