’معرکہ پدم‘ کا ہیرو نہ رہا

814

’’ساب! چھوڑ آج بہتر سال بعد ہماری باتوں پر کون یقین کرتا ہے کہ ہم نے کس بے سرو سامانی کے عالم میں ایک ریاست کی منظم فوج کے ساتھ جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی۔ اِن واقعات کو بیان کرتے ہیں تو آج لوگ اس کو گھڑی ہوئی کہانی سمجھیں گے۔ کیونکہ یہ واقعات ناقابل یقین حد تک منفرد ہیں، لہذا ہماری بات کو کوئی سننے کو تیار نہیں۔ مہینوں گھروں سے دُور اور دشمن کے نرغے میں رہ کر ہم نے جنگ تو جاری رکھی مگر یہ سوال نہ پوچھیے گا کہ ہمیں محاذ جنگ پر کیا سہولتیں حاصل تھیں کہ جن کے سہارے ہم گیارہ ماہ تک دشمن کے نرغے میں ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ خود دشمن کو اپنے گھر میں ادھر اُدھرپناہ ڈوھونڈنے پر مجبور کردیا۔ ساب! دشمن کے نرغے میں ہونے کے ناطے جنگی ضروری سامان اور خوراک کی ترسیل کا تصور ہی نہ تھا، ہمارے جسم پر لباس تک پورا نہیں تھا مسلسل لڑتے لڑتے ہم بے پردہ ہو گئے تھے۔ اپنے آپ کو سرد موسم کی شدت سے بچانے اور اسلامی پردے کو برقرار رکھنے کے لئے زیر استعمال پھٹی پرانی دریوں اور مقامی ”چھرا“ کے ٹکڑے لے کر لباس پر پیوند لگاتے رہے ہیں۔ راشن کا یہ عالم تھا کہ ہمارے پاس آٹا موجود تھا جسے ہم پانی میں گھول کر پیتے تھے ایسے میں پیٹ پر کس کر پیٹی باندھ لیتے اور دشمن سے برسرِ پیکار رہتے۔۔۔‘‘

یہ وہ حقایق ہیں جوجنگ آزادی گلگت بلتستان کے مجاہد اور تاریخی ’معرکہ پدم‘ کے ہیرو وزیر محمد امین سندوس اکثر ملاقات کے دوران سناتے تھے جو اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ فالج کی بیماری سے لڑتے لڑتے اس دارفانی کو چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اس عظیم ہیرو کی خدمات اور قربانیوں کا ایک کالم میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اُنھوں نے کم عمری کے باوجود جنگ آزادی بلتستان میں غیر معمولی خدمات انجام دینے کے بعد انتہائی کسم پرسی کے عالم میں زندگی گزاری۔ دوسرے ہیروز کی طرح اُنہیں بھی حکومت اور قوم کی جانب سے وہ صِلہ و احترام نہیں مل سکے جن کے وہ مستحق تھے۔ اس کا اظہار وہ خود بھی اپنے انٹرویوز میں کرتے رہے۔ اُن سے جب بھی ملاقات ہوتی یہی کہتے کہ ’’معاشرے میں آپ چند ہی لوگ ہیں جو جنگ آزادی کے واقعات سے دلچسپی رکھتے ہیں، اسی وساطت سے ہمیں عزت دیتے ہیں وگرنہ اجتماعی صورت حال ہمارے لیے حوصلہ افزا نہیں ہے۔

وزیر محمد امین سندوس، نوجوانی میں

جنگ آزادی میں شمولیت کی اپنی کہانی میں وہ بتاتے تھے کہ جب جنگ آزادی شروع ہوئی تو گلگت سکاؤٹس کے حکام نے سندوس کو اپنا مرکز بنایا اور یہاں سے جنگ کی ساری منصوبہ بندی ہوئی۔ لوگ سکاؤٹس میں بھرتی کے لئے یہاں جمع ہوتے تھے۔ مجھے بھی خطے کی آزادی کے لئے لڑنے کا بڑا شوق تھا لہٰذا میں بھی وہاں بھرتی کے لیے حاضر ہوا۔ میری اُس وقت عمر بمشکل 13 سال تھی۔ حکام نے مجھے کم سِن قرار دے کربھرتی سے معزرت کرتے ہوئے واپس بھیج دیا۔ میں دوسری بار پھر گیا تو پھر لوٹا دیا گیا۔ تیسری بار خود کو پیش کیا تو کہا گیا کہ تم اتنے چھوٹے ہو کہ بندوق اُٹھا اور چلا بھی نہیں سکتے، تم ہمار ے کام کے نہیں۔ میں نے یقین دلایا کہ بندوق ابھی چلا کر دکھاؤں گا۔ میری بے تابی دیکھ کر سکاؤٹس کے کچھ حکام قائل ہوگئے اور وہ آپس میں کہنے لگے کہ یہ مجاہدین کی معاونت کا کام کرسکے گا۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی، میں بھرتی ہوچکا تھا۔

چند روز بندوق چلانے کی مزید مشق کی۔ مشرقی سرحد کی جانب فورسز کا ایک گروہ جارہا تھا، مجھے بھی اُن کے ساتھ کر دیا گیا۔ کئی روز بعد ہم کھرمنگ پہنچے جہاں دشمن سے ہونے والی جھڑپ میں ایک مجاہد زخمی ہوا تو سکاؤٹس حکام نے فیصلہ کیا کہ میں اور ایک دوسرا مجاہد زخمی کو سکردو پہنچانے کا ٹاسک پورا کریں گے۔ دراصل سکاؤٹس حکام مجھے اِسی بہانے واپس گھر بھیجنا چاہتے تھے۔ میں نے بھی تو جنگ میں حصہ لینے کی ٹھانی ہوئی تھی زخمی مجاہد کو سکردو ہسپتال پہنچا کر واپس کھرمنگ کی جانب روانہ ہوا اور مجاہدین کے پاس پہنچ گیا، وہ اس وقت کرگل کی جانب پیش قدمی کی تیاری میں تھے، میں بھی اُن میں شامل ہوکر ایک کے بعد ایک معرکہ لڑتا ہوا لداخ کے علاقہ زانسکر اور پھر وہاں سے مزید آگے بڑھتے ہوئے پدم جاپہنچے۔ پدم میں ہم 36 لوگ تھے۔ مورچہ سنبھال لیا اور دشمن کا مقابلہ شروع کردیا۔ ہم دشمن کے علاقے کے اندر مورچہ لگا کر بیٹھے تھے۔ لہٰذا دشمن کے لیے بھی ہم سے یہ مورچہ خالی کرانا ایک چلینج بن چکا تھا جس کے لیے وہ پوری قوت سے حملہ کرتا، مگر ہم ان کے حملوں کو اپنے عزم و حوصلہ اور بہتر حکمت عملی سے ناکام بناتے رہے۔ ہمارے آس پاس بیشتر لوگ غیر مسلم تھے۔ جو ہمارے حال احوال کی مخبری ڈوگرہ افواج کے لیے کرتے۔ لہٰذا ہم اپنی حکمت عملی کے تحت ایمونیشن کے بکسوں میں پتھر اور بجریاں بھرتے، اوپر کی سطح پر کارتوس رکھتے اور ڈوگرہ قلیوں کے ذریعے ایک مورچے سے دوسرے مورچے منتقل کراتے۔ یوں ڈوگرہ فوج کے پاس یہ رپورٹینگ ہوتی کہ مسلمان سپاہیوں کے پاس اسلحہ اور ایمونیشن کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

وزیراعظم لیاقت علی خان سے ملاقات کرتے ہوئے، بائیں سے تیسرے نمبر پہ

اس طرح کی حکمت کے نتیجے میں 11 ماہ کا طویل عرصہ اُس مورچے پر ہم ڈٹے رہے۔ اسی اثناء میں کئی بار ہمیں مختلف ذرائع سے یہ خبر ملی کہ برصغیر بٹ کر پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوگیا ہے، جنگ بندی ہوچکی ہے، لیکن ہم نے اِن اطلاعات کو دشمن کی چال سمجھا اور اعتبار نہیں کیا۔ اس طرح کی اطلاعات جو بھی ہم تک پہنچاتے، ہمارا ایک ہی موقف ہوتا تھا کہ ’’چاہے یہ سارا علاقہ ہندوستان بن جائے لیکن پدم پاکستان ہی رہے گا اور یہاں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے گا۔ بعد میں پتہ چلا کہ جنگ بندی واقعی ہوچکی تھی اور ہم دشمن کے علاقے میں موجود تھے۔ جنگ بندی کے 11 ماہ بعد ہماری فوج نے اپنے خصوصی نمائندے ہمارے پاس بھیجے تھے جن پر ہم نے اعتبار کیا اور پدم سے واپسی 1949جولائی میں ہوئی۔ جگہ جگہ ہمارا شاندار استقبال کیا گیا۔

ڈوگرہ فوج نے بھی کرگل میں ہمارے اعزاز میں بڑا استبقالیہ دیا۔ وہاں سکھ بریگیڈیر کمانڈر تھے جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اس میں خطاب کے دوران اُنھوں نے بھی پدم کے ہمارے ساتھی سپاہوں کی شجاعت و بہادری کی تعریف کی، پھرڈوگروہ فوج سے مخاطب ہوکر کہا کہ پتہ ہے تم لوگ گزشتہ 11ماہ سے جن کے ساتھ برسر ِ پیکار تھے اور جنہوں نے جنگ بندی کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے اُن میں کون لوگ شامل تھے یہ کہہ کر میرے کمر کی پیٹی میں ہاتھ ڈال کر مجھے اُٹھا کر ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو ایسے کم سن لوگ تھے جنہوں نے تمہیں مشکل میں ڈالا ہوا تھا۔ سِگھ بریگیڈئر کے یہ جملے ہماری شجاعت و بہادری کا برملا اعتراف تھا جس سے ہمارا سر مزید فخر سے بلند ہوا۔

بڑھاپے میں ایک تقریب کے دوران

انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی استقبالیہ تقریبات سرحد سے لے کر سکردو تک منعقد ہوتی رہیں اور ہمیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ سکردو میں بھی سرکاری اور عوامی سطح پہ بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا۔ عزیز و اقارب تو ہمیں دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر روتے رہے کیونکہ اُنہوں نے تو سرحد پار سے ہماری کوئی خبر نہ ملنے پر ہمیں شہید تصور کرلیا تھا اور ہمارا چہلم بھی مناچکے تھے۔ اُس وقت کے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان ہم سے  ملاقات کے لیے گلگت آئے۔ ہمیں ڈکوٹا جہازکے ذریعے گلگت لے جایا گیا۔ میری کم سنی وزیراعظم سے ملاقات میں بھی زیر بحث رہی۔ لیاقت علی خان نے سامنے پلیٹ سے بسکٹ اٹھا کر مجھے کھلایا۔ انہوں نے دس ہزار روپے گروپ کو انعام دیا جس کا ہمیں پتہ نہیں چلا کہ کہا ں گئے۔ بعد میں ہمیں فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ سب کو مختلف علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ ان جگہوں پر ہم مطمئن نہیں تھے بالآخر تنگ آکر ملازمت چھوڑی دی، یوں ہم پنشن کی رقم سے بھی محروم رہے۔

وہ کہتے تھے کہ سرکاری و عوامی سطح پر ہماری وہ قدردانی نہیں ہوئی جس کے مستحق تھے۔ مرحوم صورت حال سے دل برداشتہ تھے تو انہوں نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے باغ بانی شروع کی۔ ان کی محنت کی وجہ سے آج اُن کا باغ میوہ جات اور پھلوں کے اعتبار سے سکردو کے چند اچھے باغات میں شمار ہوتا ہے۔ عمر کے آخری آیام میں فالج نے حملہ کردیا اور گھر میں کئی ماہ تک بیماری سے مقابلے میں دن گزرنے کے بعد اب خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔

نوجوانی میں اپنے فوجی دوستوں کے ہمراہ، درمیان میں

ان کی وفات کے بعد پدم میں غیر معمولی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے آخری مجاہد اور ہیرو سے بھی خطہ محروم ہوگیا ہے۔ آج محمد امین تو اس دنیا میں موجود نہیں لیکن تصورات میں گویا وہ اب بھی میرے سامنے بیٹھے ہیں اور جنگ آزادی کے ہیروز کی بے مثال قربانیوں کے عوض حکومت اور قوم کی بے حسی پر ہمیں جھنجوڑ رہے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھوں نے اپنے لہو سے اس خطے کو آزاد کرایا تھا، یہ اس لیے تو نہیں تھا کہ ہم اس کے بعد بے نام پڑے رہیں اور 72 سالوں بعد بھی ہم قومی دھارے میں شامل متصور نہ ہوں، ہم ایک ایسی حالت میں رہیں کہ جہاں عام آدمی تو کجا ہمارے ہیروز کی بھی قدر و منزلت نہ ہو۔ ہم دشمن کے گھیرے میں اور دشمن کے دل میں بیٹھ کر بھی پدم کو ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان ثابت کرتے رہے لیکن آج خود سے آزاد کرائے ہوئے خطے میں ہمیں اپنے آپ کو پاکستانی ثابت کرنے میں 72 سال گزر گئے مگر ناکام رہے، نہیں معلوم کب تک ہمیں متازعہ کہہ کر ہمارے زخموں کو کُریدا جائے گا؟

یہ سوال صرف جنگ کے ہیرو کا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے ایک ایک شہری کا ہے۔ یہ سوال نئی حکومت کے وزیر اعلیٰ اور وزراء سے بھی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران انتخابی جلسوں میں وفاقی وزراء گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ کہہ کر پکارتے رہے۔ مگر ہوا یہ کہ ان تقریروں کی صدائے باز گشت گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں ابھی موجود تھی کہ فتح کے بعد صوبائی وزراء کی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ’گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے گی‘۔ آخر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ملک کے حکمران ووٹ کے لیے ہم سے وہ وعدے کرتے ہیں جنہیں وہ نبھانا چاہتے ہی نہیں؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...