پاکستان میں ’رائے سازی‘ کے عمل کی نوعیت کیا ہے؟

1,359

رائےسازی کا اولین و حقیقی وسیلہ کمیونیکیشن اور انسانوں کے مابین باہم بات چیت کا عمل ہے۔ اس تناظر میں رائے سازی ایک انفرادی عمل بھی ہوسکتا ہے، طبقاتی بھی اور یہ ادارہ جاتی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ جب بھی افراد ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو اس دوران ان کا اصل مقصود دوسرے کو متأثر(influence) کرنا ہوتا ہے کہ وہ راست ہے اور اس کی بات کو قبول کیا جائے۔ تاہم کمیونیکیشن، ابلاغ اور اس کے نتیجے میں رائے سازی کی سعی میں اصل عنصر دلیل اور شعور کا ہوتا ہے۔ ایسے میں رائے سازی ایک آزادانہ عمل ہوتا ہے جوسماج میں ایک بہاؤ کی صورت انجام پذیر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک بچے کی رائے سازی میں وہ افراد یا ادارے زیادہ کردار ادا کرتے ہیں جہاں اس کی پرورش ہو رہی ہوتی ہے اور جہاں اس کے ساتھ زیادہ وقت ابلاغ و کمیونیکیشن کا عمل انجام پا رہا ہوتا ہے۔

ان میں خاندان اور تعلیمی ادارے سرفہرست ہیں۔ ان دو جگہوں پر بچے کا وقت زیادہ گزرتا ہے اور انہیں اس کی نظر میں زیادہ احترام بھی حاصل ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ میڈیا بھی رائے سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جبکہ نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا بھی ایک نمایاں عامل ہے جو اپنے طریقے سے سماج میں رائے عامہ ہموار کررہا ہوتا ہے۔

کالم نگار و دانشور خورشید ندیم نے اس تناظر پہ اظہار خیال کرتے ہوئے رائے دی کہ پاکستان میں رائے سازی کا عمل آزادانہ بہاؤ کی صورت دلیل کے زیراثروشعوری طور پہ انجام پذیر نہیں ہوتا۔ اس کی  اصل وجہ ’حتمیت‘ کا وہ عنصر ہے جو یہاں کے سماج میں کمیونیکیشن و ابلاغ کے دوران  ہرجگہ پایا جاتاہے، اس میں خاندانی نظام بھی شامل ہے جہاں والدین اور خاندان کے بڑے اپنے بچوں کی پرورش عموماََ تحکمانہ رویے کے ساتھ کرتے ہیں جس میں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہیں اور بہتر جانتے ہیں اس لیے ان کی بات تسلیم کی جانی چاہیے۔ اسی طرح نصاب تنقیدی شعور کو پروان نہیں چڑھاتا اور سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو وہاں بھی لوگ افہام و تفہیم کی بجائے ایک دوسرے پر رائے تھونپتے نظر آتے ہیں۔

سماجی نفسیات میں حتمیت کے عنصر کی پختگی کے ہونے اورتنقیدی شعور نہ پنپنے کی وجہ سے معاشرے کے لوگ طبقات میں تقسیم ہیں اور طبقاتی شناخت ہی کسی بات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ گویا دلیل و لاجک کی بجائے تعصب کا رائے سازی میں زیادہ عمل دخل ہے۔

پاکستان میں رائے سازی کا عمل آزادانہ بہاؤ کی صورت شعوری طور پہ انجام پذیر نہیں ہوتا۔ اس کی  اصل وجہ ’حتمیت‘ کا وہ عنصر ہے جو یہاں کے سماج میں کمیونیکیشن و ابلاغ کے دوران  ہر جگہ پایا جاتاہے

ایسوسی ایٹ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر لبنیٰ  ظہیر نے کہا کہ پاکستان میں رائے عامہ تو پائی جاتی ہے لیکن صحت مند تھنکنگ پراسس مفقود ہے۔ لوگ ہر معاملے میں ایک رائے تو رکھتے جو انہوں نے اپنے کسی پسندیدہ مذہبی، سیاسی یا صحافتی شخصیت سے سنی ہوتی ہے لیکن اس رائے پرغور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اس لیے لوگوں میں تشدد اور حتمیت پختہ ہے اور نرمی بھی نہیں پائی جاتی۔

اس حوالے سے اساتذہ کی اکثریت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خاندان اور تعلیمی اداروں کے بعد میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ شعبہ رائے سازی کا بڑا پلیٹ فارم ہے۔ ٹی وی سکرین کو خبروں، سیاسی مباحثوں اور ڈراموں کے لیے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں خبر کے اندر تحقیق کا عنصر غائب ہوتا ہے اور اسے پیش کرنے کا طریقہ بھی ہیجانی نفسیات کی پرورش کرتا ہے۔ سیاسی مباحثوں میں مکالمے کی ثقافت کو مجروح کیا جاتا ہے، جبکہ ڈراموں میں اہم وضروری موضوعات غائب ہوتے ہیں۔

بعض نے یہ بھی  کہا کہ میڈیا کے پاس قومی ہم آہنگی کے لیے رائے سازی کا سب سے بڑا موقع اور پلیٹ فارم ہوتا ہے مگر اسے سماجی بنت کا اندازہ نہیں ہے اور نہ ہی ملک کی مختلف اکائیوں میں پائی جانے والی حساسیت اور ان کے مسائل کا ادراک ہے۔ یہ صرف ملک کے چند بڑے شہروں کی چند خاص جہتوں کی نمائندگی کرتا ہے اس کے علاوہ ملک کے اہم مسائل، علاقے اور اکائیاں پوری طرح نظرانداز ہیں۔

چیئرمین ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر مہدی حسن نے میڈیا اور عوام کے جاننے کے حق پر اظہارخیال کرتے ہوئے رائے دی کہ پاکستان میں میڈیا نے ہمیشہ حکومتوں کی ترجمانی کی ہے اور شہری حقوق کے لیے  عوام کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا چینلز بظاہر اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہیں جس میں ان کے اپنے مفادات بھی شامل ہوتے ہیں۔ حکومتیں میڈیا کو محض اپنی طرف سے جاری کردہ  پالیسیوں اورسرکاری فیصلوں کی خبریں چلانے کی اجازت دیتی ہیں، انہیں اور عوام کو ’’جاننے کے حق‘‘ سے محروم رکھا جاتا ہے۔آئین میں عوام کو ’’جاننے کا حق‘‘ مہیا کیا گیا ہے جو کبھی استعمال نہیں کرنے دیا گیا۔ ملک میں کوئی قانون کیوں بنایاگیا، اس کا پس منظر کیا تھا اور اس کے نتائج کیا مرتب ہوں گے، ایسی تفصیلات جاننے کا حق عوام اور میڈیا کو حاصل نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافی برادری تحقیق کی مشقت سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اس کابراہ راست اثر عوام کے مفادات پر پڑتا ہے۔ لوگوں کو درست معلومات حاصل نہیں ہوتیں تو ان میں کنفیوژن جنم لیتی ہے یا پھر وہ حقیقی ملکی و سماجی مسائل سے بے بہرہ رہتے ہیں۔صحافت میں تحقیقی کے کلچر سے دوری کا ایک سبب ریاستی جبر بھی تاہم اس شعبے کے اندر بھی کچھ خرابیاں اس کا سبب ہیں۔ جیسے کہ ملک میں صحافی برادری ایک privileged طبقہ ہے۔ اس لیے لوگ اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اس شعبے میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد صرف اس حلقے کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ اس حالت میں تحقیق کا کلچر یقیناََ متأثر ہوگا اور غیرتصدیق شدہ خبریں بھی شائع ہوں گی۔ یہ چیز رائے عامہ  کے صحت مند پراسس کو بری طرح نقصان پہنچاتی ہے۔

اساتذہ نے اس پر زور دیاکہ میڈیا کو ابلاغیات کی اخلاقیات کے مطابق ایک انصرام میں لانے کی ضرورت ہے۔ جب تک اسے institutionalise نہیں کیاجائے گا  رائے سازی کا صحت مند عمل بھی آزادانہ بہاؤ کی صورت اختیارنہیں کرے گا جو معاشرے میں فرد کو چیزوں اور افکار کے انتخاب میں مجبور کی بجائے آزاد محسوس کراتا ہے اور جس میں دلیل و مکالمہ بہت اہم ہوتے ہیں۔ کیونکہ رائے عامہ اصل میں اس کو کہا جاتا ہے جس میں پہلے لوگوں نے مکالمہ اور بات چیت کی ہو، اس مسئلے پر پہلے سماج کے تمام نمائندہ فریقوں نے مل بیٹھ کر دلیل اور آزادی کے ساتھ گفتگو کی ہو۔ اس کے بعد جو نتیجہ برآمد ہو اس کورائے عامہ کہا جاتا ہے۔ رائے عامہ کسی حکمنامے یا کسی فریق کے اپنے اخذ شدہ نتیجے کو نہیں کہا جاسکتا۔

رائے سازی کے عمل پر دنیا میں ہر جگہ جعل سازی کے ذرائع اثرانداز ہوتے ہیں اور بالخصوص سوشل میڈیا کے دور میں جب ’غلط معلومات‘ ایک پروپیگنڈے کے ساتھ تسلسل سے پھیلائی جاتی ہیں تو اس سے رائے سازی کا صحت مند عمل متأثر ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ اہم امر ہوتا ہے کہ اس سماج میں تحقیق کے کلچر کی کتنی حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے، اگر معاشرے میں تحقیق کا کلچر بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو اس سے رائے سازی کا عمل آزادانہ بہاؤ کی صورت کبھی ممکن نہیں ہوتا اور محض انتشار پھیلتا ہے۔

نوٹ: ان خیالات کا اظہار پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے اساتذہ کے ساتھ منععقدہ ایک مکالماتی نشست میں کیا گیا، جس میں ڈاکٹر مہدی حسن، خورشید ندیم اور ڈاکشر لبنی ظہیر بطور مہمان معلمین شریک تھے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...