ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

سینٹ آف پاکستان کے وسط مدتی انتخابات

990

12 مارچ 2021ء کو نئی سینٹ آف پاکستان کو آئینی طور پر موجود ہونا ہے۔ کیونکہ دستور ہاؤس آف فیڈریشن کو ’’تسلسل کا حامل‘‘ آئینی ادارہ قرار دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 1977ء اور 1999ء کی فوجی مداخلتوں کے بعد اِس ادارے کو بھی توڑ دیا گیا تھا۔ آئین کے مطابق سینٹ آف پاکستان کے انتخابات 10 فروری 2021ء کے بعد کسی بھی دن اور 10 مارچ سے پہلے ہونا لازم ہیں۔ یقیناََ یہ 10 مارچ سے ہفتہ ڈیڑھ پہلے ہی ہوں گے، کیونکہ نومنتخب سینیٹروں کا  ضابطوں کی تکمیل کے بعد الیکٹن کمیشن آف پاکستان کو باقاعدہ کامیبابی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا تبھی وہ 12 مارچ کو حلف اٹھا کر نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کرسکیں گے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ایک بار پھر سنجرانی ماڈل دہرایا جائے گا یا کوئی اور تبدیلی آئے گی۔

ماضی کی طرح اس بار بھی سینٹ الیکشن سے پہلے ’’سیاسی بحران کی ہلچل کا پرانا پوشیدہ نصاب‘‘ پڑھایا جارہا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پہلے تو ’’الیکٹورل کالج‘‘ توڑنے کی بات کر رہی تھی، پھر شاید کسی نے آئین کی درست تشریح کردی ہوگی کہ نہ ’’الیکٹورل کالج‘‘ ٹوٹ سکتا ہے اور نہ ہی اگر کسی ایک صوبے کی اسمبلی موجود نہ ہو تو الیکشن رک سکتا ہے۔ اور نہ ہی 12 مارچ کو سینٹ آف پاکستان ادھوری ہوگی، لہذا اپوزیشن اس الیکشن میں حصہ لے گی۔ حکمران جماعت تحریک انصاف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے صدارتی ریفرنس رکھا ہے کہ کیا سینٹ آف پاکستان کا الیکشن ’’اوپن ووٹ‘‘ سے ہوسکتا ہے؟ پہلے شوآف ہینڈ کی بات ہوئی پھر کہا گیا کہ ’’سنگل ٹرانسفر ایبل‘‘ ووٹ ہاتھوں کے رقص سے ممکن ہی نہیں۔ ابھی بھی جو سوال سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا ہے وہ اچھا خاصا مضحکہ خیز ہے کہ آیا سینٹ آف پاکستان کا الیکشن آئینی الیکشن ہے یا فقط الیکشن ایکٹ 2017ء میں ردوبدل کرکے اوپن ووٹ ہوسکتا ہے؟ شاید اس حوالے سے کوئی صدارتی ریفرنس بھی تیار ہوچکا ہو۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو سینٹ آف پاکستان کی اصل روح ہی مسخ ہوجائے گی۔

برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز یا انڈیا کے راجیہ سبھا کے برعکس سینٹ آف پاکستان ہاؤس آف فیڈریشن ہے جس کا قیام 1971ء کے تلخ واقعات کے بعد صوبوں کو آئینی اور قانون سازی کے عمل میں مؤثر اختیار دینے کے لیے عمل میں آیا۔ اس میں راجیہ سبھا (جہاں ہر ریاست کی نمائندگی مختلف ہے) کے برعکس تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی دی گئی ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے ہاؤس آف فیڈریشن میں تین سے زیادہ صوبوں کا اتفاق رائے ہی دو تہائی اکثریت کا باعث بن سکتا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد سینٹ کا کردار بڑھا اور حکومت کو قومی اسمبلی کے ساتھ اس کا بھی جوابدہ بنادیا گیا۔ چونکہ سینٹ آف پاکستان کا براہ راست الیکشن نہیں ہوتا اس لیے اس کے پاس امریکی سینٹ کی طرح مالیاتی اختیارات نہیں ہیں۔

سینٹ کے پہلے الکیشن کے بعد اس کے افتتاحی اجلاس میں اپوزیشن نے شکوہ کیا کہ شاید انہیں سیٹیں کم ملی ہیں تو اس وقت سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ کے ذریعے الیکشن کی یہ خوبصورتی سمجھائی گئی کہ یہاں جیت ترجیحات کو درست انداز میں وضع کرنے اور اچھے اتحاد بنانے سے ممکن ہوتی ہے۔ 1977ء کے مارشل لاء کے خاتمہ کی جانب بڑھتے ہوئے 1985ء میں سینٹ آف پاکستان کے پہلے غیرجماعتی انتخابات ہوئے اور اگر جیتنے والوں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں مقامی دھڑوں اور علماء کے علاوہ کئی سابق فوجی افسران اور ان کے رشتہ دار بھی سینیٹر بن گئے، سابق بیوروکریٹس نے بھی اپنا خوب حصہ لیا۔ لیکن اس غیرجماعتی سینٹ کے اثرات اُن جماعتوں کے لیے عرصہ تک رہے جنہوں نے تحریک بحالی جمہریت (ایم آر ڈی) کے پلیٹ فارم سے 1985ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ 1988ء میں جب محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو ان کا ایک بھی سینٹر نہ تھا۔ چند آزاد سینیٹروں نے حکومت کی حمایت کی اور وزارتیں پائیں۔ یہ سلسلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے 1999ء تک جاری رہا۔ تاہم مسلم لیگ میں شامل ہونے والے سینیٹروں کی تعداد اچھی خاصی رہی اور اِس سارے عرصہ میں انہی کے چیئرمین رہے۔

سینٹ آف پاکستان کی روح پہلی بار 1985ء میں اس وقت مسخ ہوئی جب ٹیکنوکریٹ/علماء کے لیے سیٹیں مختص کی گئیں، پھر 2002ء میں خواتین کی سیٹیں آگئیں، 18ویں ترمیم مذہبی اقلیتوں کی سیٹیں لے آئی۔ یہ سیٹیں چھوٹی پارٹیاں مؤثر اتحاد کے ساتھ تو جیت سکتی ہیں وگرنہ یہ صوبے کی سب سے بڑی اور دوسری بڑی پارٹی کو ہی ملتی ہیں۔ اگر اصلاحات کرنی ہی ہیں تو ان مخصوص نشستوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور پارٹیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ جنرل سیٹوں پر ان طبقات کو نمائندگی دیں گی

کچھ ایسی ہی تاریخ شاید 2002ء میں دہرائی جاتی لیکن اِس بار چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے فوجی انتخابات میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2009ء کے بعد سے پی پی پی کے تین چیئرمین سینٹ آئے اور سنچرانی ماڈل بھی انہی کے تعاون سے ممکن ہوا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں سینٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی اور اپوزیشن کی تحریک کے لمحوں میں 64 کی اکثریت – خفیہ ووٹ میں جنتر منتر ہوگئی۔

اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کو سینٹ آف پاکستان میں پہلی بار نمائندگی 2015ء میں نصیب ہوئی جب اس کی حکومت خیبرپختونخوا میں قائم تھی۔ 2018ء کے بعد اسے پنجاب سے دو سیٹیں اس وقت بونس میں مل گئیں جب مسلم لیگ نواز کے دو سینیٹروں کو دوہری شہریت کے سوال پر نااہل کردیا گیا۔ آج حکمران تحریک انصاف کی یہ بھی خواہش ہے کہ دوہری شہریت والوں کو الیکشن لڑنے کا حق ہونا چاہیے اور اس ضمن میں آئینی اور قانوی ترمیم کا مسودہ بھی قومی اسمبلی کے سامنے رکھا گیا ہے۔ ماضی میں تقریباََ ہر حکومت کے دور میں سینٹ آف پاکستان کے دو انتخابات ہوئے تھے اور بالعموم دوسرے الیکشن کے وقت سیاسی ہلچل اور بحران کی فضا بنائی جاتی تھی۔ لیکن اِس بار کہانی عجیب ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ ٹرم میں فقط ایک بار سینٹ کے وسط مدتی انتخابات ہوں گے۔ اگلے الیکشن کے وقت مارچ 2024ء میں جو بھی حکومت ہوگی وہ 2023ء کے عام انتخابات کے ذریعے مینڈیٹ کی حامل ہوگی۔ اس لیے ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت ’’اوپن ووٹ‘‘ اپنے ٹیکنوکریٹس کو ایوان تک پہنچانے کے لیے اپنانا چاہتی ہے۔ ویسے آئین اگر پڑھ ہی لیا جائے تو فلور کراسنگ کا اطلاق فقط تین ووٹوں پر پارٹی پالیسی سے انحراف پر ہوتا ہے۔ اول: وزیراعظم/ وزیراعلی کا انتخاب یا عدم اعتماد، دوئم: آئینی ترمیم، سوئم: بجٹ۔ گویا سینٹ کے انتخابات میں ووٹ ضمیر کی آواز مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکادکا آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لہذا اگر اوپن ووٹ فقط پارٹی لائن پر عملدرآمد کے لیے ہے تو یہ ماضی کی 14ویں آئینی ترمیم (جس کی روح کو 18ویں ترمیم نے تذکرہ بالا 3 ووٹوں تک محدود کردیا تھا) کو زندہ کرنے والی بات ہوگی جوکہ پارٹی آمریت کی بدترین مثال ہے۔ نیز حکومتی قانونی مسودوں اور اور سپریم کورٹ کے سامنے رکھے سوال میں آزاد امیدواروں کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ سینٹ کے انتخابات میں پیسے کی لین دین کی سب سے زیادہ گونج سابقہ فاٹا کے حوالے سے ہوتی تھی جس کے سینٹروں کا خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد الیکشن ہونا ہی نہیں ہے۔ اِس طرح مارچ 2021ء میں سینٹ کے اراکین کی تعداد سکڑ کر 100 رہ جائے گی۔

نئی سینٹ کی کیا ساخت ہوگی اور کسے کتنی اکثریت حاصل ہوگی کوئی پیچیدہ ریاضی نہیں۔ اسلام آباد کی دونوں نشستیں حکمران اتحاد کی جھولی میں جائیں گی۔ پنجاب کی سات جنرل نشستوں میں سے چار پی ٹی آئی اور تین اپوزیشن کو ملیں گی، جبکہ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی ایک ایک سیٹ بھی پی ٹی آئی/حکومتی اتحاد کو، ایک ایک سیٹ مسلم لیگ نواز/اپوزیشن اتحاد کو ملیں گی۔ سندھ میں سات جنرل سیٹوں میں سے چار پی پی پی، ایک پی ٹی آئی، ایک ایم کیو ایم کو ملے گی۔ اپوزیشن نے اگر اچھا اتحاد بنا لیا تو ایک وہ ایک سیٹ مزید جیت لے گی وگرنہ اچھی حکمت عملی سے پی پی پی کے حصہ میں آسکتی ہے۔ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی ایک نشست پی پی پی اور ایک اپوزیشن اتحاد کو مل سکتی ہے۔ اگر اپوزیشن نے اتحاد نہ کیا تو یہاں اپ سیٹ سامنے آئے گا۔ خیبرپختونخوا میں سات جنرل سیٹوں میں سے 5 حکمران پی ٹی آئی اور دو اپوزیشن کے اچھے اتحاد جیت سکتے ہیں۔ یہاں مذہبی اقلیتوں کے لیے مختص نشست پی ٹی آئی کو ملے گی، جبکہ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی ایک ایک سیٹ پی ٹی آئی اور ایک ایک اپوزیشن کے اچھے اور مؤثر اتحاد کو مل سکتی ہیں۔ بلوچستان میں سات جنرل نشستوں میں سے 3 بلوچستان عوامی پارٹی، ایک بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل اور ایک جمعیت علمائے اسلام کو مل سکتی ہے جبکہ دو سیٹوں کا انحصار اچھے سیاسی اتحادوں پر ہوگا۔ مذہبی اقلیتوں کے لیے مختص نشست بلوچستان عوامی پارٹی کو ملے گی۔ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی ایک ایک اپوزیشن اتحاد اور ایک ایک اپوزیشن اتحاد کو ملے گی۔

یہ تجزیہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹیوں کی موجودہ تعداد کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اگر سینٹ الیکشن کا یہی نقشہ ابھرتا ہے تو اگلا چیئرمین سینٹ کون ہوگا؟ یہ اوپن سوال رہے گا اور اچھے اور نئے سیاسی اتحاد ہی یہ گرہ سلجھائیں گے۔ بلاشبہ پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ہوگی لیکن اس کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہوگی۔

حرف آخر

سینٹ آف پاکستان کی روح پہلی بار 1985ء میں اس وقت مسخ ہوئی جب ٹیکنوکریٹ/علماء کے لیے سیٹیں مختص کی گئیں، پھر 2002ء میں خواتین کی سیٹیں آگئیں، 18ویں ترمیم مذہبی اقلیتوں کی سیٹیں لے آئی۔ یہ سیٹیں چھوٹی پارٹیاں مؤثر اتحاد کے ساتھ تو جیت سکتی ہیں وگرنہ یہ صوبے کی سب سے بڑی اور دوسری بڑی پارٹی کو ہی ملتی ہیں۔ اگر اصلاحات کرنی ہی ہیں تو ان مخصوص نشستوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور پارٹیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ جنرل سیٹوں پر ان طبقات کو نمائندگی دیں گی۔

سینٹ آف پاکستان چونکہ ہاؤس آف فیڈریشن ہے اور اس کے قیام کی روح صوبوں کو مؤثر آواز اور نمائندگی دینا تھی لہذا دوسرے صوبوں سے مہمان امیدوار اس کی نفی ہیں۔ اب کوئی بھی فقط اپنا ووٹ درج کراکے اپنے صوبے کے علاوہ دوسرے صوبے سے سیٹ جیت سکتا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان مہمان سینیٹروں کو نہ اپنے صوبے اور نہ اعزاز بخشنے والے صوبے کا کوئی مؤثر مقدمہ سینٹ آف پاکستان کے فلور پر لڑتے دیکھا گیا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...